و ضو

(۲۳۵) و ضو میں وا جب ہے کہ چہر ہ اور دو نو ں ہا تھ دھو ئے جا ئیں اور سر کے اگلے حصے اور دو نو ں پاؤں کے سا منے والے حصے کا مسح کیا جا ئے ۔

(۲۳۶) چہر ے کو لمبا ئی میں پیشا نی کہ او پر اس جگہ سے لے کر جہا ں سر کے بال اگتے ہیں ٹھوڑ ی کے آ خر ی کنا ر ے تک دھو نا ضر ور ی ہے اور چو ڑا ئی میں بیچ کی ا نگلی اور انگو ٹھے کے پھیلا وٴ میں جتنی جگہ آ جائے اسے دھو نا ضر ور ی ہے اگر اس مقدا ر کا زرا سا حصہ بھی چھو ٹ جائے تو وضو با طل ہے اور اگر انسا ن کو یقین نہ ہو کہ ضر ور ی حصہ پو را دھل گیا ہے تویقین کرنے کے لیے تھو ڑا تھو ڑا ادھر ادھر سے بھی دھونا بھی ضر ور ی ہے ۔

(۲۳۷) اگر کسی شخص کے ہا تھ یا چہر ہ عا م لو گو ں کی بہ نسبت بڑ ے یا چھو ٹے ہو ں تواسے دیکھنا چا ہیے کہ عام لو گ کہا ں تک اپنا چہر ہ د ھو تے ہیں اور پھر وہ بھی اتنا ہی د ھو ڈا لے علاو ہ ازیں اس کی پیشا نی پر با ل و غیر ہ اُگے ہو ں یا سر کہ اگلے حصے پر بال نہ ہو ں تو بھی ضر ور ی ہے کہ عا م اندا ز ے کے مطا بق پیشا نی دھو ڈ ا لے ۔

(۲۳۸)اگر اس با ت کا احتما ل ہو کہ کسی شخص کی بھو و ں آ نکھ کے گو شو ں اور ہو نٹوں پر میل یا کوئی دو سر ی چیز ہے جو پا نی کہ ان تک پہنچنے تک رو کا و ٹ ہے اور اس کا یہ احتما ل لو گو ں کی نظرو ں میں در ست ہو تو ضر و ر ی ہے کہ و ضو سے پہلے تحقیق کر لے اور اگر کو ئی ایسی چیز ہو تو اسے دور کر لے ۔

(۲۳۹) اگر چہر ے کی جلد با لو ں کے نیچے سے نظر آ تی ہو تو با لو ں کا د ھو نا کا فی ہے اور ان کے نیچے تک پا نی پہنچا نا ضرور ی نہیں ۔

(۲۴۰) اگر کسی شخص کو ہو کہ آ یا اس کے چہر ے کی جلد با لو ں کے نیچے سے نظر آ تی ہے یا نہیں تو احتیا ط و ا جب کی بنا پر ضرو ر ی ہے کہ با لو ں کو د ھو ئے اور پا نی جلد تک پہنچا ئے ۔

(۲۴۱) نا ک کے اندرو نی حصے اور ہو نٹو ں اور آ نکھو ں کے ان حصو ں کو جو بند کر نے پر نظر نہیں آ تے دھو نا و ا جب نہیں ہے لیکن اگر کسی انسا ن کو یقین نہ ہو کہ جن جگہو ں کا دھو نا ضر ور ی ہے ان میں کو ئی جگہ با قی نہیں ر ہی تو و اجب ہے کہ ان اعضا کا کچھ حصہ بھی د ھو ے تا کہ اسے یقین ہو جا ئے او ر جس شخص کو اس با ت کا علم نہ تھا اگر اس نے جو و ضو کیا ہے اس میں ضرور ی حصے د ھو نے یا نہ د ھو نے کہ با ر ے میں نہ جا نتا ہو تواس وضو سے اس نے جو نما ز پڑھی صحیح ہے اور بعد کی نماز و ں کے لیے و ضو کر نا ضرو ر ی نہیں ہے ۔

(۲۴۲) احتیا ط لا ز م کی بنا پر ضر ور ی ہے کہ ہا تھو ں اور اسی طر ح چہر ے کو او پر سے نیچے کی طرف دھو یا جا ئے اگر نیچے سے اوپر کی طر ف د ھو یا جائے تو و ضو با طل ہو گا ۔

( ۲۴۳)اگر ہتھیلی تر کر کے چہر ے اور ہا تھو ں پر پھیر ی جا ئے اور ہا تھ میں اتنی تر ی ہو کہ اسے پھیر نے سے پو ر ے چہرے اور ہا تھوں پرپا نی پہنچ جا ئے تو کا فی ہے ان پر کا بہنا ضروری نہیں ۔

(۲۴۴)چہر ہ د ھو نے کے بعد پہلے دا یا ں ہا تھ اور پھر با یا ں ہا تھ کہنی سے انگلیو ں سے سر و ں تک د ھو نا ضرو ر ی ہے ۔

(۲۴۵)اگر انسا ن کو یقین نہ ہو کہ کہنی کو پو ری طر ح دھو لیا ہے تو یقین حا صل کر نے کے لیے کہنی سے او پر کا حصہ کچھ حصہ د ھو نا بھی ضرور ی ہے ۔

(۲۶۲) جس شخص نے چہر ہ د ھو نے سے پہلے اپنے ہاتھوں کو کلا ئی کے جو ڑ تک دھو یا ہو ضروری ہے کہ و ضو کر تے وقت انگلیو ں کے سر و ں تک د ھو ئے اگر وہ صر ف کلا ئی کہ جو ڑ و ں تک د ھو ئے گاتو اس کا و ضو با طل ہو گا۔

(۲۴۷) و ضو میں چہر ہ اور ہا تھو ں کا ایک دفعہ د ھو نا دو سر ی دفعہ دھو نا مستحب اور تیسر ی د فعہ یا اس سے ز یا د ہ با ر د ھو نا حرام ہے ایک د فعہ اس و قت مکمل ہو گا جب و ضو کی نیت سے اتنا پا نی چہرے یا ہا تھ پر ڈا لے کہ وہ پا نی پو رے چہر ے یا ہاتھ پر پہنچ جا ئے اوراحتیا ط کے لیے کو ئی گنجا ئش با قی نہ رہے لہذا اگر پہلی دفعہ د ھو نے کی نیت سے دس با ر بھی چہر ے پر پا نی ڈا لے تا کہ پا نی تمام مقاما ت تک پہنچ جائے تو کو ئی حر ج نہیں ہے اور جب و ضو کر نے یا چہر ہ دھونے کی نیت نہ کر لے پہلی با ر د ھو نا شما ر نہیں ہو گا لہذا اگر چا ہے تو چند با چہرہ د ھو لے اور آخری با ر چہر ہ د ھو تے و قت و ضو کی نیت کر لے لیکن دو سری با ر دھو نے کی نیت کا معتبر ہو نا اشکا ل سے خالی نہیں ہے اور احتیا ط لا ز م یہ ہے کہ ایک مر تبہ چہر ہ یا ہا تھو ں کو د ھو لینے کہ بعد دوسر ی با ر د ھو نے کے لیے ایک با ر سے ز یا د ہ نہ دھو ئے اگر چہ و ضو کی نیت سے نہ بھی ہو ۔

(۲۴۸) دو نو ں ہا تھ د ھو نے کے بعد سر اگلے حصے کا مسح و ضو کے پا نی کی تر ی سے کر نا چا ہئے جو ہا تھو ں کو لگی رہ گئی ہو او ر احتیا ط مستحب یہ ہے کہ مسح دائیں ہا تھ سے کیا جا ئے اور او پر سے نیچے کی طرف ہو ۔

(۲۴۹) سر کے چا ر حصو ں میں پیشا نی سے ملا ہو ایک حصہ او ر مقام ہے جہا ں مسح کر نا چاہیےء اس حصے میں جہا ں بھی اور جس اندا ز ے سے بھی مسح کر یں کا فی ہے اگر چہ احتیا ط مستحب یہ ہے کہ لمبا ئی میں ایک انگلی کی لمبا ئی کے لگ بھگ اور چو ڑا ئی میں تین ملی ہو ئی انگلیوں کے لگ بھگ جگہ پر مسح کیا جا ئے ۔

(۲۵۰) یہ ضرو ر ی نہیں کہ سر کا مسح جلد پر کیا جا ئے بلکہ سر کے اگلے حصے کے با لو ں پر کر نا بھی در ست ہے لیکن اگر کسی کے سر کے بال اتنے لمبے ہو ں کہ مثلا اگر کنگھا کر یں تو سر پر آ گر یں یا سر کے کسی دو سر ے حصے تک جا پہنچیں تو ضر ور ی ہے کہ وہ با لو ں کی جڑ و ں پر مسح کر ے اور اگر وہ چہر ے پر آ گر نے وا لے یا دو سر ے حصو ں کے با لو ں کو سر کے اگلے حصے میں جمع کر کے ان پر مسح کر ے توایسا مسح با طل ہے ۔

(۲۵۱) سر کے مسح کے بعد و ضو کے پا نی کی اس تر ی سے جو ہا تھو ں میں با قی ہو پاؤں کی کسی انگلی سے لے کر پاؤں کے جو ڑ تک مسح کرناضرو ر ی ہے اور احتیا ط مستحب یہ ہے کہ دائیں پیر کا د ائیں ہا تھ سے اور با ئیں پیر کا با ئیں ہا تھ سے مسح کیا جا ئے ۔

(۲۵۲) پاؤں پر مسح چو ڑا ئی میں جتنا بھی ہو کا فی ہے لیکن بہتر ہے کہ تین ملی ہو ئی انگلیو ں کی چو ڑا ئی کے برا بر ہو او ر اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ پاو ں کے پو رے او پر ی حصے کا مسح پو ر ی ہتھیلی سے کیا جا ئے ۔

 ( ۲۵۳) ضرو ر ی نہیں ہے کہ پاؤں کا مسح کر تے وقت ہا تھ انگلیو ں کے سر و ں پر ر کھے اور پھر پاؤں کے او پر کھینچے بلکہ یہ بھی کیاجا سکتا ہے کہ پو را ہا تھ پاؤں پر ر کھے اور تھو ڑا سا کھینچے۔

 (۲۵۴) سر اور پاؤں کا مسح کر تے و قت ہا تھ ان پر کھینچاضرو ر ی ہے اور اگر ہا تھ کو سا کن رکھے اور سر یاپاؤں کو اس پر چلا ئے تو با طل ہے لیکن ہا تھ کھینچنے کے و قت سر اور پاؤں معمولی حر کت کر یں تو کو ئی حر ج نہیں ۔

(۲۵۵) جس جگہ کا مسح کر نا ہو ضر ور ی ہے کہ وہ خشک ہو اگر وہ اس قد ر تر ہو کہ ہتھیلی کی تر ی اس پر اثر نہ کر ے تو مسح با طل ہے لیکن اس پر نمی ہو یا تر ی اتنی کم ہو کہ وہ ہتھیلی کی تر ی سے ختم ہو جا ئے تو پھر کو ئی حر ج نہیں ۔

( ۲۵۶)اگر مسح کر نے کے لیے ہتھیلی پر تر ی با قی نہ ر ہی ہو تو اسے دو سر ے پا نی سے تر نہیں کیا جا سکتا بلکہ ایسی صو رت میں ضرو ر ی ہے کہ اپنی دا ڑ ھی کی تر ی لے کر اس سے مسح کر لے داڑھی کے علا وہ اور کسی جگہ سے تر ی کے کر مسح کرنا محل اشکا ل ہے ۔

(۲۵۷) اگر ہتھیلی کی تر ی صر ف سر کے مسح کے لیے ہتھیلی کی تر ی صر ف سر کے مسح کے لیے کافی ہو تو احتیا ط و اجب ہے کہ سر کا مسح اس تر ی سے کر ے اور پاؤں کے مسح کے لیے اپنی داڑھی سے تری حا صل کرے ۔

(۲۵۸) مو ز ے اور جو تے پر مسح کرنا با طل ہے ہا ں اگر سخت سر دی کی وجہ سے چو ر یا درندے و غیرہ کے خو ف سے جوتے یا مو ز ے نہ اتا ر ے جا سکیں تو احتیاط و ا جب یہ ہے کہ موز ے اور جو تے پر مسح کرے اور تیمم بھی کرے تقیہ کی صو رت میں مو ز ے اور جو تے پر مسح کرنا کافی ہے۔

(۲۵۹) اگر پاؤں کے او پر و الا حصہ نجس ہو اور مسح کر نے کے لیے اسے د ھو یا بھی نہ جا سکتا ہو تو تیمم کر نا ضرور ی ہے ۔

ارتماسی وضو

 

(۲۶۰)ارتماسی وضو یہ ہے کہ انسان چہرے اور ہاتھوں کو وضو کی نیت سے پانی میں ڈبودے۔ بظاہر ارتماسی طریقے سے دھلے ہوئے ہاتھ کی تری سے مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ ایسا کرنا خلافِ احتیاط ہے۔

 

(۲۶۱) ارتماسی وضو میں بھی چہرہ اور ہاتھ اوپر سے نیچے کی طرف دھونے چاہئیں۔ لہٰذا جب کوئی شخص وضو کی نیت سے چہرہ اور ہاتھ پانی میں ڈبوئے تو ضروری ہے کہ چہرہ پیشانی کی طرف سے اور ہاتھ کہنیوں کی طرف سے ڈبوئے۔

 

(۲۶۲)اگر کوئی شخص بعض اعضاء کا وضو ارتماسی طریقے سے اور بعض کا غیر ارتماسی طریقے سے کرے تو کوئی حرج نہیں۔

 

وضو کی مستحب دعائیں

(۲۶۳)جو شخص وضو کرنے لگے اس کے لیے مستحب ہے کہ جب اس کی نظر پانی پر پڑے تو یہ دعا پڑے:

 

بِسْمِ اللّٰہِ وَبِاللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ الْمَآءَ طَھُوْرًا وَّ لَمْ یَجْعَلْہ نَجَسًا

 

جب وضو سے پہلے اپنے ہاتھ دھوئے تو یہ دعا پڑھے:

 

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ

 

کلی کرتے وقت یہ دعا پڑھے:

 

اَللّٰھُمَّ لَقِّنِّیْ حُجَّتِیْ یَوْمَ اَلْقَاکَ وَاَطْلِقْ لِسَانِیْ بِذِکْرِکَ

 

ناک میں پانی ڈالتے وقت یہ دعا پڑھے:

 

اَللّٰھُمَّ لَاتُحَرِّمْ عَلَیَّ رِیْحَ الْجَنَّةِ وَاجْعَلْنِیْ مِمَّنْ یَّشُمُّ رِیْحَھَا وَرَوْحَھَا وَطِیْبَھَا

 

چہرہ دھوتے وقت یہ دعا پڑھے:

 

اَللّٰھُمَّ بَیِّضْ وَجْھِیْ یَوْمَ تَسْوَدُّ الْوُجُوْہُ وَلَا تُسَوِّدْ وَجْھِیْ یَوْمَ تَبْیَضُّ الْوُجُوْہُ

 

دایاں ہاتھ دھوتے وقت یہ دعا پڑھے:

 

اَللّٰھُمَّ اَعْطِنِیْ کِتَابِیْ بِیَمِیْنِیْ وَالْخُلْدَ فِی الْجِنَانِ بِیَسَارِیْ وَحَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَّسِیْرًا

 

بایاں ہاتھ دھوتے وقت یہ دعا پڑھے:

 

اَللّٰھُمَّ لَاتُعْطِنْی کِتَابِیْ بِشِمَالِیْ وَلَا مِنْ وَّرَآءِ ظَھْرِیْ وَلَا تَجْعَلْھَا مَغْلُوْلَةً اِلٰی عُنُقِیْ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ مُّقطَّعَاتِ النِّیْرَانِ

 

سر کا مسح کرتے وقت یہ دعا پڑھے:

 

اَللّٰھُمَّ غَثِّنِیْ بِرَحْمَتِکَ وَبَرَکَاتِکَ وَعَفْوِکَ

 

پاؤں کا مسح کرتے وقت یہ دعا پڑھے:

 

اَللّٰھُمَّ تَبِّتْنِیْ عَلَی الصِّرَاطِ یَوْمَ تَزِلُّ فِیْہِ الْاَقْدَامُ وَاجْعَلْ سَعْیِیْ فِیْ مَایُرْضِیْکَ عَنِّیْ یَا ذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ

وضو صحیح ہونے کی شرائط

وضو صحیح ہونے کی چند شرائط ہیں:

۱) وضو کا پانی پاک ہو

۔ ایک قول کی بنا پر وضو کا پانی ایسی چیزوں مثلاً حلال گوشت حیوان کے پیشاب، پاک مَردار اور زخم کی ریم سے آلودہ نہ ہو جن سے انسان کو گِھن آتی ہو، اگرچہ شرعی لحاظ سے ایسا پانی پاک ہے اور یہ قول احتیاط کی بنا پر ہے۔

۲) پانی مطلق ہو۔

(۲۶۴) نجس یا مضاف پانی سے وضو کرنا باطل ہے خواہ وضو کرنے والا شخص اس کے نجس یا مضاف ہونے کے بارے میں علم نہ رکھتا ہو یا بھول گیا ہو۔ لہٰذا اگر وہ ایسے پانی سے وضو کر کے نماز پڑھ چکا ہو تو صحیح وضو کر کے دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔

(۲۶۵) اگر ایک شخص کے پاس مٹی ملے ہوئے مضاف پانی کے علاوہ اور کوئی پانی وضو کے لیے نہ ہو اور نماز کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کر لے لیکن اگر وقت تنگ نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کے صاف ہونے کا انتظار کرے یا کسی طریقے سے اس پانی کو صاف کرے اور وضوکرے۔ ہاں ! مٹی ملا ہوا پانی اسی وقت مضاف بنتا ہے جب اسے پانی نہ کہا جا سکے۔

۳) وضو کا پانی مباح ہو۔

(۲۶۶) ایسے پانی سے وضو کرنا جو غصب کیا گیا ہو یا جس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ اس کا مالک اس کے استعمال پر راضی ہے یا نہیں حرام اور باطل ہے۔ علاوہ ازیں اگر چہرے اور ہاتھوں سے وضو کا پانی غصب کی ہوئی جگہ پر گرتا ہو یا وہ فضا جس میں وضو کرنے کے لیے کوئی اور جگہ بھی نہ ہو تو اس شخص کا فریضہ تیمم ہے اور اگر کسی دوسری جگہ وضو کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ دوسری جگہ وضو کرے۔ لیکن اگر دونوں صورتوں میں گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے اسی جگہ وضو کرلے تو اس کا وضو صحیح ہے۔

(۲۶۷)کسی مدرسے کے ایسے حوض سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں جس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ آیا وہ تمام لوگوں کے لیے کیا گیا ہے یاصرف مدرسے کے طلباء کے لیے وقت ہے اور صورت یہ ہو کہ لوگ عموماً اس حوض سے وضو کرتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو۔

(۲۶۸)اگر کوئی شخص ایک مسجد میں نماز پڑھنا نہ چاہتا اور یہ بھی نہ جانتا ہو کہ آیا اس مسجد کا حوض تمام لوگوں کے لیے وقف ہے یا صرف ان لوگوں کے لیے جو اس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں تو اس کے لیے اس حوض سے وضو کرنا درست نہیں لیکن اگر عموماً وہ لوگ بھی اس حوض سے وضو کرتے ہوں جو اس مسجد میں نماز نہ پڑھنا چاہتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو تو وہ شخص بھی اس حوض سے وضو کر سکتا ہے۔

(۲۶۹)سرائے، مسافر خانوں اور ایسے ہی دوسرے مقامات کے حوض سے ان لوگوں کا جوان میں مقیم نہ ہوں، وضو کرنا اسی صورت میں درست ہے جب عموماً ایسے لوگ بھی جو وہاں مقیم نہ ہوں اس حوض سے وضو کرتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو۔

(۲۷۰)ان نہروں سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں جن پر عقلاء کا طریقہ یہ ہے کہ تصرف کیا کرتے ہیں، چاہے نہریں بڑی ہوں یا چھوٹی اور چاہے انسان کو مالک کی رضایت کا علم بھی نہ ہو بلکہ اگر مالک وضو کرنے سے روکے یا انسان جانتا ہو کہ مالک راضی نہیں یامالک نابالغ بچہ یا پاگل ہو، پھر بھی ان نہروں میں تصرف جائز ہے۔

(۲۷۱)اگر کوئی شخص یہ بھول جائے کہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کر لے تو اس کا وضو صحیح ہے۔ لیکن اگر کسی شخص نے خود پانی غصب کیا ہو اور بعد میں بھول جائے کہ یہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کر لے تو اس کا وضو صحیح ہونے میں اشکال ہے۔

(۲۷۲)اگر وضو کا پانی تو اس کا اپنا ہو لیکن غصبی برتن میں ہو اور اس شخص کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی پانی نہ ہو تو اگر وہ اس پانی کو شرعی طریقے سے دوسرے برتن میں انڈیل سکتا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے پانی کسی دوسرے برتن میں انڈیل لے اور پھر اس کے پاس اس کے علاوہ دوسرا پانی موجود ہو تو ضروری ہے کہ اس سے وضو کرے اور اگر ان دونوں صورتوں میں وہ صحیح طریقے پرعمل نہ کرتے ہوئے اس پانی سے جو غصبی برتن میں ہے وضو کر لے تو اس کا وضو صحیح ہے۔

(۲۷۳)اگر کسی حوض میں مثال کے طور پر غصب کی ہوئی ایک اینٹ یا ایک پتھر لگا ہو اور عرفِ عام میں اس حوض میں سے پانی نکالنا اس اینٹ یا پتھر پر تصرف نہ سمجھا جائے تو (پانی لینے میں) کوئی حرج نہیں لیکن اگر تصرف سمجھا جائے تو پانی کا نکالنا حرام لیکن اس سے وضو کرنا صحیح ہے۔

(۲۷۴)اگر آئمہ طاہرین ٪ یا ان کی اولاد کے مقبرے کے صحن میں جو پہلے قبرستان تھا کوئی حوض یا نہر کھودی جائے اور یہ علم نہ ہو کہ صحن کی زمین قبرستان کے لیے وقف ہو چکی ہے تو اس حوض یا نہر کے پانی سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

۴)وضو کے اعضا دھوتے وقت اور مسح کرتے وقت پاک ہوں۔ چاہے انہیں وضو کے دوران ہی دھونے یا مسح کرنے سے پہلے پاک کر لے جبکہ اگر کریا اس جیسے پانی سے دھو رہا ہو تو دھونے سے پہلے پاک کرنا بھی ضروری نہیں۔

(۲۷۵)اگر وضو مکمل ہونے سے پہلے وہ مقام نجس ہو جائے جسے دھویا جا چکا ہے یا جس کا مسح کیا جا چکا ہے تو وضو صحیح ہے۔

(۲۷۶)اگر اعضائے وضو کے سوا بدن کا کوئی حصہ نجس ہو تو وضو صحیح ہے لیکن اگر پاخانے یا پیشاب کے مقام کو پاک نہ کیا ہو تو پھر احتیاط مستحب یہ ہے کہ پہلے انہیں پاک کرے اور پھر وضو کرے۔

(۲۷۷)اگر وضو کے اعضاء میں سے کوئی نجس ہو اور وضو کرنے کے بعد شک گزرے کہ آیا وضو کرنے سے پہلے اس عضو کو دھویا تھا یا نہیں تو وضو صحیح ہے لیکن اس نجس مقام کو دھو لینا ضروری ہے۔

(۲۷۸)اگر کسی کے چہرے یا ہاتھوں پر کوئی ایسی خراش یا زخم ہو جس سے خون نہ رکتا ہو اور پانی اس کے لیے مضر نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس عضو کو صحیح سالم اجزاء کو ترتیب واردھونے کے بعد زخم یا خراش والے حصے کو برابر پانی یا جاری پانی میں ڈبو دے اور اسے اس قدر دبائے کہ خون بند ہو جائے اور پانی کے اندر ہی اپنی انگلی زخم یا خراش پر رکھ کر اوپر سے نیچے کی طرف کھینچے تاکہ اس (خراش یا زخم) پر پانی جاری ہو جائے اور پھر اس سے نچلے حصوں کو دھو لے۔ اس طرح اس کا وضو صحیح ہو جائے گا۔

۵) وضو کرنے اور نماز پڑھنے کے لیے وقت کافی ہو۔

(۲۷۹)اگر وقت اتنا کم ہو کہ وضو کرے تو ساری کی ساری نماز یا اس کا کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھنا پڑے تو ضروری ہے کہ تیمم کر لے لیکن اگر تیمم اور وضو کے لیے تقریباً یکساں وقت درکار ہو تو پھر وضو کرے۔

(۲۸۰)جس شخص کے لیے نماز کا وقت تنگ ہونے کے باعث تیمم کرنا ضروری ہو اگر وہ قصد قربت کی نیت سے یا کسی مستحب کام مثلاً قرآن مجید پڑھنے کے لیے وضو کرے تو اس کا وضو صحیح ہے اور اگر اسی نماز کو پڑھنے کے لیے وضو کرے تو بھی یہی حکم ہے سوائے اس کے کہ اسے قصد قربت حاص نہ ہو سکے۔

۶) وضو بقصد قربت سے کرے اور اس کے لیے اتنا کافی ہے کہ حکم الہٰی کی بجا آوری کے قصد سے کیا جائے۔ اگر اپنے آپ کو ٹھنڈک پہنچانے یا کسی اور نیت سے کیا جائے تو وضو باطل ہے۔

(۲۸۱)وضو کی نیت زبان سے یا دل میں کرنا ضروری نہیں بلکہ اگر ایک شخص وضو کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کے لیے بجا لائے تو کافی ہے۔

۷) وضو اس ترتیب سے کیا جائے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے یعنی پہلے چہرہ اور اس کے بعد دایاں اور پھر بایں ہاتھ دھویا جائے اس کے بعد سرکا اور پھر پاؤں کا مسح کیا جائے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ دونوں پاؤں کا ایک ساتھ مسح نہ کیا جائے بلکہ بائیں پاؤں کا مسح دائیں پاؤں کے بعد کیا جائے۔

          ۸)وضو کے افعال پے در پے انجام دے۔

(۲۸۲)اگر وضو کے افعال کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جائے کہ عرف عام میں پے در پے دھونا نہ کہلائے تو وضو باطل ہے لیکن اگر کسی شخص کو کوئی عذر پیش آ جائے مثلاً یہ کہ بھول جائے یا پانی ختم ہو جائے تو اس صورت میں بلا فاصلہ دھونے کی شرط معتبر نہیں ہے بلکہ وضو کرنے والا شخص جس وقت کسی عضو کو دھونا یا اس کا مسح کرنا چاہے اور اس وقت تک ان تمام مقامات کی تری خشک ہو چکی ہو جنہیں وہ پہلے دھو چکا ہے یا جن کا مسح کر چکا ہے تو وضو باطل ہو گا۔ اگر جس عضو کو دھونا ہے یا مسح کرنا ہے صرف اس سے پہلے دھوئے ہوئے یا مسح کئے ہوئے عضو کی تری خشک ہو گئی ہو مثلاً بایاں ہاتھ دھوتے وقت دائیں ہاتھ کی تری خشک ہو چکی ہو لیکن چہرہ تر ہو تو وضو صحیح ہے۔

(۲۸۳)اگر کوئی شخص وضو کے افعال بلافاصلہ انجام دے لیکن گرم ہوا یا بدن کی زیادہ حرارت یا کسی اور ایسی ہی وجہ سے پہلی جگہوں کی تری خشک ہو جائے تو اس کا وضو صحیح ہے۔

(۲۸۴)وضو کے دوران چلنے پھرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لہٰذا اگر کوئی شخص چہرہ اور ہاتھ دھونے کے بعد چند قدم چلے اور پھر سر اور پاؤں کا مسح کرے تو اس کا وضو صحیح ہے۔

۹) انسان خود اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے اور پھر سر کا اور پاؤں کا مسح کرے۔ اگر کوئی دوسرا اسے وضو کرائے یا اس کے چہرے یا ہاتھوں پر پانی ڈالنے یا سر اور پاؤں کا مسح کرنے میں اس کی مدد کرے تو اس کا وضو باطل ہے۔

(۲۸۵)جو شخص خود وضو نہ کر سکتا ہو ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص سے مدد لے، اگرچہ دھونا اور مسح کرنا دونوں کی مشارکت سے ہو اور اگر وہ شخص اجرت مانگے تو اگر اس کی ادائیگی کر سکتا ہو اور ایسا کرنا اس کے لیے مالی طور پر نقصان دہ نہ ہو تو اجرت ادا کرنا ضروری ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ وضو کی نیت خود کرے اور مسح بھی اپنے ہاتھ سے کرے اور اگر خود دوسرے کے ساتھ شرکت نہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ کسی دوسرے شخص سے مدد لے جو اسے وضو کروائے اور اس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ دونوں وضو کی نیت کریں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا نائب اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی مسح کی جگہوں پر پھیرے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ نائب اس کے ہاتھ سے تری حاصل کرے اور اس کے سر اورپاؤں پر مسح کرے۔

(۲۸۶)وضو کے جو افعال بھی انسان بذاتِ خود انجام دے سکتا ہو ضروری ہے کہ انہیں انجام دینے کے لیے دوسروں کی مدد نہ لے۔

۱۰) وضو کرنے والے کے لیے پانی کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

(۲۸۷)جس شخص کو خوف ہو کہ وضو کرنے سے بیمار ہو جائے گا یا اس پانی سے وضو کرے گا تو پیاسا رہ جائے گا اس کا فریضہ وضو نہیں ہے اور اگر اسے علم نہ ہو کہ پانی اس کے لیے مضر ہے اور وہ وضو کر لے جبکہ وضو کرنا اس کے لیے واقعتا نقصان دہ تھا تو اس کا وضو باطل ہے۔

(۲۸۸)اگر چہرے اور ہاتھوں کے اتنے کم پانی سے دھونا جس سے وضو صحیح ہو جاتا ہو ضرررساں نہ ہو اور اس سے زیادہ ضرر رساں ہو تو ضروری ہے کہ کم مقدار سے ہی وضو کرے۔

          ۱۱) وضو کے اعضاء تک پانی پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

(۲۸۹)اگر کسی شخص کو معلو م ہو کہ اس کے وضو کے اعضاء پر کوئی چیز لگی ہوئی لیکن اس بارے میں اسے شک ہو کہ آیا وہ چیز پانی کے ان اعضاء تک پہنچنے میں مانع ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ یا تو اس چیز کو ہٹا دے یا پانی اس کے نیچے تک پہنچائے۔

(۲۹۰)اگر ناخن کے نیچے میل ہو تو وضو درست ہے لیکن اگر ناخن کاٹا جائے اور اس میل کی وجہ سے پانی کھال تک نہ پہنچے تو وضو کے لیے اس میل کا دور کرنا ضروری ہے۔ علاوہ ازاں اگر ناخن معمول سے زیادہ بڑھ جائین تو جتنا حصہ معمول سے زیادہ بڑھا ہوا ہو اس کے نیچے سے میل نکالنا ضروری ہے۔

(۲۹۱)اگر کسی شخص کے چہرے، ہاتھوں، سر کے اگلے حصے یا پاؤں کے اوپر والے حصے پر جل جانے سے یا کسی اور وجہ سے آبلہ پڑ جائے تو اسے دھو لینا اور اس پر مسح کر لینا کافی ہے اور اس میں سوراخ ہو جائے تو پانی جلد کے نیچے پہنچانا ضروری نہیں بلکہ اگر جلد کا ایک حصہ اکھڑ جائے تب بھی یہ ضروری نہیں کہ جو حصہ نہیں اکھڑا اس کے نیچے تک پانی پہنچایا جائے لیکن جب اکھڑی ہوئی جلد کبھی بدن سے چپک جاتی ہو اور کبھی اوپر اٹھ جاتی ہو تو ضروری ہے کہ یا تو اسے کاٹ دے یا اس کے نیچے پانی پہنچائے۔

(۲۹۲)اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس کے وضو کے اعضاء سے کوئی چیز چپکی ہوئی ہے یا نہیں اور اس کا یہ احتمال لوگوں کی نظر میں بھی درست ہو مثلاً گارے سے کوئی کام کرنے کے بعد شک ہو کہ گارا اس کے ہاتھ سے لگا رہ گیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ تحقیق کر لے یا ہاتھ کو اتنا ملے کہ اطمینان ہو جائے کہ اگر اس پر گارا لگا رہ گیا تھا تو دور ہو گیا ہے یا پانی اس کے نیچے پہنچ گیا ہے۔

(۲۹۳)جس جگہ کو دھونا ہو یا جس کا مسح کرنا ہو اگر اس پر میل ہو لیکن وہ میل پانی کے ساتھ جلد تک پہنچنے میں رکاوٹ نہ ڈالے تو کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اگر پلستر وغیرہ کا کام کرنے کے بعد سفیدی ہاتھ پر لگی رہ جائے جو پانی کو جلد تک پہنچنے سے نہ روکے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر شک ہو کہ ان چیزوں کی موجودگی پانی کے جلد تک پہنچنے میں مانع ہے یا نہیں تو انہیں دور کرنا ضروری ہے۔

(۲۹۴)اگر کوئی شخص وضو کرنے سے پہلے جانتا ہو کہ وضو کے بعض اعضاء پر ایسی چیز موجود ہے جو ان تک پانی پہنچنے میں مانع ہے اور وضو کے بعد شک کرنے کہ وضو کرنے وقت پانی ان اعضاء تک پہنچایا ہے یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے۔

(۲۹۵)اگر وضو کے بعض اعضاء میں کوئی ایسی رکاوٹ ہو جس کے نیچے پانی کبھی تو خود بخود چلا جاتا ہو اور کبھی نہ پہنچتا ہو اور انسان وضو کے بعد شک کرے کہ پانی اس کے نیچے پہنچا ہے یا نہیں جبکہ وہ جانتا ہو کہ کے وقت وہ اس رکاوٹ کے نیچے پانی پہنچنے کی جانب متوجہ نہ تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔

(۲۹۶)اگر کوئی شخص وضو کرنے کے بعد وضو کے اعضاء پر کوئی ایسی چیز دیکھے جو پانی کے بدن تک پہنچنے میں مانع ہو اور اسے یہ معلوم ہو کہ وضو کے وقت یہ چیز موجود تھی یا بعد میں پیدا ہوئی تو اس کا وضو صحیح ہے لیکن اگر وہ جانتا ہو کہ وضو کرتے وقت وہ اس رکاوٹ کی جانب متوجہ نہ تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔

(۲۹۷)اگر کسی شخص کو وضو کے بعد شک ہو کہ جو چیز پانی کے پہنچنے میں مانع ہے وضو کے اعضاء پر تھی یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے۔

وضو کے احکام

(۲۹۸)اگر کوئی شخص وضو کے افعال اور شرائط مثلاً پانی کے پاک ہونے یا غصبی نہ ہونے کے بارے میں بہت زیادہ شک کرتا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

(۲۹۹)اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس کا وضو باطل ہوا ہے یا نہیں تو اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کا وضو باقی ہے لیکن اگر اس نے پیشاب کرنے کے بعد استبراء کیے بغیر وضو کر لیا ہو اور وضو کے بعد اس کے مخرج پیشاب سے ایسی رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں وہ نہ جانتا ہو کہ پیشاب ہے یاکوئی اور چیز تو اس کا وضو باطل ہے۔

(۳۰۰)اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس نے وضو کیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ وضو کرے۔

 (۳۰۱)جس شخص کو معلوم ہو کہ اس نے وضو کیا ہے اور اس سے حدث بھی واقع ہوگیاہے مقعد اس نے پیشاب کیا ہے اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کونسی بات پہلے واقع ہوئی ہے، اگر یہ صورت نماز سے پہلے پیش آئے تو وضو کرنا ضروری ہے اور اگر نماز کے دوران پیش آئے تو نماز توڑ کر وضو کرنا ضروری ہے اور اگر نماز کے بعد پیش آئے تو جو نماز وہ پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہے۔ البتہ دوسری نمازوں کے لیے نیا وضو کرنا ضروری ہے۔

(۳۰۲)اگر کسی شخص کو وضو کے بعد یا وضو کے دوران یقین ہو جائے کہ اس نے بعض جگہیں نہیں دھوئیں یا ان کا مسح نہیں کیا اور جن اعضاء کو پہلے دھویا ہو یا ان کا مسح کیا ہو ان کی تری زیادہ وقت گزر جانے کی وجہ سے خشک ہو چکی ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ وضو کرے لیکن اگر وہ تری خشک نہ ہوئی ہو یا ہوا کی گرمی یا کسی اور ایسی وجہ سے خشک ہو گئی ہو تو ضروری ہے کہ جن جگہوں کے بارے میں بھول گیا ہو انہیں اور ان کے بعد آنے والی جگہوں کو دھوئے یا ان کا مسح کرے اور اگر وضو کے دوران کسی عضو کے دھونے یا مسح کرنے کے بارے میں شک کرے تو اسی حکم پر عمل کرنا ضروری ہے۔

(۳۰۳)اگر کسی شخص کو نما پڑھنے کے بعد شک ہو کہ اس نے وضو کیا تھا یا نہیں تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن ضروری ہے کہ آئندہ نمازوں کے لیے وضو کرے۔

(۳۰۴)اگر کسی شخص کو نماز کے دوران شک ہو کہ آیا اس نے وضو کیا تھا یا نہیں تو اس کی نماز باطل ہے اور ضروری ہے کہ وہ وضو کرے اور نماز دوبارہ پڑھے۔

(۳۰۵)اگر کسی شخص کو نماز کے بعد پتا چلے کہ اس کا وضو باطل ہو گیا تھا لیکن شک ہو کہ اس کا وضو نماز سے پہلے باطل ہوا تھا یا بعد میں تو جو نماز پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہے۔

(۳۰۶)اگر کوئی شخص ایسے مرض میں مبتلا ہو کہ اسے پیشاب کے قطرے گرتے رہتے ہوں یا پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو تو اگر اسے یقین ہو کہ نماز کے اوّل وقت سے لے کر آخر وقت تک اسے اتنا وقفہ مل جائے گا کہ وضو کر کے نماز پڑھ سکے تو ضروری ہے کہ اس وقفے کے دوران نماز پڑھ لے اور اگر اسے صرف اتنی مہلت ملے جو نماز کے واجبات ادا کرنے کے لیے کافی ہو تو اس دوران صرف نماز کے واجبات انجام دے اور ضروری ہے کہ مستحب افعال مثلاً اذان، اقامت اور قنوت کو ترک کر دے۔

(۳۰۷) اگر کسی شخص کو (بیماری کی وجہ سے) وضو کر کے نماز کا کچھ حصّہ پڑھنے کی مہلت ملتی ہو اور نماز کے دوران ایک دفعہ یہ چند دفعہ اس کا پیشاب یا پاخانہ خارج ہوتا ہو تو احتیاط لازم یہ ہے کہ اس مہلت کے دوران وضو کر کے نماز پڑھے لیکن نماز کے دوران لازم نہیں ہے کہ پیشاب یا پاخانہ خارج ہونے کی وجہ سے دوبارہ وضو کرے۔

(۳۰۸)اگر کسی شخص کو پیشاب یا پاخانہ بار بار یوں آتا ہو کہ اسے وضو کر کے نماز کا کچھ حصہ پڑھنے کی بھی مہلت نہ ملتی ہو تو اس کا ایک وضو چند نمازوں کے لیے بھی کافی ہے۔ ماسوا اس کے کہ کوئی اور ایسی چیز پیش آ جائے جس سے وضو باطل ہو جاتا ہے۔ مثلاً سو جائے یا اس کا پیشاب و پاخانہ طبعی انداز سے معمول کے مطابق خارج ہو۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ ہر نماز کے لیے ایک بار وضو کرے لیکن قضا سجدے، قضا تشہد اور نماز احتیاط کے لیے دوسرا وضو ضروری نہیں ہے۔

(۳۰۹)اگر کسی شخص کو پیشاب یا پاخانہ بار بار آتا ہو تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وضو کے بعد فوراً نماز پڑھے اگرچہ بہتر ہے کہ نماز پڑھنے میں جلدی کرے۔

(۳۱۰)اگر کسی شخص کو پیشاب یا پاخانہ بار بار آتا ہو تو وضو کرنے کے بعد اگر وہ نماز کی حالت میں نہ ہو تب بھی اس کے لیے قرآن مجید کے الفاظ کو مس کرنا جائز ہے۔

(۳۱۱)جس شخص کو قطرہ قطرہ پیشاب آتا رہتا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ نماز کے لیے ایک ایسی تھیلی استعمال کرے جس میں روئی یا کوئی اور چیز رکھی ہو جو پیشاب کو دوسری جگہوں تک پہنچنے سے روکے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ ہر نماز سے پہلے نجس شدہ مقام پیشاب کو دھو لے۔ علاوہ ازیں جو شخص پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ جہاں تک ممکن ہو نماز پڑھنے تک پاخانے کو دوسری جگہوں تک پھیلنے سے روکے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ اگر باعث زحمت نہ ہو تو ہر نماز کے لیے مقعد کو دھوئے۔

(۳۱۲)جو شخص پیشاب یا پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو تو جہاں تک ممکن ہو نماز میں پیشاب یا پاخانہ روکے اور بہتر یہ ہے کہ اگر اس پر کچھ خرچ کرنا پڑے تو خرچ بھی کرے بلکہ اگر اس کا مرض آسانی سے دور ہو سکتا ہو توبہترہے کہ اپنا علاج کرائے۔

(۳۱۳)جو شخص اپنا پیشاب یا پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو اس کے لیے صحت یاب ہونے کے بعد یہ ضروری نہیں کہ جو نمازیں اس نے مرض کی حالت میں اپنے فریضے کے مطابق پڑھی ہوں ان کی قضا کرے لیکن اگر اس کا مرض نماز کے وقت کے دوران ہی دور ہو جائے تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ جو نماز اس وقت پڑھی ہو اسے دوبارہ پڑھے۔

(۳۱۴)اگر کسی شخص کو یہ عارضہ لاحق ہو کہ ریاح روکنے پر قادر نہ ہو تو ضروری ہے کہ ان لوگوں کے فریضے کے مطابق عمل کرے جو پیشاب اور پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہوں۔

وہ چیزیں جن کیلئے وضو کرنا ضروری ہے

(۳۱۵)چھ چیزوں کے وضو کرنا واجب ہے:

۱) نماز میت کے علاوہ واجب نمازوں کیلئے۔ مستحب نمازوں میں وضو شرط صحت ہے۔

۲) بھولے ہوئے سجدے اور تشہد کو انجام دینے کے لئے جبکہ ان کے اور نماز کے درمیان کوئی حدث اس سے سرزد ہوا ہو مثلاً اس نے پیشاب کیا ہو لیکن سجدہ ٴ سہو کے لیے وضو کرنا واجب نہیں۔

۳) خانہ کعبہ کے واجب طواف کے لیے جو حج اور عمرہ کا جز ہوتا ہے۔

۴) وضو کرنے کی نذر کی ہو (منت مانی ہو) یا عہد کیا ہو یا قسم کھائی ہو۔

۵) جب کسی نے منت مانی ہو کہ مثلاً قرآن مجید کا بوسہ لے گا۔

۶) نجس شدہ قرآن مجید کو دھونے کے لیے یا بیت الخلاء وغیرہ سے نکالنے کیلئے جبکہ متعلقہ شخص مجبور ہو کہ اس مقصد کے لئے اپنا ہاتھ یا بدن کا کوئی اور حصہ قرآن مجید کے الفاظ سے مس کرے لیکن وضو میں صرف ہونے والا وقت اگر قرآن مجید کو دھونے یا اسے بیت الخلاء سے نکالنے میں اتنی تاخیر کا باعث ہو جس سے کلام اللہ کی بے حرمتی ہوتی ہو تو ضروری ہے کہ وہ وضو کیے بغیر قرآن مجید کو بیت الخلاء وغیرہ سے نکال لے یا اگر نجس ہو گیا ہو تو اسے دھو ڈالے۔

(۳۱۶)جو شخص باوضو نہ ہو اس کے لیے قرآن مجید کے الفاظ کو مس کرنا یعنی اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کے الفاظ سے لگانا حرام ہے لیکن اگر قرآن مجید کا فارسی زبان میں یا کسی اور زبان میں ترجمہ کیا گیا ہو تو اسے مس کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

(۳۱۷)بچے اور دیوانے کو قرآن مجید کے الفاظ کو مس کرنے سے روکنا واجب نہیں لیکن اگر ان کے ایسا کرنے سے قرآن مجید کی توہین ہوتی ہو تو انہیں روکنا ضروری ہے۔

(۳۱۸)جو شخص باوضو نہ ہو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے ناموں اور ان صفتوں کو مس کرنا جو صرف اسی کے لیے مخصوص ہیں خواہ کسی زبان میں لکھی ہوں احتیاط واجب کی بنا پر حرام ہے اور بہتر یہ ہے کہ رسول اکرم اور آئمہ طاہرین ٪ اور حضرت فاطمہ زہرا کے اسمائے مبارکہ کو بھی مس نہ کرے۔

(۳۱۹)وضو جب بھی کیا جائے، چاہے نماز کا وقت آنے سے کچھ پہلے ، کافی دیر پہلے یا نماز کا وقت آ جانے کے بعد اگر قُرْبَةً اِلَی اللہ ِکی نیت سے کیا جائے تو صحیح ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ واجب یا مستحب ہونے کی نیت کی جائے بلکہ اگر غلطی سے وجوب کی نیت کر لے اور بعد میں معلوم ہو کہ ابھی وضو واجب نہیں ہوا تھا تو بھی صحیح ہے۔

(۳۲۰)اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ (نماز کا) وقت داخل ہو چکا ہے اور واجب وضو کی نیت کرے لیکن وضو کرنے کے بعد اسے پتا چلے کہ ابھی وقت داخل نہیں ہوا تھا تو اس کا وضو صحیح ہے۔

(۳۲۱)مستحب ہے کہ اگر انسان باوضو ہو تب بھی ہر نماز کے لیے دوبارہ وضو کرے۔ بعض فقہاء رضوان اللہ تعالیٰ علیہم نے فرمایا ہے کہ میت کی نماز کے لیے قبرستان جانے کے لیے ، مسجد یا آئمہ ٪کے حرم میں جانے کے لیے، قرآن مجید ساتھ رکھنے، اسے پڑھنے، لکھنے اور اس کا حاشیہ مس کرنے کے لیے اور سونے کے لیے وضو کرنا مستحب ہے۔ لیکن مذکورہ موارد میں وضو کا مستحب ہونا ثابت نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شخص مستحب ہونے کے احتمال کے ساتھ وضو کرے تو اس کا وضو صحیح ہے اور اس وضو کے ساتھ ہر دو کام کر سکتا ہے جو باوضو ہو کر کرنا ضروری ہے۔ مثلاً اس وضو کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے

 مبطلاتِ وضو

(۳۲۲)سات چیزیں وضو کو باطل کر دیتی ہیں:

(۱)پیشاب۔ جو مشکوک رطوبت پیشاب کے بعد اور استبراء سے پہلے انسان سے خارج ہوتی ہے وہ بھی پیشاب کا حکم رکھتی ہے۔

 (۲)پاخانہ ۔

(۳)ریاح یعنی معدے اور آنتوں کی ہوا جو مقعد سے خارج ہوتی ہے۔

(۴)نیند جس کی وجہ سے نہ آنکھیں دیکھ سکیں نہ کان سن سکیں لیکن اگر آنکھیں نہ دیکھ رہی ہوں مگر کان سُن رہے ہوں تو وضو باطل نہیں ہوتا۔

(۵)ایسی حالت جن میں عقل زائل ہو جاتی ہو مثلاً دیوانگی، مستی یا بے ہوشی ۔

(۶)عورتوں کا استحاضہ جس کا ذکر بعد میں آئے گا (۷)جنابت بلکہ احتیاط مستحب کی بنا پر ہر وہ کام جس کے لیے غسل کرنا ضروری ہے۔

تیمّم

سات صورتوں میں وضو اور غسل کے بجائے تیمم کرنا ضروری ہے:

تیمم کی پہلی صورت

(۶۳۸) اگر انسان آبادی میں ہو تو ضروری ہے کہ وضواور غسل کیلئے پانی مہیا کرنے کیلئے اتنی جستجو کرے کہ بالآ خر اس کے ملنے سے ناامید ہو جائے۔ یہی حکم بیابانوں میں دینے والے افراد مثلاً خانہ بدوشوں کیلئے ہے۔ اور اگر انسان سفر کے عالم میں ہواور بیابان میں ہو تو ضروری ہے کہ راستوں میں یا اپنے ٹھہرنے کی جگہ کے آس پاس والی جگہوں میں پانی تلاش کرے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ وہاں کی زمین ناہموار ہو یا درختوں کی کثرت کی وجہ سے راہ چلنا دشوار ہوتو چاروں اطراف میں سے ہر طرف پرانے زمانے میں کمان کے چلے پر چڑھا کر پھینکے جانے والے تیرکی پرواز ۱# کے فاصلے کے برابر پانی کی تلاش میں جائے۔ جب کہ ہموار زمین میں ہر طرف اندازاً دو بار پھینکے جانے والے تیرکے فاصلے کے برابر جستجو کرے۔

تیمم کی دوسری صورت

          پانی تک رسائی نہ ہونا۔

تیمم کی تیسری صورت

          پانی کے استعمال میں خوف ہو۔

تیمم کی چوتھی صورت

          حرج اور مشقت۔

تیمم کی پانچوں صورت

          پانی پیاس بجھانے کیلئے ضروری ہو۔

تیمم کی چھٹی صورت

          وضو یا غسل کا ٹکراؤ ایسی شرعی تکلیف سے ہورہا ہو جو ان سے زیادہ اہم ہو یا مساوی ہو۔

تیمم کی ساتویں صورت

          وقت کا تنگ ہونا۔

وہ چیزیں جن پر تیمم کرنا صحیح ہے

(۶۷۴) مٹی ، ریت ، ڈھیلے اور پتھر پر تیمم کرنا صحیح ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر مٹی میسر ہوتو کسی دوسری چیز پر تیمم نہ کیا جائے۔ اگر مٹی نہ ہو تو انتہائی باریک بجری پر جسے مٹی کہا جاسکے ، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ڈھیلے پر ، اگر ڈھیلا بھی نہ ہو تو پھر ریت پر اور اگر ریت اور ڈھیلا بھی نہ ہو تو پھر پتھر پر تیمم کیا جائے۔

(۶۷۵) جپسم اور چونے کے پتھر پر تیمم کرنا صحیح ہے نیز اس گرد وغبار پر جو قالین ، کپڑے اور ان جیسی دوسری چیزوں پر جمع ہو جاتا ہے اگر عرف عام میں اسے نرم مٹی شمار کیا جاتا ہو تو اس پر تیمم صحیح ہے ۔ اگر چہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اختیار کی حالت میں اس پر تیمم نہ کرے اسی طرح احتیاط مستحب کی بنا پر اختیار کی حالت میں پکے جپسم اور چونے پر اور پکی اینٹ اور دوسرے معدنی پتھر مثلا عقیق وغیرہ پر تیمم نہ کرے۔

(۶۷۶) اگر کسی شخص کو مٹی ، ریت ، ڈھیلے یا پتھر نہ مل سکیں تو ضروری ہے کہ تر مٹی پر تیمم کرے اور اگر ترمٹی نہ ملے تو ضروری ہے کہ قالین ، دری یا لباس اور ان جیسی دوسری چیزوں کے اندر یا اوپر موجود اس مختصر سے گردوغبار سے جو عرف میں مٹی شمار نہ ہوتا ہو تیمم کرے اور اگر ان میں سے کوئی چیز بھی دستیاب نہ ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ تیمم کے بغیر نماز پڑھے لیکن واجب ہے کہ بعد میں اس نماز کی قضا پڑھے۔

(۶۷۷) اگر کوئی شخص قالین ، دری اور ان جیسی دوسری چیزوں کو جھاڑ کر مٹی مہیا کرسکتا ہے تو اس کا گرد آلود چیز پر تیمم کرنا باطل ہے اور اسی طرح اگر تر مٹی کو خشک کرکے اس سے سوکھی مٹی حاصل کرسکتا ہو تو تر مٹی پر تیمم کرنا باطل ہے۔

(۶۷۸) جس شخص کے پاس پانی نہ ہو لیکن برف ہواور اسے پگھلا سکتا ہو تواسے پگھلا بنا نا اور اس سے وضو یا غسل کرنا ضروری ہے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو اور اس کے پاس کوئی ایسی چیز بھی نہ ہو جس پر تیمم کرنا صحیح ہو تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وقت گزرنے کے بعد نمازکو قضا کرے اور بہتر یہ ہے کہ برف سے وضو یا غسل کے اعضا کو تر کرے اور وضو میں ہاتھ کی رطوبت سے سراور پیروں کا مسح کرے اور اگر ایسا کرنا بھی ممکن نہ ہو تو برف پر تیمم کرلے اور وقت پر بھی نماز پڑھے ، البتہ دونوں صورتوں میں قضا ضروری ہے۔

(۶۷۹) اگر مٹی اور ریت کے ساتھ سوکھی گھاس کی طرح کی کوئی چیز ملی ہوئی ہو جس پر تیمم کرنا باطل ہو تو اس پر تیمم نہیں کرسکتا ۔ لیکن اگر وہ چیز اتنی کم ہو کہ اسے مٹی یا ریت میں نہ ہونے کے برابر سمجھا جاسکے تو اس مٹی اور ریت پر تیمم صحیح ہے۔

(۶۸۰) اگر ایک شخص کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہو جس پر تیمم کیا جاسکے اور اس کا خریدنا یا کسی اور طرح حاصل کرنا ممکن ہو توضروری ہے کہ اس طرح مہیا کرلے۔

(۶۸۱) مٹی کی دیوار پر تیم کرنا صحیح ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ خشک زمین یا خشک مٹی کے ہوتے ہوئے ترزمین یا ترمٹی پر تیمم نہ کیا جائے۔

(۶۸۲) جس چیز پر انسان تیمم کرے اس کا شرعاً پاک ہونا ضروری ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ عرفاً بھی پاکیزہ ہو یعنی اس میں کوئی ایسی چیز ملی ہوئی نہ ہو جس سے انسانی طبیعت کو گھن آتی ہو اگر اس کے پاس کوئی ایسی پاک چیز نہ ہو جس پر تیمم کرنا صحیح ہو تو اس پر نماز واجب نہیں لیکن ضروری ہے کہ اس کی قضابجالائے اور بہتر یہ ہے کہ وقت میں بھی نماز پڑھے ۔ ہاں اگر بات گرد آلود قالین وغیرہ تک آچکی ہو اور وہ نجس ہو ، احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس سے تیمم کرکے نماز پڑھے اور پھر بعد میں اس کی قضا بھی کرے۔

(۶۸۳) اگر کسی کو یقین ہو کہ ایک چیز پر تیمم کرنا صحیح ہے اور اس پر تیمم کرلے بعد ازاں اسے پتا چلے کہ اس چیز پر تیمم کرنا باطل تھا تو ضروری ہے کہ جو نمازیں اس تیمم کے ساتھ پڑھی ہیں وہ دوبارہ پڑھے۔

(۶۸۴) جس چیز پر کوئی شخص تیمم کرے ضروری ہے کہ وہ غصبی نہ ہو پس اگر وہ غصبی مٹی پر تیمم کرے تو اس کا تیمم باطل ہے۔

(۶۸۵) غصب کی ہوئی فضا میں تیمم کرنا باطل نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اپنی زمین میں اپنے ہاتھ مٹی پر مارے اور پھر بلااجازت دوسرے کی زمین میں داخل ہوجائے اور ہاتھوں کو پیشانی پر پھیرے تو اس کا تیمم صحیح ہوگا اگرچہ وہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے۔

(۶۸۶) اگر کوئی شخص بھولے سے یا غفلت سے غضبی چیز پر تیمم کرلے تو تیمم صحیح ہے لیکن اگر وہ خود کوئی چیز غصب کرے اور پھر بھول جائے کہ غصب کی ہے تو اس چیز پر تیمم کے صحیح ہونے میں اشکال ہے۔

(۶۸۷) اگر کوئی شخص غصبی جگہ میں قید کردیا گیا ہو اور اس جگہ کا پانی اور مٹی دونوں غصبی ہوں تو ضروری ہے کہ تیمم کرکے نماز پڑھے۔

(۶۸۸) جس چیز پر تیمم کیا جائے احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ اس پر کچھ گرد و غبار موجود ہو جو کہ ہاتھوں پر لگ جائے اور اس پر ہاتھ مارنے کے بعد ضروری ہے کہ اتنے زور سے ہاتھوں کو نہ جھاڑے کہ ساری گرد گر جائے۔

(۶۸۹) گڑھے والی زمین ، راستے کی مٹی اور ایسی شورزمین پر جس پر نمک کی تہہ نہ جمی ہو تیمم کرنا مکروہ ہے اور اگر اس پر نمک کی تہہ جم گئی ہو تو تیمم باطل ہے۔

وضو یا غسل کے بدلے تیمم کرنے کا طریقہ

(۶۹۰) وضو یا غسل کے بدلے کئے جانے والے تیمم میں تین چیزیں واجب ہیں۔

(۱) دونوں ہتھیلیوں کو ایک ساتھ ایسی چیز پر مارنا یا رکھنا جس پر تیمم کرنا صحیح ہوا۔ احتیاط لازم کی بنا پر دونوں ہاتھ ایک ساتھ زمین پر مارنے یارکھنے چاہئیں۔

(۲) دونوں ہتھیلیوں کو پوری پیشانی پر سر کے بال اگنے جگہ سے ابرواور ناک کے بالائی پھیرنا۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ہاتھ ابرو کے اوپر بھی پھیرے جائیں۔

(۳) بائیں ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی تمام پشت پر اور اس کے بعد دائیں ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی تمام پشت پر پھیرنا۔

ضروری ہے کہ تیمم ، قربة الی اللہ کی نیت سے انجام دے جیسا کہ وضو کے مسائل میں بتایا جاچکا ہے۔

(۶۹۱) احتیاط مستحب یہ ہے کہ تیمم خواہ وضو کے بدلے ہو یا غسل کے بدلے اسے ترتیب سے کیا جائے یعنی یہ کہ ایک دفعہ ہاتھ زمین پر مارے جائیں اور پیشانی اور ہاتھوں کی پیشت پر پھیرے جائیں اور پھر ایک دفعہ زمین پر مارے جائیں اور ہاتھوں کی پشت کا مسح کیا جائے۔

جبیرہ وضو کے احکام

          وہ چیز جس سے زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی باندھی جاتی ہے اور وہ دوا جو زخم یا ایسی ہی کسی چیز پر لگائی جاتی ہے جبیرہ کہلاتی ہے۔

(۳۲۳)اگر وضو کے اعضاء میں سے کسی پر زخم یا پھوڑا ہو یا ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو اور اس کا منہ کھلا ہو اور پانی اس کے لیے مضر نہ ہو تو اسی طرح وضو کرنا ضروری ہے جیسے عام طور پر کیا جاتا ہے۔

(۳۲۴)اگر کسی شخص کے چہرے اور ہاتھوں پر زخم یا پھوڑا ہو، یا ان میں سے کسی کی (چہرے یا ہاتھوں) ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو، اس کا منہ کھلا اور اس پر پانی ڈالنا نقصان دہ ہو تو اسے زخم یا پھوڑے کے آس پاس کا حصہ اس طرح اوپر سے نیچے کو دھونا چاہئے جیسا وضو میں بتایا گیا ہے اور بہتر یہ ہے کہ اگر اس پر تر ہاتھ کھینچنا نقصان دہ نہ ہو تو تر ہاتھ اس پر کھینچے اور اس کے بعد پاک کپڑا اس پر ڈال دے اور گیلا ہاتھ اس کپڑے پر بھی کھینچے۔ البتہ اگر ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو تو تیمم کرنا لازم ہے۔

(۳۲۵)اگر زخم یا پھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کسی شخص کے سر کے اگلے حصے یا پاؤں پر ہو اور اس کا منہ کھلا ہو اور وہ اس پر مسح نہ کر سکتا ہو کیونکہ زخم کی پوری جگہ پر پھیلا ہوا ہو یا مسح کی جگہ کا جو حصہ صحیح و سالم ہو اس پر مسح کرنا بھی اس کی قدرت سے باہر ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ تیمم کرے اور احتیاط مستحب کی بنا پر وضو بھی کرے اور پاک کپڑا زخم وغیرہ پر رکھے اور وضو کے پانی کی تری سے جو ہاتھوں پر لگی ہو کپڑے پر مسح کرے۔

(۳۲۶)اگر پھوڑے یا زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کا منہ کسی چیز سے بند ہو اور اس کا کھولنا بغیر تکلیف کے ممکن ہو اور پانی بھی اس کے لیے مضر نہ ہو تو اسے کھول کر وضو کرنا ضروری ہے خواہ زخم وغیرہ چہرے اور ہاتھوں پر ہو یا سر کے اگلے حصے اور پاؤں کے اوپر والے حصے پر ہو۔

(۳۲۷)اگر کسی شخص کا زخم یا پھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی جو کسی چیز سے بندھی ہوئی ہو اس کے چہرے یا ہاتھوں پر ہو اور اس کا کھولنا اور اس پر پانی ڈالنا مضر ہو تو ضروری ہے کہ آس پاس کے جتنے حصے کو دھونا ممکن ہو اسے دھوئے اور احتیاط واجب کی بنا پر جبیرہ پر مسح کرے۔

(۳۲۸)اگر زخم کا منہ نہ کھل سکتا ہو اور خود زخم اور جو چیز اس پر لگائی گئی ہو پاک ہو اور زخم تک پانی پہنچانا ممکن ہو اور مضر بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کو زخم کے منہ پر اوپر سے نیچے کی طرف پہنچائے اور زخم یا اس کے اوپر لگائی گئی چیز نجس ہو اور اس کا دھونا اور زخم کے منہ تک پانی پہنچانا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ اسے دھوئے اور وضو کرتے وقت پانی زخم تک پہنچائے اور اگر پانی زخم کے لیے مضر تو نہ ہو لیکن زخم کو دھونا ممکن نہ ہو یا اسے کھیلنا ضرریا مشقت کا باعث ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کرے۔

(۳۲۹)اگر جبیرہ اعضائے وضو میں سے کسی ایک یا پورے حصے پر پھیلا ہوا ہو تو جبیرہ وضو کافی ہے لیکن اگر جبیرہ تمام اعضائے وضو یا زیادہ تر اعضاء پر پھیلا ہوا ہو تو احتیاط کی بنا پر تیمم کرنا ضروری ہے اور جبیرہ وضوبھی کرے۔

(۳۳۰)یہ ضروری نہیں کہ جبیرہ ان چیزوں میں سے ہو جن کے ساتھ نماز پڑھنا درست ہے بلکہ اگر وہ ریشم یا ان حیوانات کے اجزا سے بنی ہو جن کا گوشت کھانا جائز نہیں تو ان پر بھی مسح کرنا جائز ہے۔

(۳۳۱)جس شخص کی ہتھیلی اور انگلیوں پر جبیرہ ہو اور وضو کرتے وقت اس نے تر ہاتھ اس پر کھینچا ہو تو وہ سر اور پاؤں کا مسح اسی تری سے کرے۔

(۳۳۲)اگر کسی شخص کے پاؤں کے اوپر والے پورے حصے پر جبیرہ ہو لیکن کچھ حصہ انگلیوں کی طرف سے اور کچھ حصہ پاؤں کے اوپر والے حصے کی طرف سے کھلا ہو تو جو جگہیں کھلیں ہیں وہاں پاؤں کے اوپر والے حصے پر اور جن جگہوں پر جبیرہ ہے وہاں جبیرہ پر مسح کرنا ضروری ہے۔

(۳۳۳)اگر چہرے یا ہاتھوں پر کئی جبیرے ہوں تو ان کا درمیان حصہ دھونا ضروری ہے اور سر یا پاؤں کے اوپر والے حصے پر جبیرے ہوں تو ان کے درمیانی حصے کا مسح کرنا ضروری ہے اور جہاں جبیرے ہوں وہاں جبیرے کے بارے میں احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔

(۳۳۴)اگر جبیرہ زخم کے آس پاس کے حصوں کو معمول سے زیادہ گھیرے ہوئے ہو اور اس کو ہٹانا بغیر تکلیف کے ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کرے بجز اس کے کہ جبیرہ تیمم کی جگہوں پر ہو کیونکہ اس صورت میں ضروری ہے کہ وضو اور تیمم دونوں کرے اور دونوں صورتوں میں جبیرہ کا ہٹانا بغیر تکلیف کے ممکن ہو تو ضروری ہے کہ اسے ہٹا دے۔ پس اگر زخم چہرے یا ہاتھوں پر ہو تو اس کے آس پاس کی جگہوں کو دھوئے اور اگر سر یا ؤں کے اوپر والے حصے پر ہو تو اس کے آس پاس کی جگہوں کا مسح کرے اور زخم کی جگہ کے لیے جبیرہ کے احکام پر عمل کرے۔

(۳۳۵)اگر وضو کے اعضاء پر زخم نہ ہو یا ان کی ہڈی ٹوٹی ہوئی نہ ہو لیکن کسی اور وجہ سے پانی ان کے لیے مضر ہو تو تیمم کرنا ضروری ہے۔

(۳۳۶)اگر وضو کے اعضاء کی کسی رگ سے فصد کھلوانے کے طریقے سے خون نکالا گیا ہو اور اسے دھونا ممکن نہ ہو تو تیمم کرنا لازم ہے۔ لیکن اگر پانی اس کے لیے مضر ہو تو جبیرہ کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔

(۳۳۷)اگر وضو یا غسل کی جگہ پر کوئی ایسی چیز چپک گئی ہو جس کا اتارنا ممکن نہ ہو یا اسے اتارنے کی تکلیف ناقابل برداشت ہو تو متعلقہ شخص کا فریضہ تیمم ہے۔ لیکن اگر چپکی ہوئی چیز تیمم کے مقامات پر ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ وضو اور تیمم دونوں کرے اور اگر چپکی ہوئی چیز دوا ہو تو وہ جبیرہ کے حکم میں آتی ہے۔

(۳۳۸)غسل میت کے علاوہ تمام قسم کے غسلوں میں جبیرہ غسل، جبیرہ وضو کی طرح ہے لیکن احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ غسل کو ترتیبی طریقے سے انجام دیا جائے اور اگر بدن پر زخم یا پھوڑا ہو تو مکلّف کو غسل یا تیمم کا اختیار ہے۔ اگر وہ غسل کو اختیار کرتا ہے اور زخم یا پھوڑے پر جبیرہ نہ ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ زخم یا پھوڑے پر پاک کپڑا رکھے اور اس کپڑے کے اوپر مسح کرے۔ اگر بدن کا کوئی حصہ ٹوٹا ہوا ہو تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور احتیاطاً جبیرہ کے اوپر بھی مسح کرے اور اگر جبیرہ پر مسح کرنا ممکن نہ یا جو جگہ ٹوٹی ہوئی ہے وہ کھلی ہو توتیمم کرنا ضروری ہے۔

(۳۳۹)جس شخص کا فریضہ تیمم ہو اگر اس کی تیمم کی بعض جگہوں پر زخم یا پھوڑا ہو یا ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو تو ضروری ہے کہ وہ جبیرہ وضو کے احکام کے مطابق جبیرہ تیمم کرے۔

(۳۴۰)جس شخص کو جبیرہ وضو یا جبیرہ غسل کر کے نماز پڑھنا ضروری ہو اگر اسے علم ہو کہ نماز کے آخر وقت تک اس کا عذر دور نہیں ہو گا تو وہ اوّل وقت میں نماز پڑھ سکتا ہے لیکن اگر اسے امید ہو کہ آخر وقت تک اس کا عذر دور ہو جائے گا تو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ انتظارکرے اور اگر اس کاعذر دور نہ ہو تو آخر وقت میں جبیرہ وضو یا جبیرہ غسل کے ساتھ نماز ادا کرے لیکن اگر اوّل وقت میں نماز پڑھ لے اور آخر وقت تک اس کا عذر دور ہو جائے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ وضو یا غسل کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔

(۳۴۱)اگر کسی شخص نے آنکھ کی سی بیماری کی وجہ سے پلکوں کے بالوں کو چپکا کر رکھا ہو تو ضروری ہے کہ وہ تیمم کرے۔

(۳۴۲)اگر کسی شخص کو یہ علم نہ ہو کہ آیا اس کا فریضہ تیمم ہے یا جبیرہ وضو، تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے تیمم اور جبیرہ وضو دونوں بجا لانے چاہئیں۔

(۳۴۳)جو نمازیں کسی انسان نے جبیرہ وضو سے پڑھی ہوں وہ صحیح ہیں اور وہ اسی وضو کے ساتھ آئندہ کی نمازیں بھی پڑھ سکتا ہے۔

واجب غسل

واجب غسل سات ہیں:

(۱) غسل جنابت (۲) غسل حیض (۳) غسل نفاس (۴)غسل استحاضہ(۵) غسل مس میت (۶) غسل میت(۷) وہ غسل جو منت یا قسم وغیرہ کی وجہ سے واجب ہو جائے۔

          اور اگر چاند یا سورج کو مکمل گرہن لگا ہو اور مکلّف جان بوجھ کر نماز آیات نہ پڑھے یہاں تک کہ نماز قضا ہو جائے تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس کی قضا کے لیے غسل کرے۔