امام ، قرآن کی نظرمیں
حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلام ۖ کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(١) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔
یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :
١۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔
٢۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔
٣۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔
٤۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔
ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :
..............
١۔تاریخ بغداد، جلد ٦،صفحہ ٢٢١۔صواعق محرقہ ،صفحہ ٢٧٦۔نورالابصار ،صفحہ ٧٦،وغیرہ ۔
آپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات
آپ کی فضیلت اورعظیم الشان منزلت کے بارے میں جوآیات نازل ہوئی ہیں ہم ان میں سے ذیل میں بعض آیات پیش کرتے ہیں :
١۔اللہ کا ارشاد ہے :''انماانت منذرولکل قوم ھاد''۔(١)
''آپ کہہ دیجئے کہ میں صرف ڈرانے والا ہوں اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی اور رہبر ہے ''۔
طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہو ئی تو نبی نے اپنا دست مبارک اپنے سینہ پر رکھ کر فرمایا:''اناالمنذرولکل قوم ھاد ''،اور آپ ۖ نے علی کے کندھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:''انت الہاد بک یھتد المھتدون بعد''۔(٢)
''آپ ہا دی ہیں اور میرے بعد ہدایت پانے والے تجھ سے ہدایت پا ئیں گے ''۔
٢۔خداوند عالم کا فرمان ہے :''وتعیھااذن واعیة''۔(٣)
''تاکہ اسے تمہارے لئے نصیحت بنائیںاور محفوظ رکھنے والے کان سُن لیں''۔
امیر المو منین حضرت علی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول ۖ اسلام نے فرمایا:
''سألتُ رَبِّیْ اَن یَجْعَلَھَااذُنُکَ یاعلیُّ،فماسمعتُ مِنْ رسُولِ اللّٰہِ ۖ شَیْئاًفنَسِیْتُہُ ''۔(٤)
''میں نے پروردگار عالم سے دعا کی کہ وہ کان تمہارا ہے لہٰذا میں نے رسول ۖ سے جو کچھ سنا ہے اسے کبھی نہیں بھولا''۔
..............
١۔سورئہ رعد، آیت ٧۔
٢۔تفسیر طبری ،جلد ١٣،صفحہ ٧٢۔اور تفسیر رازی میں بھی تقریباً یہی مطلب درج ہے ۔کنز العمال ،جلد ٦،صفحہ ١٥٧ ۔ تفسیر حقائق، صفحہ ٤٢۔مستدرک حاکم، جلد ٣، صفحہ ١٢٩۔
٣۔سورئہ حاقہ، آیت ١٢۔
٤۔کنزالعمال ،جلد ٦،صفحہ ١٠٨۔اسباب النزول ِ واحدی، صفحہ ٣٢٩۔تفسیر طبری، جلد ٢٩،صفحہ ٣٥۔تفسیر کشاف، جلد ٤، صفحہ ٦٠۔در منثور ،جلد ٨،صفحہ ٢٦٧۔
٣۔خداوند عالم کا فرمان ہے :(الَّذِینَ یُنفِقُونَ َمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَار ِسِرًّا وَعَلاَنِیَةً
فَلَہُمْ َجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلاَخَوْفعَلَیْہِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُونَ)۔(١)
''جو لوگ اپنے اموال کو راہ خدا میں رات میں ،دن میں خا مو شی سے اور علی الاعلان خرچ کرتے ہیں اُن کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ہے اور انھیں نہ کو ئی خوف ہو گا اور نہ حزن و ملال ''۔
امام کے پاس چار درہم تھے جن میں سے آپ نے ایک درہم رات میں خرچ کیا ،ایک درہم دن میں ،ایک درہم مخفی طور پر اور ایک درہم علی الاعلان خرچ کیا ۔تو رسول اللہ ۖ نے آپ سے فرمایا : آپ نے ایساکیوں کیا ہے ؟مولائے کا ئنات نے جواب دیا:میں وعدہ ٔ پروردگار کامستحق بنناچاہتا ہوں اسی لئے میں نے ایسا کیا ''اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی۔(٢)
٤۔خدا وند عالم کا ارشاد ہے :(ِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ُوْلَئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ )۔(٣)
''اور بیشک جو لوگ ایمان لائے ہیںاور انھوں نے نیک اعمال کئے ہیںوہ بہترین خلائق ہیں ''۔
ابن عساکر نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کی ہے : ہم نبی اکرم ۖ کی خدمت میں حاضر تھے کہ علی وہاں پر تشریف لائے تو رسول اللہ ۖ نے فرمایا:''وِالَّذِیْ نَفْسِْ بِیَدِہِ اِنَّ ھٰذَا وَشِیْعَتَہُ ھُمُ الْفَائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ''۔''خدا کی قسم جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے بیشک یہ اور ان کے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہیں ''۔
اسی موقع پر یہ آیۂ کریمہ نازل ہو ئی ،اس کے بعد سے جب بھی مو لائے کا ئنات اصحاب کے پاس آتے تھے تو نبی کے یہ اصحاب کہا کرتے تھے :خیر البریہ آئے ہیں۔(٤)
٥۔خداوند عالم کا فرمان ہے :( فَاسَْلُوا َہْلَ الذِّکْرِ ِنْ کُنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ )۔(٥)
..............
١۔سورئہ بقرہ ،آیت ٢٧٤۔
٢۔اسد الغابہ، جلد ٤،صفحہ ٢٥،صواعق المحرقہ، صفحہ ٧٨۔اسباب النزول مؤلف واحدی، صفحہ ٦٤۔
٣۔سورئہ بینہ، آیت ٧۔
٤۔در المنثور ''اسی آیت کی تفسیر میں ''جلد ٨ ،صفحہ ٣٨٩۔تفسیر طبری، جلد ٣٠،صفحہ ١٧۔صواعق المحرقہ ،صفحہ ٩٦۔
٥۔سورئہ نحل، آیت ٤٣۔
''اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرو''۔
طبری نے جابر جعفی سے نقل کیا ہے :جب یہ آیت نازل ہو ئی تو حضرت علی نے فرمایا :''ہم اہل ذکر ہیں ''۔(١)
٦۔خداوند عالم کا فرمان ہے :( یَاَیُّہَاالرَّسُولُ بَلِّغْ مَا ُنزِلَ ِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ ِنَّ اﷲَ لاَیَہْدِ الْقَوْمَ الْکَافِرِین)۔(٢)
''اے پیغمبر! آپ اس حکم کو پہنچا دیں جوآپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گو یا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا بیشک اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے ''۔
جب رسول اللہ ۖ حجة الوداع سے واپس تشریف لا رہے تھے تو غدیر خم کے میدان میں یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب آپۖ کو اپنے بعد حضرت علی کواپنا جانشین معین کرنے کا حکم دیا گیا اس وقت رسول اللہ ۖ نے حضرت علی کو اپنے بعد اس امت کا خلیفہ و جا نشین معین فرمایااور آپ نے اپنا مشہور قول ارشاد فرمایا :''من کنت مولاہ فعلی مولاہ ،اللّھم وال من والاہ،وعادِمَن عاداہ، وانصرمَن نصرہ،واخذُلْ مَنْ خَذَلَہُ''۔
'' جس کا میں مو لا ہوں اس کے یہ علی بھی مو لا ہیںخدا یا جو اسے دو ست رکھے تو اسے دوست رکھ اورجو اس سے دشمنی کرے اسے دشمن رکھ اور جو اس کی مدد کرے اس کی مدد کر جو اسے چھوڑ دے اسے ذلیل و رسوا کر '' ۔
عمر نے کھڑے ہو کر کہا :مبارک ہو اے علی بن ابی طالب آپ آج میرے اورہر مومن اور مومنہ کے مولا ہوگئے ہیں ' '۔(٣)
٧۔خداوند عالم کا ارشاد ہے :( الْیَوْمَ َکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وََتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِ وَ رَضِیتُ لَکُمْ الِْسْلاَمَ دِینًا)۔(٤)
..............
١۔تفسیر طبری ،جلد ٨ ،صفحہ ١٤٥۔ ٢۔سورئہ مائدہ ،آیت ٦٧۔
٣۔ا سباب النزول، صفحہ ١٥٠۔تاریخ بغداد، جلد ٨،صفحہ ٢٩٠۔تفسیر رازی، جلد ٤،صفحہ ٤٠١۔در منثور، جلد ٦،صفحہ ١١٧۔
٤۔سورئہ مائدہ ،آیت ٣
''آج میں نے تمہارے لئے دین کو کا مل کردیاہے اوراپنی نعمتوںکو تمام کردیاہے اورتمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے''۔
یہ آیت ١٨ ذی الحجہ ١٠ ھ کواس وقت نازل ہو ئی جب رسول اللہ ۖ نے اپنے بعد کیلئے حضرت علی کو خلیفہ معین فرمایااور آنحضرت نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد فرمایا : ''اللّٰہ اکبر علیٰ اِکمالِ الدِّین،وَاِتْمَامِ النِّعْمَةِ،ورضِیَ الرَّبِّ بِرِسَالَتِ وَالْوِلایَةِ لِعَلِْبنِ اَبِیْ طَالِب''۔(١)
''اللہ سب سے بڑا ہے دین کا مل ہو گیا ،نعمتیں تمام ہو گئیں ،اور پروردگار میری رسالت اور علی بن ابی طالب کی ولایت سے راضی ہو گیا ''۔
جلیل القدر صحابی جناب ابوذر سے روایت ہے :میں رسولۖ خدا کے ساتھ مسجد میں نمازظہر پڑھ رہا تھا تو ایک سائل نے مسجد میں آکر سوال کیا لیکن کسی نے اس کو کچھ نہیں دیا تو سائل نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا :خدا یا گواہ رہنا کہ میں نے مسجد رسول میں آکر سوال کیا لیکن مجھے کسی نے کچھ نہیں دیا ، حضرت علی نے رکوع کی حالت میں اپنے داہنے ہاتھ کی انگلی سے انگوٹھی اتارنے کا اشارہ کیاسائل نے آگے بڑھ کر نبی کے سامنے ہاتھ سے انگوٹھی نکال لی ،اس وقت رسولۖ اسلام نے فرمایا :خدایا !میرے بھا ئی مو سیٰ نے تجھ سے یوں سوال کیا : (رَبِّ اشْرَحْ لِ صَدْرِ ۔وَیَسِّرْل َمْرِ۔وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِی۔یَفْقَہُوا قَوْلِ وَاجْعَلْ لِ وَزِیرًامِنْ َہْلِ ہَارُونَ َخ اشْدُدْ بِہِ َزْرِ۔وََشْرِکْہُ فِ َمْرِی )۔(٢)
''خدایا ! میرے سینہ کو کشادہ کردے ،میرے کام کو آسان کردے ، اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے تاکہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ،اورمیرے اہل میںسے میرا وزیر قرار دے ،ہارون کو جو میرا بھا ئی بھی ہے اس سے میری پشت کو مضبوط کردے اسے میرے کام میں شریک کردے ''تونے قرآن ناطق میں نازل کیا :( سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بَِخِیکَ وَنَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطَانًا)۔(٣)
'' ہم تمہارے بازئووں کو تمہارے بھا ئی سے مضبوط کر دیں گے ،اور تمہارے لئے ایسا غلبہ قراردیں
..............
١۔دلائل الصدق ،جلد ٢،صفحہ ١٥٢۔
٢۔سورئہ طہ، آیت ٢٥۔٣٢۔
٣۔سورئہ قصص، آیت ٣٥۔
گے کہ یہ لوگ تم تک پہنچ ہی نہ سکیں گے ''۔
''خدایا میں تیرا نبی محمد اور تیرا منتخب کردہ ہوں میرے سینہ کو کشادہ کردے ،میرے کام کو آسان کردے ،میرے اہل میںسے علی کو میرا وزیر قرار دے اور ان کے ذریعہ میری پشت کو مضبوط کردے ' ' ۔
جناب ابوذر کا کہنا ہے :خدا کی قسم یہ کلمات ابھی ختم نہیں ہونے پائے تھے کہ جبرئیل خدا کا یہ پیغام لیکر نازل ہوئے ،اے رسول پڑھئے :(اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ۔۔۔)۔ (١)
اس روایت نے عام ولایت کو اللہ ،رسول اسلام اور امیر المو منین میں محصور کر دیا ہے ،آیت میں صیغہ ٔ جمع تعظیم و تکریم کے لئے آیا ہے ،جو جملۂ اسمیہ کی طرف مضاف ہوا ہے اور اس کولفظ اِنَّما کے ذریعہ محصور کردیا ہے ،حالانکہ ان کے لئے عمومی ولایت کی تا کید کی گئی ہے اور حسان بن ثابت نے اس آیت کے امام کی شان میں نازل ہونے کو یوں نظم کیا ہے :
مَن ذَابِخَاتِمِہِ تَصَدَّقَ رَاکِعاً
وَأَسَرَّھَافِْ نَفْسِہِ اِسْرارا۔(٢)
''علی اس ذات کا نام ہے جس نے حالت رکوع میں زکات دی اور یہ صدقہ آپ نے نہایت مخفیانہ انداز میں دیا''۔
اہل بیت کے سلسلہ میں نازل ہونے والی آیات
قرآن کریم میں اہل بیت کی شان میں متعدد آیات نازل ہو ئی ہیں جن میں ان کے سید و آقا امیر المو منین بھی شامل ہیں اُن میں سے بعض آیات یہ ہیں :
١۔خداوند عالم کا ارشاد ہے :( ذَلِکَ الَّذِی یُبَشِّرُاﷲُ عِبَادَہُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُلْ لاََسَْلُکُمْ عَلَیْہِ َجْرًاِلاَّالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی وَمَنْ یَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَہُ فِیہَاحُسْنًاِنَّ اﷲَ غَفُورشَکُور )۔(٣)
..............
١۔تفسیر رازی ،جلد ١٢،صفحہ ٢٦،نورالابصار ،صفحہ ١٧٠۔تفسیر طبری، جلد ٦،صفحہ ١٨٦۔
٢۔در منثور، جلد ٣،صفحہ ١٠٦۔کشاف، جلد ١،صفحہ ٦٩٢۔ذخائر العقبیٰ ،صفحہ ١٠٢۔مجمع الزوائد ،جلد ٧،صفحہ ١٧۔کنز العمال، جلد ٧صفحہ ٣٠٥۔
٣۔سورئہ شوریٰ آیت ٢٣۔
''یہی وہ فضل عظیم ہے جس کی بشارت پروردگار اپنے بندوں کو دیتا ہے جنھوں نے ایمان اختیار کیا ہے اور نیک اعمال کئے ہیں ،تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کو ئی اجر نہیں چا ہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقرباء سے محبت کرو اور جو شخص بھی کو ئی نیکی حاصل کرے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کر دیں گے کہ بیشک اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور قدر داں ہے ''۔
تمام مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ نے اپنے بندوں پر جن اہل بیت کی محبت واجب کی ہے ان سے مراد علی ،فاطمہ ،حسن اور حسین علیہم السلام ہیں ،اور آیت میں اقتراف الحسنہ سے مراد اِن ہی کی محبت اور ولایت ہے اور اس سلسلہ میں یہاں پردوسری روایات بھی بیان کریں گے جنھوں نے اس محبت و مؤدت کی وجہ بیان کی ہے :
ابن عباس سے مروی ہے :جب یہ آیت نازل ہو ئی تو سوال کیا گیا :یارسول ۖاللہ آپ کے وہ قرابتدارکو ن ہیں جن کی آپ نے محبت ہم پر واجب قرار دی ہے؟
آنحضرت نے فرمایا :''علی ،فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے ''۔(١)
جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے :ایک اعرابی نے نبی کی خدمت میں آکر عرض کیا :مجھے مسلمان بنا دیجئے تو آپ نے فرمایا :'' تَشْھَدُ اَنْ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَحْدَہُ لَاشَرِیْکَ لَہُ،وَاَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ''''تم خدا کی وحدانیت اور محمد کی رسالت کی گو اہی دو میں قرابتداروں کی محبت کے علاوہ اور کچھ نہیں چا ہتا ''۔
اعرابی نے عرض کیا :مجھ سے اس کی اجرت طلب کر لیجئے ؟رسول اللہ ۖ نے فرمایا : ''ِلا َّالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی''۔
اعرابی نے کہا :میرے قرابتدار یا آپ کے قرابتدار ؟فرمایا :'' میرے قرابتدار ''۔اعرابی نے کہا :
میں آپ کے دست مبارک پر بیعت کرتا ہوں پس جو آپ اور آپ کے قرابتداروں سے محبت نہ کرے اس
..............
١۔مجمع الزوائد، جلد ٧، صفحہ ١٠٣۔ذخائر العقبیٰ، صفحہ ٢٥۔نور الابصار ،صفحہ ١٠١۔در المنثور، جلد ٧،صفحہ ٣٤٨۔
پر اللہ کی لعنت ہے ۔۔۔نبی نے فوراً فرمایا :''آمین ''۔(١)
٢۔خداوند عالم کا فرمان ہے :( فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْانَدْعُ َبْنَائَنَاوََبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَاوَنِسَائَکُمْ وََنْفُسَنَاوََنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اﷲِ عَلَی الْکَاذِبِینَ )۔(٢)
''پیغمبر علم آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آئو ہم لوگ اپنے اپنے فرزند،اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں ''۔
مفسرین قرآن اور راویان حدیث کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیہ ٔ کریمہ اہل بیت ِ نبی کی شان میں نازل ہو ئی ہے ،آیت میں ابنائ( بیٹوں) سے مراد امام حسن اور امام حسین ہیںجوسبط رحمت اور
امام ہدایت ہیں ،نساء ''عورتوں '' سے مراد فاطمہ زہرا دختر رسول سیدئہ نساء العالمین ہیں اور انفسنا سے مراد سید عترت امام امیر المو منین ہیں ۔(٣)
٣۔خداوند عالم کا ارشاد ہے :(ھَلْ اَتیٰ عَلَی الاِنْسَانِ ۔۔۔) کامل سورہ ۔
مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ سورہ اہل بیت ِنبوت کی شان میں نازل ہوا ہے۔(٤ )
٤۔خداوند عالم کا فرمان ہے :( ِنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ َہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا )۔(٥)
..............
١۔حلیة الاولیائ، جلد ٣،صفحہ ١٠٢۔
٢۔سورئہ آل عمران، آیت ٦١۔
٣۔تفسیر رازی، جلد ٢،صفحہ ٦٩٩۔تفسیر بیضاوی ،صفحہ ٧٦۔تفسیر کشّاف، جلد ١،صفحہ٤٩۔تفسیر روح البیان، جلد ١،صفحہ ٤٥٧۔تفسیر جلالین، جلد ١،صفحہ ٣٥۔صحیح مسلم، جلد ٢،صفحہ ٤٧۔صحیح ترمذی ،جلد ٢،صفحہ ١٦٦۔سنن بہیقی ،جلد ٧،صفحہ ٦٣۔مسند احمد بن حنبل، جلد ١،صفحہ ١٨٥۔مصابیح السنّة، بغوی، جلد ٢،صفحہ ٢٠١۔سیر اعلام النبلائ، جلد ٣،صفحہ ١٩٣۔
٤۔تفسیر رازی، جلد ١٠، صفحہ ٣٤٣۔اسباب النزول ، واحدی صفحہ١٣٣۔ روح البیان ،جلد ٦،صفحہ ٥٤٦۔ینابیع المؤدة ،جلد ١،صفحہ ٩٣۔ریاض النضرہ ،جلد ٢،صفحہ ٢٢٧۔امتاع الاسماع ،صفحہ ٥٠٢۔
٥۔سورئہ احزاب، آیت ٣٣۔
''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''۔
مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت پانچوں اصحاب کساء کی شان میں نازل ہو ئی ہے (١)ان میں سرکار دو عالم رسول خدا ۖ ،ان کے جا نشین امام امیر المو منین ،جگر گوشۂ رسول سیدئہ نسا ء العالمین جن کے راضی ہونے سے خدا راضی ہوتا ہے اور جن کے غضب کرنے سے خدا غضب کرتا ہے ، ان کے دونوں پھول حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں ،اور اس فضیلت میں نہ نبی اکرم ۖ کے خاندان میں سے اور نہ ہی بڑے بڑے اصحاب کے خاندان میں سے ان کا کو ئی شریک ہے۔ اس بات کی صحاح کی کچھ روایات بھی تا ئید کر تی ہیںجن میں سے کچھ روایات مندرجہ ذیل ہیں :
١۔ام المو منین ام سلمہ کہتی ہیں :یہ آیت میرے گھر میں نازل ہو ئی جبکہ اس میں فاطمہ ،حسن، حسین اور علی علیہم السلام مو جود تھے ،آنحضرت ۖ نے اُن پر کساء یما نی اڑھاکر فرمایا :اللَّھُمَّ اَھْلُ بَیْتِیْ فَاذْھِبْ عنْھمْ الرِّجْسَ وَطَھِّرْھُمْ تَطْہِیرًا''''خدایا !یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے رجس کو دور رکھ اور ان کو اس طرح پاک رکھ جو پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''آپ نے اس جملہ کی اپنی زبان مبارک سے کئی مرتبہ تکرار فر ما ئی ام سلمہ سنتی اور دیکھتی رہیں،ام سلمہ نے عرض کیا :یارسول اللہ ۖ کیا میں بھی آپ کے ساتھ چادر میں آسکتی ہوں ؟اور آپ نے چادر میں داخل ہونے کیلئے چا در اٹھائی تو رسول نے چادر کھینچ لی اور فر مایا : ''اِنَّکِ عَلیٰ خَیْر''''تم خیر پر ہو ''۔(٢)
٢۔ابن عباس سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ۖ کو سات مہینے تک ہر نماز کے وقت پانچ مرتبہ حضرت علی بن ابی طالب کے دروازے پر آکر یہ فرماتے سناہے :''السَّلامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَ
..............
١۔تفسیررازی، جلد ٦، صفحہ ٧٨٣۔صحیح مسلم، جلد ٢،صفحہ ٣٣١۔الخصائص الکبریٰ ،جلد ٢،صفحہ ٢٦٤۔ریاض النضرہ ،جلد ٢،صفحہ ١٨٨۔تفسیر ابن جریر، جلد ٢٢،صفحہ ٥۔مسند احمد بن حنبل، جلد ٤،صفحہ ١٠٧۔سنن بیہقی ،جلد ٢،صفحہ ١٥٠۔مشکل الآثار ،جلد ١،صفحہ ٣٣٤۔خصائص النسائی صفحہ ٣٣۔
یہ بات شایان ذکر ہے کہ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں١٥،روایات میں مختلف اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے کہ یہ آیت اہل بیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہو ئی ہے ۔
٢۔مستدرک حاکم، جلد ٢،صفحہ ٤١٦۔اسدالغابہ، جلد ٥،صفحہ ٥٢١۔
بَرَکَاتُہُ اَھْلَ الْبَیْتِ:( ِنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ َہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا)،الصَّلَاةُ یَرْحَمُکُمُ اللّٰہُ''۔
'' اے اہل بیت تم پر سلام اور اللہ کی رحمت وبرکت ہو !''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے''،نماز کا وقت ہے اللہ تم پر رحم کرے''آپ ۖ ہر روز پانچ مرتبہ یہی فرماتے۔(١)
٣۔ابو برزہ سے روایت ہے :میں نے سات مہینے تک رسول اللہ ۖ کے ہمراہ نماز ادا کی ہے جب بھی آپ ۖبیت الشرف سے باہر تشریف لاتے تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکے دروازے پر جاتے اور فرماتے : ''السَّلامُ عَلَیْکُمْ :( ِنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجسَ َہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا )۔(٢)
''تم پر سلام ہو:''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''
بیشک رسول اللہ کے اس فرمان کا مطلب امت کی ہدایت اور اُن اہل بیت کے اتباع کوواجب قرار دینا ہے جو امت کو ان کی دنیوی اور اُخروی زندگی میں اُ ن کے راستہ میں نفع پہنچانے کیلئے ان کی ہدایت کرتے ہیں۔
امام اور نیک اصحاب کے بارے میں نازل ہو نے والی آیات
قرآن کریم کی کچھ آیات امام اور اسلام کے کچھ بزرگ افراد اور نیک و صالح اصحاب کے سلسلہ میں نازل ہو ئی ہیں ،جن میں سے بعض آیات یہ ہیں :
١۔خداوند عالم کا ارشاد ہے :(۔۔۔وَعَلَی الَْعْرَافِ رِجَال یَعْرِفُونَ کُلًّابِسِیمَاہُم ۔۔)۔(٣)
''اور اعراف پر کچھ لوگ ہوں گے جو سب کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے ''۔
..............
١۔در منثور ،جلد ٥،صفحہ ١١٩۔
٢۔ذخائر عقبیٰ ،صفحہ ٢٤۔
٣۔سورئہ اعراف، آیت ٤٦۔
ابن عباس سے روایت ہے :اعراف صراط کی وہ بلند جگہ ہے جس پر عباس ،حمزہ ،علی بن ابی طالب اور جعفر طیار ذو الجناحین کھڑے ہوں گے جو اپنے محبوں کو ان کے چہروں کی نورانیت اور اپنے دشمنوں کو اُن کے چہروں کی تاریکی کی بنا پر پہچان لیں گے ۔(١)
٢۔خداوند عالم کا فرمان ہے :( مِنْ الْمُؤْمِنِینَ رِجَال صَدَقُوامَا عَاہَدُوا اﷲَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْتَظِرُوَمَابَدَّلُوا تَبْدِیلًا )۔(٢)
''مو منین میں ایسے بھی مرد میدان ہیں جنھوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کر چکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کر رہے ہیں اور اُن لوگوں نے اپنی بات میں کو ئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے ''۔
اس آیت کے متعلق امیر المو منین سے اس وقت سوال کیا گیا جب آپ منبر پر تشریف فر ما تھے تو آپ نے فرمایا:''خدایا ! بخش دے یہ آیت میرے ، میرے چچا حمزہ اور میرے چچا زاد بھا ئی عبیدہ بن حارث کے بارے میں نازل ہو ئی ہے ،عبیدہ جنگ بدر کے دن شہید ہوئے ،حمزہ احد کے معرکہ میں شہید کر دئے گئے لیکن میں اس شقی کے انتظار میں ہوں جو میری اس ''ڈاڑھی اور سر مبارک کوخون سے رنگین کر دے گا ''۔(٣)
آپ کے حق اور مخالفین کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات
قرآن کریم کی کچھ آیات آپ کے حق اور اُن مخالفین کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں جنھوں نے آپ کے سلسلہ میں مروی روایات اور فضائل سے چشم پوشی کی ہے :
١۔خداوند عالم کا فرمان ہے :( َجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْآخِر۔۔۔ )۔(٤)
''کیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبا دی کو اس جیسا سمجھ لیا ہے جو اللہ اورآخرت
..............
١۔صواعق محرقہ، صفحہ ١٠١۔
٢۔سورئہ احزاب ،آیت ٢٣۔
٣۔صواعق محرقہ ،صفحہ ٨٠۔نورالابصار، صفحہ ٨٠۔
٤۔سورئہ برائت ،آیت ١٩۔
پر ایمان رکھتا ہے اور راہ خدا میں جہاد کرتا ہے ہر گز یہ دونوں اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہو سکتے اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کر تا ہے ''۔
یہ آیت امیر المو منین کی شان میں اس وقت نازل ہو ئی جب عباس اور طلحہ بن شیبہ بڑے فخر کے ساتھ یہ بیان کر رہے تھے ۔طلحہ نے کہا :میں بیت اللہ الحرام کا مالک ہوں ،میرے ہی پاس اس کی کنجی ہے اور میرے ہی پاس اس کے کپڑے ہیں ۔عباس نے کہا :میںاس کا سقّہ اور اس کے امور کے سلسلہ میں قیام کرنے والا ہوں ۔امام نے فرمایا :''ماادری ماتقولون ؟لقدْ صلّیتُ الیٰ القِبْلَةِ سِتَّةَ اَشْھُرقَبْلَ النَّاسِ،واَنا صاحب الجہاد ''۔''مجھے نہیں معلوم تم کیا کہہ رہے ہو ؟میں نے لوگوں سے چھ مہینے پہلے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہے اور میں صاحب جہاد ہو ں ''اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی ۔(١)
٢۔خدا وند عالم کا فرمان ہے :( َفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًاکَمَنْ کَانَ فَاسِقًالَایَسْتَوُون)۔(٢)
''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہو جائے گاجو فاسق ہے ہر گز نہیں دونوں برابر نہیں ہو سکتے ''۔
یہ آیت امیر المو منین اور ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہو ئی ہے جب وہ اس نے امام پر فخر و مباہات کرتے ہوئے کہا :میں آپ سے زیادہ خوش بیان ہوں ،بہترین جنگجو ہوں،اور آپ سے بہتر دشمنوں کو پسپا کر نے والا ہوں ''اس وقت امام نے اس سے فرمایا : '' اسکُتْ، فَاِنَّکَ فَاسِق '' ''خاموش رہ بیشک تو فاسق ہے ''،اس وقت دونوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔(٣)
..............
١۔تفسیر طبری ،جلد ١٠،صفحہ ٦٨،تفسیر رازی، جلد ١٦،صفحہ ١١۔در منثور،جلد ٤،صفحہ ١٤٦۔اسباب النزول، مؤلف واحدی ،صفحہ ١٨٢۔
٢۔سورئہ سجدہ، آیت ١٨۔
٣۔تفسیر طبری ،جلد ٢١، صفحہ ٦٨۔اسباب نزول واحدی ،صفحہ ٢٦٣۔تاریخ بغداد، جلد ١٣،صفحہ ٣٢١۔ریاض النضرہ ،جلد ٢، صفحہ ٢٠٦۔
|