جن کتب حدیث میں یہ احادیث موجود ہیں
ان تمام کتب،جوامع اور اصول کو تلاش کرکے ایک جگہ جمع کرناانتہائی مشکل ہے جن میں یہ احادیث موجود ہیں سردست ہم شیعہ وسنی کتب میں سے صرف چند کتب کا تذکرہ کررہے ہیں۔
شیعہ کتب
۱۔الصراط المستقیم الی مستحق القدیم۳جلدیں۔
۲۔اثبات الہداة شیخ حرعاملی، جو کچھ عرصہ پہلے ۷ جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔
۳۔کفایة الاثر۔
۴۔مقتضب الاثر۔
۵۔مناقب شہر آشوب(۱)
---------
(۱) ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب ”متشابہ القرآن و مختلفہ“ج۲ ص۵۵پراس حدیث کے راویوںمیں دیگر اصحاب کا نام بھی ذکرکیاہے۔
۶۔بحارالانوار۔
۷۔عوالم ۔
۸۔منتخب الاثر۔
کتب اہل سنت
۱۔صحیح بخاری، ۲۔صحیح مسلم، ۳۔سنن ترمذی، ۴۔سنن ابی داؤد، ۵۔مسند احمد، ۶۔مسند ابی داؤد طیالسی، ۷۔تاریخ بغداد، ۸۔تاریخ ابن عساکر، ۹۔مستدرک حاکم، ۱۰۔تیسیرالوصول، ۱۱۔منتخب کنزالعمال، ۱۲۔کنزالعمال، ۱۳۔الجامع الصغیر، ۱۴۔تاریخ الخلفاء، ۱۵۔مصابیح السنہ، ۱۶۔الصواعق المحرقہ، ۱۷۔الجمع بین الصحیحین، ۱۸۔معجم طبرانی، ۱۹۔التاج الجامع للاصول۔
مضمون احادیث
ہم یہاں ان ر وایات میں سے صرف چند کا تذکرہ کررہے ہیں تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ مذہب شیعہ اثنا عشری کی بنیاد تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک قابل قبول اورمعتبر مدارک ومنابع پر ہے، اور ”اثنا عشری“ کا نام زبان وحی ورسالت یعنیحضرت خاتم الانبیاء کے معجزنما کلام سے ماخوذ ہے۔
۱۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں عالی اسناد کے ساتھ ۳۵ روایات پیغمبر اکرم سے نقل کی ہیں جن کا مضمون یہ ہے کہ آنحضرت کے بعد آپ کے جانشین اور امت کے رہبروں کی تعدادبارہ ہوگی
مسند احمد بن حنبل اہل سنت کی مسانید وجوامع اور کتب حدیث کی معتبر ترین کتاب شمار کی جاتی ہے، احمد بن حنبل نے ایک روایت اپنے اسناد کے ساتھ پیغمبر کے مشہور صحابی جابر بن سمرہ سے نقل کی ہے، جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ ”میں نے پیغمبر کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
”یکون لہٰذہ الامة اثنا عشر خلیفة“(۱)
”اس امت میں بارہ افراد (میرے) خلیفہ ہوں گے۔“
اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ صرف مذہب شیعہ اثنا عشری کا ہی یہ نظریہ ہے۔
۲۔ ابن عدی نے کامل میں اور ابن عساکر نے ابن مسعود سے یہ روایت نقل کی ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:
”انّ عدّة الخلفاء بعديعِدّةُ نقباء موسی(ع)“(۲) ”میرے جانشینوں کی تعداد نقباء موسیٰ کی تعداد کے برابر ہے،، جنکی تعداد متفقہ طور پر بارہ تھی
۳۔ طبرانی نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ پیغمبراکرم نے فرمایا:
<یکون من بعدي اثنیٰ عشر خلیفة کلّہم من قریش>(۳)
”میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے جو سب کے سب قریش سے ہوں گے۔“
۴۔ابن نجار نے انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ پیغمبراکرم نے فرمایا:
”لن یزال ھٰذا الدینُ قائماً الی اثنی عشر من قریش فاذا ھلکوا ماجت الارض باٴہلھا“(۴)
”یہ دین اس وقت تک قائم رہے گاجب تک قریش کے بارہ خلیفہ نہ ہوجائیں جب ان کی رحلت ہوجائے گی توزمین اپنے اہل کے ساتھ مضطرب ہوجائے گی۔“
۵۔دیلمی نے فردوس الاخبار میں ابوسعید خدری سے روایت کی ہے کہ پیغمبراکرم ہم لوگوں کے ساتھ پہلی نماز اداکرنے کے بعد ہم لوگوں کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا: اے گروہ اصحاب!
--------
(۱)بحوالہ منتخب الاثر، ص۱۲
(۲)الجامع الصغیر،ج۱ص۹۱طبع چہارم
(۳)کنز العمال، ج۱ص۳۳۸،ج۶ص۲۰۱۔
(۴)کنز العمال،ج۶ص۲۰۱ ح ۳۴۸۳۔
بے شک تمہارے درمیان میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح اور باب حطہٴ بنی اسرائیل کی ہے پس میرے بعد میرے اہل بیت سے متمسک رہنا جو راشدو رہبر میری ذریت سے ہیں (اگرتم نے ایسا کیا) تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔“
”فقیل: یا رسول اللہ کم الائمةُ بعدک؟ قال اثنا عشر من اھل بیتي(اوقال) من عترتي“
سوال کیا گیا: اے رسول خدا آپ کے بعد کتنے ائمہ ہوں گے؟ آپ نے فرمایا:بارہ افراد میرے اہل بیت میں سے“ یا فرمایا ”میری عترت میں سے“(۱)
۶۔غایة الاحکام کے شارح نے اپنی اسناد کے ساتھ ابوقتادہ سے حدیث نقل کی ہے کہ ابوقتادہ نے کہا :”میں نے پیغمبر اکرم کو کہتے ہوئے سنا“
”الائمة بعدي اثنا عَشَرَعد داً نقباءِ بني اسرائیل وحوا ري عیسیٰ“(۲)
اس قسم کی روایات کتب اہلسنت میں بہت ہیں بطور نمونہ یہی روایات کافی ہیں۔
۷۔فاضل قندوزی نے ابوالفضیل عامر بن واثلہ سے، انہوں نے حضرت علی سے اورآپ نے پیغمبراکرم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ”اے علی تم میرے وصی ہو، تمہاری جنگ میری جنگ اور تمہاری صلح میری صلح ہے،تم امام اور والد امام ہو، گیارہ اماموں کے والدہو، جو سب کے سب پاک اور معصوم ہیں انھیںمیں سے مہدی بھی ہیں جو زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے“(۳)
۸۔فاضل قندوزی نے ہی یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا ”میرے بعد بارہ امام ہوں گے اے علی جن میں سے پہلے امام تم ہو اور آخری امام( قائم) ہے جس کے ہاتھوں
---------
(۱)عبقات الانوار، ج۲ص۲۴۶۔
(۲)کشف الاستار،ص۷۴۔
(۳) ینابیع المودة،ص۵۔
پر خدا مشرق ومغرب کی فتح عطا کرے گا“(۱)
۹۔حموئی نے ”فرائد السمطین“ اور سید علی ہمدانی نے ”مودة القربیٰ“ میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:
”انا سید النبیین وعلي بن ابیِ طالب سید الوصیین وانّ اوصیائیِ اثنا عشر اولہم علي بن ابیِ طالب وآخرہم القائم“(۲)
”میں سید الانبیاء ہوں اور علی سید الاوصیاء ہیں اور میرے بارہ جانشین ہیں جن میں پہلے علی اور آخری قائم( عجل اللہ تعالیٰ فرجہ)ہیں۔
۱۰۔روضة الاحباب اور فرائد السمطین میں ابن عباس سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا: میرے اوصیاء اور جانشین اور میرے بعد مخلوق پر حجت خدا بارہ افراد ہیں جن میں پہلا میرا بھائی اور آخری میرا فرزند ہے۔
سوال کیا گیا: یا رسول اللہ آپ کا بھائی کون ہے؟
آپ نے فرمایا: علی بن ابی طالب
سوال کیا گیا: آپ کا فرزند کون ہے؟
آپ نے فرمایا: مہدی ،جو زمین کو اسی طرح عدل وانصاف سے بھر دے گا جیسے وہ ظلم وجور سے بھری ہوگی۔ قسم اس ذات کی جس نے مجھے بشیر(بشارت دینے والا) بناکر مبعوث کیا اگر دنیا کی زندگی کا صرف ایک دن باقی رہ جائے گا توبھی خدااس دن کو اتنا طویل بنادے گا کہ میرا فرزند مہدی ظاہر ہو ،اور عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہوکر ان کی اقتدا میں نماز ادا کریں، مہدی کے نور سے زمین منورہوجائے اور مشرق ومغرب تک اس کی حکومت پھیل جائے (۳)
---------
(۱)ینابیع المودة،ص۴۹۳۔
(۲)ینابیع المودة، ص۲۵۸/۴۴۵، کشف الاستار،ص۷۴۔
(۳)ینابیع المودة،ص۴۴۷، عبقات،ج۲ص۲۳۷ج۱۲
۱۱۔غایة الاحکام کے شارح نے امام حسین سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”ہم میں بارہ مہدی ہیں جن میں پہلے علی بن ابی طالب اور آخری قائم ہیں“(۱)
۱۲۔حموئی او رہمدانی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:
”انا وعلی والحسن والحسین وتسعة من ولد الحسین مطہرون معصومون“(۲)
”میں اور علی اور حسن وحسین اورحسین کی نسل سے نو فرزند معصوم ومطہر ہیں“۔
۱۳۔خوارزمی نے ”مقتل الحسین “اور ”مناقب“ میں نیز ہمدانی نے ”مودة القربیٰ“ میں جناب سلمانۻ سے روایت نقل کی ہے کہ میں ایک روز پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ حسین آپ کے زانو پر ہیں اور آپ کبھی حسین کی آنکھوں کا بوسہ لے رہے تھے کبھی ہونٹ چوم رہے تھے اور فرمایا تم مولیٰ، فرزند مولیٰ ہو، تم امام فرزند امام برادر امام او رپدر امام ہو تم حجت خدا بھی ہو اور حجت خدا کے فرزند بھی اور تمہاری نسل میں نو حجت خدا ہیں ان میں سے نواں”قائم “ ہے۔(۳)
مذکورہ روایت سے زیادہ مفصل وہ احادیث ہیں جن میں حضرت علی سے لے کر حضرت مہدی تک تمام بارہ ائمہ کے نام بیان کئے گئے ہیں اور ان تفصیلی روایات سے ان روایات کا مقصود واضح ہوجاتا ہے جن میں صرف بارہ کی عدد بیان ہوئی ہے۔
شیعہ ذرائع کے لحاظ سے تو یہ روایتیں بہت زیادہ بلکہ متوا ترہیں،اہل سنت نے اپنے ذریعوں سے بھی انھیں نقل کیا ہے،اور اہل سنت کی روش کے مطابق بھی بارہ کی تعداد والی ،اُن روایات سے اِن روایتوں کی تائید وتصدیق ہوتی ہے جو ان کی صحیح کتب میں موجود ہیں۔
---------
(۱)کشف الاستار،ص۷۴، عبقات،ج۲ج۱۲ص۲۴۰
(۲)ینابیع المودة،ص۲۵۸، ۴۵۵
(۳)مقتل الحسین،ج۱ص۹۴، ینابیع ا لمودة،ص۲۵۸،۴۹۲۔
۱۴۔جناب جابر کی روایت جو روضة الاحباب اور مناقب میں نقل ہوئی ہے(۱)
۱۵۔ابوسلمیٰ (پیغمبر کے اونٹ کے رکھوالے)کی روایت جسے خوارزمی اورقندوزی نے نقل کیا ہے (۲)
۱۶۔امیرالمومنین حضرت علی کی روایت جسے خوارزمی نے نقل کیا ہے(۳)
۱۷۔وہ روایت جسے حافظ ابوالفتح محمدبن احمد بن ابی الفوارس (متوفی۴۱۲) نے اپنی اسناد کے ساتھ اپنی کتاب اربعین میں پیغمبر سے نقل کیا ہے، اربعین کی اس حدیث میں پیغمبر نے امیرالمومنین سے لے کر امام علی نقی تک تمام ائمہ کا نام ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
”ومَن اٴحبّ ان یلقی اللہ عزّوجلّ وھو من الفائزین فلیتولّ ابنہ الحسن العسکري ومَن احبّ ان یلقی اللہ عزوجل”ومَن اٴحبّ ان یلقی اللہ عزّوجلّ وھو من الفائزین فلیتولّ ابنہ الحسن العسکري ومَن احبّ ان یلقی اللہ عزوجل وقدکمل ایمانہ وحَسُنَ اسلامہ فلیتول ابنہ المنتظر محمداً صاحب الزمان المہدي فہولاء مصابیح الدجیٰ وائمة ٰالھدی واعلام التقیٰ فمن احبّھم وتولّاھم کنت ضامناً لہ علیٰ الجنة“(۴)
”جو شخص خدائے عزوجل سے اس عالم میں ملاقات کرنا چاہتا ہے کہ وہ فائزین میں سے ہو تو ان کے فرزند حسن عسکری کی محبت اس کے دل میں ہونا چاہئے اور جو اس انداز میں خدائے عزوجل سے ملاقات کا خواہاں ہے کہ اس کا ایمان کامل اور اسلام بہترین ہو تو اسے ان کے فرزند منتظر ، محمد ، صاحب الزمان مہدی کی ولایت سے سرشار ہونا چاہئے، یہی حضرات ہدایت کے روشن چراغ، ائمہٴ ہدیٰ اور تقویٰ کی علامت ہیں، جو ان سے محبت کرے ان کی ولایت کا اقرار کرے،میں اس کی جنت کا ضامن ہوں۔“
---------
(۱)عبقات،ص۲۳۸ج۲ج۱۲، ینابیع المودة،ص۴۹۴۔
(۲)مقتل الحسین،ج۱ص۹۵، ینابیع المودة،ص۴۸۶، فرائد السمطین،ج۲۔
(۳)مقتل الحسین،ج۱ص۹۴فصل۶۔
(۴)عبقات ج ۲ ج ۱۲ ص ۲۵۳و ۲۵۴،کشف الاستارص۲۷و۲۹،اربعین کاخطی نسخہ حدیث۴
جن روایات کا تذکرہ ہم نے کیا ہے اگر ان میں ائمہ کے اسمائے مبارکہ نہ بھی ہوتے اور صرف بارہ ائمہ کے عددپر ہی اکتفا کی گئی ہوتی تب بھی کافی تھا کیوں کہ ان ائمہ ھدیٰ علیہم السلام اور مذہب شیعہ اثنا عشری کے علاوہ کسی اور مذہب ومسلک سے یہ روایات مطابقت نہیں رکھتیں، یہ روایات اتنی قوی، معتبر اور متواتر ہیں کہ اہل سنت کی جانب سے بے جا توجیہ وتفسیر کی کوشش تو کی گئی مگر کسی نے بھی ان کی صحت کے بارے میں شک وشبہ کا اظہار نہیں کیا، ہم نے اپنی کتاب منتخب الاثر کے حاشیہ پر بھی یہ ثابت کیا ہے کہ بیحد کوششوں کے باوجود ان کی جانب سے اس کی کوئی قابل قبول توجیہ پیش نہیں کی جاسکی ہے،چنانچہ یہ احادیث براہ راست مذہب شیعہ کی صداقت وحقانیت کا اعلان کرتی ہیں۔
اسی لئے اہل سنت کے بہت سے علماء مثلا علامہ کبیر شیخ ،نفیس کتاب ”اظہارالحق“ اور دیگر کتب کے مولف، ینابیع المودة کے مولف فاضل قندوزی، دراسات اللبیب اور مواہب سید البشر فی حدیث الائمة الاثنی عشر“ کے مولف علامہ محمد معین بن محمد امین سندی، ”روضة الاحباب“ کے مولف سید جمال الدین ”الفصول المہمة“ کے مولف ابن الصباغ مالکی، ”تذکرة الخواص“ کے مولف سبط ابن جوزی، ”شواہد النبوہ“ کے مولف نورالدین عبدالرحمن جامی، ”کفایة الطالب“ اور ”البیان“ کے مولف حافظ ابی عبداللہ گنجی شافعی، ”مطالب السئول“ کے مولف کمال الدین محمد بن طلحہ شافعی، ”ابطال نہج الباطل“ کے مولف اور ”الشمائل“ کے شارح قاضی روزبہان، ابن خشاب مولفِ موا لید الائمہ، شیخ سعد الدین حموئی، خواجہ محمد پارسا، حافظ ابو الفتح، محمد بن ابی الفوارس، عبدالحق دہلوی، صلاح الدین صفدی، جلال الدین رومی، شیخ عبدالرحمن صاحب ”مرآة الاسرار“ قاضی شہاب الدین دولت آبادی صاحب تفسیر ”البحرالمواج“ و”ہدایة السعداء“ عبداللہ بن محمد المطیری مدنی صاحب ”الریاض الزاہرة“ محمدبن ابراہیم حموینی شافعی صاحب ”فرائد السمطین“ قاضی بہلول بہجت آفندی، شمس الدین زرندی، جامعہٴ ازہر کے وائس چانسلر اور ”الاتحاف“ کے مولف شبراوی، لوامع العقول کے مولف شیخ ضیاء الدین احمد کشمخانوی جیسے بہت سے علماء نے صراحت کے ساتھ بارہ اماموں کی امامت کا اعتراف کیا ہے اور ان کے فضائل ومناقب اپنی کتب میں تحریر فرمائے ہیں۔(۱)
بارہ اماموںسے متعلق مذکورہ روایات واحادیث سے مذہب شیعہ کی حقانیت روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے۔ ان روایات سے حضرت مہدی کی امامت کا ثبوت اتنا واضح اور مسلم ہے کہ امام ابوداؤد نے بارہ اماموں سے متعلق روایات کو کتاب ”المہدی“ میں نقل کیا ہے ،واضح رہے کہ امام ابوداؤد کا شمار اہل سنت کے معتبر ترین اور معروف ترین افراد میں ہوتا ہے اور ان کی کتاب(سنن) ”صحاح ستہ“ میں شامل ہے۔
مزید وضاحت کے لئے ہم اپنی کتاب منتخب الاثر سے چند اعداد وشمار پیش کررہے ہیں ہر چند ہمیں اعتراف ہے کہ ابھی بھی ہم تمام کتب کا احاطہ نہیں کرسکے ہیں۔
خ ۲۷۱ ،احادیث بارہ ائمہ کی امامت پر دلالت کرتی ہیں۔
خ۹۴،احادیث میں مذکور ہے کہ حضرت مہدی ان ائمہ کی آخری فردہیں۔
خ ۹۱، احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی ان میں سب سے پہلے اور مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ بارہویں فرد ہیں۔
خ۱۰۷، روایات میں مذکور ہے کہ امام بارہ ہوں گے جن میں سے نو ائمہ امام حسین کی نسل
-------
(۱)حسن اتفاق سے شیعوں اور سنیوں کے درمیان قربت پیدا کرنے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ مدینہ منورہ میں مسجد النبی کے دروازوں پر بارہ اماموں کے نام آج بھی لکھے ہوئے ہیں، جب کہ ملک سعود بن عبدالعزیز اور ملک فیصل کے زمانہ میں مسجد کی دوبارہ تعمیر وتوسیع کی گئی، معتبر تاریخ کے مطابق ائمہ کے نام مسجد کی تعمیر نو سے پہلے بھی مسجد میں لکھے ہوئے تھے، بس فرق یہ ہے کہ تعمیر نو اور تجدید وتوسیع سے پہلے ائمہ معصومین کے اسماء ترتیب وار لکھے ہوئے تھے ۔
لیکن اب ائمہٴ معصومین کے اسماء کے درمیان اصحاب اور ائمہ اربعہ کے نام بھی داخل کردئے گئے ہیں، ان میں حضرت مہدی کا نام اس عبارت کے ساتھ تحریر ہے ”محمد المہدی رضی اللہ عنہ“باب مجیدی سے اگر کوئی مسجدکے پہلے صحن میں داخل ہوتو اسے آپ کا نام نامی بالکل درمیان میں نظر آئے گا۔
سے ہوں گے اور ان میں نویں حضرت قائم عج ہیں۔
خ ۵۰، احادیث میں بارہ ائمہ کے نام صراحت کے ساتھ موجود ہیں۔
اس مقام پر جو اعداد وشمار پیش کئے گئے ہیں وہ ”منتخب الاثر“ کی بنیا د پر ہیں جب کہ ان موضوعات سے متعلق روایات ان سے کئی گنا زیادہ ہیں، انشہ المستعان اپنی آئندہ کتاب میں ہم اس سے زیادہ جامع اور تفصیلی اعداد وشمارشیعہ معاشرہ اور حق جو محققین کی خدمت میں پیش کریں گے۔
وماتوفیقي الاباللہ علیہ توکّلت والیہ اٴُنیب۔
|