اہل بیت کے شیعہ
 

اہل بیت سے محبت اور نسبت کے شرائط

اہل بیت سے محبت و نسبت کے عام شرائط اور ان کی محبت کی قیمت کے بارے میں کہ جس کو ہم نے بیان کیا ہے کچھ عام شرطیں ہیں اہل بیت سے یہ نسبت و محبت اسی وقت ثمر بخش ہوتی ہے جس وقت یہ شرائط پورے ہوتے ہیں ،ان شرائط میں سے ایک شرط تفقہ ، تعبد، تقویٰ، ورع، مومنوں اور مسلمانوں سے میل ملاپ ،نظم و ضبط ،لوگوں کے ساتھ نیک برتائو امانتداری اور سچ گوئی بھی ہے۔
ان شرائط کے بغیر محبت حقیقی نہیں ہو سکتی ، بیشک حقیقی محبت اہل بیت کے سچے اتباع ہی میں ہے ۔
یہ نکات اہل بیت کی ان تعلیمات سے ماخوذ ہیں جو انہوں نے اپنے شیعوں اور اپنی پیروی کرنے والوں کودی تھیں ملاحظہ فرمائیں:
''کونوا لنا زیناً ولا تکونوا علینا شیناً''ہمارے لئے باعث زینت بنو ننگ و عار کا سبب نہ بنو۔
ائمہ اہل بیت اپنے شیعوں سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ ان کے لئے زینت کا باعث بنیں ننگ و عار کا سبب نہ بنیں کیونکہ جب وہ اسلامی اخلاق سے آراستہ ہوں گے اور اسلامی ادب سے سنور جائیں گے تو لوگ اہل بیت کی مدح کریں گے اور یہ کہیں گے انہوں نے اپنے شیعوں کی کتنی اچھی تربیت کی ہے اور جب لوگ شیعوں کے لین دین ،بد اخلاقی ان کے غلط برتائو، حدودِ خدا اور اس کے حلال و حرام سے ان کی لاپروائی کو دیکھیں گے تو ،ان کی وجہ سے وہ اہل بیت پر بھی نکتہ چینی کریں گے۔
سلیمان بن مہران سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں جعفر بن محمد صادق کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ کے پاس کچھ شیعہ بھی موجود تھے اور آپ فرما رہے تھے: اے شیعو! ہمارے لئے باعثِ زینت بنو اور ننگ و رسوائی کا سبب نہ بنو لوگوں سے نیک بات کہو، اپنی زبان پر قابو رکھو اسے بری بات اور فضول کہنے سے باز رکھو۔(١)
امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: اے شیعو! تم کوہم سے نسبت دی جاتی ہے پس تم ہمارے لئے باعثِ زنیت بنو، ہمارے لئے ننگ و عار کا سبب نہ بنو(٢)
آپ ہی کا ارشاد ہے : خدا رحم کرے اس شخص پر جس نے لوگوں کے درمیان ہمیں محبوب بنا یااوران کے درمیان ہمیں مبغوض و منفور نہیں بنایا ۔ خدا کی قسم اگر وہ ہمارے کلام کے محاسن دیکھ لیتے تو اس کے ذریعہ انہیں اور عزت ملتی اور کوئی شخص کسی بھی چیز کے ذریعہ ان پر فائق نہ ہوتا۔(٣)
آپ ہی کا قول ہے : خدا رحم کرے اس شخص پر جس نے لوگوں کے دلوں میں ہماری محبت پیدا کی اور ان میں ہماری طرف سے بغض نہیں پیدا کیا خدا کی قسم اگر وہ ہمارے کلام کے محاسن دیکھ لیتے تو یہ ان کے لئے زیادہ باعث عزت ہوتا اور پھر کوئی بھی شخص کسی بھی چیز کے ذریعہ ان پر فوقیت حاصل نہ کر پاتا لیکن اگر ان میں سے کوئی شخص ہماری کوئی بات سن لیتا تو اس میں دس کا اور اضافہ ہوتا ۔(٤)
آپ ہی سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: اے عبد الاعلیٰانہیں ( یعنی شیعوں کو) ہمار اسلام کہہ دیناخد ان پر رحم کرے اور یہ کہہ دینا کہ امام نے یہ کہا ہے : خدا رحم کرے اس
..............
(١)امالی طوسی : ج٢ ص ٥٥ بحار الانوار : ج ٦٨ ص ١٥١
(٢)مشکاة الانوار: ص ٦٧
(٣)مشکاة الانوار: ص ١٨٠
(٤) روضة الکافی: ص ٢٩٣
بندے پر کہ جس نے لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف بھی مائل کیا اور ہماری طرف بھی اور وہ ان کے سامنے ایسی ہی چیز کو بیان کرتاہے جس کو اچھا سمجھتے ہیں اور ان کے سامنے ایسی چیز کا اظہار نہیں کرتا جس کو برا سمجھتے ہیں۔(١)
امام جعفر صادق ہی فرماتے ہیں: اے شیعو! ہمارے لئے باعث زینت بنو، سببِ ذلت و رسوائی نہ بنو، لوگوں سے اچھی اور نیک بات کہو اور اپنی زبانوں کی حفاظت کرو اور اسے فضول وبری بات کہنے سے باز رکھو۔(٢)

اہل بیت خدا سے شفاعت کریں گے اور اس سے بے نیاز نہیںہیں
بیشک اہل بیت خداکے ذریعہ بے نیاز ہیں، خدا سے بے نیاز نہیں ہیں وہ خدا کے اذن سے خدا سے شفاعت کریں گے، اس کی اجازت کے بغیر وہ کسی کی شفاعت نہیں کرے گے۔
پس جو شخص اہل بیت کی محبت و ولایت اور ان سے نسبت کے ذریعہ خدا کی عبادت و طاعت اور تقویٰ و ورع سے بے نیاز ہوناچاہتا ہے وہ مسلکِ اہل بیت سے ہٹ گیا ہے اس نے غیروں کا مذہب اختیار کر لیا ہے اور اس کو اہل بیت کی محبت و مودت سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
عمرو بن سعید بن بلال سے روایت ہے کہ انہوںنے کہا: میں امام محمد باقر کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت ہماری ایک جماعت تھی۔آپ نے فرمایا:تم معتدل بن جائو یعنی میانہ روی اختیار کر لو کہ اس سے آگے بڑھ جانے والا تمہاری طرف پلٹ آئیگا اور پیچھے
..............
(1) بحار الانوار: ج٢ ص ٧٧
(2) بحار الانوار: ج ٧١ ص ٣١٠
رہ جانے والا تم سے ملحق ہوجائیگااور اے آل محمد کے شیعو! یہ جان لو کہ ہمارے اور خدا کے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں ہے اور نہ ہی خدا کے اوپر ہماری کوئی حجت ہے اور طاعت کے علاوہ کسی اور چیز کے ذریعہ خد اکا تقرب حاصل نہیں کیا جا سکتا پھر جو خدا کا مطیع و فرمانبردار ہوگا اس کو ہماری ولایت سے فائدہ پہنچے گا لیکن جو عاصی و نافرمان ہوگا اس کو ہماری ولایت سے کوئی فائدہ نہ ہوگا اس کے بعد ہماری طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا: دھوکا نہ دو اور افتراء پردازی نہ کرو۔(١)
اب جو بھی اہل بیت کو چاہتا ہے اور ان کے مکتب سے منسوب ہونا چاہتا ہے اور ان سے محبت کرتا ہے اسے یہ جان لینا چاہئے کہ خدا کے اذن کے بغیر اہل بیت کسی کوکوئی نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں، وہ بندے ہیں خدا کی مخلوق ہیں۔ خدا کے مقرب ہیں۔ پس جوبھی اہل بیت کو چاہتا ہے اور ان کی محبت کے ذریعہ خدا کا تقریب حاصل کرنا چاہتا ہے اور خدا کی بارگاہ میں شفاعت کا طلبگار ہے اسے خدا سے ڈرنا چاہئے، اور صالحین کے راستہ پر چلنا چاہئے۔
حضرت علی سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: خدا سے ڈرو! تمہیں کوئی دھوکا نہ دے اور کوئی شخص تمہیں نہ جھٹلائے،کیونکہ میرا دین وہی دین ہے جو آدم کا دین تھا جس کو خدا نے پسند کیاہے اور میںبندہ و مخلوق ہوں خدا کی مشیت کے علاوہ میں اپنے نفع و ضرر کا بھی مالک نہیں ہوں اور میں وہی چاہتا ہوںجو خدا چاہتا ہے۔(٢)
..............
(١)بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٧٨
(٢)بحار الانوار: ج ٦٨ ص ٨٩ محاسن برقی سے منقول ہے ۔

تقویٰ اور ورع
اہل بیت نے اپنے شیعوں کو جو وصیتیں کی ہیں ان میں سب سے زیادہ تقوے اور
ورع کی وصیتیں ہیں ،ان کے شیعہ وہی لوگ ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ جس شیعہ کا تقویٰ اور ورع زیادہ ہوگا اہل بیت کے نزدیک اس کی قدر و منزلت بھی زیادہ ہوگی ،کیونکہ تشیع کا جوہر ، اتباع، تاسی اور اقتدا ہے اور جو شخص اہل بیت کی اقتدا کرنا چاہتا ہے ان کی اقتداء کے لئے طاعتِ خد ا ، تقویٰ اور ورع کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ملے گا۔
ابو الصباح کنانی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں، میں نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کیا: ہم کوکوفہ میں آپ کی وجہ سے ذلیل سمجھا جاتا ہے لوگ ہمیں جعفری کہتے ہیں، یہ سن کر امام جعفرصادق غضب ناک ہوئے اور فرمایا: تم میں سے جعفر کے اصحاب بہت کم ہیں، جعفر کے اصحاب تو وہی ہیں کہ جن کی پاکدامنی زیادہ اور جن کا عمل اپنے خالق کے لئے ہے ۔(١)
عمرو بن یحییٰ بن بسام سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام جعفرصادق سے سنا کہ فرماتے ہیں: لوگوں کے درمیان آل محمد ۖ اوران کے شیعہ ورع و پاک دامنی کے زیادہ حقدار ہیں۔(٢)
امام جعفرصادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ہمارے شیعہ ورع و جانفشانی کے اہل ہیں، وہ وقار و امانتداری کے اہل ہیں ،وہ زہد و عبادت کے اہل ہیں، شب و روزمیں اکیاون رکعت نما زپڑھتے ہیں ،راتوںکو عبادت کرتے ہیں، دن میں روزہ رکھتے ہیں ، خانۂ خدا کا حج کر تے ہیں اور ہر حرام چیز سے پرہیز کرتے ہیں۔(٣)
..............
(١)بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٦٦
(٢)بشارت المصطفیٰ ص ١٧١
(٣)بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٦٨
آپ ہی کا ارشاد ہے : خدا کی قسم علی کا شیعہ تو بس وہی ہے جس نے اپنے شکم و شرمگا ہ کو پاک رکھا ،اپنے خالق کے لئے عمل کیا ،اس کے ثواب کا امیدوار رہا اور اس کے عذاب سے ڈرتا رہا۔(١)
آپ ہی سے مروی ہے : اے آل محمدۖ کے شیعو! سن لو کہ وہ شخص ہم میں سے نہیںہے جوغیظ و غضب کے وقت اپنے نفس پر قابو نہ رکھے اور اپنے ہمنشین کے لئے اچھا ہمنشین ثابت نہ ہو اور جو اس کی ہمراہی اختیار کرے یہ اس کے لئے اچھا ساتھی ثابت نہ ہواور جو اس سے صلح کرے تو یہ اس سے بہترین صلح کرنے والا ثابت نہ ہو۔(٢)
امام جعفرصادق کاارشادہے :وہ ہمارا شیعہ نہیںہے جو کسی شہرمیںہو اور اس شہر میںہزاروں لوگ ہوںاور اس شہرمیں کوئی اس سے زیادہ پاک دامن ہو۔(٣)
کلیب بن معاویہ اسدی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:میںنے امام صادق سے سنا کہ فرماتے ہیں: خدا کی قسم تم خدااور فرشتوں کے دین پر ہو پس ورع و کوشش اور جانفشانی کے ذریعہ میری مدد کرو۔(٤)
کلیب اسدی ہی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام صادق سے سنا کہ فرماتے ہیں: خدا کی قسم تم لوگ خدا اور اس کے فرشتوں کے دین پر ہو پس اس سلسلہ میں تم ورع و کوشش کے ذریعہ میری مدد کرو، تمہارے لئے نمازِ شب اور عبادت ضروری ہے اور تمہارے لئے ورع لازم ہے ۔(٥)
..............
(١)گذشتہ حوالہ
(٢)بحار الانوار: ج ٧٨ ص ٢٦٦۔
(٣) بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٦٤ ۔
(٤) بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٦٤۔
(٥)بحار الانوار: ج ٦٨ ص ٧٨ بشارة المصطفیٰ ص ٥٥ ص ١٧٤
صاحبِ بصائر الدرجات نے مرازم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا میں مدینہ گیا تھا، جس گھر میںمیراقیام تھا اس میں میں نے ایک کنیز کو دیکھا وہ مجھے بہت پسند آئی لیکن اس نے میرے ساتھ نکاح کرنے سے انکار کر دیا۔ راوی کہتا ہے کہ میں رات کا ایک تہائی حصہ گزرنے کے بعد واپس آیا، در وازہ کھٹکھٹا یاتو اسی کنیز نے دروازہ کھولا، میں نے اپنا ہاتھ اس کے سینہ پر رکھ دیا، اس نے بھی کچھ حرکت کی یہاں تک کہ میں گھر میں داخل ہو گیا، اگلے دن میں ابو الحسن کی خدمت میںحاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: اے مرازم وہ ہمارا شیعہ نہیں ہے جس نے تنہائی میں ورع سے کام نہیں لیا۔ (١)
ایک شخص نے رسول کی خدمت میں عرض کیا: اے اللہ کے رسولۖ فلاں شخص اپنے ہمسایہ کی ناموس کو دیکھتا ہے اگر اسے مل جائے تو وہ پاک دامنی کا خیال نہیں کرے گا، یہ سن کر رسول کو غیظ آ گیا، تو دوسرے آدمی نے کہا: وہ آپ ۖ سے اور علی سے محبت رکھتا ہے اور آپ دونوںکے دشمنوں سے نفرت کرتا ہے،وہ آپ کاشیعہ ہے، تو رسولۖ نے فرمایا: یہ نہ کہو کہ وہ ہمارا شیعہ ہے وہ جھوٹ کہتا ہے ہمارا شیعہ تو بس وہی ہے جو ہمارے اعمال میں ہمارا اتباع کرتا ہے اور جس شخص کا تم نے ذکر کیا ہے اس نے ہمارے اعمال میںہمارا اتباع نہیں کیا ہے۔(٢)
ایک شخص نے امام حسن سے عرض کی: میں آپ کا شیعہ ہوں، امام حسن نے فرمایا: اے خدا کے بندے اگرتم ہمارے اوامر میں ہمارے تابع ہواور جن چیزوں سے ہم نے روکا ہے ان میں ہمارے مطیع ہو تو تم سچے ہو اور اگر تمہارا عمل اس کے بر خلاف ہے توتمہارے گناہوںکے ساتھ اس دعوے سے تمہارے مرتبہ میں اضافہ نہ ہوگا تم اس کے اہل نہیں ہواور یہ نہ کہو کہ
..............
(١) بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٥٣ بصار الدرجات ص ٢٤٧
(٢)بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٥٥۔
میںآپ کا شیعہ ہوں ہاں یہ کہو: میں آپ کے دوستوں میں سے ہوںاور آپ کا محب ہوںاور آپ کے دشمنوں کا دشمن ہوں۔(١)
ایک شخص نے امام حسین سے عرض کی: فرزندِ رسول میں آپ کا شیعہ ہوں،آپ نے فرمایا: ہمارے شیعہ وہ ہیں جن کے دل ہر قسم کے مکرو فریب اور خیانت وکینہ سے محفوظ ہیں۔(٢)
ابو القاسم بن قولویہ کی کتاب سے اور انہوں نے محمد بن عمر بن حنظلہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: امام صادق نے فرمایا: جو اپنی زبان سے خود کو ہمارا شیعہ کہتا ہے اور ہمارے اعمال و احکام میںمخالفت کرتا ہے وہ ہماراشیعہ نہیںہے، ہمارے شیعہ وہ ہیںجو اپنی زبان اور اپنے دل سے ہماری موافقت کرتے ہیں اور ہمارے احکام میں ہمارا اتباع کر تے ہیں اور ہمارے اعمال کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔ یہی ہمارے شیعہ ہیں۔(٣)
..............
(١)بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٥٦ ۔
(٢)گذشتہ حوالہ ۔
(٣)بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٦٤ج ١٣ ۔

تعبدو بندگی
ابو المقدام سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: مجھ سے امام محمد باقر نے فرمایا: اے ابو المقدام علی کے شیعہ تو بس وہی ہیں بھوک کے سبب جن کے چہرے مر جھائے ہوئے، بدن دبلے پتلے اورنحیف ولاغر، ہونٹ سوکھے ہوئے، شکم پشت سے چپکے ہوئے ،رنگ اڑے ہوئے اورچہرے زردہوتے ہیں، رات ہوتی ہے تو وہ زمین ہی کو اپنا فرش و بستر بنا لیتے ہیں ،اپنی پیشانیوں کو زمین پر رکھتے ہیں ،ان کے سجدے زیادہ، اشک فشانی زیادہ،ان کی دعا زیادہ
اور ان کا رونا زیادہ ہوتاہے ، جب لوگ خوش ہوتے ہیں تو یہ مخزون ہوتے ہیں۔(١)
روایت ہے کہ ایک رات امیر المومنین مسجد سے نکلے ، رات چاندنی تھی آپ قبرستان میں پہنچے، آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک جماعت بھی آپ کے پاس پہنچ گئی آپ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: تم کون ہو؟ انہوں نے کہا:
اے امیر المونین ہم آپ کے شیعہ ہیں آ پ نے ان کی پیشانیوںکوغو ر سے دیکھا اور فرمایا: مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں تمہارے اندر شیعوں کی کوئی علامت نہیں پاتا ہوں؟ انہوں نے کہا: اے امیر المومنین شیعوں کی علامت کیا ہے ؟ فرمایا: بیدار رہنے کی وجہ سے ان کے رنگ زرد، رونے کے سبب ان کی آنکھیں کمزور، مستقل کھڑے رہنے کے باعث کمر ٹیڑھی اور روزہ رکھنے کی وجہ سے ان کے شکم پشت سے چپکے ہوئے اور دعا کے سبب ہونٹ مرجھائے ہوتے ہیںاور ان پر خاشعین کی گرد پڑی ہوتی ہے۔(٢)
ابو نصیر سے اور انہوں نے امام صادق سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ہمارے شیعہ پاک دامن، زحمت کش، وفادار و امین ، عابد و زاہد، شب و روز میں اکیاون رکعت نماز پڑھنے والے، راتوں میں عبادت میں مشغول ر ہنے والے، دنوں میں روزہ رکھنے والے اپنے اموال کی زکواة دینے والے خانہ کعبہ کا حج کرنے والے اور ہر حرام چیز سے پر ہیز کرنے والے ہیں۔(٣)
شیخ صدوق نے ''صفات الشیعہ''میں اپنی اسناد سے محمد بن صالح سے انہوں نے ابوالعباس دینوری سے انہوں نے محمد بن حنفیہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: جب علی
..............
(١) خصال : ج ٢ ص ٥٨ بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٤٩ و ١٥٠
(٢)بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٥٠ و ١٥١ امالی طوسی : ج ١ ص ٢١٩۔
(٣)بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٦٧ صفات الشیعہ ١٦٢ ۔ ١٦٤
اہل جمل سے جنگ کے بعد بصرہ تشریف لائے تو احنف بن قیس نے آپ کی اور آپ کے اصحاب کی دعوت کی کھاناتیارکیااوراحنف نے کسی کو آپ کو اورآ پ کے اصحاب کوبلانے کے لئے بھیجاآپ تشریف لائے اورفرمایا:اے احنف میرے اصحاب سے کہدو اندر آجائں، تو آپ کے پاس خشک مشکیزہ کی طرح خاشع و انکسارپرور ایک گروہ آیا: احنف بن قیس نے عرض کی: اے امیر المومنین ! یہ ان کاکیا حال ہے؟ کیا کم کھانے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے؟یا جنگ کے خوف کی وجہ سے ان کی یہ کیفیت ہے ؟!
آپ نے فرمایا: نہیں!اے احنف بیشک خدا وند عالم کچھ لوگوں کو دوست رکھتا ہے کہ وہ اس کیلئے اس دنیا میںعبادت کر تے رہیں]کیونکہ ان کی عبادت[ان لوگوںکی عبادت کی طرح ہے کہ جن پرقیامت کے قریب ہونے کے علم کی وجہ سے ہیجانی کیفیت طاری ہے اورقبل اس کے کہ وہ قیامت کودیکھیں انہوںنے اسکے لئے مشقت اٹھاکرخودکوتیارکیاہے اورجب وہ اس صبح کویادکرتے ہیںکہ جس میںخداکی بارگاہ میں اعمال پیش کئے جائیںگئے تووہ گمان کرتے ہیں کہ جہنم کی آگ سے ایک بڑاشعلہ نکلے گااورتمام مخلوق کوان کے پروردگارکے سامنے اکٹھاکرے گااورلوگوںکے سامنے ان کے نامہ اعمال کوپیش کیاجائے گااوران کے گناہوںکی برائیاںآشکارہوجائیںگئی یہ سب سوچ کرقریب ہے کہ ان کی جانیںپگھل کرپانی پانی ہوجائیںاورانکے قلوب خوف کے پروںسے پروازکرنے لگیںاورجب خود کو بارگاہ الھی میںتنہا محسوس کرتے ہیںتودیگ کے کھولتے ہوئے پانی کی طرح کھولنے لگتے ہیں اورانکی عقلیں ان کاساتھ چھوڑدیتی ہیں۔
وہ رات کی تاریکی میں مصیبت زدہ لوگوں کی طرح آواز بلند کرتے ہیں اور اپنے نفس کے کرتوت پر غمگین رہتے ہیں لہذا ان کے بدن لاغر، ان کے دل مغموم و مخزون، ان کے چہرے کرخت، ہونٹ مر جھائے ہو ئے اور شکم پتلے ہیں، انہیں دیکھو گے تو ایسا لگے گا جیسے وہ نشہ میں ہوں، رات کی تنہائی میں بیدار رہتے ہیں، انہوں نے اپنے ظاہری و باطنی اعمال کو خدا کے لئے خالص کر لیا ہے ، ان کے دل اس کے خوف سے بے پروا نہیں ہیں اگر تم انہیں رات میں اس وقت دیکھو کہ جب آنکھیں سورہی ہوں، آوازیں خاموش ہو گئی ہوںاور گردش رک گئی ہوتو اس وقت قیامت کاخوف انہیں سونے سے باز رکھتا ہے ، خدا وند عالم کا ارشاد ہے : کیا بستیوں والے اس بات سے بے خوف ہو گئے ہیںکہ ہمارا عذاب ان پر رات میں آ جائے جب سورہے ہوں۔(١)
اور وہ گھبرا کر اٹھتے ہیں اور بآواز بلند روتے ہوئے نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں پھر کبھی گریہ کرنے لگتے ہیں اور کبھی تسبیح پڑھتے ہیںاورکبھی اپنے محراب عبادت میںچیخ مارکر روتے ہیں،وہ تاریک رات کاانتخاب کرتے ہیں تاکہ صف باندھ کر خاموشی سے روئیں،اے اخنف اگر تم ان کو راتوں میں دیکھو کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہیں توتم ان کو اس حالت میںپائوگے کہ کمریں جھکی ہوئی ہیںاور اپنی نمازوں میں قرآن کے پاروںکی تلاوت کررہے ہیں، ان کے رونے اور ہائے ویلا کرنے میں شدت پیدا ہو گئی ہے جب وہ سانس لیتے ہیںتم یہ گمان کرتے ہو کہ ان کے گلے میںآگ بھری ہوئی ہے اور جب وہ گریہ کرتے ہیں توتم یہ خیال کرتے ہو کہ ان کی گردنوں کو زنجیروںمیں جکڑدیا گیا ہے۔
اگر تم انہیں دن میں دیکھو گے تو تم انہیں ایسا پائو گے کہ وہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور لوگوں سے اچھی بات کہتے ہیں: اور'' جب ان سے جاہل مخاطب ہوتے ہیں تووہ کہتے ہیں تم سلامت رہو''(٢)،اور'' جب وہ کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو احتیاط و بزرگی سے گزر
..............
(١) سورہ اعراف: ٧ ۔
(٢)الفرقان٦٣۔
جاتے ہیں''۔ (١)
اپنے قدموں کو انہوں نے تہمت والی باتوں کی طرف بڑھنے سے روک رکھا ہے اور اپنی زبانوں کو لوگوں کی عزت وآبرو پر حملہ کرنے سے گنگ بنا رکھاہے اور انہوں نے اپنے کانوں کو دوسروں کی فضو ل با توں کوسننے سے روک رکھا ہے ۔
اور اپنی آنکھوں میں گناہوںسے بچنے کا سرمہ لگا رکھا ہے اور انہوں نے دار السلام میں داخل ہونے کا قصدکررکھاہے اوریہ دارالسلام وہ جو اس میں داخل ہو گا وہ شک اور رنج و محن سے امان میں رہے گا۔ (٢)
امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: امام زین العابدین اپنے گھر میں تشریف فرما تھے کہ کچھ لوگوں نے دروازہ پر دستک دی۔ آپ نے ایک کنیز سے فرمایا: دیکھو دروازہ پر کون ہے؟ انہوں نے کہا: آپ کے شیعہ ہیں، یہ سن کر آپ درواز کی طرف اتنی تیزی سے گئے قریب تھا کہ آپ گر پڑیں ،لیکن جب دروازہ کھول کر ان لوگوں کو دیکھا تو واپس لوٹ گئے اور فرمایا جھوٹ بولتے ہیں،ان کے چہروں پرشیعہ کی علامت کہاںہے؟ عبادت کا اثر کہاں ہے؟ پیشانی پر سجدہ کا نشان کہاں ہے؟ ہمارے شیعہ تو بس اپنی عبادتوں اوراپنی پریشاں حالی سے پہچانے جاتے ہیں، کثرت عبادت سے ان کی ناک زخمی ہو گئی ہے ان کی پیشانی اور اعضاء سجدہ پرگٹھے پڑ گئے ہیں، ان کا پیٹ پتلا ہو گیا ہے، ہونٹ مرجھا گئے ہیں، عبادت کی وجہ سے ان کے چہرے مرجھا گئے ہیں، راتوں کی بیداری نے ان کی جوانی کو متغیرکردیا ہے اور دن کی گرمی نے ان کے بدن کو پگھلا دیا ہے ، یہ وہ ہیں کہ جب لوگ خاموش ہو تے ہیں تو یہ تسبیح کرتے ہیں اور جب لوگ سوتے ہیں تو یہ نماز پڑھتے ہیں اور جب لوگ خوش ہوتے ہیں تویہ
..............
(١)الفرقان:٧٢
(٢) بحار الانوار : ج ٦٨ ص ١٧٠ و ١٧١ منقول از صفات الشیعہ ١٨٣
محزون ہوتے ہیں۔(١)
نوف بن عبد اللہ بکائی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: مجھ سے علی نے فرمایا: اے نوف ہم پاک طینت سے خلق کئے گئے ہیں اور ہمارے شیعہ ہماری ہی طینت سے پیدا ہوئے ہیں اور روز قیامت وہ ہم ہی سے ملحق ہو جائیں گے۔
نوف نے کہا:اے امیر المومنین مجھے اپنے شیعوں کے صفات بتایئے پس آپ اپنے شیعوںکو یاد کرکے روئے اور فرمایا: اے نوف خدا کی قسم ہمارے شیعہ حلیم و بردبار، خدااور اس کے دین کی معرفت رکھنے والے، اس کے حکم پر عمل کرنے والے ، اس کی محبت کی وجہ سے ہدایت یافتہ، عبادت کی وجہ سے نحیف و لاغر اور دنیا سے بے رغبتی کے سبب خرقہ پوش، نماز شب برپا رکھنے کے باعث ان کے چہروں کے رنگ زرد، رونے کے سبب آنکھیں چند ھیائی ہو ئیں اور ذکر خدا کی کثرت سے ہونٹ سوکھے ہوئے۔بھوکا رہنے کے باعث پیٹ کمر سے لگے ہوئے، ان کے چہروں سے ربّانیت اور ان کی پیشانیوں سے رہبانیت آشکار ہے وہ ہر تاریکی کا چراغ ہیں، ہر اچھی جماعت کا پھو ل ہیں ، ان کی برائیاں ناپید، ان کے دل محزون، ان کے نفس پاک، ان کی حاجتیں کم ، ان کے نفس مشقت میں اور لوگ ان سے راحت میں ہیں وہ عقل کے جام اورنجیب و خالص، اگر وہ سامنے ہوتے ہیں تو پہچانے نہیں جاتے اور وہ لا پتا ہو جاتے ہیں تو کسی کو ان کی تلاش کی فکر نہیں ہوتی یہ ہیں میرے بہترین شیعہ اور معزز و محترم بھائی مجھے ان سے ملاقات کا بڑا اشتیاق ہے ۔(٢)
..............
(١) بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٦٩ ح ٣٠
(٢) بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٧٧ امالی طوسی: ج ٢ ص ١٨٨