جناب ابوطالب اور جناب خدیجہ کی وفات
بعثت کے دسویں سال شعب سے بنی ہاشم کے نکلنے کے کچھ ہی دن بعد پہلے جناب خدیجہ اوراس کے بعد ابوطالب کی وفات ہوگئی۔(٤)
______________________
(٤) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٣٦؛ ابن اثیر ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٩.
ان دو بڑی شخصیتوں کا اس دنیا سے اٹھ جانا جناب رسول خدا ۖ کے لئے بہت بڑی اور جانگداز مصیبت تھی۔(١) ان دو گہرے دوست اور وفادار ناصر کے رحلت کر جانے کے بعد آنحضرت ۖ کے لئے مسلسل سخت او رناگوار واقعات پیش آئے۔(٢) اور زندگی آپ پر دشوار ہوگئی۔
جناب خدیجہ کا کارنامہ
ان دو بڑی شخصیتوں کے غیر متوقع فقدان کا اثر، فطری تھا اس لئے کہ اگر چہ جناب خدیجہ سطح شہر میں جناب ابوطالب جیسا دفاعی کردار نہیں ادا کرسکتی تھیں لیکن گھر کے اندر نہ تنہا پیغمبر ۖ کے لئے مہربان جانثار اور دلسوز شریک حیات تھیں بلکہ اسلام کی سچی اور واقعی مددگار تھیں بلکہ مشکلات اور پریشانیوں میں رسول خدا ۖ کی تسکین قلب اور سکون کا باعث تھیں۔(٣)
پیغمبر اسلاۖم اپنی زندگی کے آخری لمحات تک جناب خدیجہ کو یاد کیا کرتے تھے۔(٤) اور اسلام کے سلسلے میں ان کی پیش قدمی، زحمات اور رنج و الم کو فراموش نہیں کرتے تھے۔ آپ نے ایک دن عائشہ سے فرمایا: ''خداوند عالم نے خدیجہ سے بہترمجھے زوجہ نہیں دی جس وقت سب کافر تھے وہ ہم پر ایمان لائیں۔ جب سب نے مجھے جھٹلایاتوانھوں نے میری تصدیق کی اور جب دوسروںنے مجھے محروم کیا تو اس نے اپنی ساری دولت میرے لئے خرچ کردی۔ اور خداوند عالم نے مجھے اس سے فرزند عطا کیاہے۔(٥)
______________________
(١) ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٢٩؛ پیغمبر اسلاۖم نے اس سال کا نام ''عام الحزن'' رکھا۔ (مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ٢٥.)
(٢) ابن اسحاق، گزشتہ حوالہ، ص ٢٤٣؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٥٧؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٥٣.
(٣) وکا نت وزیرة صدق علی الاسلام و کان یسکن الیہا۔ (ابن اسحاق، گزشتہ حوالہ، ص ٢٤٣؛ ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ.
(٤) امیرمھنا الخیامی، زوجات النبی واولادہ، (بیروت موسسہ عز الدین، ط ١، ١٤١١ھ)، ص ٦٣۔ ٦٢.
(٥) ابن عبد البر، الاستیعاب (در حاشیہ الاصابہ)، ج ٤، ص ٢٨٧؛ دولابی، گزشتہ حوالہ، ص ٥١.
جناب ابوطالب کا کارنامہ !
جیسا کہ ہم نے بیان کیاہے کہ جناب ابوطالب نہ صرف بچپنے اور نوجوانی میں محمد ۖ کے سرپرست تھے بلکہ ان کی رسالت کے زمانہ میں بھی بے انتہا ان کے حامی اور پشت پناہ تھے۔ اور مشرکوںکی عداوتوںاو رکارشکنیوں کے مقابل میں ایک عظیم دیوار تھے۔ ابوطالب کی حیات کے زمانے میں قریش بہت کم پیغمبر ۖ کے جانی آزار و اذیت کی جرأت رکھتے تھے ایک دن بزرگان قریش میں سے کچھ لوگوں نے ایک شخص کو ورغلایا کہ مسجد الحرام میں جاکر پیغمبرۖ کے جسم پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دے چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا جب جناب ابوطالب کو واقعہ کی خبر ملی توآپ نے اپنی تلوار نیام سے نکالی اور
''حمزہ'' کے ہمراہ ان کو ڈھونڈنے کے لئے نکل پڑے او رحمزہ سے کہا کہ یہی اوجھڑی ان میں سے ہر ایک کے جسم پر مل دیں۔(١)
ابوطالب کی رحلت کے بعد قریش بہت گستاخ ہوگئے تھے ۔ پیغمبر اسلاۖم پر کوڑا پھینکتے تھے۔(٢) خود آنحضرت ۖ نے فرمایا ہے کہ ''قریش مجھے ضرر نہیں پہنچا سکے یہاں تک کہ ابوطالب کی وفات ہوگئی۔(٣)
______________________
(١) کلینی ، الاصول من الکافی، (تہران: دار الکتاب الاسلامیہ، ١٣٨١ھ)، ج١، ص ٤٤٩؛ علامہ امینی، الغدیر، ج٧، ص ٣٩٣؛ مجلسی ، بحار الانوار، ج١٨، ص ١٨٧؛ رجوع کریں: الغدیر، ج٧، ص ٩ ٣٥، ٣٨٨، ٣٩٣؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٢٠.
(٢) ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج١، ص ٢١١؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج٢، ص ٢٢٩؛ بیہقی، دلائل النبوہ، ترجمہ، محمود مہدوی دامغانی، (تہران: مرکز انتشارات علمی و فرہنگی، ١٣٦١)، ج٢، ص٨٠؛ ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٩١۔
(٣) ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص٢٣٩؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٥٨؛ طبری ، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٩؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص ٦٨؛ ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ص ٩١؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ٨٠، سبط ابن جوزی، تذکرة الخواص، (نجف:المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٣ھ)، ص ٩.
ایمان ابوطالب
تمام شیعہ علماء کا عقیدہ ہے کہ ابوطالب مسلمان اور مومن تھے۔(١) لیکن پیغمبر اسلاۖم کی حمایت کی خاطر آپ نے اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا اور چونکہ اس سماج میں خاندانی تعصب پایا جاتا تھا۔ لہٰذا ظاہری طور پر آپ نے آنحضرت ۖ کی حمایت کی خاطر خاندان کا عنوان دیا تھا۔(٢)
''ابوطالب اصحاب کہف کے مانند تھے جو اپنے ایمان کو چھپائے رہے اور تظاہر بہ شرک کرتے تھے اور خدا نے ان کو دو اجر عطا کیا ہے''۔(٣)
اہل سنت کے ایک گروہ نے جناب ابوطالب کے ایمان کا انکار کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ مرتے دم تک ایمان نہیں لائے اور دنیا سے کفر کی حالت میں گئے۔ لیکن ان کے اس کے دعوے کے برخلاف بے شمار دلیلیں اور شواہد موجود ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ آئین اسلام اور نبوت حضرت محمد ۖ پر ایمان و اعتقاد رکھتے تھے ۔اختصار کے طور پر ہم صرف دو دلیل پیش کرتے ہیں:
١۔ ان کے اشعار اور اقوال: جنا ب ابوطالب کے بے شمار اشعار و اقوال جو ہم تک پہنچے ہیں ان میں سے بعض میں آپ نے صراحت کے ساتھ پیغمبر اسلاۖم کی نبوت اور ان کی حقانیت کا ذکر فرمایا
______________________
(١) شیخ مفید، اوائل المقالات (قم: مکتبة الداوری،)، ص ١٣؛ قتال نیشاپوری، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٥؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج١٤، ص ٦٥؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٣، ص ٢٨٧، تفسیر آیۂ ٢٦ سورۂ انعام ؛ علی بن طاووس، الطرائف فی معرفة مذاہب الطوائف (قم: مطبعة الخیام، ١٤٠٠ھ)، ص ٢٩٨.
(٢) طبرسی، گزشتہ حوالہ، ج٧، ص ٣٦٠، تفسیر آیۂ ٥٦ سورۂ قصص.
(٣) کلینی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٤٤٨؛ صدوق الامالی، (قم: المطبعة الحکمہ)، ص ٣٦٦؛ (مجلسی ٨٩)؛ قتال نیشاپوری، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٦؛ علامہ امینی، الغدیر، ج٧، ص ٣٩٠؛ مفید، الاختصاص، (قم: منشورات جماعة المدرسین)، ص ٢٤١.
ہے۔(١) او ریہ اشعار و اقوال اسلام کے سلسلہ میںان کے ایمان اور عقیدہ کا واضح اور روشن ثبوت ہیں۔ ان کے چند اشعار نمونہ کے طور پر یہاں پیش ہیں:
تعلم ملیک الحبش ان محمداً نبی کموسیٰ و المسیح بن مریم
أتیٰ بالہدیٰ مثل الذی اتیابہ و کل بامر اللّٰہ یہدی و یعصم(٢)
(اے حبشہ کے بادشاہ یہ جان لے کہ محمد ۖ مانند موسیٰ او رمسیح پیغمبر ہیں وہی نور ہدایت جسے وہ دونوں لے کر آئے تھے وہ بھی لیکر آئے ہیں اور تمام پیغمبران الٰہی خدا کے حکم سے لوگوں کی ہدایت کر کے گناہ سے روکتے ہیں)
الم تعلموا اَنَّا وَجَدنَا محمداً ٭رسولاً کموسیٰ خطّ فی اول الکتب(٣)
______________________
(١) ابوطالب کے شعر کا ایک دیوان ہے جس کو ابونعیم علی بن حمزہ بصری تمیمی لغوی (م ٣٧٥ھ.ق سیسیل میں) نے جمع کیا ہے اور شیخ آغا بزرگ تہرانی نے اس کا ایک نسخہ بغداد میں آل سید عیسی عطار کی لائیریری میں دیکھا ہے۔ (الذریعہ، ج٩، قسم اول، ص ٤٣۔ ٤٢) اور اسی طرح قبیلۂ بنی مھرم سے ابو ھفان عبد اللہ بن احمد عبدی (جو کہ ایک شیعہ شاعر، مشہور ادیب اور بصرہ کے رہنے والے تھے) کے پاس ایک کتاب، شعر ابی طالب بن عبد المطلب و اخبارہ، کے نام سے تھی (رجال نجاشی، تحقیق: محمد جواد النائینی، بیروت، ط ١، ١٤٠٨ھ) ، ج٢، ص ١٦، نمبر ٥٦٨) مرحوم شیخ آغا بزرگ تہرانی نے اس کا ایک نسخہ بغداد میں آل سید عطار کی لائبریری میں دیکھاہے جس میں پانچ سو (٠٠ ٥) سے زیادہ اشعار تھے اور ١٣٥٦ھ میں نجف میں شائع ہوا۔ (الذریعہ، ج١٤، ص ١٩٥)، امیر المومنین علی چاہتے تھے کہ ابوطالب کے اشعار نقل اور جمع اوری ہوں اور آپ نے فرمایا: ''ان کو یاد کرو اور اپنی اولاد کو بھی یاد کرواؤ، ابوطالب دین خدا کے پیرو تھے او ران اشعار میں بے شمار علوم پائے جاتے ہیں''۔ (الغدیر، ج٧، ص ٣٩٣)۔
(٢) طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٤٥؛ مجمع البیان، ج٤، ص ٢٨٨؛ علامہ امینی، الغدیر، ج٧، ص ٣٣١.
(٣) کلینی ، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٤٤٩؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٤، ص ٢٨٧؛ ابن ہشام ، السیرة النبویہ، ج١، ص ٣٧٧؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٤، ص ١٨١؛ شیخ ابوالفتح الکراجکی، کنز الفوائد، تحقیق: الشیخ عبداللہ نعمہ (قم: دار الذخائر، ط ١، ١٤١٠ھ)، ج١، ص ١٨١؛ امینی، الغدیر، ج٧، ص ٣٣٢۔
(کیا تمھیں نہیں معلوم کہ ہم نے محمد ۖ کو مانند موسیٰ پیغمبر پایاہے اور اس کا نام و نشان گزشتہ آسمانی کتابوںمیں ذکر ہے)
و لقد علمت ان دین محمدٍ من خیر ادیان البریہ دیناً(١)
(مجھے یقینی طور پر معلوم ہے کہ دین محمد ۖ، دنیا کے بہترین ادیان میں سے ہے)
٢۔ پیغمبر اسلاۖم سے ابوطالب کی حمایتیں: پیغمبر اسلاۖم کے لئے جناب ابوطالب کی بے انتہا پشت پناہی اور حمایتیں جو تقریباً سات سال تک بغیر کسی وقفہ اور سستی کے جاری رہیں اور اس مدت میں قریش کے مقابل میں مقاومت اور بے شمار مصائب اور مشکلات کو برداشت کرنا آپ کے ایمان اور عقیدے کے سلسلے میں دوسرا واضح ثبوت ہے۔ آپ کے ایمان کے منکر یہ تصور کرتے ہیں کہ آپ نے یہ ساری مشکلات اور پریشانیاں خاندانی جذبہ کے تحت سہیں۔ جبکہ خاندانی روابط انسان کو اس طرح کی طاقت فرسا زحمتوں اور قربانیوں اور طرح طرح کے خطرات مول لینے پر ہرگز آمادہ نہیں کرسکتے ہیں۔ اس طرح کی قربانیوں کے لئے ہمیشہ ایمانی اوراعتقادی جذبہ ضروری ہے۔ اگر جناب ابوطالب کا جذبہ صرف خاندانی روابط تھا تو حضرت محمد ۖ کے دوسرے چچاؤوں نے جیسے عباس اورابولہب نے ایساکام کیوں نہیں کیا؟!۔(٢)
محققین کے ایک گروہ کی نظر میں، بعض لوگوںنے جو کوشش کی ہے کہ جناب ابوطالب کے کفر کو ثابت کریں
______________________
(١) ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ص ٥٥؛ امینی، گزشتہ حوالہ، ص ٣٣٤؛ عسقلانی، الاصابہ فی تمییزالصحابہ، (بیروت: دار احیاء التراث العربی)، ج٤، ص ١١٦؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، (بیروت: مکتبة المعارف، ط ٢، ١٩٧٧م)، ج٣، ص ٤٢.
(٢) ایمان ابوطالب کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی جاچکی ہیں کہ جن میں سے کچھ کا تذکرہ شیخ آغا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب الذریعہ میں، ج ٢، ص ٥١٠ سے ٥١٤ پر کیا ہے ۔او رمرحوم علامہ امینی نے بھی کتاب الغدیر میں ، ج ٧، ص ٣٣٠ سے ٤٠٣ تک تفصیلی طور پر بحث کی ہے اور انیس کتابیں جو کہ اسلام کے جید علماء کے ذریعہ ایمان ابوطالب کے اثبات اوران کے حسن عاقبت کے سلسلے میں لکھی گئی ہیں ان کا ذکر فرمایا ہے۔ او رچالیس حدیثیں ان کے ایمان کے اثبات میں نقل کی ہیں۔ اورجلد ہشتم کے آغاز میں بھی اس سلسلے میں مخالفوں کے اعتراضات او رشبہات کا جواب دیاہے۔
یہ سیاسی جذبہ اور بعض تعصبات کی بنا پر ہے کیونکہ پیغمبر ۖ کے بڑے اصحاب (جوکہ بعد میں علی کے سیاسی رقیب بنے) عام طور پر پہلے بت پرست تھے۔ صرف علی تھے جو سابقۂ بت پرستی نہیں رکھتے تھے اور بچپنے سے پیغمبر ۖ کے مکتب میں پرورش پائی۔ جو لوگ یہ چاہتے تھے کہ علی کے مقام اور مرتبہ کو کم کریںاور نیچہ دکھائیں تاکہ آئندہ ان کے برابر ہوسکیں، مجبوری کی بنا پر ان کی پوری کوشش تھی کہ وہ ان کے والد بزرگوار کے کفر کو ثابت کریں تاکہ ان کا بت پرست ہونا ثابت ہوسکے۔ درحقیقت ابوطالب کا اس کے علاوہ کوئی جرم نہیں تھا کہ وہ علی کے باپ تھے اگر علی جیسے فرزند نہ رکھتے تو ایسے اتہامات ان پر نہ لگائے جاتے!۔
ان حق پامالیوں اور عباسی اور اموی کوششوں کو بھی، نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ان میں سے کسی ایک کے جد، اس مرتبہ پر فائز نہیں ہوئے تھے۔اور اسلام میں پہل نہیں رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ کوشش کرتے تھے کہ ان کے باپ کے کفر کو ثابت کریں تاکہ اس طریقہ سے ان کے مقام اور مرتبہ کو کم کرسکیں! ۔
جو اتہام جناب ابوطالب پر لگایا گیاوہ آپ کی بہ نسبت عباس بن عبد المطلب (پیغمبر اسلاۖم اور حضرت علی کے چچا او رسلسلۂ خلفاء عباسی کے جد) سے زیادہ مناسبت رکھتا تھا ، کیونکہ عباس، فتح مکہ ٨ھ تک کفر کی حالت میں مکہ میںرہے اور جنگ بدر میں مشرکوں کے لشکر کے ساتھ اسیر ہوئے اور فدیہ دیکر آزاد ہوئے۔ فتح مکہ کے واقعہ پر مکہ کے راستے میں آپ لشکر اسلام تک گئے اور پھر مکہ واپس پلٹ آئے اور بہت ہی کوششوں کے بعد پیغمبر ۖ سے ابوسفیان (مشرکوں کا سرغنہ) کے لئے امان لی! اس کے باوجود کسی نے نہیں کہا کہ عباس کافر تھے! کیااس طرح کا فیصلہ ان دو لوگوں کے بارے میں فطری اور عقلی نظر آتا ہے؟!اس اعتبار سے محققین جنا ب ابوطالب کے کفر کے سلسلے میں پائی جانے والی حدیثوں کو جعلی سمجھتے ہیں۔(١)
______________________
(١) ڈاکٹر عباس زریاب، سیرۂ رسول خداۖ( تہران: سروش، ج١، ١٣٧٠)، ص ١٧٨و ١٧٩.
|