رات کے عابد دن کے شیر
نوف ایک رات کا قصہ بیان کرتے ہیں وہ حضرت علی کے ساتھ آپ کے گھر کی
چھت پر سو رہے تھے، امام نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور ایک مشتاق کی طرح آسمان کے ستاروں کو دیکھا پھر فرمایا: اے نوف تم سو رہے ہو یا بیدار ہو۔؟انہوں نے کہا: بیدار ہوں۔ فرمایا: اے نوف! کیا تم میرے شیعہ کو جانتے ہو؟ میرے شیعہ وہ ہیںکہ جن کے ہونٹ سو کھے ہوئے ، شکم کمر سے لگے ہوئے، ربانیت اور رہبانیت ان کے چہروں سے آشکار ہے ، وہ رات کے عابد اور دن کے شیر ہیں۔ جب رات چھا جاتی ہے تو وہ ایک چادر کو لنگی کی طرح باندھ لیتے ہیں اور دوسری کو اوڑھ لیتے ہیں۔
وہ صف بستہ کھڑے ہو جاتے ہیں، اپنی پیشانیوں کو زمین پر رکھ دیتے ہیں ، ان کی آنکھوں سے ان کے رخساروں پر آنسو بہتے ہیں اور وہ خدا سے اپنی نجات کی دعا کرتے ہیں اور دن میں وہ حلیم و بردبار، عالم و ابرار اور پرہیز گار ہیں۔(١)
مذکورہ حدیث میں رات کے راہب اور دن کے شیر بہترین تعبیر ہے جو ان کے رات دن کے حالات کو بیان کرتی ہے ،وہ شب کی سلطنت کے بادشاہ ہیں، جب رات ہو جاتی ہے تو تم انہیں رکوع، سجود اور بارگاہِ خدا میں خشوع کرتے ہوئے دیکھوگے ،خدا کی بارگاہ میںجہنم سے نجات کیلئے تضرع و زاری کرتے ہوئے پائو گے۔ اور جب دن نکل آتا ہے تو وہ میدانِ مقابلہ میں علماء اوربردبار ومتقی ہوتے ہیں، محکم، ثابت قدم ،صابراور مقاومت کرنے والے ہیں۔
..............
(١)بحار الانوار : ج ٦٨ ص ١٩١۔
سمة العبید من الخشوع علیہم للّہ، أن ضمتھم الأسحار
فاذا ترجلت الضحی شہد لھم بیض القواضب أنّھم احرار
ترجمہ:
جب رات ان کو اپنے دامن میںلے لیتی ہے تو ان کے اندر خدا کے بندوں کی
علامت خشوع پیدا ہو جاتی ہے اور جب دن نکل آتا ہے تو تیز تلواروں کی چمک گواہی دیتی ہے کہ یہ آزاد ہیں۔
رات میںذکرخدااوردن میںتقوی انکی زندگی میںشب وروزکی روح کاشعار ہے۔
شب و روز میں اکیاون رکعت نماز پڑھتے ہیں
امام صادق سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ہمارے شیعہ ورع و جانفشانی سے کام لینے والے ہیں وہ با وفا، امانتدار اور زاہد و عبادت گزار ہیں، شب وروز میں اکیاون رکعت نماز پڑھتے ہیں، دن میں روزہ رکھتے ہیں، اپنے اموال کی زکواة دیتے ہیں، خانہ خدا کا حج کرتے ہیں اور ہر حرام چیزسے پرہیز کرتے ہیں۔(١)
امام محمد باقر فرماتے ہیں: ہمارے شیعہ تو وہی ہیں جو خدا سے ڈرتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں وہ اپنی خاکساری، خشوع، امانت کی ادائیگی اور ذکرِ خدا کی کثرت سے پہچانے جاتے ہیں(٢)
امام صادق فرماتے ہیں: ہمارے شیعوں کے پیٹ خالی، ہونٹ مر جھائے ہوئے اور وہ نحیف و لاغر ہوتے ہیں ،جب رات ہو تی ہے تو وہ آہ و زاری کے ساتھ اس کا استقبال کرتے ہیں۔(٣)
ابو حمزہ ثمالی نے یحییٰ بن ام الطویل سے روایت کی ہے کہ انہوں نے خبر دی اور انہوں نے نوف بکائی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: مجھے حضرت امیر المومنین سے کوئی کام تھا، لہٰذا میں، جندب بن زہیر ربیع بن خیثم اور ان کے بھانجے ہمام بن عبادہ بن خیثم آپ
..............
(١) بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٦٧
(٢) تحف العقول: ص ٢١٥
(٣) بحار الانوار : ج٦٨ ص ١٨٦۔
کے پاس گئے، دیکھا کہ آپ مسجد کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم اعتماد کے ساتھ آپ سے ملاقات کے لئے بڑھے۔
جب انہیں امیر المومنین نظر آئے تو وہ کھڑے ہو کر آپ کی طرف دوڑے، آپ کی خدمت میں سلام بجالائے آپ نے ان کا جواب دیا پھر فرمایا: یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتایا: اے امیر المومنین یہ آپ کے شیعہ ہیں، آپ نے ان کے لئے نیک بات کہی پھر فرمایا: اے لوگو! مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں تم میں اپنے شیعوں کی کوئی علامت نہیں پاتا ہوں اور اہل بیت کے محبوں کی نشانی نہیںدیکھتا ہوں، اس سے ان لوگوں کو شرم آ گئی۔
نوف کہتے ہیں: جندب اور ربیع آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور دونوں نے کہا: اے امیر المومنین آپ کے شیعوں کی علامت اور ان کی صفت کیا ہے ؟ آپ نے تھوڑی دیرکے بعد ان دونوںکا جواب دیا ،فرمایا: تم دونوں خدا کا تقویٰ اختیار کرو اور نیکی کرو کیونکہ خدا ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور نیکیاں انجام دیتے ہیں۔
اس وقت ایک بڑے عبادت گزار، ہمام بن عبادہ نے کہا: میں آپ سے اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جس نے آپ اہل بیت کو سر فراز کیا، آپ کو مخصوص قرار دیا۔ اور آپ کو بہت سی فضیلتوں سے نوازا، مجھے اپنے شیعوں کے صفات بتایئے، آپ نے فرمایا:قسم نہ دو میں تمہیں سارے صفات بتائوں گا آپ ہمام کا ہاتھ پکڑ کر مسجد میں داخل ہوئے اوردو رکعت نمازمختصر و مکمل طور پر بجالائے پھربیٹھ گئے اورہماری طرف متوجہ ہوئے اس وقت بہت سے لوگ آپ کے چاروں طرف جمع ہو گئے تھے آپ نے خدا کی حمد و ثنا کی ، محمدۖ پر درود بھیجا پھر فرمایا:
امابعد: بیشک اللہ جلّ ثناؤہ و تقدّست أسماؤہنے ساری مخلوقات کو پیدا کیا اور ان کے لئے عبادت کو لازمی قرار دیا اور طاعت کو فرض کیا اور ان کے درمیان ان کی معیشت و روزی کو تقسیم کیا اور ان کے لئے دنیا میں ان کے مناسب حال ایک منزل قرار دی ،جبکہ وہ ان سے بے نیاز تھا ،نہ کسی طاعت کرنے والے کی طاعت اس کو فائدہ پہنچاتی ہے اور نہ کسی نافرمان کی نافرمانی اس کو نقصان پہنچاتی ہے ،لیکن خدا وند عالم کو یہ علم تھا کہ یہ لوگ اس چیز میں کوتاہی کریںگے جس سے ان کے حالات کی اصلاح ہو سکتی ہے اور دنیاوآخرت میں ان کے مصائب کم ہو سکتے ہیں ۔پس اس نے اپنے علم سے انہیں اپنے امر و نہی میں باندھ دیا، اختیار کے ساتھ انہیں حکم دیا اور تھوڑی سی تکلیف دی اور اس پر زیادہ ثواب دیا۔ خدا نے اپنے عدل و حکمت کی بنیاد پر اپنی محبت اور رضا کی طرف تیزی سے بڑھنے والے اور اس میں سستی کرنے والے اور اس کی نعمت سے گناہ میں مدد لینے کے درمیان میں فرق قائم کیا چنانچہ خدا وند عالم کا قول ہے :
(أمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئاتِ أنْ نَجعَلَھُم کَالَّذِینَ آمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَائً مَحْیَاھُم وَ مَمَاتُھُم سَآئَ مَا یَحْکُمُونَ)(١)
کیا ان لوگوں نے کہ جنہوں نے گناہ کئے ہیں یہ گمان کیا ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں کے برابر کر دیں گے جو ایمان لائے اور نیک اعمال انجام دیئے کہ سب کی موت و حیات ایک جیسی ہو یہ ان لوگوں نے نہایت بدترین فیصلہ کیا ہے ۔
اس کے بعد امیر المومنین نے ہمام بن عبادہ کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا:آگاہ ہو جائو !وہ شخص جس نے ان اہل بیت کے شیعوں کے بارے میںسوال کیا ہے۔ اہل بیت کہ جن کو خدا نے اپنی کتاب میں اپنے نبی کے ساتھ اس طرح پاک رکھنے کا اعلان کیا ہے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے ، ان کے شیعہ، خدا کی معرفت رکھنے والے اس کے حکم پر عمل کرنے والے اوروہ فضائل و کمالات کے مالک ہیں اور ان کی گفتگو صحیح، ان کا لباس اوسط درجہ کاہوتا ہے اور
..............
(١) سورہ جاثیہ: ٢١۔
وہ خاکساری کے ساتھ چلتے ہیں، وہ خدا کی طاعت میں خود کوہلاک کر لیتے ہیں اور اس کی عبادت کر کے اس کی فرمانبرداری کرتے ہیں، خدا نے جن چیزوںکو حرام قرار دیا ہے وہ ان سے آنکھیں بند کر کے گزر جاتے ہیں، اپنے کانوںکو انہوں نے علم دین سننے کے لئے وقف کر دیا ہے، مصائب و آلام میں ان کے نفس ایسے ہی رہتے ہیں جیسے آرام و سکون میں، وہ خدا کے فیصلہ پر راضی رہتے ہیں اگر خدا نے ان کی مدت حیات مقرر نہ کی ہوتی تو ثواب کے شوق میں اور عذاب کے خوف میں ان کی روحیں چشم زدن کے لئے بھی ان کے بدنوںمیں نہ ٹھہرتیں۔
خالق ان کی نظر میں اس قدر عظیم ہے کہ دنیا کی ہر چیز ان کی نظر میں حقیر ہو گئی ہے، جنت ان کی آنکھوں کے سامنے ہے گویا وہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ جنت کی مسندوںپر ٹیک لگائے بیٹھے ہیں اور جہنم کو اس طرح دیکھ رہے ہیںکہ جیسے اس میں ان کو عذاب دیا جا رہاہے ، ان کے دل رنجیدہ اور( لوگ) ان کے شر سے امان میںہیں، ان کے بدن لاغر اور ان کی خواہشیں بہت کم اوران کے نفس پاک و پاکیزہ ہیں، اسلام میں ان کی مدد بہت عظیم ہے، انہوں نے دنیا میں چند دن تکلیف اٹھائی ، یہ نفع بخش تجارت ہے جو ان کے خدا نے ان کے لئے میسر کرائی ہے، یہ ذہین ترین لوگ ہیں۔دنیا نے انہیں بہت لبھا یا لیکن وہ اسے خاطر میں نہیں لائے، دنیا نے انہیں طلب کیا مگر انہوں نے اسے عاجز کر دیا۔
راتوں میں وہ مصلائے عبادت پر کھڑے رہتے ہیں ، ٹھہرٹھہرکر قرآن کی آیتوںکی تلاوت کرتے رہتے ہیں اور اس سے اپنے نفسوںکومحزون رکھتے ہیںاور اسی سے اپنا علاج کرتے ہیں جب کسی ایسی آیت پران کی نگاپڑتی ہے جس میںجنت کی ترغیب دلائی گئی ہو تو اس کی طمع میںاُدھرجھک پڑتے ہیںاوراس کے اشتیاق میںان کے دل بے تابانہ کھنچتے ہیںاوریہ خیال کرتے ہیںکہ وہ ]پرکیف [منظران کی نظروںکے سامنے ہے اور جب کسی ایسی آیت پران کی نظرپڑتی ہے کہ جس میں]دوزخ سے[ڈرایاگیاہو تو اس کی جانب دل کے کانوںکوجھکادیتے ہیںاور یہ گمان کرتے ہیںکہ جہنم کے شعلوں کی آوازاوروہاں کی چیخ پکاران کے کانوںمیںپہنچ رہی ہے ،وہ رکوع میںاپنی کمریںجھکائے اورسجدہ میںاپنی پیشانیوں، ہتھیلیوںاور گھٹنوں کو زمین پر رکھے ہوئے ہیںاورجبارِ عظیم کی تمجید کرتے ہیں اور پروردگار سے ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ ان کی گردنوںکو جہنم کی آگ سے آزاد کر دے یہ ہے ان کی رات۔
دن میں یہ بردبار، علماء ودانشور، نیک کردار اور پرہیزگار ہیں جیسے انہیں خوف خدا نے تیر وں کی طرح تراش دیا ہے ، دیکھنے والا انہیں دیکھ کر بیمار سمجھتا ہے حالانکہ وہ بیمار نہیں ہیں، ان کی باتوں کو سن کر کہتا ہے کہ ان کی باتوں میں فتور ہے جب کہ ایسا نہیں ہے بلکہ انہیں ایک عظیم چیز نے مدہوش بنا رکھا ہے اس کا تسلط و بادشاہت ایک عظیم شیٔ پرہے اس نے ان کے دلوں کو غافل اور ان کی عقلوںکو حیران کر رکھا ہے ۔
جب اس سے فرصت ملتی ہے تو خدا کی بارگاہ میں نیک اعمال بجالانے کی طرف بڑھتے ہیں یہ قلیل عمل سے خوش نہیں ہوتے اور نہ اس کا زیادہ اجر چاہتے ہیں، ہمیشہ اپنے نفسوں کو متہم کرتے رہتے ہیں اور اپنے اعمال ہی سے خوف زدہ رہتے ہیں اور جب ان کی تعریف کی جاتی ہے تو اس سے ڈرتے ہیںاورکہتے ہیں: میں اپنے نفس کو دوسروں سے زیادہ جانتا ہوں اور میرا پروردگار مجھے سب سے بہتر جانتا ہے ۔ اے اللہ! مجھ سے ان کی باتوں کا حساب نہ لینا اور مجھے ان کے گمان و خیال سے بہتر قرار دینا اور میرے ان گناہوںکو بخش دینا جن کو یہ نہیں جانتے بیشک تو غیب کا عالم اور عیوب کو چھپانے والا ہے۔
اور ان میں سے ایک کی علامت یہ ہے کہ تم دیکھو گے، وہ دین میں قوی ہے اور نرمی میں شدید احتیاط ہے ،یقین میں ایمان ہے ، علم کے بارے میں حرص ہے، اپنی فقہ میں سمجھ دار ہے ، حلم علم ہے ، مالداری میں میانہ روی ہے ، محتاجی میں خود داری ہے ، سختی میں ثابت قدم و صابر ہے ، عبادت میں خاشع ہے ، عطا کرنے میں برحق ہے ۔ کمانے میں نرمی، حلال کی طلب، ہدایت میں نشاط، شہوت میں گناہ سے حفاظت اور استقامت میں نیک ہے ۔
جس چیز کو وہ نہیں جانتا وہ اسے دھوکا نہیں دے سکتی اور جس نیک کام کو انجام دے چکا ہے اس کو شمار میں نہیں لاتا، غلط کام میں اس کا نفس سست، بلکہ نیک کام بھی انجام دیتا ہے تو ڈرتے ہوئے۔
صبح میں وہ ذکرِ خدا کر تا ہے اور شام کے وقت توشکرِ خدا کی فکر ہوتی ہے ، غفلت کی اونگھ سے ڈرتے ہوئے رات بسر کرتے ہیں اور ملنے والے فضل و رحمت کی خوشی میں صبح کرتے ہیں اگر ان کا نفس کسی ناگوار چیز کے لئے سختی بھی کرتا ہے تو اس کے مطالبہ کو پورا نہیںکرتے ہیں ان کی رغبت باقی رہنے والی اور ان کا پرہیز فنا ہونے والی چیزوں میں ہے۔ اور عمل کو علم سے اور علم کو حلم سے متصل کیا گیا ہے ۔ اس کا نشاط دائمی اس کی سستی اس سے دور، اس کی امید قریب، اس کی لغزش کم ، اپنی اجل کا منتظر، اس کا دل خاشع، اپنے رب کو یاد کرنے والا، اس کا نفس قانع، اس کا جہل غائب ، اس کا دین محفوظ، اس کی شہوت بے جان، اپنے غصہ کو پینے والا، اس کی خلقت صاف ستھری، اس کا ہمسایہ اس سے محفوظ، اس کا کام آسان ، اس کا تکبر معدوم ،اس کا صبر آشکار، اس کا ذکر بے شمار، وہ دکھاوے کے لئے کوئی نیک کام نہیں کرتا ہے اور نہ شرم کی وجہ سے کسی نیک کام کو ترک کرتا ہے؛ (لوگ) اس سے نیکی کی امیدکرتے اور اس کے شر سے محفوظ رہتے ہیں اگر یہ غافلوں میں نظر آئیں تو بھی ذکر خدا کرنے والوں میں شمار ہوں گے اور اگر ذکر خدا کرنے والوںمیں دیکھے جائیں تو غافلوں میں شمار نہیں ہوں گے، جو ان پر ظلم کرتا ہے یہ اسے معاف کر دیتے ہیں اور جو انہیں محروم رکھتا ہے یہ اسے عطا کرتے ہیں اور جس نے ان سے قطع رحمی کی یہ اس سے تعلقات رکھتے ہیں۔ ان کی نیکی قریب، ان کا قول سچا ہے، ان کا فعل اچھا، خیر ان کی طرف بڑھتا ہوا، شر ان سے ہٹتاہوا، مکروہات ان سے غائب، زلزلوں میں باوقار، سختیوں میں صابر، آسانیوں میں شکر گزار، دشمنوں پر ظلم نہیں کرتے اور جوچیز ان کے خلاف ہوتی ہے اس کا انکار نہیں کرتے ہیں، گواہی طلب کئے جانے سے پہلے ہی حق کا اعتراف کر لیتے ہیں اور امانتوں کو ضائع نہیں کرتے ہیں ،ایک دوسرے کو برے القاب سے نہیں پکارتے ہیں، کسی پر زیادتی نہیں کرتے، ان پرحسد غالب نہیں آتا، ہمسایہ کو نقصان نہیں پہنچاتے، اورمصیبتوں میں کسی کو طعنہ نہیں دیتے، امانتوںکو ادا کرتے ہیں، طاعت پر عمل کرتے ہیں ، نیکیوںکی طرف دوڑتے ہیں، برا ئیوں سے بچتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں اور خود بھی اس پر عمل کرتے ہیں، برائی سے روکتے ہیں اور خود بھی اس سے باز رہتے ہیں، وہ نادانی کی وجہ سے کوئی کام انجام نہیں دیتے ہیں اور عجز کی وجہ سے حق سے خارج نہیں ہوتے۔ اگر خاموش رہتے ہیں تو ان کی خاموشی انہیں عاجز نہیں کرتی ہے اور بولتے ہیں تو ان کی گویائی انہیں عاجز نہیں کرتی ہے اور اگر ہنستے ہیں تو آواز بلند نہیں ہوتی جو ان کے لئے مقدر کر دیا گیا ہے اسی پر قناعت کرتے ہیں ،نہ ان کو غصہ آتا ہے اور نہ خواہش نفس ان پرغلبہ کرتی ہے، ان پر بخل تسلط نہیں پاتا ہے ،وہ لوگوں سے علم کے ساتھ ملاقات کرتے ہیں اور صلح و سلامتی کے ساتھ ان سے جدا ہوتے ہیں، فائدہ رسانی کے لئے گفتگو کرتے ہیں، سمجھنے کے لئے سوال کرتے ہیں، ان کا نفس ان کی وجہ سے رنج و محن میں اور لوگ ان سے راحت و امن میں رہتے ہیں، اپنے نفس سے لوگوں کو آرام پہنچاتے ہیں اور آخرت کے لئے اسے تھکاتے ہیں۔
اگر کوئی ان پر زیادتی کرتا ہے تو وہ صبرکرتے ہیں تاکہ خدا اس سے انتقام لے، گذشتہ اہل خیر کی اقتداء کرتے ہیں پس وہ اپنے بعد والے کے لئے نمونہ ہیں۔
یہی لوگ خدا کے کارندے ہیں اور اس کے امر و طاعت کے حامل ہیں،یہی اس کی زمین اور اس کی مخلوق کے چرا غ ہیں، یہی ہمارے شیعہ اور ہمارے محب ہیں، یہ ہم میں سے ہیں اور ہمارے ساتھ ہیں۔ مجھے ان سے ملنے کا کتنا اشتیاق ہے ۔
یہ سن کر ہمام بن عبادہ نے ایک چیخ ماری اور ان پر بیہوشی طاری ہو گئی ، لوگوں نے انہیں حرکت دی تو معلوم ہوا کہ وہ دنیا سے جا چکے ہیں خدا ان پر رحم کرے۔ ربیع نے روتے ہوئے کہا: اے امیر المومنین آپ کے وعظ نے میرے بھتیجے پر کتنی جلد اثر کیا ہے ، میں چاہتا تھا کہ اس کی جگہ میں ہوتا۔
امیر المونین نے فرمایا: نصیحت اپنے اہل پر اسی طرح اثر کرتی ہے خدا کی قسم مجھے اسی کا خوف تھا اس وقت کسی نے کہا:اے امیر المومنین اس نصیحت نے آپ پر کیوں نہ اثر کیا؟ آپ نے فرمایا: خدا تیرا برا کرے موت کا وقت معین ہے جس سے وہ آگے نہیں بڑھ سکتا اوراس کا ایک سبب ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کر سکتی، خبردار اب ایسی بات نہ کہنا، اصل میں تیری زبان پر شیطان نے اپنا جادو پھونک دیا ہے ۔(١)
..............
(١) بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٩٢ و ١٩٥ سید رضی نے اس روایت کو نہج البلاغہ میں تھوڑے سے اختلاف سے نقل کیا ہے ۔
آپس میں ملاقات و محبت
ان شرطوں میں سے ایک دوسرے سے تعلق رکھنا اور ایک دوسرے پر مہربانی کرنا اور ایک دوسرے کا تعاون کرنا بھی ہے ۔ ایک د وسرے کا جتنا زیادہ تعاون کریں گے اورآپس میں تعلق بڑھا ئیں گے اتنا ہی خدا ان کو دوست رکھے گا اور ان کو ان کے دشمنوں سے بچائے گا، ان کی حفاظت کرے گا اور ان کی مدد کرے گا، ان کے ہاتھ پراوران کے ہاتھ کے ساتھ خدا کا
ہاتھ ہے بشرطیکہ ان کے ہاتھ جمع ہوںیعنی ان میں اتحاد ہو۔
سدیر صیرفی امام جعفرصادق کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ کے کچھ اصحاب بھی آپ کی خدمت میںموجود تھے۔ آپ نے فرمایا: اے سدیر ہمارے شیعوں کی اس وقت تک رعایت، حفاظت، پردہ پوشی کی جائے گی جب تک وہ ایک دوسرے کے بارے میں حسن نظر اور خدا کے بارے میں حسن ظن رکھیں گے اور اپنے ائمہ کے بارے میں صحیح نیت رکھیں گے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ نیکی کریں گے، اپنے کمزور افراد پر مہربانی کریں گے اور محتاجوںکی مالی مدد کریں گے کیونکہ ہم ظلم کرنے کا حکم نہیں دیتے ہیں لیکن تمہیں ورع اور پاک دامنی کا حکم دیتے ہیں اور تمہیں اپنے بھائیوں کی مالی مدد کرنے کا حکم دیتے ہیں، اس لئے کہ اولیاء خدا خلقت آدم سے آج تک کمزورہیں۔(١)
محمد بن عجلان سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں امام جعفر صادق کے ساتھ تھاکہ ایک شخص آیا اور سلام کیا آپ نے اس سے سوال کیا کہ تم نے اپنے بھائیوں کو کس حال میںچھوڑا ؟ اس نے ان کی تعریف و توصیف کی، آپ نے فرمایا: ان کے مالدار اپنے ناداروں کی کتنی مدد کرتے ہیں ؟اس نے کہا: بہت کم پھر فرمایا: ان کے مالداروں کا ناداروں سے کیسا برتائو ہے ؟ اس نے کہا:آپ ایسے اخلاق کا ذکر کر رہے ہیں جو ان لوگوں میں نہیں پایا جاتا جو ہمارے یہاں ہیں۔فرمایا: تو وہ اپنے کو ہمارا شیعہ کیسے سمجھتے ہیں؟ (٢)
امام حسن عسکری سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: علی کے شیعہ وہی ہیںجو اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ راہِ خدا میں موت ان پر آپڑے گی یا وہ موت پر جا پڑیں گے ، علی کے شیعہ وہ ہیں جو اپنے بھائیوں کو خود پر مقدم کرتے ہیں خواہ ان کو اس کی ضرورت ہی ہو، یہی وہ
..............
(١)المحاسن: ١٥٨ بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٥٣ و ص ١٥٤۔
(٢)بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٦٨
ہیںجن کو خدا اس چیز میں ملوث نہیں دیکھتا جس سے اس نے ڈرایا ہے ، اوریہ اس چیز کو ترک نہیں کرتے ہیں جس کا خدا نے حکم دیا ہے، علی کے شیعہ وہی ہیں جو اپنے مومن بھائیوں کے اکرام میں علی کی اقتداء کرتے ہیں۔ (١)
امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ایک دوسرے کے ساتھ صلہ رحمی کرواورایک دوسرے پر احسان کرو اور ایسے نیک بھائی بن جائو جیسے خدا نے تمہیں حکم دیا ہے ۔(٢)
آپ ہی کا ارشاد ہے: خدا سے ڈرو نیک بھائی بن جائو، ایک دوسرے سے خدا کے لئے محبت کرو، ایک دوسرے سے ربط و ضبط رکھو، آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرو ۔ (٣)
علاء بن فضیل نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: امام محمد
باقر فرمایا کرتے تھے؛ اپنے دوستوں کی تعظیم کرو ایک دوسرے پر حملہ نہ کرو ،ایک دوسرے کو ضرر نہ پہنچائو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ،خبردار بخل نہ کرنا، خدا کے مخلص بندے بن جائو۔ (٤)
ابو اسماعیل سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام محمد باقر کی خدمت میں عرض کیا : ہمارے یہاں شیعوںکی کثیر تعداد ہے ۔ آپ نے دریافت کیا: کیا مالدار نادار کا خیال رکھتا ہے؟ اس پر مہربانی کرتا ہے ؟ کیا نیکی کرنے والا گناہگار سے در گزر کرتا ہے اورکیا وہ لوگ ایک دوسرے کی مالی مدد کرتے ہیں؟ میںنے عرض کیا:نہیں ۔ آپ نے فرمایا: وہ شیعہ نہیں ہیں۔ شیعہ وہ ہے جو مذکورہ افعال کو انجام دیتا ہے ۔(٥)
..............
(١)میزان الحکمة : ج ٥ ص ٢٣١
(٢)اصول کافی: ج ٢ ص ١٧٥
(٣)اصول کافی : ج ٢ ص ١٢٠
(٤)اصول کافی: ج٢ ص ١٧٣
(٥) بحار الانوار: ج ٧٤ ص ٢٥٤
|