روایت ہے کہ ایک روز عمار کسی گواہی کے سلسلہ میں کوفہ کے قاضی ابن ابی لیلیٰ کے پاس گئے۔ قاضی نے ان سے کہا: اے عمار تم اٹھو! حقیقت یہ ہے کہ ہم تمہیں پہچان گئے ہیں تمہاری گواہی قبول نہیں کی جائیگی کیونکہ تم رافضی ہو، (یہ سن کر) عمار کھڑے ہو گئے اوران پر رقت طاری ہوگئی اور ان کا جوڑ جوڑ کانپنے لگا۔
ابن ابی لیلیٰ نے ان سے کہا: آپ تو عالم ومحدث ہیں اگر آپ کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ آپ کو رافضی کہا جائے تو رفض کو چھوڑ دیں، پھر تم ہمارے بھائی ہو۔ عمار نے اس سے کہا: جو تمہارا مسلک ہے وہی میرا مسلک ہے، لیکن مجھے اپنے اور تمہارے اوپر رونا آ رہا ہے ، اپنے اوپر تو میں اس لئے رو رہا ہوں کہ جس عظیم رتبہ کی طرف تونے مجھے نسبت دی ہے میں اس کا اہل نہیں ہوں، تم نے یہ گمان کیا ہے کہ میں رافضی ہوں وائے ہو تم پر،(امام جعفر صادق نے فرمایاہے : سب سے پہلے ان جادوگروں کو رافضی کہا گیا تھا جو عصا میں حضرت موسیٰ کا معجزہ دیکھ کر ان پر ایمان لائے اور ان کی پیروی کی اور فرعون کے حکم کو ٹھکرا دیااور اپنے فائدہ کی ہر چیز کو قبول کر لیا تو فرعون نے انہیں رافضی کا نام دیا کیونکہ انہوں نے فرعون کے دین کو ٹھکرا دیا تھا تو اس
دیا تھا تو اس لحاظ سے رافضی وہ شخص ہے جو ان تمام چیزوں کو ٹھکرا دے جن کو خدا پسند نہیں کرتا ہے اور جس چیز کا خدا نے حکم دیا ہے اس پر عمل کرے، تو اس زمانہ میں ایسا کون ہے ؟) اور اپنے اوپر اس لئے بھی رو رہا ہوں کہ مجھے خوف ہے اگر خدا کو میرے دل کی کیفیت کا علم ہو گیا جبکہ میں نے معزز لقب پایا ہے تو میرا پروردگار مجھے سرزنش کرے گا اور فرمائے گا: اے عمار کیا تم باطل چیزوں کو ٹھکرا ئے تھے اور طاعات پر عمل کرتے تھے جیسا کہ تمہیں لقب ملا ہے ؟ اگر اس مدت میں میں سہل انگاری سے کام لونگاتو اس سے میرے درجات کم ہو جائیں گے، اور میرے اوپر شدید عقاب ہوگا مگر یہ کہ ہمارے مولا و آقااپنی شفاعت کے ذریعہ ہماری مدد کریں۔
اورتمہارے اوپر اس لئے رو رہا ہوں کہ تم نے میرا ایسا نام رکھا ہے جس کا میں اہل نہیں ہوں مجھے ڈر ہے کہ تمہارے اوپر خدا کا عذاب نہ آجائے کہ تم نے شریف ترین نام رکھا ہے اور اس کو پست ترین خیال کیا ہے تمہارا بدن اس بات کے عذاب کو کیسے برداشت کرے گا؟
امام جعفر صادق فرماتے ہیں: اگر عمار کے اوپر آسمانوں اور زمینوں سے بھی زیادہ گناہ ہوتے تو ان کی اس گفتگو کے سبب ان سب کو محو کر دیا جاتا۔ یہ کلمات ان کے پروردگار کی بارگاہ میں ان کے حسنات میں اضافہ کریں گے ،یہاں تک کہ ان کے کلام کا معمولی حصہ بھی اس دنیا سے ہزار گنابڑا ہوگا۔(١)
..............
(١) بحار الانوار: ج٦٨ ص ١٥٦ و ١٥٧
ہرمحبت کا دعویدار شیعہ نہیں ہے
امام موسیٰ کاظم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ ہم لوگوں کا گزر بازار میں اس شخص کے پاس سے ہوا جو یہ کہہ رہا تھا میں محمد و آل محمدۖ کا مخلص شیعہ ہوں وہ اپنا کپڑا فروخت کرنے
کی غرض سے یہ آواز دے رہا تھا کہ کون زیادہ مہنگا خریدے گا؟ امام موسیٰ کاظم نے فرمایا:
''ما جہل ولا ضاع امرؤ عرف قدر نفسہ، أتدرون ما مثل ھذا؟ ھذا شخص قال أنا مثل سلمان ، و أبی ذر ، و المقداد، و عمّار، و ھو مع ذلک یباخس فی بیعہ و یدلس عیوب المبیع علیٰ مشتریہ، و یشتری الشیء بثمن، فیزاید الغریب، یطلبہ فیوجب لہ ثم اذا غاب المشتری قال لا أریدہ لا بکذا بدون ما کان طلبہ منہ ، أیکون ھذا کسلمان و أبی ذر و المقداد و عمّار؟ حاش اللّٰہ ان یکون ھذا کھم، ولکن ما یمنعہ من أن یقول نی من محبی محمد و آل محمد و من یوالی أولیائہ و یعادی أعدائھم''۔
کیا تم جانتے ہو کہ اس کی مثال کیا ہے ؟ یہ شخص کہہ رہا تھامیں سلمان ، ابو ذر، مقداد اور عمار یاسر کے مثل ہوں اس کے با وجوداپنی چیز کو کم ناپتاہے اور خریدار سے اپنی اس چیز کا عیب چھپاتا ہے جس کو فروخت کر رہا ہے۔ اور معمولی قیمت میں ایک چیز خریدتا ہے اور اجنبی کو گراں قیمت پر فروخت کرتا ہے اور جب وہ چلا جاتا ہے تو اس کی برائی کرتا ہے ۔
کیا یہ شخص سلمان و ابو ذر اور مقداد و عمار جیسا ہو سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں، ان جیسا نہیں ہوسکتا ،وہ کیا چیز ہے جس نے اسے یہ کہنے سے باز رکھا کہ میں محمد ۖ و آل محمد کے شیعوں میں سے ہوں یا ان کے دوستوں کا دوست اور ان کے دشمنوںکا دشمن ہوں۔(١)
مومنین اہل جنت کے لئے ایسے ہی درخشاں ہیں جیسے آسمان پر ستارے
امیر المومنین سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: یقیناً جنت والے ہمارے شیعوں کی طرف ایسے ہی دیکھیں گے جیسا کہ انسان آسمان کے ستاروں کو دیکھتا ہے ۔(٢)
..............
(١) بحار الانوار: ج ٦٨ و ١٥٧
(٢) بحار الانوار: ج٦٨ ص ١٨ خصال الصدوق ١٦٧۔
امام صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: آسمان والوں کے لئے مومنین کا نور ایسے ہی چمکتا ہے جیسے زمین والوں کے لئے آسمان کے ستارے روشن ہیں۔(١)
امام موسیٰ کاظم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: امام صادق کے چاہنے والوں کی ایک جماعت چاندنی رات میں آپ کی خدمت میں حاضر تھی ان لوگوں نے کہا: فرزندِ رسولۖ! کتنا اچھا ہوتا کہ یہ آسمان اور یہ ستاروں کا نور ہمیشہ رہتا۔ امام صادق نے فرمایا: یہ نظم و نسق برقرار رکھنے والے چار فرشتے ، جبریل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت زمین کی طرف دیکھتے ہیں تو تمہیں اور تمہارے بھائیوں کو زمین کے گوشہ و کنار میں دیکھتے ہیں جبکہ تمہارا نور آسمانوں میں ہوتا ہے اور ان کے نزدیک یہ نور ستاروں سے زیادہ اچھا ہے اور وہ بھی اسی طرح کہتے ہیں جیسے تم کہتے ہو: ان مومنوں کا نور کتنا اچھا ہے ۔(2)
وہ اللہ کے نور سے دیکھتے ہیں
ابن ابی نجران سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے ابو الحسن سے سنا کہ فرماتے ہیں: جو ہمارے شیعوں سے عداوت رکھتا ہے در حقیقت وہ ہم سے دشمنی رکھتا ہے اور جو ان سے محبت کرتا ہے در حقیقت وہ ہم سے محبت کرتا ہے کیونکہ وہ ہم میں سے ہیں وہ ہماری ہی طینت سے پیدا کئے گئے ہیں پس جو ان سے محبت کرے گا وہ ہم میں سے ہے اور جو ان سے عداوت رکھے گا اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے ، ہمارے شیعہ خدا کے نور سے دیکھتے ہیں اور خدا کی رحمت میں کروٹیں لیتے ہیں اور اس کی کرامت سے سرفراز رہتے ہیں اور ہمارے شیعوں
میں جس کو بھی کوئی غم ہوتا ہے اس کے غم میں ہم بھی غمگیں ہوتے ہیں اور اس کے خوش ہونے سے ہم بھی خوش ہو تے ہیں۔(3)
..............
(١) بحار الانوار: ج ٧٤ ص ٢٤٣ اصول کافی: ج ٢ ص ١٧٠ سے منقول
(2) بحار الانوار: ج ٦٨ ص ٢٤٣ عیون اخبار رضا سے منقول
(3) بحار الانوار: ج ٦٨ ص ١٦٧ صفات الشیعہ ص ١٦٢ سے منقول
|