تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

جنگ تبوک٭
جنگ موتہ کے اسباب اور عوامل پر غور اور فکر کے درمیان ہم اس سے واقف ہوچکے ہیں کہ شہنشاہ روم کو اس تازہ اور جدید اسلامی حکومت سے کس قدر دشمنی تھی اور آپ نے یہ بھی ملاحظہ فرمایا کہ رومی فوج سے مسلمانوں کی فوج کی پہلی مڈبھیڑ میں مسلمانوں کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا، اس زمانے میں روم اور
٭تبوک مدینہ اور دمشق کے بالکل درمیان ایک مشہور و معروف جگہ ہے (قسطلانی، المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ١٣١٦ھ.ق)، ج١، ص٣٤٦؛ زینی دحلان، السیرة النبویہ و الآثار المحمدیہ (بیروت: دار المعرفہ، ج٢، ص١٢٥) مدینہ سے اس کا فاصلہ نوے فرسخ ہے اور یہ مسافت بارہ (١٢) رات میں طے ہوتی تھی۔ (مسعودی، التنبیہ والاشراف (قاہرہ: دار الصاوی للطبع والنشر، ص٢٣٥) اوراس زمانہ میں جزیرہ نمائے عربستان کا سرحدی علاقہ تھا جو روم کی سرحد سے شام میں ملتا تھا آج تبوک سعودی عرب کا ایک شہر ہے جو اردن کی سرحد کے نزدیک ہے اور مدینہ سے اس کا فاصلہ تقریباً چھ سو کلو میٹر ہے.
ایران دو بڑی طاقتیں تھیں اور ان میں آپس میں بہت طویل جنگیں بھی ہوچکی تھیں لیکن اس کے باوجود ان کو یہ ہرگز برداشت نہیں تھا کہ ان کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی تیسری طاقت سر ابھار سکے! اس لئے یہ فطری بات تھی کہ فتح مکہ میں مسلمانوں کی بے مثال کامیابی اور جنگ حنین میںان کے ہاتھوں قبیلۂ ھوازن کی شکست ، رومیوں کے لئے (جو جزیرہ نمائے عرب کے شمال میں شام کے علاقہ میں واقع تھا) ایک اچھی خبر نہ تھی، ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے اور جنگ موتہ میں رومیوں کی کامیابی کو نظر میں رکھتے ہوئے شہنشاہ روم کی طرف سے فوجی نقل و حرکت ایک فطری بات تھی ٩ھ میں مدینہ اور شام کے درمیان تجارت کرنے والے قافلوں نے پیغمبر ۖ کو یہ اطلاع دی کہ شہنشائے روم ہرقُل مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہے۔(١)
حضرت ۖ نے اس خبر کو سنجیدگی سے سنا اور اس سے مقابلہ کے لئے تیاریاں شروع کردیں کیونکہ شہنشاہ روم اپنی سیاسی اور فوجی قدرت اور طاقت اور مسلمانوں سے سابقہ دشمنی کی بنا پر اسلام اور مسلمانوں کا بدترین اور خطرناک ترین دشمن تصور کیا جاتا تھا۔(٢)
اطلاعات سے پتہ چلا تھا کہ ہرقل نے کچھ عرب قبائل جیسے لخم، حزام ، عملہ اور غسان کو بھی اپنی اس نقل و حرکت میں اپنے ساتھ کر رکھا ہے اور اس کے لشکر کا مقدمة الجیش عنوان سے بلقاء نامی علاقہ تک پیش روی کر کے آگے بڑھ آیا تھا۔(٣) اور ہر قل نے خود حمص کے علاقہ میں پڑاؤ ڈال رکھا ہے۔(٤)
______________________
(١) واقدی، المغازی، تحقیق: مارسڈن جانس (بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات)، ج٣، ص٩٩٠؛ ابن سعد، طبقات الکبری، (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص١٦٥؛ قسطلانی، گزشتہ حوالہ، ص ٣٤٦؛ حلبی، السیرة الحلبیہ (بیروت: دار المعرفہ)، ج٣، ص٩٩۔ یہ گزارش نبطی تاجروں کے ذریعے دی گئی تھی جو تیل اور سفید آٹا مدینہ لے جاتے تھے۔ (واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٩٩٠۔ ٩٨٩۔
(٢)واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٩٩٠۔
(٣) واقدی، گزشتہ حوالہ، ابن سعد، گزشتہ حوالہ۔
(٤)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٦٦۔
پیغمبرۖ تک یہ اطلاع اس وقت پہونچی جب گرمی اپنی شباب پر تھی،(١) فصل کاٹنے اور پھلوں کے چنّے کا زمانہ آچکا تھا لوگ بہت تنگی میں تھے اور اپنے گھروں اور کاروبار زندگی کو ترک کرنا ان کے لئے بہت دشوار تھا۔(٢) پیغمبر اسلاۖم نے سب کی رضا کارانہ شرکت کا اعلان کردیا اور مکہ کے علاوہ عرب کے دوسرے بادیہ نشین قبیلوں سے مدد طلب کی اور مسلمانوں سے یہ خواہش بھی کی کہ جنگ کے وسائل او راخراجات پورا کرنے میں مدد کریں، (٣) اس سے پہلے حضرت ۖ کا طریقۂ کار یہ تھا کہ عام طور پر کسی بھی جنگ کے لئے نکلتے وقت اپنے مقصد اور اپنی منزل کا اعلان نہیں کرتے تھے لیکن اس بار آپ نے صاف طور پر یہ اعلان کردیا کہ ہماری منزل اور ہمارا مقصد تبوک ہے تاکہ لوگ اس طویل اور مشکل سفر کی زحمتوں کو نظر میں رکھ کر اس کے لئے تیاری کریں۔(٤)
ایسے نامناسب وقت اور حالات کے باوجود مسلمانوںنے بہت ہی اخلاص، لگن، انتہائی جوش اور جذبہ کے ساتھ آپ کی مدد کی۔(٥) تقریباً تیس ہزار (٦)کی فوج دس ہزار (٧)گھوڑوں، بارہ ہزار
______________________
(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، قسطلانی، گزشتہ حوالہ؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٣، ١٤٢۔
(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، قسطلانی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٩٢؛ طبری، گزشتہ حوالہ؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ (قاہرہ: مکتبة مصطفی البابی الحلبی، ١٩٥٥ھ.ق)، ج٤، ١٥٩۔
(٣) ابن سعد، گزشتہ حوالہ؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٩١۔ ٩٩٠؛ قسطلانی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٤٧؛ حلبی، گزشتہ حوالہ؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ١٦٠؛ طبرسی، اعلان الوری، دار الکتب الاسلامیہ ص١٢٢۔
(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٦٥ اور ١٦٧؛ واقدی، گزشتہ حوالہ؛ قسطلانی، ص٣٤٦؛ طبرسی، گزشتہ حوالہ؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص٩٩؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص١٥٩۔
(٥) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٩٩١؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص١٤٢۔
(٦)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٦٦؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٩٩٦ و ١٠٠٢؛ قسطلانی، گزشتہ حوالہ، ص٣٤٩؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص١٠٢
(٧) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص١٠٠٢؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٦٦۔
اونٹوں (١) کے ساتھ روانگی کے لئے تیار ہوگئی اس کے برخلاف منافقوں نے نہ صرف یہ کہ کسی عذر کے بغیر میدان جنگ کی طرف حرکت نہیں کی(٢)، بلکہ انھوں نے دوسرے لوگوں کو بھی مختلف بہانوں، جیسے گرمی زیادہ ہے وغیرہ وغیرہ میدان میں جانے سے روک دیا۔(٣) جن کی مذمت میں قرآن کی آیت بھی نازل ہوئی۔(٤)
بعض مسلمان کسی معقول عذر کے بغیر ، اسلامی لشکر کے ساتھ نہیں گئے ان کو قرآن کریم نے متخلفین (اپنی جگہ پر رہ جانے والا) قرار دے کر ان کی مذمت فرمائی ہے۔(٥) کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کو واقعاً جہاد میں جانے کا بے پناہ شوق تھا لیکن ان کے پاس جنگی سازو سامان نہیں تھا اس کی بنا پر وہ جنگ میں جانے سے محروم رہ گئے۔(٦)

مدینہ میں حضرت علی کی جانشینی
مدینہ کے حالات بھی کچھ کم حساس نہ تھے جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اسلامی فوج کو بہت دور دراز علاقے کا سفر درپیش تھا اور دوسری طرف منافقین، اسلام کا اظہار کرنے کے باوجود، پیغمبر ۖ کی ہمراہی سے سرپیچی کرچکے تھے اور عبد اللہ بن ابی جو منافقوں کا سرغنہ تھا اس نے کافی لوگوں کو اپنے گرد اکٹھاکر رکھا تھا۔(٧)
______________________
(١) مسعودی، النتبیہ والاشراف (قاہرہ: دارالصاوی للطبع والنشر)، ص٢٣٥۔
(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٦٦۔ ١٦٥؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٩٩٥۔
(٣) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٩٩٣؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٤، ص ١٠٦؛ قسطلانی، گزشتہ حوالہ، ص٣٤٢۔
(٤)سورۂ توبہ، آیت ٨١۔
(٥) سورۂ توبہ، آیت ٨١۔
(٦) سورۂ توبہ، آیت ٩٣۔ ٨٧۔
(٧) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٩٥؛ ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ١٦٢۔
نیز منافقین کے علاوہ مکہ کے شکست خوردہ دشمنان اسلام یا مکہ اور مدینہ کے اطراف میں بادیہ نشین قبیلوں کی طرف سے بھی فتنہ اور فساد کا امکان تھا اس بنا پر یہ ضروری تھا کہ پیغمبرۖکی عدم موجودگی میں کوئی ایسا طاقت ور اور مضبوط شخص نئی اور تازہ حکومت کی باگ ڈور سنبھالے اورکسی قسم کے فتنہ کا سر نہ ابھر نے دے کیونکہ بہت ممکن تھا کہ کچھ ناگوار حادثات پیش آجائیں، اسی بنا پر پیغمبر اسلاۖم نے حضرت علی کو مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا اور فرمایا: ''مدینہ کو سنبھالنے کے لئے یا میرا رہنا ضروری ہے یا تمہارا رہنا ضروری ہے''(١)
مسعودی لکھتے ہیں : سب سے زیادہ مشہور قول یہی ہے کہ رسول خدا نے علی کو مدینہ میں اپنا جانشین اس لئے قرار دیا تاکہ جو لوگ پیغمبر ۖ کے ساتھ سفر میں نہیں جارہے ہیں ان کی نگرانی کرتے رہیں اور انھیں قابو میں رکھیں۔(٢)
حضرت علی اس جنگ کے علاوہ تمام جنگوں میں پیغمبر اسلام کے ہمراہ(٣) اور آپ کے لشکر کے علمبردار رہ چکے تھے، (٤) اسی بنا پر منافقین نے یہ مشہور کردیا کہ رسول خدا نے حضرت علی کو مدینہ میں اس لئے چھوڑ دیا ہے کہ آپ کو ان سے کوئی لگاؤ اور محبت نہیں رہ گئی ہے ،یہ افواہ سننے کے بعد حضرت علی کو بہت ملال ہوا، آپ اسلحہ سجا کر منزل جرف٭میں رسول خداۖ کے پاس پہونچے اورمنافقین
______________________
(١) مفید ، الارشاد (قم: مکتبہ بصیرتی)، ص٨٢؛ طبرسی، اعلام الوری، ص ١٢٢۔
(٢) و الاشہر ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم استخلف علیاً علی المدینة لیکون مع من ذکرنا من المتخلفین۔ (التنبیہ و الاشرف۔ ص٢٣٦)۔
(٣)ابن عبد البر، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب (حاشیہ الاصابہ میں) ، ج٣، ص ٣٤؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، ج٣، ص ١٠٤؛ قسطلانی، المواہب اللدنیہ، ج١، ص٣٤٨۔
(٤) ابن عبد البر، گزشتہ حوالہ، ص ٢٧؛ جعفر مرتضی العاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ١٤٠٣ھ۔ق، ج٤، ص ١٩٦۔ ١٩٣.
٭جرف، مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک محلہ تھا۔
کی افواہ کو آپ کی خدمت میں بیان کیا اور آپ کے سامنے اس بات کا شکوہ بھی کیا، رسول خدا ۖ نے فرمایا: ''وہ لوگ جھوٹے ہیں میں نے تم کو اپنا جانشین قرار دیا ہے۔ تم واپس جاؤ اور میرے اہل او رعیال اور اپنے گھر والوں کے درمیان میرے جانشین رہو کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے''(١)۔
شیخ مفید کی روایت کے مطابق آپ نے یوں ارشاد فرمایا: ''اے میرے بھائی! تم اپنی جگہ واپس پلٹ جاؤ؛ چونکہ مدینہ کا نظام میرے یا تمہارے بغیر نہیں چل سکتا، بیشک تم میرے اہل بیت، دار ہجرت اور میری قوم کے درمیان میرے خلیفہ ہو۔ کیا تم راضی نہیں ہو کہ ...(٢)
ابن عبد البر قرطبی پانچویں صدی ہجری کے عالم اہل سنت تحریر کرتے ہیں کہ جنگ تبوک میں حضرت رسول خدا ۖ نے حضرت علی کو مدینہ میں اپنے اہل خانہ کے درمیان اپنا جانشین قرار دیا تھا۔ اوران سے فرمایا تھا کہ تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی...''(٣)
بخاری اور مسلم کی نقل کے مطابق پیغمبر اسلاۖم نے حضرت علی کے شکوہ کے بعد جناب موسیٰ کے بھائی، ہارون سے ان کی تشبیہ دی اور مذکورہ جملہ ارشاد فرمایا:(٤)
______________________
(١) افلا ترضی یا علی ان تکون منی بمنزلة ہارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی (ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٤، ص١٦٣؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، ج٣، ص١٠٤.)
(٢) ارجع یا اخی الی مکانک، فان المدینة لاتصلح الا بی او بک، فانت خلیفتی فی اہل بیتی و دار ہجرتی و قومی، اما ترضی... (الارشاد، ص٨٣)
(3) خلفہ رسول اللّٰہ علی المدینہ و علی عیالہ بعدہ فی غزوة تبوک و قال لہ انت منی.. (الاستیعاب، ج٣، ص٣٤.)
(4)صحیح بخاری، شرح و تحقیق: شیخ قاسم شماعی رفاعی، (بیروت: دار القلم، ط١، ص١٤٠٧ھ.ق)، ج٦، ص٣٠٩؛ المغازی، باب ١٩٥، ح ٨٥٧؛ صحیح مسلم، بشرح النووی (بیروت: دار الفکر، ١٤٠١ھ.ق)، ج١٥،
ص ١٧٥؛ فضائل الصحابہ، فضائل علی بن ابی طالب۔ رسول اسلامۖ کی یہ حدیث منزلت، مذکور کتابوں کے علاوہ مندرجہ ذیل کتب میں بھی آئی ہے:المواہب اللدنیہ، ج١، ص٣٤٨؛ الاستعیاب فی معرفة الاصحاب، (الاصابہ کے حاشیہ میں)، ج٣، ص٣٤؛ البدایہ والنہایہ، ج٥، ص٧ و ج٨، ص٧٧؛ مسند احمد، ج١، ص١٧٩؛ کنز العمال، ح ١٤٢٤٢، ٣٢٨٨١، ٣٦٥٧٢؛ الجامع الصحیح، ترمذی، المناقب، باب ٢١، ح ٣٧٣٠؛ النتبیہ والاشراف، ص٢٣٥؛ الصواعق المحرقہ، ص١٢١؛ الاصابہ، ج٢، ص٥٠٩، شمارۂ ٥٦٨٨؛ سیرۂ زینی دحلان، ج٢، ص١٢٦؛ مروج الذہب، ج٣، ص١٤؛ امالی شیخ طوسی، ص٥٩٩۔
رسول اکرم ۖ کی یہ مشہور حدیث اور آپ کا یہ مشہور فرمان جو حدیث منزلت کے نام سے مشہور ہے یہ حضرت علی کی امامت اور جانشینی کی بہترین اور واضح دلیل ہے کیونکہ اگر چہ پیغمبر اسلاۖم کا یہ فرمان صرف ایک خاص واقعہ یعنی سفر تبوک سے متعلق تھا لیکن اس میں مستثنی منقطع اس بات کی دلیل ہے کہ
______________________
بعض کتابوں کی نقل کے مطابق، پیغمبر اسلامۖ نے اس سفر میں محمد بن سلمیٰ کو اور بعض دوسرے نقل کے مطابق سباع بن عرفطہ کو اپنا جانشین مدینہ میں مقرر کیا تھا۔ (رجوع کریں: ابن ہشام، سیرة النبویہ، ج٤، ص ١٦٢؛ السیرة الحلبیہ، ج٣، ص١٠٢؛
تاریخ الامم والملوک، ج٣، ص ١٤٣؛ طبقات الکبری، ج٢، ص١٦٥؛ المواہب اللدنیہ، ج١، ص ٣٤٨) لیکن جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ روایات کی کثرت اور تواتر کے باوجود علی کی جانشینی،کے متعلق جو شیعہ سنی کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں ان کی مخالف روایتوں کے اوپر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ ابن عبد البر، پانچویں صدی کا بزرگ مورخ، رجال نویس اور فقیہ لکھتا ہے: حدیث ''انت منی بمنزلة ہارون من موسی...'' کو صحابہ کے ایک گروہ نے نقل کیا ہے۔ اور یہ حدیث صحیح ترین اور موثق ترین روایات میں سے ہے۔ اور اس کو سعد بن ابی وقاص، ابن عباس، ابو سعید خدری، ام سلمہ، اسماء بنت عمیس، جابر بن عبداللہ انصاری، اور بے شمار روایوں نے نقل کیا ہے کہ جن کے نام یہاں پر نقل کرنے سے بہت طویل فہرست بن جائے گی۔(الاستیعاب، ج٣، ص٣٤)
حضرت علی صرف عہدۂ نبوت کے علاوہ دوسرے تمام عہدوں میں جس میں سے ایک پیغمبر ۖ کی جانشینی بھی ہے جناب موسیٰ کے بھائی جناب ہارون کے مثل اور برابر ہیں۔(١)

راستے کی دشواریاں
ان تمام زخمتوں اور مشکلات کے باوجود اسلامی فوج مدینہ سے کوچ کر گئی لیکن جیسا کہ پہلے سے ہی اس بات کااندازہ لگایا جا رہا تھا مسلمانوں کو تبوک کے راستے میں چند وجوہ کی بناپر مثلاً راستہ طولانی ہونے کی وجہ سے، سواریوں کی قلت (کہ ہر تین آدمیوں کے لئے ایک گھوڑا تھا) گرمی کی شدت، پانی کی کمی اور تشنگی جیسی بے پناہ مشکلات اور زحمتوں کا سامنا کرنا پڑا اسی بنا پر تاریخ اسلام میں اس جنگ کو ''غزوة العسرہ''(٢) یعنی مشکلات کی جنگ یا ''جیش العسرة''(٣) یعنی زحمت اور مشکلات کے لشکر کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
______________________
(١)اس واضح اور روشن بیان کے باجود علمائے اہل سنت کے درمیان حلبی شامی اور ابن تیمیہ نے تعصب کی بنا پر اس حدیث کی دلالت میں شک و شبہ ڈال دیا ہے۔ اس حدیث کی دلالت اور اس کے حوالوں اور تقریباً سو سے زیادہ طرق سے منقول اس حدیث کے بارے میں مزید آگاہی کے لئے، کتاب الغدیر، ج٣، ص٢٠١۔ ١٩٧؛ احقاق الحق، ج٥، ص ٢٣٤۔ ١٣٣ و کتاب پیشوائی از نظر اسلام، تالیف استاد آیت اللہ جعفر سبحانی (انتشارات مکتب اسلام، ١٣٧٤ش)، پندرہویں فصل میں مراجعہ فرمائیں۔
(٢) ابن سعد، طبقات الکبری، ج٢، ص١٦٧؛ قسطلانی، المواہب اللدنیہ، ج١، ص٣٤٦؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص١٠٦
(٣)صحیح بخاری، ج٦، ص٣٠٨؛ مسعودی، التنبیہ والاشراف، ص٢٣٥؛ قسطلانی، گزشتہ حوالہ، ص٣٤٦۔ یہ نام اور عنوان، سورۂ توبہ کی آیت ١١٧ ''لقد تاب اللّٰہ علی النبی والمہاجرین والانصار الذین اتبعوہ فی ساعة العسرة...'' سے لیا گیا ہے۔
بہرحال اسلامی فوج اتنی طویل مسافت طے کرنے کے بعد سرزمین تبوک پہنچی ،لیکن وہاں رومی فوج کا کہیں دور دور تک پتہ نہیں تھا. بعد میں معلوم ہوا کہ رومی فوج کی نقل و حرکت کی خبریں سب بے بنیاد تھیں۔(١) اور یہ افواہ صرف مسلمانوں کے اندر رعب اور اضطراب پیدا کرنے کے لئے پھیلائی گئی تھی۔(٢)

اس علاقہ کے سرداروں سے پیغمبر ۖ کے معاہدے
رسول خدۖا نے بیس دن تک تبوک میں قیام فرمایا(٣) اور اس مدت میں ''ایلہ'' کے حاکم اور سرزمین ''جربائ'' اور ''اذرخ'' کے لوگوں سے صلح کا معاہدہ ہوا اور انھوں نے جزیہ ادا کرنے کا عہد کیا اس کے علاوہ پیغمبر اکرم ۖ نے ایک مختصر فوجی نقل اور حرکت کے ذریعہ دومة الجندل کے مقتدر بادشاہ کے ساتھ ایک صلح نامہ پر دستخط کئے اور وہ بھی جزیہ اور ٹیکس دے کر آپ کے سامنے تسلیم ہوگیا۔(٤)
غزوہ تبوک رجب ٩ھ میں پیش آیا۔(٥) جس کے کچھ مناظر سورۂ توبہ میں منعکس ہوئے ہیں خاص طور سے اس میں وہ دشواریاں مشکلات اور فوج کے کوچ کرنے سے پہلے یا اس کے بعد بعض مسلمانوں کی سستی، کاہلی، اور منافقین کی خیانت اور گڑبڑیاں شامل ہیں۔ مسجد ضرار کا مشہور واقعہ بھی غزوۂ تبوک کے ساتھ ہی پیش آیا جس کا ذکر سورۂ توبہ کی ١٠٧ ویں آیت میں ہوا ہے۔
______________________
(١) واقدی، المغازی، ج٣، ص١١٩١۔ ١٩٩٠۔
(٢) حلبی، گزشتہ حوالہ، ص٩٩۔
(٣) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص١٦٦، ١٦٨؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص١٠١٥۔
(٤) طبرسی، اعلام الوری، ص١٢٣؛ قسطلانی، گزشتہ حوالہ، ص٣٥٠؛ طبری، تاریخ الامم والملوک، ج٣، ص١٤٦۔
(٥) ابن سعد، طبقات الکبری، ج٢، ص١٦٥؛ ابنہشام، سیرة النبویہ، ج٤، ص١٥٩؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص٩٩؛ قسطلانی، گزشتہ حوالہ، ص٣٤٦۔