واقعۂ کربلا
 

آغاز جنگ
*پہلا تیر
* نافع بن ہلال جملی کی شہادت
* الحملة الاولی ( پہلا حملہ)
* غفاری برادران
* کرامت و ہدایت
* قبیلہ ٔجابری کے دو جوان
* بریر کا مباہلہ اوران کی شہادت
* حن*لہ بن اسعد شبامی کی شہادت
* عمرو بن قر*ہ انصاری کی شہادت
* عابس بن ابی شبیب شاکری اور انکے غلام کی شہادت
* نافع بن ہلال
* یزید بن زیاد ابو شعشاء کندی کی شہادت
* الحملة الثانیہ (دوسرا حملہ)
* چار دوسرے اصحاب کی شہادت
* مسلم بن عوسجہ
* سوید خثعمی و بشر حضرمی
* الحملة الثالثہ (تیسرا حملہ)
* اصحاب حسین کے حملے اور نبرد آزمائی
* الحملة الرابعہ (چوتھا حملہ )
* نماز *ہر کی آمادگی
* حبیب بن م*اہر کی شہادت
* حر بن یزید ریاحی کی شہادت
* نماز *ہر
* زہیر بن قین کی شہادت

آغاز جنگ
پہلا تیر
جب بات یہاں تک پہنچی توعمر بن سعد حسینی سپاہ کی طرف حملہ آورہوا اور آواز دی : اے زوید١(١) پرچم کو اور نزدیک لاؤ تو وہ پرچم کو بالکل قریب لے کر آیا اس وقت عمر بن سعد نے چلہ کمان میںتیر کو جوڑا اور حسینی لشکر کی طرف پھینکتے ہوئے بولا :'' أشھدوا أن أؤّل من رمیٰ ''(٢)تم سب گواہ رہنا کہ سب سے پہلا تیر جس نے پھینکا ہے وہ میں ہوں۔
جب نزدیک ہوکر پہلاتیر عمر سعد نے پھینکا تو سارے اموی لشکر نے تیر وںکی بارش کردی۔ اس کے بعد زیاد بن ابو سفیان کا غلام یسار اور عبیداللہ بن زیاد کا غلام سالم دونوں میدان جنگ میں آئے اور مبارز طلبی کرتے ہوئے بولے : کوئی ہم رزم ہے جو تم میں سے ہمارے سامنے آئے ؟ یہ سن کر حبیب بن مظاہر اور بریر بن حضیر اٹھے تاکہ اس کا جواب دیں لیکن دونوں سے امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ''اجلسا'' تم دونوں بیٹھ جاؤ ! اس کے بعد عبداللہ بن عمیرکلبی (٣) اٹھے اور عرض کیا : اے ابو عبداللہ !خدا
..............
١۔ شیخ مفید نے ارشاد میں '' درید '' لکھاہے، ص٢٣٣و ٢٣٦ ،طبع نجف
٢۔ صقعب بن زہیر اور سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم سے یہ روایت نقل کی ہے۔( طبری، ج٥،ص ٤٢٩ ، ارشاد ، ص ٢٣٦)
٣۔ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے۔ قبیلہ ہمدان کے چاہ جعد ( جعد کا کنواں ) میں ان کا گھر تھا۔ ایک دن آپ نے دیکھا کہ عبیداللہ کی طرف سے فوج نخیلہ میں جمع ہے اور حسین علیہ السلام کی طرف روانہ ہورہی ہے۔آپ نے ان لوگوں سے سوال کیا توجواب دیا گیا کہ یہ لوگ دختر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمہ کے فرزند حسین سے جنگ کے لئے جارہے ہیں ۔اس پر عبداللہ بن عمیر کلبی نے کہا میں تو اہل شرک سے جہاد پر حریص تھا لیکن اب میں یہ امید کرتا ہوں کہ ان لوگوں سے جہاد کرنا جو اپنے نبی کے نواسے سے جنگ کررہے ہیں خدا کے نزدیک مشرکین سے جہاد کرنے سے کم نہ ہوگا۔ آپ کی زوجہ ام وھب بھی آپ کے ہمراہ تھیں ۔ آپ ان کے پاس گئے اورساری روداد سنادی اور اپنے ارادہ سے بھی انھیںآگاہ کردیا ۔سب کچھ سن کر اس نیک سرشت خاتون نے کہا: تمہاری فکر صحیح ہے، خدا تمہاری فکر کو سالم رکھے اور تمہارے امور کو رشد عطا کرے؛ یہ کام ضرور انجام دو اور مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو۔ عبدا للہ راتوںرات اپنی بیوی کے ہمراہ نکل گئے اور امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہوگئے ۔
آپ پر رحمت نازل کرے ! کیا مجھے اجازت ہے کہ میں ان دونوں کے مقابلہ پر جاؤں ؟ تو امام حسین نے اس جوان کی طرف دیکھا ،وہ ایک طویل القامت ، قوی کلائیوں اور مضبوط بازؤں والا جوان تھا۔ آپ نے فرمایا :'' ان لا حسبہ للأ قران قتالا! اخرج ان شئت ''میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں کے مقابلہ میں برابر کا جنگجو ثابت ہوگا، اگر تم چاہتے ہو تو جاؤ! یہ سن کر وہ جوان ان دونوں کے سامنے آیا تو ان دونوں نے کہا : تو کون ہے ؟ تو اس جوان مرد نے اپنا حسب و نسب بتادیا۔ اس پر وہ دونوں غلام بولے : ہم تم کو نہیں پہچانتے ہیں۔ہمارے مقابلے میں تو زہیر بن قین یا حبیب بن مظاہر یا بریر بن حضیر کو آنا چاہیے ۔
زیاد کا غلام یسار ، عبیداللہ بن زیاد کے غلام سالم کے آگے آمادہ جنگ تھا ۔ کلبی نے یسار کو مخاطب کر کے کہا : اے زنا کار عورت کے بچے ، تیری خواہش ہے کہ کوئی اور تیرے مقابلہ پر آئے۔ تیرے مقابلہ پر کوئی نہیں آئے گا مگر جو بھی آئے گا وہ تجھ سے بہتر ہو گا۔ اس کے بعداس پر سخت حملہ کیا اور تلوار کا ایک وار کر کے اسے زمین پر گرا دیا ۔ابھی آپ اپنی تلوار سے اس پر حملہ میں مشغول تھے کہ عبیداللہ کا غلام سالم آپ پر ٹوٹ پڑا ۔ ادھر سے اصحاب امام حسین علیہ السلام نے آواز دی : وہ غلام تم پر حملہ کررہا ہے لیکن عبداللہ نے اس کے حملہ کو اہمیت نہ دی یہاں تک کہ اس نے آپ پر تلوار سے حملہ کردیا؛ کلبی نے اپنے بائیں ہاتھ کو سپر بنایا جس سے آپ کے بائیں ہاتھ کی انگلیاں کٹ گئیں لیکن کلبی زخم کی پرواہ کئے بغیر اس کی طرف مڑے اور اس پر ایسی ضرب لگائی کہ اسے قتل کردیا ۔ ان دونوں کو قتل کرنے کے بعد کلبی رجز خوانی کرتے ہوئے مبارزہ طلبی کر رہے تھے ۔
ان تنکرون فأ نا بن کلب
حسب بیت فی علیم حسبی
ان امرؤ ذومرة وعصب
و لست با لخوّار عند النکب
انزعیم لک أم وھب
با لطعن فیھم مقدماً والضرب
اگر تم مجھے نہیں پہچانتے ہو تو پہچان لو کہ قبیلہ کلب کا فرزند ہوں، میرا آگاہ اور بیناخاندان میرے لئے کافی ہے، میں بڑا طاقتور اور سخت جاں مرد ہوں ، میدان کارزار میں ناگوار واقعات مجھے متزلزل نہیں کرسکتے، اے ام وھب میں تمہیں وعدہ دیتا ہوں کہ میں ان پر بڑھ بڑ ھ کر حملہ کروں گااور ان کوماروں گا وہ بھی ایسی ضرب لگاؤں گا جو ایک یکتا پرست اور موحد کی ضرب میں اثر ہوتا ہے۔
یہ سن کر عبداللہ کی زوجہ ام وھب نے عمود خیمہ اٹھایا اور اپنے شوہر کا رخ کرکے آگے بڑھی اور یہ کہے جارہی تھی'' فداک أبی وأمی'' میرے ماں باپ تم پر قربان ہو ں، تم محمد ۖ کی پاک و پاکیزہ ذریت کی طرف سے دفاع میں خوب جنگ کرو ،اس کے بعد عبد اللہ اپنی زوجہ کو مخدرات کی طرف پلٹا نے لگے ،تو اس نے عبداللہ کے کپڑے پکڑ لئے اورکھینچتے ہوئے بولی : میں جب تک کہ تمہارے ساتھ مرنہ جاؤں تمہیں نہیں چھوڑوں گی ،یہ صورت حال دیکھ کر امام حسین علیہ السلام نے اسے پکارا اور فرمایا : ''جزیتم من أھل بیت خیراً، ارجع رحمک اللّٰہ الی النساء فاجلس معھن فانہ لیس علی النساء قتال '' خدا تم لوگوںکو جزائے خیر دے ،اللہ تم پر رحمتوں کی بارش کرے، خواتین کی طرف پلٹ آؤ اور انھیں کے ہمراہ بیٹھو کیونکہ خواتین پر جہاد نہیں ہے ۔

الحملة الا ولی (پہلا حملہ )
اس کے بعداموی لشکر کے میمنہ کے سردار عمروبن حجاج نے لشکر حسینی کے داہنے محاذپر حملہ شروع کر دیا ۔جب یہ لشکر امام حسین علیہ السلام کے سپاہیوں کے نزدیک آیا تو وہ سب کے سب اپنے زانو پر بیٹھ کر دفاع میں مشغول ہو گئے اور نیزوں کو ان کی طرف سیدھا کر کے انھیں نشانہ پر لے لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لشکر نیزوں کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور واپس لوٹنے لگا۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر حسینی سپاہ نے ان پر تیر چلانا شروع کیا، جس کے نتیجے میں ان میں سے بعض ہلاک ہوئے تو بعض دیگر زخمی۔ (١)

کرامت وہدایت
اسی اثنا ء میں قبیلہء بنی تمیم کا ایک شخص جسے عبد اللہ بن حوزہ کہا جاتا ہے سامنے آیا اور امام حسین علیہ السلام کے بالمقابل کھڑا ہو کر بولا : اے حسین ! اے حسین ! تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : ''ماتشاء ؟'' تو کیا چاہتا ہے ؟
..............
١۔ابو مخنف نے بیان کیا ہے کہ ابو جناب نے مجھ سے یہ روایت نقل کی ہے( طبری، ج٥ ، ص٤٢٩ ،الارشاد ، ص ٢٣٦ ،نجف )
عبد اللہ بن حوزہ نے کہا : ''أبشر بالنار'' تمہیں جہنم کی بشارت ہو، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : '' کلا ّ ، ان أقدم علی ربّ رحیم وشفیع مطاع، من ھٰذا؟'' نہیں ایسا نہیں ہے، میں اپنے مہربان ورحیم رب کی طرف گا مزن ہوں، وہی شفیع اور قابل اطاعت ہے پھر امام نے سوال کیا:یہ کون ہے ؟
آپ کے اصحاب نے جواب دیا : یہ ابن حوزہ ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :'' ربّ حزہ الی النار ! ''خدا یا! اسے جہنم کی آگ میں ڈال دے ۔
امام علیہ السلام کی بد دعا کا اثر یہ ہو اکہ ناگا ہ اس کا گھوڑا ایک گڑھے کے پاس بدکا اور وہ گڑھے میں جا گر الیکن اس کا پیر رکاب میں پھنسا رہ گیا اور اس کا سر زمین پر آگیا۔اسی حالت میں گھوڑے نے دوڑنا شروع کیا اور وہ جدھر سے گزرتا تھا زمین کے ہر پتھر اور درخت سے اس کا سر ٹکراتا تھا۔یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ وہ مر گیا ۔(١)
اس سلسلے میں مسروق بن وائل کا بیان ہے : میں اس لشکر کے آگے آگے تھا جو حملہ کے لئے حسین کی طرف آگے بڑھا تھا۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ میں لشکر کے بالکل آگے رہوں گا تا کہ جب حسین قتل کر دیئے جا ئیں تو ان کا سر میرے ہاتھ لگے اور وہ سر میں عبید اللہ بن زیاد کی خدمت میںلے جا کر کسی خاص مقام و منزلت پر فائز ہو جاؤں۔ جب ہم لوگ حسین تک پہنچے تو ہما ری فوج کا ایک شخص جسے ابن حوزہ کہتے ہیں وہ سامنے آیا اور بولا : کیا حسین تمہا رے درمیان موجود ہیں ؟ تو حسین( علیہ السلام) خاموش رہے ۔ اس نے اپنی بات کو دھرایا یہاں تک جب تیسری بار اس نے تکرار کی تو حسین (علیہ السلام ) نے فرمایا : ''قولوا لہ : نعم ھٰذا الحسین فما حاجتک '' اس سے کہو : ہاں یہ حسین ہیں ، تم کیا چاہتے ہو؟
ابن حوزہ نے کہا : اے حسین !تم کو جہنم کی بشارت ہو!
امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :''کذبت،بل أقدم علی ربّ غفور وشفیع مطاع، فمن أنت ؟'' تو جھوٹ بولتا ہے، میں تو اپنے پالنے والے اور بخشنے والے، شفیع اور قابل اطاعت مالک کی طرف گا مزن ہوں، تو کون ہے ؟
..............
١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے ابو جعفر حسین نے یہ روایت نقل کی ہے( طبری ،ج٥ ،ص ٤٣٠)
اس نے کہا : میں ابن حوزہ ہوں ۔
یہ سن کر حسین نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اتنے بلند کئے کہ کپڑے کے اوپر سے ہم نے بغل کی سفیدی دیکھ لی پھر کہا : اللّٰھم حزہ الیٰ النار ! خدا یا! اسے جہنم کی آگ میں ڈال دے ،یہ سن کر وہ غصہ میں آگیا اور وہ نہر جو اس کے اور حسین کے درمیان تھی اسے پار کرکے ان پر حملہ کر نا چاہا تو گھوڑے کے چھلا نگ لگا تے ہی وہ نیچے گر پڑالیکن اس کا پیر رکاب میں پھنس گیا اور گھوڑے نے تیز دوڑنا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے وہ نیچے گر گیا اور اس کے قدم ، پنڈلی تک کٹ کر گر گئے اور پیر کا بقیہ حصہ اسی رکاب میں پھنسا رہ گیا ۔
عبد الجباربن وائل حضر می کا بیان ہے : یہ صورت حال دیکھ کر مسروق لوٹ گیا اور لشکر کو اپنے پیچھے چھوڑ دیا . تو میں نے اس سے اس کا سبب پوچھا تو وہ بولا : ''لقد رأیتُ من أہل ھٰذا البیت شیئاًلا أقا تلھم أبداً ''(١)میں نے اس گھر انے سے ایسی چیز دیکھی ہے جس کے بعد میں ان سے کبھی بھی جنگ نہیں کر سکتا ۔

بر یر کا مباہلہ اور ان کی شہادت
یزید بن معقل ، عمر بن سعد کے لشکر سے نکلا اور بولا : اے بریر بن حضیر ! (٢) تم نے دیکھا کہ اللہ نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ تو بریر نے جواب دیا :خدا نے میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ؛ ہاں تیرا نصیب بہت برا ہے۔
یزید بن معقل:تو جھوٹ بول رہاہے حالانکہ اس کے پہلے تو کبھی جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ کیا تجھے وہ موقع یاد ہے جب میں قبیلہ لوذان کے علاقے میں تیرے ساتھ چل رہاتھااور تو کہہ رہا تھا کہ عثمان بن عفان نے اپنی جان کو گنوادیا اور معاویہ بن ابو سفیان گمراہ اور دوسروں کوگمراہ کرنے والا ہے۔ امام ہدایت و حق تو فقط علی بن ابیطالب ہیں ؟
..............
١۔عطا بن سامت نے عبد الجبار بن وائل حضر می سے اور اس نے اپنے بھائی مسروق بن وائل سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥ ،ص ٤٢١)
٢۔ آپ کے شرح احوال شب نو محرم کے واقعات میں گزرچکے ہیں ۔
بریرنے جواب دیا: ہاں میں گواہی دیتا ہوں، میری رائے اور میرا قول یہی ہے ۔
یزید بن معقل نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا شمار گمراہوں میں ہے ۔
بریر بن حضیرنے اس کے جواب میں فرمایا: کیا تم اس پر تیار ہوکہ پہلے میں تم سے مباہلہ(١) کروںاور ہم اللہ سے دعاکریں کہ جھوٹے پر اس کی لعنت ہو اور باطل پرست کو موت کے گھاٹ اتار دے؛ اس کے بعد میں میدا ن کارزار میں آکر تم سے نبرد آزمائی کروں ۔
یزیدبن معقل ا س پر راضی ہوگیا دونوں نے میدان میں آکر اللہ کی بارگاہ میں دعا کرنے کے لئے ہاتھ اٹھائے کہ خدایا !کاذب پر لعنت کر اور صاحب حق کے ہاتھ سے باطل پرست کو قتل کرادے۔ اس بد دعا کے بعد دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئے۔ تلواروں کا آپس میں ٹکراؤ ہوااور یزید بن معقل نے بریر بن حضیر پر ایک ہلکی سی ضرب لگائی جس سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچالیکن ادھر بریر بن حضیر نے ایسی کاری ضرب لگائی کہ اس کے ''خود ''کو کاٹتی ہوئی تلوار اس کے سر تک پہنچی اور اسے کاٹتی ہوئی اس کے مغز اور دماغ تک پہنچ گئی وہ زمین پراس طرح گرا جیسے کوئی چیزبلندی سے گررہی ہو؛ ادھر فرزند حضیر کی تلوار اس کے سر میں جاکر رک گئی تھی، گویا میں دیکھ رہا تھا کہ وہ تلوار کو اپنے سرسے باہر نکالنے کے لئے حرکت دے رہا تھا۔اسی دوران عمر بن سعد کے لشکر کے ایک سپاہی رضی بن منقذ عبدی نے جناب بریر پر حملہ کردیا۔ دونوں میں گتھم گتھاہوگئی اوروہ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ بڑی گھمسان کی لڑائی ہوتی رہی۔ آ خر کار بریراسے گراکر اس کے سینے پر بیٹھ گئے تو رضی چلایا کہاں ہیںاہل رزم اور کہاں ہیںدفاع کرنے والے؟ ! یہ سن کر کعب بن جابر ازدی نے نیزہ سے بریر پر حملہ کردیا اور وہ نیزہ آپ کی پیٹھ میں داخل ہوگیا جب بریر نے نیزہ کی نوک کو محسوس کیا تو رضی بن منقذ عبدی کے چہرے کو دانتوں سے دبالیا اور اس کی ناک کا ایک حصہ کاٹ ڈالا؛ لیکن کعب بن جابرنے مسلسل نیزہ کا وار کرکے'' عبدی ''کو بریر کے چنگل سے نکال دیا اور
..............
١۔مباہلہ یعنی ملاعنہ جسمیں دونوں افراد دعا کریں کہ خدا باطل اور ظالم پر لعنت کرے ۔
نیزہ کی انی کو بریر کی پشت میں پیوست کردیا پھر اس کے بعد بریر پر تلوار سے حملہ کرکے انھیںشہید کردیا۔ ( ان پر خدا کی رحمت ہو ) (١)و(٢)
..............
١۔ ابو مخنف کہتے ہیں کہ مجھ سے یوسف بن یزیدنے عفیف بن زہیر بن ابو اخنس کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے اور وہ حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت وہاں حاضر تھا ۔(طبری، ج٥، ص ٤٣١) باقیماندہ خبر حاشیہ شمارہ ٢ میں ملاحظہ ہو ۔
٢۔جب کعب بن جابر ازدی لوٹا تو اس کی زوجہ یا بہن نوار بنت جابر نے کہا : تو نے فرزند فاطمہ کے خلاف جنگ کی ہے اور سیدا لقراء ( تلاوت و قراء ت قرآن کے سید و سردار) بریرکو قتل کیا ہے، تو نے بہت بڑی خیانت انجام دی ہے۔ خداکی قسم میں اب کبھی بھی تجھ سے بات نہیں کروں گی۔ کعب بن جابر نے کہا :
سلی تخبر عنی و أنت ذمیمة
غداة حسین والرماح شوارع
الم آت أقصیٰ ماکرھت ولم ےْخل
علیّ غداة الروع ما أنا صانع
مع یز نی لم تخنہ کعو بہ
وأبیض مخشوب الغرارین قاطع
فجر دتہ فی عصبة لیس دینھم
بدین وان بابن حرب لقانع
ولم تر عین مثلھم فی زما نھم
ولا قبلھم ف الناس اذ أنا یافع
أشدّ قراعاً با لسیوف لدی الوغی
ألا کل من یحمی الذمار مقارع
وقد صبروا للطعن والضرب حُسّرا
وقد نازلوا لوأن ذالک نافع
فا بلغ (عبید اللہ ) أما لقیتہ
بأ نی مطیع للخلیفة سا مع
قتلت بر یر اً ثم حملت نعمة
أبا منقذ لما دعی : من یماصع
تو مورد مذمت قرار پاچکی ہے تو مجھ سے حسین کی سپیدہ سحری اور نیزوں کے سیدھے ہونے کے سلسلے میں سوال کر اور مجھ سے خبر لے ۔ کیا میں اس چیز کی انتہا تجھے نہ بتاؤں جو تجھے ناپسند ہے اور جس میدان کارزار کی صبح نے مجھ پر اس امر پرکوئی خلل وارد نہیں کیا جسے میں نے انجام دیا ۔ میرے پاس سیف بن ذی یزن یمنی کا نیزہ تھا جو کبھی ٹیڑھا نہیں ہوا اورجس کی سفید لکڑی کا غلاف دونوں طرف سے براں تھا۔ میں نے اسے اس گروہ کے سامنے بر ہنہ کیا جن کا دین میرا دین نہ تھا اور میں ابو سفیان کے خاندان سے قانع ہوں۔میری آنکھوں نے اپنے زمانے میں ان کے مانندنہیںدیکھااور اس سے قبل کسی نے نہیںدیکھا؛ کیونکہ میں جوان ہوں۔ جنگ کے وقت ان کی تلوار میں بڑی کاٹ تھی،آگاہ ہوجاؤکہ جو بھی ذمہ داری سے حمایت کرتا ہے وہ سخت کوش ہوتا ہے ۔ واقعا ان لوگوں نے نیزوں اور تلواروں کے زخم پر بڑا صبر کیا اور وہ گھوڑے سے نیچے اتر آئے اگریہ ان کے لئے مفید ہوتا ۔اگر عبیداللہ سے ملاقات کرے تو اس کو یہ خبر پہنچادے کہ میں خلیفہ کامطیع اور ان کی باتوں کا سننے والا ہوں ۔ میں نے بریر کو قتل کیااور ابو منقذ کو اپنا احسان مند بنا لیا، جب اس نے پکارا کہ میرا مدد گا کون ہے ؟
ابو مخنف کا بیان ہے : رضی بن منقذ عبدی نے اس کے جواب میں یہ کہا :
ولو شاء رب ما شھدت قتالھم
ولا جعل النعماء عند ابن جابر
لقد کان ذاک الیوم عارا وسبّةً
یعیر ہ الأ بناء بعد ا لمعا شر
فیالیت ان کنت من قبل قتلہ
ویوم حسین کنت فی رمس قابر
اگر میرا پروردگار چاہتاتو میں کربلا کی جنگ میں حاضر نہ ہوتا اورنہ جابر کے لڑکے کا مجھ پر احسا ن ہوتا۔ در حقیقت وہ دن تو ننگ وعار کا دن تھا جو نسلوں تک طعن و تشنیع کا باعث رہے گا ۔ اے کاش بریر کے قتل سے قبل میں مرگیا ہوتا اور حسین کے مقابلہ کے دن سے پہلے میں قبر میں مٹی کے نیچے ہوتا۔

عمر وبن قرظہ انصاری کی شہادت
جناب بریر کی شہادت کے بعد عمر و بن قرظہ انصاری امام حسین علیہ السلام کی طرف سے دفاع کرتے ہوئے نکلے اور مشغول جہاد ہوگئے ۔آپ وقت قتال ان اشعار کو پڑھ رہے تھے۔
قد علمت کتیبة الأ نصا ر
ان سأحمی حوزة الذمار
ضرب غلا م غیر نکس شار
دون حسین مھجتی ودار (1)
سپاہ انصار کو معلوم ہے کہ میں اس خاندان کی ایسی حمایت ونصرت کروں گا جو ایک ذمہ دار محافظ کا انداز ہوتا ہے ،میں ایک سر بلند اور سرفراز جوان کی طرح وار کروںگا اور کبھی منہ نہیں موڑوں گا کیونکہ میرا خون اور میرا خاندان حسین پرفدا ہے ۔
اسی حال میں آپ درجۂ شہادت پر فیضیاب ہوگئے۔ آپ پر خدا کی رحمت ہو۔آپ کا بھائی علی بن قرظہ ، عمر بن سعد کی فوج میں تھا ۔یہ منظر دیکھ کر وہ پکارا اے کذاب بن کذاب! ( اے جھوٹے باپ کے جھوٹے بیٹے ) تو نے میرے بھائی کوگمراہ کیا ، اسے دھوکہ دیا یہاں تک کہ اسے قتل کردیا ! یہ سن کر امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :
''ان اللّٰہ لم یضل أخاک ولکنہ ھدیٰ أخاک وأضلک'' خدا نے تیرے بھائی کو گمراہ نہیں کیا بلکہ تیرے بھائی کو ہدایت بخش دی، ہاں تجھے گمراہ کردیا ۔
..............
١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے عبدالرحمن بن جندب نے یہ روایت نقل کی ہے( طبری ،ج٥، ص ٤٣٣ )
علی بن قرظہ نے کہا خدا مجھے نابود کرے اگر میں تجھے قتل نہ کروں، یہ کہہ کر امام علیہ السلام پر حملہ کیا۔ نافع بن ہلال مرادی نے آگے بڑھ کے مزاحمت کرتے ہوئے نیزہ لگا کر اسے زمین پر گرا دیا تو اس کے ساتھیوں نے حملہ کیا اور اسے کسی طرح بچاکر لے گئے۔(١)جنگ کا بازار گرم تھا، گھمسان کی لڑائی ہورہی تھی، سپاہ اموی نے چاروں طرف گھوم کر قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا تھا۔اس دوران حر بن یزید ریاحی اس فوج پر حملہ آور تھے اور اس شعر سے تمثیل کئے جارہے تھے ۔
مازلت أر میھم بثغر ة نحرہ
ولبانہ حتی تسر بل بالدم
میں ان کی گردن اور سینے پر مسلسل تیر بارانی کرتا رہوں گا یہاں تک کہ وہ لوگ خون کا لباس پہن لیں ۔اس وقت حالت یہ تھی کہ ان کے گھوڑے کے کان اور ابرؤں سے نیزوں کی بارش کی وجہ سے خون جاری تھا۔ یزید بن سفیان تمیمی مسلسل یہ کہہ رہا تھاکہ خدا کی قسم اگر میں'' حر'' کو اس وقت دیکھتا جب وہ ہماری فوج سے نکلا تھا تو اس نیزہ کی نوک سے اس کا پیچھا کرتا۔ یہ سن کر حصین بن تمیم(٢)نے کہا : یہی ہے حر بن یزید جس کی تم تمنا کررہے تھے۔یزید بن سفیان نے کہا : ہاں! اور حر کی طرف نکل گیا اور آپ سے بولا:کیا تم نبرد آزمائی کے لئے آمادہ ہو ؟ حر نے جواب دیا : ہاں میں ہم رزم ہونا چاہتا ہوں ۔ یہ کہہ کر اس کے مد مقابل آئے ،گویا جان ہتھیلی پر لئے تھے۔ یزید بن سفیان اپنی تمام شرارتوں کے ساتھ سامنے آیا لیکن ابھی حر کو سامنے آئے کچھ دیر بھی نہ ہوئی تھی کہ آپ نے اسے قتل کردیا ۔(٣)
..............
١۔ ثابت بن ہبیرہ سے یہ روایت مروی ہے۔ (طبری، ج ٥، ص ٤٣٤ )
٢۔ یہ شخص عبید اللہ بن زیاد کی پولس کا سر براہ تھا اور عبید اللہ نے اسے عمر بن سعد کے ہمراہ حسین علیہ السلام کی طرف جنگ کے لئے بھیج دیا ۔کربلا میں عمر بن سعد نے اسے مجففہّ فوج کا سر براہ بنا دیا تھا۔ تجفاف زرہ کی قسم کا ایک رزمی لباس ہے ۔
٣۔ابو مخنف کہتے ہیں کہ مجھ سے ابو زہیر نضر بن صالح عبسی نے یہ روایت نقل کی ہے۔( طبری،ج٥،ص ٤٣٤)