کون ہیں صدیق اور صدیقہ
 

ہفتم :ـ ایمان واقعی اور فنا فی اللہ ہونا ۔
خداوند عالم کی بندگی کی مہمترین خصوصیت یہ ہے کہ انسان ذات خدا میں فنا ہوجائے ، پیغمبرامین ۖ کی اطاعت میں کمال تک پہنچ جائے اور دعوت اسلام کی نشر و اشاعت میں اپنی جان و مال سے انتہائی کوشش کرے ۔
نیز مصدق وہ شخص ہے کہ جس چیز پر ایمان لایا ہے اس کو اپنے عمل سے ثابت کردکھائے اور اپنی زندگی کے ڈھانچے میں اس کو مجسم بناکر پیش کرے اور صدیق وہ شخص ہے کہ جس کا مقام و مرتبہ اس سے بھی بلند و بالا ہو،وہ فناء کی انتہا کو پہنچ جائے نہ یہ کہ اپنی ذاتی مصلحت اور خود غرضی کو مقدم رکھے جیسا کہ یہ کارنامے ابوبکر کی سیرت میںمشاہد ہ کرتے ہیں۔

٢٢٣
حضرت امیر المؤمنین سے روایت ہے کہ آپ نے ایک روز جنگ صفین کے دوران فرمایا:
ہم لوگ حضرت پیغمبراکرمۖ کے ہمراہ جنگوں میں شریک تھے اور اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے باپ ، بیٹے ، بھائی اور چچاؤں کو قتل کرتے اور ان کو خاک و خون میں غلطاں کرتے تھے اور یہ عزیز واقارب و رشتہ داروں کا قتل ہمیں رنجیدہ خاطر نہیں کرتا تھا بلکہ ہمارے ایمان میں استواری واستحکام پیدا ہوتا چونکہ ہم راہ حق پر ثابت قدم اور گامزن تھے ہم سختیوں میں صابر اور دشمن سے جہاد میں کوشا رہتے ، کبھی کبھی ہم میں سے اور دشمن کے لشکر سے ایک ایک و تنہا تنہا کی جنگ ہوتی اور بالکل ایسے ہی کہ جیسے دو بجھار(سانڈ) آپس میں لڑپڑے ہوں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے اور ایک کوشش کرتا کہ دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار دے اور اس کو مار کے ہی دم لے ، کبھی کامیابی ہمارے نصیب میں آتی تو کبھی دشمن کامیاب ہوجاتا ۔
چونکہ خداوندعالم نے ہمیںآزمالیا اور اچھی طرح پرکھ لیا ہمارے صدق و صفائی کودیکھ لیا تو ہمارے دشمن کو ذلیل کردیا ہمارے پرچم کو سر بلند کردیا جیسا کہ اب اسلام ہر شہر و قریہ اور ہر علاقہ میں پھیلا ہوا ہے اور دور دراز تک حکومت اسلامی قائم ہے ۔
میری جان کی قسم اگر ہماری رفتار آپ لوگوں کی طرح ہوتی تو نہ دین کا ستون قائم ہوتااورنہ ایمان کا درخت ہرا بھرا ہوتا، خدا کی قسم اس کے بعد خون جگر پیوگے پشیمانی و شرمندگی اٹھاؤ گے ۔(١)
..............
(١) نہج البلاغہ، خطبہ ٥٦۔ اور دیکھیے : ارشاد مفید :١ ٢٦٨۔ کتاب سلیم ابن قیس ٢٤٧۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :٤ ٣٣۔

٢٢٤
آپ ہی سے روایت ہے کہ پیغمبراکرمۖ نے مجھے بلایا اور فرمایا : قریش نے ایسے ایسے میرے قتل کا پروگرام بنایا ہے آج آپ میرے بستر پر سوجاؤ اور میں رات کی تاریکی میں شہر مکہ سے باہر چلاجاؤں چونکہ خداوندعالم نے مجھے اس کا م کے لیے حکم دیا ہے ۔
میں نے آنحضرت سے عرض کیا : میں دل و جان سے حاضر ہوں ، میں آپ کے بستر پر سوگیا رسول خدا ۖ نے دروازہ کھولا جبکہ تمام لوگ صبح کے انتظار میں آپ کو قتل کرنے کے لیے آمادہ بیٹھے ہوئے تھے آپ یہ پڑھتے ہوئے باہر نکل گئے (وجعلنامن بین ایدیھم سدا و من خلفھم سدا فاغشیناھم فھم لا یبصرون)(١)
ہم نے ان کے سامنے اور پیچھے دیوار حائل کردی اور ان کی آنکھوں کو ڈھانپ دیا ، پس وہ لوگ دیکھ نہیں سکتے ۔
اس طرح پیغمبراکرم ۖ ان کے درمیان سے نکل گئے اور ان لوگوں نے آپۖ کو نہیں دیکھا ۔ (٢)
نیز حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے ۔
حضرت محمد مصطفی ۖ کے وہ اصحاب کہ جو اسرار الہٰی کے خزانہ دار ہیں اور کتاب و سنت کے امانتدار ہیں وہ جانتے ہیں کہ میں نے لمحہ بھر کے لیے بھی خدااور رسول ۖکے فرمان سے منھ نہیں موڑا ، جان و دل سے پیغمبراکرم ۖ کی مدد کی اس وقت کہ جب بڑے بڑے پہلوان پچھڑ رہے تھے اور ہر ایک کے قدم لڑکھڑا رہے تھے میں ثابت قدم تھا ۔
..............
(١) سورہ یاسین (٣٦) آیت ٩۔
(٢) الخرائج والجرائح :١ ١٤٣، حدیث ٢٣١۔ اختصاص مفید ١٤٦۔

٢٢٥
اور یہ وہ دلیری و مردانگی تھی کہ جو خداوندعالم نے مجھے عطا فرمائی تھی ۔(١)
اور آپ نے یہودیوں کے بزرگوں سے ایک گفتگو میں فرمایا :
میں اور میرے چچا حمزہ میرے بھائی جعفر اور میرے چچا زاد بھائی عبیدہ نے خدااور اس کے رسول سے جس بات پر عہد کیا تھا ہم اس پر باقی رہے اور اس کو وفا کیا ، میرے ساتھی اور ہم عہد حضرات نے مجھ سے سبقت کی اور میں خداوندعالم کی مشیت و مصلحت کے تحت پیچھے رہ گیا اور اسی مناسبت سے خداوندعالم نے ارشاد فرمایا :
(من المؤمنین رجال صدقو ا ما عاھدو ا اللہ علیہ فمنھم من قضی نحبہ و منھم من ینتظر وما بدّلو تبدیلاً)(٢)
مومنین میں سے کچھ مرد ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے اپنے پروردگار سے جو عہد کیا اس کو پورا کردکھایا پس ان میں سے کچھ افراد اپنی منزل تک پہنچ گئے اور کچھ ابھی منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی ایجاد نہیں کی ۔
حمزہ ، عبیدہ اور جعفر نے اپنے عہد کو پورا کیا اور عالم جاودانی کی طرف رحلت کرگئے اور میں منتظر ہوں اور میںنے اپنے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی ۔(٣)
..............
(١) نہج البلاغہ ، خطبہ ١٩٧۔دیکھیے: ینابیع المودة : ١ ٢٦٥، حدیث ١٩۔ بحار الانوار :٣٨ ٣١٩، ح ٣٢۔
(٢) سورہ احزاب (٣٣) آیت ٢٣۔
(٣) اختصاص مفید ١٧٤۔ خصال صدو ق ٣٧٦۔ بحار الانوار :٣١ ٣٤٩۔ تاویل الآیات :٢ ٤٤٩، حدیث ٨۔

٢٢٦
ابن عباس سے منقول ہے کہ علی ، پیغمبراکرمۖ کی زندگی ہی میں فرماتے تھے کہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے :
(افن مات أوقتل انقلبتم علی أعقابکم ) (١)
کیا اگر پیغمبراکرم ۖ مرجائیں یا قتل کردیے جائیں تو آپ اپنے پرانے عقیدے و زمانۂ جاہلیت کی طرف پلٹ جاؤ گے ۔
خدا کی قسم اب جب کہ خداوندعالم نے ہماری ہدایت فرمائی ہے ہم پیچھے نہیں پلٹ سکتے ، خدا کی قسم اگر وہ رحلت فرماجائیں یا قتل کردیے جائیں تو بھی وہ جس چیز کی خاطر لڑتے رہے ہیں میں بھی جب تک زندہ ہوں اس چیز کی خاطر لڑتا رہوں گا ، خدا کی قسم میں آپ کا بھائی، دوست ہوںاور آپۖ کاوارث ہوں پس میرے علاوہ کون شخص ان کا ہمدرد ہوگا اور ان باتوں کا حق دار ہوگا ۔(٢)
اس سلسلے میں بہت زیادہ روایات و احادیث ، امیرالمؤمنین ، خود رسول خدا ۖ اور حضرت فاطمہ زہرا سے منقول ہیں، نیز اہل بیت و صحابہ سے بھی اس سلسلے میں بہت زیادہ روایات پائی جاتی ہیں ۔
لہذا علی سب سے پہلے ایمان لانے والے شخص ہیں، سب سے پہلے پیغمبراکرمۖ کے ہمراہ نماز پڑھی، آپ ۖ کی رسالت کی تصدیق فرمائی، آخرعمر تک اس پر ثابت قدم رہے اور حضور پاکۖ کی کسی بھی معاملے میں تکذیب نہیں کی ۔
..............
(١) سورہ آل عمران (٣) آیت ١٤٤۔
(٢) خصائص امیر المؤمنین (نسائی)٨٦۔ المعجم الکبیر:١٠٧١، حدیث ١٧٦۔ مناقب کوفی :١ ٣٣٩، حدیث ٢٦٥۔ شواھد التنزیل :١ ١٧٧، حدیث ٢٤۔ تاریخ دمشق :٤٢ ٥٦۔ مستدرک حاکم :٣ ١٢٦۔

٢٢٧
اب ان تمام چیز وں کی طرف انگشت نمائی کرتے ہیں کہ جن کو امیر المؤمنین نے فرمایا ہے تاکہ ان تمام مراحل و مقامات میں ابوبکر کی موقعیت و حیثیت سمجھ سکیں۔:
١ـ امیر المؤمنین حضرت علی سب سے پہلے اسلام لائے اور سب سے پہلے نماز بجالائے ، اس سلسلے میں بہت زیادہ کتابیں اور رسالے لکھے گئے ہیں لہذا اس کے بارے میں ہمیں گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں ہے جس کو ضرورت ہو وہ ان کتابوں میں مراجعہ کرے ۔(١)
٢ـ حضرت علی ، خدا اور رسول ۖ کی ذات میں فنا تھے اور دین کے مقابلے میںکسی بھی شیٔ کی حیثیت کو نہیں پہچانتے تھے حتی کہ باپ ، بھائی چچا کوئی دین کے مقابلے میںکچھ نہ تھا ، جب کہ یہ خاصیت ہمیں ابوبکر کے یہاں نظر نہیں آتی ، آئندہ چند صفحوںکے بعد ہم ابوبکر کی سیرت کو پیش کریں گے۔
٣ـ علی مطیع و فرمانبردار رسول خدا ۖتھے جب کہ یہ صفت ابوبکر پر منطبق نہیں ہے اور اس سلسلے میں یہی کافی ہے کہ رسول خدا نے ابوبکر کو ایک زاہد نما شخص کو قتل کرنے کے لیے بھیجا ،ابوبکر اس شخص کے قریب پہنچے دیکھا کہ وہ نماز میں مشغول ہے تو خود اپنے آپ سے کہنے لگے کہ نماز قابل احترام ہے اور اسی طرح اس زاہد نما شخص کو چھوڑ آئے اور رسول خدا ۖکے امر کی اطاعت نہیں کی ۔(٢)
..............
(١) اس سلسلے میں بیشتر معلومات کے لیے دیکھیے : الغدیر (امینی ) :٣ ٢٢١ـ ٢٢٤۔
(٢) مسند ابویعلی :٦ ٣٤١، حدیث ٣٦٦٨۔ حلیة الاولیاء : ٣ ٢٢٧۔ مسند احمد :٣ ١٥۔ البدایة و النہایة :٧ ٣٣٠۔

٢٢٨
٤ـ حضرت علی دین پر ثابت قدم رہے اور پچھلے آئین و زمانہ ٔجاہلیت کی طرف مراجعہ نہ کیا، جب کہ حضرت فاطمہ زہرا کے خطبہ میں ابوبکر اور ان کی قوم کے پیچھے پلٹنے کے متعلق ثبوت موجود ہیں اور حدیث حوض (١) اور آیہ انقلاب (٢) میں کچھ ایسے نکات ہیں کہ کہ جو ان کے ارتداد اور اعقاب کی طرف پلٹنے پر دلالت کرتے ہیں ۔
جی ہاں ، ابوبکر کی زندگی پر تھوڑا غور کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ مصلحت کو واجبات الہٰی پر مقدم رکھتے تھے جیسا کہ ان کو اس مصلحت ہی کی بنا پر کہ جب تمام مسلمانوں کا اجماع ہوچکا کہ خالد بن ولید کے زنا ء محصنہ پر قتل اور حد جاری کی جائے لیکن ابوبکر نے یہ کام انجام نہ دیا چونکہ ان کی مصلحت نہ تھی جب کہ عمر ابن خطاب تک بھی اس فعل پر خالد بن ولید کے قتل کو لازم جانتے تھے چونکہ اس نے مالک بن نویرہ کی زوجہ سے عدہ کے دوران زنا کیا تھا ۔ لیکن ابوبکر نے اس پر حد جاری کرنے سے خودداری کی اور یہ کہا کہ اے عمر ، خالد نے اجتہاد کیا اور خطا کی ، اپنی زبان کو خالد کے سلسلے میں بند رکھو بیشک میں اس تلوار کو کہ جس کو خدا نے کافروں کے لیے کھینچا ہے ،اس کومیں غلاف میں نہیں رکھو ں گا ۔(٣)
..............
(١) اس حدیث کے سلسلے میں مراجعہ کیجیے : صحیح بخاری :٥ ١٩١۔ و جلد :٧ ١٩٥۔ صحیح مسلم :٧ ٧١۔
(٢) سورہ آل عمران(٣) آیت ١٤٤۔
(٣) تاریخ طبری :٢ ٥٠٣۔ اور دیکھیے : طبقات ابن سعد : ٧ ٣٩٦۔ البدایة والنہایة : ٦ ٣٤٥۔ الاصابة :٥ ٧٥٥۔ اور دوسرے مآخذ۔

٢٢٩
اور جب ابوقتادہ انصاری نے خالد بن ولید کے زناء محصنہ پر گواہی دی کہ جو خود اسی کے لشکر میں موجود تھے اور وقت زنا حاضر تھے تو ابوبکر نے ان کو بلایا اور اس کا م سے منع کیا ۔(١) اور اس طرح اجتہاد کی منطق کے ذریعہ اور یہ کہ ابوبکر کے دشمن کافر ہیں چاہے وہ حقیقت میں مسلمان ہی کیوں نہ ہوں ، ابوبکر نے خالد کے لیے عذر تراشا چونکہ ان کو خالد کی اور دوسری جگاہوں پر ضرورت تھی ۔
اور اسی بناء پر اشعث بن قیس کہ جب وہ مرتد ہوگیا اس کو معاف کردیا اور ابوبکر مرتے وقت ان کاموں پر افسوس کرتے رہے اور کہتے رہے کاش تین و تین اور تین (٢)
وہ تین کام کہ جن کو انجام دینا چاہتے تھے لیکن انجام نہ دیا، ایک اشعث بن قیس کوقتل کرنا تھا کہ جب اس کو گرفتار کرکے لائے، چونکہ ابوبکر کو بعد میں معلوم ہوگیا تھا کہ تمام فتنوں اور فساد میں اشعث ہی کا ہاتھ تھا ۔(٣)
ابوبکر نے یہ کام اس لیے انجام نہیں دیا چونکہ اشعث بن قیس قبیلہ کندہ کا رئیس تھا اور ابوبکر کو اس کی ضرورت تھی لہذا خلیفۂ اول نے صرف نظرکرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا ، بلکہ اپنی بہن کی شادی بھی اس سے رچادی اور اس کو مہمترین کاموں میں اپنے ساتھ رکھا ۔
..............
(١) الکامل فی التاریخ :٢ ٣٥٨۔
(٢) یہ امور ابو بکر آخری وقت زبان پر لائے اور مرتے دم یہ حسرت دل میں لے کر گئے کہ کاش میں تین کام ترک نہ کرتا اور اے کاش میں تین کام انجام دیتا اور اے کاش میں تین مسٔلے پیغمبراکرم ۖ سے معلوم کرتا ، اور پھر ان کی ایک ایک کرکے تفصیل بیان کی ۔(م)
(٣) تاریخ طبری :١ ٦٢٠۔ تاریخ دمشق : ٣٠ ٤١٨۔ کنزالعمال :٥ ٦٣٢، حدیث ١٤١١٣۔

٢٣٠
اسی طرح زکا ت کا حصہ کہ جو مؤلفة القلوب کے لیے معین کیا گیا تھا اور قرآن کریم میں بھی اس کی تصریح ہوئی ہے ،ادا نہ کیا اور جب عمر نے از باب مصلحت مؤلفة القلوب کا حق دینے کی خواہش ظاہر کی تو ابوبکر نے یہ کہکر ٹال دیا کہ اب اسلام قدرتمندہوچکاہے لہذا مؤلفة القلوب کے حصہ کی ادائیگی کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔(١)
انہی واقعات کی طرح حضرت فاطمہ زہرا کو فدک سے منع کرنا بھی ہے جب کہ حضرت فاطمہ زہرا نے اپنی ملکیت کوثابت کرنے میں آیات وصیت و وراثت اور انبیاء کی میراث کی آیات کے ذریعہ ابوبکر پر احتجاج کیا ۔
ان تمام واقعات سے پہلے ابوبکر کا احد ، حنین اور خیبر کی جنگوں سے بھاگنا ہے اور دینی اہمیتوں کے مقابل ثابت قدم نہ رہنا، میدان چھوڑکر بھاگنا اور یہ سب ان مصلحتوں کی وجہ سے ہے کہ جو ان کے پیش نظر تھیں۔یعقوبی جنگ احد کے متعلق تحریر کرتا ہے کہ تمام مسلمان میدان چھوڑکر بھاگ گئے اور رسول خدا ۖ کے ہمرا ہ صرف تین آدمی باقی رہے علی ، طلحہ و زبیر۔(٢)
حاکم نے عایشہ سے روایت نقل کی ہے اور اس کو صحیح جانا ہے کہ ابوبکر نے کہا کہ جب جنگ احد میں مسلمان پیغمبراکرم ۖکے اطراف سے فرار ہوئے تو میں بھاگنے والوں میں سب سے پہلا فرد تھا کہ جو رسول خدا ۖ کے پاس پلٹا ۔(٣)
..............
(١) تاریخ طبری :٢ ٣٠١۔ طبقات ابن سعد :٥ ١٠۔ معجم البلدان: ٢ ٢٧١۔
(٢) تاریخ یعقوبی :٢ ٤٧۔
(٣) مستدرک حاکم : ٢٧٣۔

٢٣١
صاحب کنزالعمال نے جنگ احد کے بارے میں ابو داؤد طیالسی سے اور ابن سعد و بزار، دارقطنی ، ابن حیان ، ابو نعیم اور دوسروں نے اپنی اپنی اسناد کے ساتھ عایشہ سے روایت نقل کی ہے کہ عایشہ نے کہا کہ جب کبھی بھی جنگ احد کا تذکرہ ہوتا تو ابوبکر رونے لگتے تھے اور روتے ہوئے کہتے کہ میں بھاگنے والوں میں سب سے پہلے واپس آیا ۔(١)
ابن ابی الحدید لکھتا ہے کہ جاحظ نے کہا : ابوبکر پیغمبراکرمۖ کے پاس جنگ احدمیں کھڑے رہے جیسا کہ علی ثابت قدم رہے ۔ ۔ ۔ تو ہمارے استاد ابوجعفر نے کہا کہ اکثر مورخین و اہل قلم نے جنگ احد میں ابوبکر کے فرار اور عدم ثبوت قدم کو نقل کیا ہے اور جمہور نے روایت کی ہے کہ ابوبکرنے فرار اختیار کیا اور علی کے علاوہ کوئی بھی پیغمبراکرم ۖ کے پاس نہ رہا اور طلحہ و زبیر اور ابو دجانہ بھی قریب ہی تھے اور ابن عباس سے روایت ہے کہ ان میں پانچواں فرد کہ جو باقی بچا عبد اللہ بن مسعود تھے اور کچھ مورخین نے چھٹے آدمی کا بھی نام لکھا ہے اور وہ مقداد بن عمروہے۔(٢)

زید بن وہب کا بیان ہے کہ میں نے ابن مسعود سے کہا: ابوبکر و عمر جنگ احد میں کہاں تھے ؟ تو اس نے کہا ان لوگوں کے ساتھ کہ جنہوں نے میدان سے فرار اختیار کیا تو میںنے سوال کیا عثمان کہاں تھے ؟ کہا کہ واقعہ احد کے تین دن کے بعد واپس آئے ، رسول خدا ۖ نے عثمان سے کہا اے عثمان جنگ سے بھاگنے میں بہت لمبے لمبے قدم رکھے !۔(٣)
..............
(١) مسند ابی داؤد طیالسی ٣۔ کنزالعمال :١٠ ٤٢٥، حدیث ٣٠٠٢٥۔
(٢) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :١٣ ٢٩٣۔
(٣) کشف الغمہ : ١ ١٩٣ ۔ شرح نہج البلاغہ :١٥ ٢١۔تاریخ طبری: ٢ ٢٠٣۔ البدایہ و النہا یہ :٣ ٣٢۔

٢٣٢
المغازی میں محمد بن مسلمہ سے منقول ہے کہ میں نے اپنی دونوں آنکھوں سے دیکھا اور دونوں کانوں سے سنا کہ رسول خداۖ روز احد تنہا رہ گئے اور مسلمان پہاڑ کی طرف بھاگ رہے تھے ، رسول خدا ۖ اپنی مدد کے لیے بلارہے تھے اور آواز دیتے اے فلاں آؤ ، اے فلاں آؤ میرے قریب آؤ میں رسول خدا ہوں ، لیکن ان دونوں میں سے کسی نے بھی نہ سنا اور دونوں بھاگے چلے گئے ۔(١)
واضح ہے کہ یہاں پر فلاں اور فلاں سے مراد شیخین یعنی ابوبکر و عمر ہیں ۔ راوی نے صراحتاً ان کا نام ذکر نہیں کیا چونکہ وہ صاحب اقتدار تھے اور اس لیے بھی کہ ان کے پیروکار،ان کے متعلق اس طرح کی روایات کوپسند نہیں کریں گے ، اور شاید یہ بھی ممکن ہے کہ یہ راوی کی نہیں بلکہ مؤلف یا کاتب کی ہنر نمائی ہو۔
روایت میں آیا ہے کہ ایک عورت زمانہ خلافت عمر میں آئی اور عمر سے یمنی چادر وں کے متعلق مطالبہ کیا اور اسی وقت عمر کی بیٹی آئی اس نے بھی یمنی چادر مانگی عمر نے اس عورت کوچادر دے دی اور اپنی بیٹی کو منع کردیا ! ۔ جب لوگوں نے اس کی دلیل چاہی تو جواب دیا کہ اس عورت کاباپ جنگ احد میں ثابت قدم رہا اور اس کا باپ یعنی خود عمر ثابت قدم نہ رہ سکا اور فرار اختیار کیا ۔(٢)
واقدی رقمطراز ہے کہ جب جنگ احد کے دوران ابلیس نے شور مچایا کہ محمد قتل ہوگئے تو لوگ متفرق ہوگئے کچھ لوگ مدینہ واپس آگئے اور ان بھاگنے والوں میں ایک تو فلاں تھے اور دوسرے حارث بن حاطب ۔
..............
(١) المغازی :١ ٢٣٧۔ اور اسی سے منقول ہے شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :١٥ ٢٣ میں ۔
(٢) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :٢٢١٥۔

٢٣٣
لیکن ابن ابی الحدید نے اسی واقدی سے روایت بطور صریح و بغیر کنایہ کے نقل کی ہے کہ اس نے کہا وہ لوگ کہ جو فرار اختیار کرگئے ، عمر و عثمان اور حارث بن حاطب تھے ۔(١)
رافع بن خدیج کہتاہے کہ میں فلاں اور فلاں کی طرف دیکھ رہا تھا کہ جو پہاڑ پر اچک اچک کر بھاگ رہے تھے پس عمر نے کہا کہ جب شیطان نے شور مچایا کہ محمد قتل ہوگئے تو میں اس طرح پہاڑپر چڑھا کہ جیسے پہاڑی بکری پہاڑ پر چڑھتی ہے ۔(٢)
محمد بن اسحاق نے مغازی میں تحریر کیا ہے کہ۔ ۔ ۔ لوگ جنگ احد میں پیغمبراکرمۖ کے پاس سے بھاگ رہے تھے یہاں تک کہ عثمان بھی بھاگ گئے چونکہ وہ ان سب سے پہلے بھاگ گئے اور مدینہ پہنچ گئے اور انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی :
(ان الذین تولوا یو م التقی الجمعان) (٣)
اس روز کہ جب دوگروہ آپس میں ٹکرائے تو کچھ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ۔(٤)
..............
(١) المغازی :٢٧٧١ ۔ اور اسی کتاب کے دوسرے نسخہ میں فلاں کی جگہ پر عمر و عثمان بھی آیا ہے۔شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :٢٤١٥۔
(٢) المغازی:١ ٢٩٥ ۔ اور ٣٢١۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :٢٢١٥۔الدر المنثور :٢ ٨٩۔
(٣) سورہ آل عمران (٣) آیت ١٥٥۔
(٤) المغازی :١ ٢٧٨ـ٢٧٩۔ اور دیکھیے : صحیح بخاری :٥ ٣٥(از عثمان بن وہب )۔ مجمع الزوائد: ١١٥٩۔

٢٣٤
فخررازی کا بیان ہے کہ بھاگنے والوں میں سے عمر بھی تھے مگر یہ کہ سب سے پہلے نہیں بھاگے اور زیادہ دور بھی نہیں بھاگے بلکہ صرف پہاڑ پر چڑھ گئے تاکہ پیغمبراکرمۖ بھی ان کے پیچھے پیچھے پہاڑ پر چڑھ جائیں اور عثمان بن عفان انصار کے دو افراد سعد و عقبہ کے ساتھ بھاگ کھڑے ہوئے اوربہت دور نکل گئے یہاں تک کہ تین دن کے بعد واپس آئے ۔(١)
نیشاپوری کا بیان ہے کہ قفال نے کہا بہرحال جس چیز پر روایات دلالت کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ کچھ لوگ جنگ احد سے بھاگے اور کچھ قریب ہی چھپ گئے اور کچھ بہت دور نکل گئے اور بعض مدینہ آگئے اور کچھ ادھر ادھر کو فرار کرگئے ۔ ۔ ۔ اور ان بھاگنے والوں میں عمر بھی تھے ۔(٢)
آلوسی رقمطراز ہے کہ بھاگنے والے ایک پہاڑ کے دامن میں جمع ہوگئے اور عمر بن خطاب بھی ان کے ہمراہ تھے جیسا کہ ابن جریر کی روایت میں مذکور ہے ۔(٣)
بہر حال آپ نے ان روایات میں ملاحظہ فرمالیا کہ جنگ احد سے بھاگنے والوں میںیہ تین افراد ابوبکر ، عمر اور عثمان بھی تھے اور اسی جنگ میں ثابت قدم نہ رہے جب کہ علی ابن ابی طالب اور کچھ صحابہ ثابت قدم رہے ۔
عمران بن حصین کی روایت میں آیا ہے کہ جب جنگ احد میں لوگ رسول خدا ۖ کے اطراف سے بھاگ رہے تھے توعلی برہنہ شمشیر کولیے ہوئے حضور اکرمۖ کے سامنے آگئے۔
..............
(١) تفسیر فخر رازی : ٩ ٤٢۔
(٢) تفسیر نیشابوری : ٢ ٢٨٧۔
(٣) روح المعانی : ٤ ٩٩۔

٢٣٥
پس رسول خداۖ نے سر کو بلند فرمایا اورعلی سے کہا کہ جب سب بھاگ گئے تو آپ کیوں نہیں بھاگے ؟ علی نے جواب دیا: اے رسول خداۖ کیا میں اسلام لانے کے بعد کافر ہوجاؤں ۔(١)
پیغمبراکرمۖ نے کفار کے ایک گروہ کی طرف اشارہ کیا کہ جو پہاڑ پر سے اتر رہے تھے علی نے ان پر حملہ کیا اور ان سب کو مار بھگایا پھر دوسرے گروہ کی طرف اشارہ کیا آپ نے ان پر بھی حملہ کیا اور ان کو بھی پچھاڑ دیا پس جبرئیل آئے اور کہا اے رسول خدا ۖفرشتے علی کی آپ کے لیے جانبازی پر فخر و مباہات کررہے ہیں ۔
اس وقت پیغمبراکرمۖ نے فرمایا کون اس کو اس کا م سے روک سکتا ہے جب کہ وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں تو جبرئیل نے بھی کہا کہ میں تم دونوں سے ہوں۔(٢)
حضرت علی کے کلام ہی میں سے حدیث مناشدہ ہے کہ فرماتے ہیں :کیا آپ لوگوں کے درمیان میرے علاوہ کوئی ہے کہ جس کے لیے جبرئیل نے فخر و مباہات کیا ہو کہ یہ واقعہ جنگ احد کا ہے پس رسول خدا ۖ نے فرمایا ایسا کیوں نہ ہوکہ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں پھر جبرئیل نے کہا کہ میں تم دونوں سے ہوں ؟ تو سب نے کہا : نہیں۔(٣)
..............
(١) حضرت علی کی نظرمیں جنگ سے فرار کرنا گویا اسلام لانے کے بعد کفر اختیار کرنا ہے تواب ان بھاگنے والوں کے بارے میں کیا خیال ہے ؟(م)
(٢) ارشاد مفید:١ ٨٥۔ کشف الغمہ :١ ١٩٤۔ بحار الانوار:٢٠ ٨٥۔
(٣) امالی طوسی ٥٤٧، مجلس ٢٠، حدیث ٤۔ خصال صدوق :٢ ٥٥٦۔ مناقب کوفی :١ ٤٨٦، حدیث ٣٩٢۔ تاریخ طبر ی :٢ ١٩٧۔ المعجم الکبیر :١ ٣١٨، حدیث ٩٤١۔ کشف الیقین ٤٢٤۔

٢٣٦
اسد الغابہ میں ہے کہ جب جنگ احد میں لوگوں نے پیغمبراکرمۖ سے آنکھیں چرائیں اور فرار اختیار کیا میں نے قتل ہوجانے والوں کو دیکھا تو ان میں رسول خدا ۖ کو نہ پایا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ خدا کی قسم رسول خدا ۖ ایسے نہیں ہیں کہ جو جنگ سے فرار اختیار کریں جب کہ قتل ہونے والوں کے درمیان بھی نہیں ہیں، شاید خداوندعالم ہمارے اعمال سے ناراض ہوگیا اور اپنے رسول کو آسما ن پر لے گیا لہذا میرے لیے اس سے بہترکوئی کام نہیں ہے کہ جنگ کروں یہاں تک کہ قتل ہوجاؤں پس میں نے اپنی تلوار کے نیام کو توڑ دیا اور پھر دشمن کے لشکر پر حملہ کیا اور سارے لشکر کو بکھیر کررکھ دیا تو اسی دوارن میں نے رسول خداۖ کو ان کے درمیان دیکھا۔جی ہاں، اسی روز علی پر سولہ ضربتیں لگیںاور ہر ضربت کے اثر سے وہ زمین پر گرے اور جبرئیل کے علاوہ ان کو کسی نے نہیں اٹھایا ۔(١)
حضرت امیر کے دوسرے کلام میں مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا : اے رسول خدا وہ فتنہ کہ جس کی خداوندعالم نے آپ کو خبر دی ہے وہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : بیشک میرے بعد میری امت کو خداوندمتعال آزمائے گا ،میں نے عرض کی اے رسول خدا ۖ تو کیا روز جنگ احد کہ جس دن کچھ مسلمان شہید ہوئے اور یہ فیض میرے نصیب میں نہ آیا مجھ پر بہت سخت گذرا تب آپ نے فرمایا: اے علی صدیق آپ کو بھی شہادت مبارک ہو اور جب آپ کی شہادت کا وقت آئے گا اور آپ کے محاسن مبارک آپ کے سرکے خون میں تر ہوگی تو آپ کا صبر کیسا ہوگا؟۔(٢)
..............
(١) اسد الغابہ : ٤ ٢٠ـ٢١۔
(٢) نہج البلاغہ :٢ ٤٩، خطبہ ١٥٦۔ اور دیکھیے : کنزالعمال:١٦ ١٩٤ ، حدیث ٤٤٢١٧۔ المعجم الکبیر :١١ ٢٩٥۔ اسد الغابہ:٤ ٣٤۔

٢٣٧
جی ہاں ، یقینا وہ آزمائش و امتحان تھا کیا کہیں ایسے شخص کے بارے میں کہ جو رسول خدا ۖ کو کافروں کے درمیان چھوڑکر بھاگ کھڑا ہو، تو کیا یہ کام کفر ہے یا فسق یا کچھ اور ؟
مسلم ہے رسول خداۖ اس کام سے بہت رنجیدہ خاطر اور غمگین ہوئے تھے اور جنگ سے بھاگنے والوں سے بہت ناراض ہوئے تھے ۔
واقدی کا بیان ہے کہ طلحہ بن عبیداللہ و ابن عباس اور جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول خدا ۖ نے شہداء احد کی نماز جنازہ پڑھی اور فرمایا میں ان لوگوں پر گواہ ہوں کہ انہوں نے راہ حق میں تلوار چلائی اور شہید ہوگئے تو ابوبکر نے کہا اے رسول خدا کیا ہم انہیں کے بھائی نہیں ہیں جیسا کہ وہ اسلام لائے ہم بھی اسلام لائے اور انہیں کی طرح ہم نے بھی جہاد کیا پیغمبراکرمۖ نے فرمایا :ہاں! لیکن انہوںنے اپنا کامل حق ادا کیا اور کامل اجر حاصل کیا لیکن مجھے نہیں معلوم کہ تم لوگ میرے بعد کیا کارنامے انجام دو گے پس ابوبکر رونے لگے اور کہا کیا ہم آپ کے بعد بھی زندہ رہیں گے ۔(١)
حضرت رسول اکرمۖ سے منقول ہے کہ آپ نے عمر سے فرمایا: جب صلح حدیبیہ کے وقت عمر نے آپۖ پر اعتراض کیا '' کیا جنگ احد کو بھول گئے ہو کہ جب پہاڑ پر چھپ چھپ کے بھاگ رہے تھے ،کسی کی طرف کو بھی مڑکرنہیں دیکھ رہے تھے میں وہیںکھڑا ہواآپ لوگوںکو بلارہا تھا ۔(٢)

..............
(١) المغازی : ١ ٣١٠۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :٣٨١٥ (متن عبارت اسی کتاب سے ہے ) اور دیکھیے الموطاء :٢ ٤٦١، حدیث ٩٨٧۔التمہید (ابن عبدالبر) :٢١ ٢٢٨، حدیث ٢٠٣۔
(٢) المغازی : ٦٠٩٢۔ اور اسی سے منقول ہے شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :٢٥١٥۔ اور دیکھیے : الدر المنثور :٦ ٦٨۔ عیون الاثر : ٢ ١٢٥۔

٢٣٨
اور اس سے پہلے عثمان کے بارے میں رسول خدا ۖ کا ارشاد گرامی گذرچکا ہے کہ آپ نے فرمایا : کہ بھاگنے میں بہت لمبے لمبے قدم اٹھا رہے تھے ۔