تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

لشکر احزاب کی شکست کے اسباب
لیکن ان تمام دشواریوں کے باوجود ، خندق کھودنے کے علاوہ، چند دوسرے اہم اسباب کی وجہ سے حالات مسلمانوں کے حق میں بدل گئے تھے۔ اور آخرکار لشکر احزاب کی ناکامی کا باعث بنا۔ وہ اسباب یہ تھے:

١۔ بنی قریظہ اور لشکر احزاب کے درمیان اختلاف کاپیدا ہونا
نعیم بن مسعود، قبیلۂ غطفان کا ایک فرد تھا جو جلدی ہی مسلمان ہواتھااس نے پیغمبر ۖ کی اجازت سے(١) بنی قریظہ سے جاکر ملاقات کی اوران سے پرانی دوستی ہونے کی بنا پر پہلے ان کو اپنی طرف متوجہ کیا پھر عہد شکنی پر ان کی مذمت کی اور کہا:تمہاری صورت حال، لشکر قریش سے الگ ہے اگر جنگ کسی مرحلہ پر نہ پہنچی تووہ اپنے وطن کی طرف پلٹ جائیں گے لیکن تم کہاں جاؤ گے؟ اگر جنگ تمام نہ ہوئی تو مسلمان تم کونابود کردیںگے۔ اور پھر ان کو مشورہ دیا کہ لشکر احزاب کے کچھ کمانڈروں کواغواہ کر کے ضمانت کے طور پر جنگ کے تمام ہونے تک رکھے رہیں۔
پھر اس بات کو فوجی راز اور بنی قریظہ کے مخفی ارادے کے عنوان سے قریش اور اپنے قبیلہ غطفان کے سرداروں سے بتایا اور کہا کہ بنی قریظہ کاارادہ ہے کہ اس بہانہ سے تمہارے کچھ افرادکو گرفتار کرکے حسن نیت اور پچھلی باتوںکی تلافی کے عنوان سے حضرت محمد ۖ کے حوالہ کریں۔ اوران کو خبردار کیا کہ ایسا مشورہ قبول نہ کریں۔ اس نے یہ چال اپنائی اوران دوگروہوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا اور متحدہ احزاب کا محاذ اندر سے کمزور ہوگیا۔(٢)

عمرو بن عبدود کا قتل
گویا قریش تین لحاظ سے مشکلات اوردشواریوں میں گرفتار تھے اور چاہتے تھے کتنی جلدی جنگ کو تمام کریں۔
پہلا: یہ کہ جنگ میں تاخیر ہونے کی بنا پر غذائی مواد کم ہوگیا تھا۔
______________________
(١) ان الحرب خدعة.
(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٩؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٢٤٠؛ طبری ، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٥١۔ ٥٠؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٥٠؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٠٤؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٢٠٧.
دوسرا: یہ کہ آہستہ آہستہ ہوا ٹھنڈی ہونے لگی تھی جس کی وجہ سے خیموں میں رہنا دشوا رہوگیا تھا۔
تیسرا: یہ کہ ماہ ذیقعدہ جو کہ ماہ حرام تھا وہ قریب ہوگیا تھا لہٰذا اگر جنگ ماہ شوال میں تمام نہ ہو پائی تو مجبوراً انھیںتین مہینے مسلسل رکنا پڑے گا۔(١)
اس وجہ سے طے کیا کہ ہر صورت میں جنگی روکاوٹوں کو ختم کریں اس بنا پر لشکر احزاب کے پانچ بہادر اپنے گھوڑوں کوایڑ لگا کرخندق کے باریک حصہ سے دوسری طرف پہنچ گئے(٢) اور تن بہ تن جنگ کے لئے رجز خوانی کرنے لگے ان میں سے ایک عرب کا سب سے بہادر اور نامور پہلوان ''عمرو بن عبدود'' تھا جو کہ ''شہشوار قریش'' اور ''شہشوار یلیل'' کے نام سے مشہور تھا۔(٣) خندق کو پھاند کر ''ھل من مبارز'' کی صدا بلند کی۔ لیکن کوئی مسلمان اس سے مقابلہ کے لئے تیار نہ ہوا۔(٤)یہ چیلنج کئی
______________________
(١) محمد حمید اللہ، رسول اکرم ۖ در میدان جنگ، ترجمہ : سید غلام رضا سعیدی، ص ١٢٨
(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٦٨؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٤٧٠؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٤٨؛ شیخ مفید، الارشاد، (قم: المؤتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید، ط١، ١٤١٣ھ.ق)، ص٩٧؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص٢٠٣۔
(٣)چونکہ وہ ''یلیل'' نامی سرزمین پر تن تنہا، دشمن کے ایک گروہ پرغالب ہواتھا لہٰذا وہ اسی نام سے مشہور ہوا (بحار الانوار، ج٢٠، ص ٢٠٣) وہ جنگ بدر میں زخمی ہوگیا تھا اسی وجہ سے جنگ احد میں شریک نہیں ہوا تھا۔ اور تین سال کے بعد پھر جنگ خندق میں آیاتھا لہٰذا اپنے کو ایک علامت کے ذریعہ مشخص کر رکھا تھا تاکہ لوگوں کی توجہ اپنی جانب جلب کرے۔ (ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٣، ص ٢٣٥؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج٣، ص ٤٨؛ ابن اثیر، الکامل فی تاریخ، ج٢، ص ١٨١)۔
(٤)واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٤٧٠؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم(دار احیاء الکتب العربیة، ١٩٦٤ئ)، ج١٣، ص٢٩١ و ج١٩، ص٦٣؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢٠، ص٢٠٣۔
مرتبہ دھرایا اورہر مرتبہ صرف علی ، پیغمبرۖ کی اجازت سے اس کی طرف بڑھے۔ پیغمبر ۖ نے فرمایا: ''کل ایمان، کل کفر و شرک کے مقابلہ میں جارہا ہے''۔(١)
علی نے ایک فردی جنگ میں بہادرانہ انداز میں عمرو بن عبدود کو ہلاک کردیا، عمرو بن عبدود کے قتل ہوتے ہی چار دوسرے پہلوان جواس کے ساتھ خندق پھاند کر آئے تھے اور علی سے لڑنے کے منتظر تھے، فرار کر گئے! اور ان میںسے ایک گھوڑے کے ساتھ خندق میں گر گیا اور مسلمانوں کے ذریعہ قتل ہوا۔(٢)
پیغمبر اسلاۖم نے علی کی اس عظیم شجاعت و بہادری پر ان سے فرمایا: ''آج اگر میں تمہارے اس عمل کواپنی پوری امت کے اعمال سے موازنہ کروں تو تمہارا یہ عمل ان پر بھاری قرار پائے گا۔ کیونکہ عمرو بن عبدود کے قتل ہونے سے مشرکین کا کوئی گھر ایسا نہیں بچا جس میں ذلت و رسوائی نہ چھائی ہو اور مسلمانوں کا کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس میں عزت و سربلندی نہ آئی ہو۔(٣)
اہل سنت کے ایک بزرگ محدث حاکم نیشاپوری کے نقل کے مطابق، پیغمبرۖنے فرمایا: جنگ خندق میں علی بن ابی طالب کی لڑائی عمرو بن عبدود سے روز قیامت تک میری امت کے اعمال سے یقینا افضل ہے''۔(٤)
عمرو کے قتل ہوتے ہی لشکر احزاب کے حوصلہ پست ہوگئے اور شکست کے آثار ان کے لشکر میں نمودار ہوئے اور مختلف قبیلے جو جنگ کرنے کے لئے آئے تھے ہر ایک اپنے وطن کی طرف واپس جانے لگا۔(٥)
______________________
(١) برز الاسلام کلہ الی الشرک کلہ۔ (ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٩، ص٦١؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص٢١٥.)
(٢) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٤٥؛ محمد بن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٨؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٢٣٦؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٤٨؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٠٣.
(٣) ابو الفتح محمد بن علی الکراجکی، کنز الفوائد (قم: دارالذخائر، ١٤١٠ھ.ق)، ج١، ص ٢٩٨؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢٠، ص ٢٠٥، ٢١٦.
(٤) المستدرک علی الصحیحین، تحقیق: عبد الرحمن المرعشی (بیروت:دار المعرفہ، ط ١، ١٤٠٦ھ.ق)، ج٣، ص ٣٢.
(٥) کراجکی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٩٩.

غیبی امداد
آخری وار، خداوند عالم نے امداد غیبی کی شکل میںان پر یہ کیا کہ ٹھنڈی ہوااور شدید طوفان کو رات میںان پر مسلط کردیا۔ طوفان نے ان کے ٹھکانوں کو تہس نہس کردیا اور ان کے لئے وہاں ٹھہرنا دشوار ہوگیا آخر کار ابوسفیان نے مکہ پلٹنے کا حکم صادر کیا۔(١)
خداوند عالم نے اپنی نصرت کا اس طرح سے تذکرہ فرمایا ہے:
''ایمان والو! ا سوقت اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب کفر کے لشکر تمہارے سامنے آگئے او رہم نے ان کے خلاف تمہاری مدد کے لئے تیز ہوااور ایسے لشکر بھیج دیئے جن کو تم نے دیکھا بھی نہیں تھا اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔ اور خدا نے کفار کوان کے غصہ سمیت واپس کردیا کہ وہ کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے اوراللہ نے مومنین کو جنگ سے بچالیا اوراللہ بڑی قوت والا اور صاحب عزت ہے''۔(٢)
اس جنگ میں احزاب کے سرداروں کی طرف سے عظیم سرمایہ خرچ کرنے ،اور اتنی کثیر تعداد میں سپاہیوں کواکٹھاکرنے کے باوجود ان کے لئے اس جنگ کا نتیجہ تلخ آور اورغم انگیز تھا۔ کیونکہ نہ مدینہ کو کوئی نقصان پہنچا اور نہ ہی وہ شام کے تجارتی راستے کو آزاد کراسکے۔ اس وجہ سے ابوسفیان کی کمانڈری بدنام ہوئی اور قریش کی عظمت و ہیبت کم ہوگئی۔ یہ وہ جنگ تھی جس کے بعد مسلمان دفاعی حالت سے نکل کر تہاجمی قدرت کے مالک ہوگئے یعنی حملہ کرنے کی پوزیشن میں آگئے ۔
______________________
(١) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٤٥؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٧١؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٥٢۔ ٥١؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص١٩٨؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص٩٢؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٠٥؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص٢٠٩۔ ٢٠٨۔
(٢) سورۂ احزاب، آیت ٩ اور ٢٥.
پیغمبر اسلاۖم نے فرمایا: ''اس کے بعد ہم حملہ کریں گے وہ ہم پر حملہ نہیں کرسکتے''(١) اور اسی طرح سے ہوابھی۔ اس جنگ میں چھ افرادشہید ہوئے(٢) اور دشمن کی طرف کے تین افراد مارے گئے۔(٣)

جنگ بنی قریظہ
لشکر احزاب کے پلٹ جانے کے بعد، پیغمبرۖ مامور ہوئے کہ بے خوف بنی قریظہ کی طرف جائیں اوران کا کام تمام کردیں۔ پیغمبر ۖ نے فوراً لشکر کے کوچ کا حکم دیا اور اسی روز عصر کے وقت لشکر اسلام نے قلعہ بنی قریظہ کا محاصرہ کرلیا۔ بنی قریظہ نے اپنے قلعہ میں مورچہ سنبھال کر تیراندازی شروع کردی اور پیغمبر اسلاۖم کی شان میں نازیبا کلمات کے ذریعہ گستاخی کی۔
٢٥ روز محاصرہ کے بعد آخرکار ان کے پاس تسلیم کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا قبیلۂ اوس جس نے پہلے بنی قریظہ کے ساتھ عہد و پیمان کیا تھا پیغمبرۖ سے درخواست کی کہ ان کے ہم نواؤوں کے ساتھ بنی قینقاع کے یہودیوں جیسا برتاؤ کریں۔
______________________
(١) شیخ مفید، الارشاد، ص١٠٦؛ صحیح بخاری، تحقیق: الشیخ قاسم الشماعی الرفاعی (بیروت: دار القلم، ط١، ١٤٠٧ھ.ق)، ج٥، ص٢١٥؛ کتاب المغازی، باب ١٤٦، حدیث ٥٩٣؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٨، ص٣٤٥؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص٢٠٩۔
(٢) ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٤٢؛ واقدی، المغازی، ج٢، ص٤٩٢؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٣، ص٢٦٤؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٥٨؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص١٩٨۔ اس جنگ کے شہداء کی تعداد اس سے زیادہ نقل ہوئی ہے۔رجوع کریں: تاریخ پیامبر اسلامۖ ، محمد ابراہیم آیتی (تہران: مؤسسہ انتشارات و طبع تہران یونیورسٹی، ١٣٦١)، ص٣٧٢۔
(٣) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٤٩٦؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٢٦٥؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٥٩؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص١٩٨؛ یعقوبی نے دشمن کے مقتولین کی تعداد آٹھ بتائی ہے۔ (ج٢، ص٤٢.)
آنحضرت ۖ نے فرمایا:'' تمہارے بزرگ، سعد بن معاذ کو اس سلسلے میں قضاوت کا حق حاصل ہے '' اوسیوں اور بنی قریظہ نے اس قضاوت کو قبول کیا، سعد کو ایسی ماموریت ملنے کے بعد قبیلہ جاتی اور جاہلی رسم و رواج کے مطابق، بنی قریظہ کے حق میں فیصلہ کرنا چاہیئے تھا ۔ لیکن وہ اپنے قبیلہ والوں کی باتوں سے متأثر نہیںہوئے اور اعلان کیا کہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے ۔ اس کے بعد دونوں طرف کی تائید حاصل کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ ان کے لوگوں کو قتل کردیا جائے اور ان کے بچوں اورعورتوں کو اسیر اوران کے مال ودولت کو غنیمت سمجھ کر لے لیا جائے۔
یہ حکم اجرا ہوا، حی ابن اخطب، قبیلۂ بنی نضیر کا سردار بھی قتل ہونے والوں میں تھا، جس نے مسلمانوں کے ساتھ ان کی پیمان شکنی میں تشویق اوراہم کردار ادا کیا تھا۔ کیونکہ اس نے بنی قریظہ سے وعدہ کیا تھا کہ ان کا ساتھ دے گا اور شکست کھانے کی صورت میں ان کے انجام میں شریک رہے گا۔ اسے جب زندگی کے آخر لمحات میں، خیانت اور فتنہ گری کے باعث، برا بھلا کہا گیا تو بجائے گناہوں کے اعتراف اور اظہار پشیمانی کے، اپنی اور بنی قریظہ کی بری عاقبت کو خداوند عالم کے جبر و تقدیر کا نتیجہ قرار دیا۔ اس نے پیغمبر اسلاۖم سے کہا: میں تمہاری دشمنی سے پشیمان نہیںہوں لیکن جو خدا جس کو رسوا کرے رسوا ہو جاتا ہے'' اور پھر لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا: خدا کے ارادہ کے مقابلہ میں مجھے ڈر اور خوف نہیںہے اور یہ شکست و رسوائی یقینی ہے جو خدا کی جانب سے بنی اسرائیل کے لئے مقرر ہوئی ہے''۔(١)
پیغمبر اسلاۖم نے اسیروں کے ایک گروہ کوایک مسلمان کے ذریعہ نجد بھیجا تاکہ ان کو بیچ کر
______________________
(١) اس جنگ کی تفصیل معلوم کرنے کے لئے مندرجہ ذیل کتابوں کی طرف رجوع کریں: (طبقات الکبری، ج٢، ص٧٨۔ ٧٤؛ تاریخ الامم والملوک، ج٣، ص٥٨۔ ٥٣؛ المغازی، ج٢، ص٥٢٤۔ ٤٩٦؛ السیرة النبویہ، ج٣، ص٢٦١۔ ٢٤٤؛ وفاء الوفائ، ج١، ص٣٠٩۔ ٣٠٥؛ بحار الانوار، ج٢٠، ص٢٣٨۔ ٢٣٣۔
مسلمانوں کے لئے اسلحے اور گھوڑے خریدے ۔(١)
قرآن کریم نے ان کے برے انجام کا اس طرح سے ذکر کیا ہے:
''اوراس نے کفار و مشرکین کی پشت پناہی کرنے والے اہل کتاب کوان کے قلعوں سے نیچے اتاردیااوران کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ تم نے ان میں سے کچھ کو قتل کیا اور کچھ کو قیدی بنالیا۔ اور پھر تمہیںان کی زمینوں ان کے گھروں اور ان کے اموال اور ایسی زمین کا وارث بنادیا جن میں تم نے قدم بھی نہیں رکھا تھا اور بیشک اللہ ہر شے پر قادر ہے۔(٢)
______________________
(١) ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٣، ص ٢٥٦؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج٣، ص ٥٨؛ ایک گروہ کو بھی ، سعد ابن عبادہ کے ذریعہ اس سلسلہ میں شام بھیجا (واقدی، المغازی، ج٢، ص ٥٣٣) جنگ خندق و بنی قریظہ کے بارے میں مذکورہ کتابوںکے علاوہ رجوع کریں: تفسیر المیزان، ج١٦، ص ٣٠٣۔ ٢٩١.
(٢) سورۂ احزاب، آیت ٢٧۔ ٢٦.