تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

تیسری فصل
جزیرہ نمائے عرب اور ا سکے اطراف کے ادیان و مذاہب
ظہور اسلام کے وقت عرب کے اکثر پیشوا بت پرست تھے لیکن ملک عرب کے گوشہ و کنار میں مذہبی رہبروں کی پیروی کرنے والے اور مختلف ادیان جیسے عیسائیت، یہودیت، حنفیت، مانوی اور صابئی وغیرہ بھی موجودتھے۔ اس بنا پر عرب کے لوگ صرف ایک دین کی پیروی نہیں کرتے تھے اس کے علاوہ ہر ایک دین اور آئین، ابہام اور تیرگی سے خالی نہ تھا۔ اسی بنا پر ایک طرح کی سرگردانی اورحیرانگی ، ادیان کے سلسلے میں پائی جاتی تھی۔ ہم یہاں پر ہر ایک دین اور مذہب کے بارے میں مختصر توضیح دے رہے ہیں:

موحدین
موحدین یا دین حنیف(١) کے معتقد ایسے لوگ تھے جو مشرکین کے برخلاف بت پرستی سے بے زار، خداوند متعال اور قیامت کے عقاب و ثواب کا عقیدہ رکھتے تھے۔ ان میں سے کچھ عیسائیت کے ماننے والے تھے۔ لیکن بعض مورخین، ان کو بھی دین حنیف پر سمجھتے ہیں و رقہ بن نوفل، عبد اللہ بن حجش، عثمان بن حویرث، زید بن عمر بن نفیل(٢)، نابغۂ جعدی (قیس بن عبد اللہ) امیہ بن ابی ا لصلت، قس بن
______________________
(١) حنیف (جس کی جمع حنفاء ہے) اس شخص کو کہتے ہیں جودین ابراہیم کا پیرو ہو (طبرسی، مجمع البیان، شرکة المعارف، ج١، ص ٢١٦.)
(٢) محمد بن حبیب، (المحبر (بیروت: دار الافاق الجدیدہ)، ص ١٧١.
ساعدہ ، ابوقیس صرمہ بن ابی انس، زہیرابن ابی سلمیٰ، ابوعامر اوسی (عبد عمرو بن صیفی) عداس (عتبہ بن ربیعہ کا غلام) رئاب شنی او ربحیرہ راہب جیسے افراد کو بھی دین حنیف کے معتقدین میں سمجھا جاتا ہے۔(١) ان میں سے بعض ،حکماء یا مشہو رشعراء تھے۔
البتہ وحدانیت کی طرف رحجان کا سبب ان کی پاک فطرت او رروشن فکر اوراس زمانے کے رائج ادیان کی بے رونکی اور اس سماج میں پائے جانے والے مذہبی خلا میں تلاش کرنا چاہیئے۔ یہ لوگ اپنی پاک فطرت کے ذریعہ خلاق عالم، مدبر جہاں کے معتقد تھے او رعقل و خرد سے دور ایک پست آئین جیسے بت پرستی کو قبول نہیں کر سکتے تھے۔ اور یہودی مذہب بھی صدیاں گزر جانے کے بعد اپنی حقیقت اور معنویت کو کھو بیٹھا تھا۔ اور روشن فکر افراد کے اندر پائی جانے والی بے چینی کو اطمینان اور سکون میں نہیں بدل سکتے تھے اسی بنا پر بعض الوہیت کے متلاشی افراد کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ آئین حق کی تلاش میںوہ اپنے اوپر سفر کی صعوبتوںاور پریشانیوں کو روا جانتے ہوئے مسیحی اور یہودی علماء اور دوسرے آگاہ لوگوں سے بحث اور گفتگو کیا کرتے تھے۔(٢) اور پیغمبر اسلام ۖ کی بعثت کی نشانیوں کے سلسلے میں آسمانی کتابوں میں جواشارے ملتے ہیں ان کے بارے میں تحقیق کرتے تھے اور چونکہ معمولاًکسی نتیجہ تک نہیں پہنچتے تھے لہٰذا اصل وحدانیت کو قبول کرتے تھے۔ بہرحال وہ اپنی مذہبی عبادتوں اور رسومات کو کس طرح انجام دیتے، یہ ہمارے لئے واضح نہیں ہے۔
______________________
(١) مسعودی، مروج الذہب، ترجمہ: ابو القاسم پایندہ (تہران: ادارۂ ترجمہ و نشر کتاب، ط٢، ١٣٥٦)، ج١، ص ٦٨۔ ٦٠؛ ابن ہشام، سیرة النبی، تحقیق: مصطفی السقاء و معاونین، (قاہرہ: مطبعة مصطفی البابی الحلبی، ١٣٥٥ھ.ق)، ج١، ص ٢٣٧؛ ابن کثیر، السیرة النبویہ، تحقیق: مصطفی عبد الواحد (قاہرہ: مطبعة عیسی البابی الحبی، ١٣٨٤ھ.ق)، ج١، ص ١٦٥۔ ١٢٢؛ محمد بن اسحاق، السیر و المغازی، تحقیق: ڈاکٹر سہیل زکار (بیروت: دار الفکر، ط٢، ١٤١٠ھ.ق)، ص١١٦۔ ١١٥؛ محمد بن حبیب بغدای، المنمق فی اخبار قریش، تحقیق: خورشید احمد فارق (بیروت: عالم الکتب، ط١، ١٤٠٥ھ.ق)، ص ١٩۔ ١٣۔
(٢) ابن کثیر، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٦؛ محمد ابوالفضل ابراہیم (اور معاونین)، قصص العرب، (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ،ط٥)، (قم: آفسیٹ منشورات الرضی، ١٣٦٤)، ج١، ص٧٢۔
اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ دین حنیف کے پیرو کار، بعض لوگوں کے خیال کے برخلاف ہدایت اور عرب سماج کی تبدیلی میں توحید کے مسئلہ میں کوئی رول نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ جیسا کہ مورخین نے صراحت کی ہے کہ وہ لوگ تنہائی اور انفرادی شکل میں زندگی بسر کرتے تھے اور غور و فکر میں لگے رہتے تھے اور کبھی بھی ایک گروہ یا ایک منظم فرقہ کی شکل میں نہیں تھے اور ان کے پاس کوئی ایسا دین و آئین نہیں تھا جس میں ثابت اور معیّن احکام بیان کئے گئے ہوں۔ ان لوگوں نے آپس میں طے کر رکھا تھا کہ لوگوں کے اجتماعی مراکز سے دور رہیںاور بتوں کی پرستش سے بچیں اس قسم کے لوگ اپنی جگہ پر مطمئن تھے ا ور خیال کرتے تھے کہ ان کی قوم والوںکے عقائد باطل ہیںاور اپنے کو تبلیغ و دعوت کی زحمت میں مبتلا کرنے کے بجائے صرف اپنے نظریات کا اظہار کرتے تھے۔ اور اپنی قوم والوں سے ان کے تعلقات ٹھیک ٹھاک تھے ان کے درمیان کسی قسم کا ٹکراؤ نہیں رہتا تھا۔(١)

عیسائیت
دین عیسائیت کے ماننے والے بھی عرب کے بعض علاقوں میں پائے جاتے تھے۔ یہ دین، جنوب کی سمت حبشہ سے اور شمال کی سمت سوریہ سے اور نیز جزیرہ نمائے سینا سے عرب میں آیا تھا۔ لیکن اس سرزمین کو کوئی خاص ترقی نہیں ملی۔(٢) جزیرة العرب کے شمال میں عیسائیت،( قبیلۂ تغلب )کے درمیان(قبیلۂ ربیعہ کی ایک شاخ) اور(غسان)اور قبیلۂ ''قضاعہ'' کے بعض لوگوں کے
______________________
(١) جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب، قبل الاسلام (بیروت: دار العلم للملایین، ط١، ١٩٦٨ئ)،ج٦، ص ٤٤٩؛ حسینی طباطبایی، خیانت در گزارش تاریخ (تہران: انتشارات چاپخش، ١٣٦٦ش)، ج١، ص١٢٠؛ ابن ہشام، سیرة النبی، ج١، ص ٢٣٧۔
(٢) حسن ابراہیمی حسن، تاریخ سیاسی اسلام، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ (تہران: سازمان انتشارات جاویدان، ط٥، ٢٣٦٢)، ج١، ص٦٤۔
درمیان رائج تھی۔(١- ٢)
قس بن ساعدہ، حنظلہ طائی اور امیہ بن صلت کو بھی عیسائیوں کے بزرگوں میں شمار کیا ہے ان میں سے کچھ لوگوں نے اجتماعی جگہوں پر جانا چھوڑ دیاتھا اور جنگلوںمیں جاکر آباد ہوگئے تھے۔(٣)

یمن میں عیسائیت
یمن میںعیسائیت چوتھی صدی عیسوی میں داخل ہوئی ''فلیپ حِتّی'' جو کہ خود ایک عیسائی ہے ، لکھتا ہے: ''عیسائیوں کا پہلا گروہ عربستان کے جنوب میں گیا یہ خبر صحیح ہے یہ وہی گروہ تھا جس کو ''کنتانیتوس'' نے ٣٥٦ئ عیسوئی میں تئوفیلوس اندوس اربوس کی سرپرستی میں بھیجا اور یہ کام اس زمانہ کے سیاسی عوامل اور عربستان کے جنوبی علاقہ میں ایران اور روم کے نفوذ کی خاطر انجام دیاگیا تھا عدن میں ایک اور ملک حمیربان میں دو دوسرے کلیسوں کی بنیاد رکھی ، نجران کے لوگ ٥٠٠ئ میںایک نئے دین کے گرویدہ ہوگئے تھے۔(٤)
______________________
(١) گزشتہ حوالہ، ص ٦٤؛ شہاب الدین الابشہی، المستطرف فی کل فن مستظرف (بیروت:داراحیاء التراث العربی)، ج٢، ص٨٨؛ ابن قتیبہ، المعارف، تحقیق: ثروت عکاشہ (دار الکتب، ١٩٦٠ئ)، ص ٦٢١؛ الامیر ابوسعید الحمیری، الحور العین، تحقیق: کمال مصطفی، (تہران: ١٩٧٢ئ)، ص١٣٦۔
(٢) عثمان بن حویرث اور ورقہ بن نوفل (بنی اسد سے، قریش کا ایک خاندان) کو ہم نے دین حنیف کے معتقدین میں سے ذکرکیا ہے و نیز امرء القیس کے لڑکوں (قبیلۂ بنی تمیم سے تھے) کو مسیحی بیان کیاہے (تاریخ یعقوبی، ج١، ص ٢٢٥)
(٣) احمد امین، فجر الاسلام، (قاہرہ: مکتبة النہضة المصریہ، ط٩، ١٩٦٤ئ)، ص٢٧۔
(٤) تاریخ عرب، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ (تہران: انتشارات آگاہ، ط ٢، ١٣٦٦)، ص ٧٨؛ کچھ مورخین نے یمن میںعیسائیوں کے نفوذ کا آغاز ایک فیمیون نامی شامی زاہد کے اس علاقہ میں آکر اس کے کام کرنے کے وقت بتاتے ہیں (ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٥۔ ٣٢؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، (بیروت: داراحیاء التراث العربی)، ج٥، ص ٢٦٦؛ لفظ نجران، لیکن یہ افسانوی شکل رکھتا ہے اور جو کچھ حتی سے نقل ہوا ہے اس کے مطابق نہیں ہے۔
ظہور اسلام کے وقت، طی، مذحج، بہرائ، سلیح، تنوخ، غسّان اور لحم قبائل یمن میں عیسائی تھے۔(١)
عیسائیوں کا سب سے اہم مرکز یمن میں ''نجران شہر'' تھا نجران ایک آباد او رپررونق شہر تھا وہاں کے لوگوں کا مشغلہ زراعت، ریشمی کپڑوں کی بناؤٹی، کھال کی تجارت او ر اسلحہ سازی تھا۔ یہ شہر تاجروں کے راستوں میں پڑتا تھا جو حیرہ تک پھیلا ہوا تھا۔(٢)
عیسائیت اس طرح سے یمن میں رائج ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ یمن میں ذونواس برسراقتدار آیااور اس نے عیسائیوں پر سختیاں کی تاکہ وہ اپنے آئین سے دست بردار ہو جائیں۔ جس وقت عیسائیوں نے مقابلہ کیا تو ان کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں جلا دیاگیا۔(٣)
آخرکار ذونواس، حکومت حبشہ کی مداخلت سے ٥٢٥ئ میں شکست کھا گیا او رعیسائی دوبارہ برسر اقتدا

حیرہ میں عیسائیت
ایک دوسراعلاقہ جہاں پر عیسائیوں نے نفوذ کیا وہ ''شہر حیرہ'' تھا جو عربستان کے شرق میں واقع تھا۔ یہ مذہب رومی اسیروں کے ذریعہ اس علاقہ میں آیا تھا۔ حکومت ایران ہرمز اول کے زمانے سے ایسی جگہوں پر مسلط ہوگئی جہاں کے رہنے والے رومی اسیر تھے ان میں سے کچھ اسیر حیرہ میں رہتے تھے۔
______________________
(١) تاریخ یعقوبی، (نجف: مکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج١، ص ٢٢٤
(٢) احمد امین، گزشتہ حوالہ، ص ٢٦
(٣) مفسرین کاایک گروہ کہتا ہے کہ سورۂ ''بروج'' کی ٤ سے ٩ تک آیتیں مسیحیوں کے قتل عام کے بارے میں نازل ہوئی ہیں یا یہ واقعہ ان آیتوں کا ایک مصداق ہے (تفسیر المیزان، ج٢، ص ٢٥٧۔ ٢٥١؛ جیسا کہ خداوند عالم سورۂ بروج کی ٩۔ ٤، آیتوں میں ارشاد فرماتا ہے۔
(٤) احمد امین، گزشتہ حوالہ، ص ٢٧.
بعض کے عقیدہ کے مطابق سرزمین حیرہ میں عیسائیت کے نفوذ کا سرچشمہ یہی اسیر تھے۔ بہرحال عیسائی مبلغین حیرہ میں رہتے تھے اور اپنے مذہب کی نشر واشاعت میں مشغول رہتے تھے۔ عربوں کے بازاروں میں وعظ و نصیحت او رتبلیغ کرتے تھے۔ اور قیامت، جنت و جہنم کے مسئلہ سے آگاہ کرتے تھے ان کی محنتوں اورکوششوں کے نتیجہ میں ایک گروہ اس آئین کا گرویدہ ہوگیا اور حد ہے کہ ہند (نعمان پنجم کی بیوی) نے بھی مذہب عیسائیت کو قبول کرلیا اور اس نے ایک معبد بنایا جو ''معبد ہند'' کے نام سے مشہو ر ہوا اور طبری کے زمانے تک باقی رہا۔ حنظلہ طائی، قس بن ساعدہ اور امیہ بن صلت (جن کا تذکرہ ہم پہلے کرچکے ہیں) حیرہ کے لوگوں میں سے تھے۔(١)
نعمان بن منذر (بادشاہ حیرہ ) نے بھی عدی بن زید کی تشویق پر آئین مسیحیت قبول کرلیا۔(٢)
قرآن مجید میں ایسی متعدد آیات موجود ہیں جن میں عیسائیوں کے افکار وعقائد کو بیان کرکے ان میں سے جو غلط اور ضعیف عقائد اوراعمال ہیں (خاص طور پر حضرت عیسیٰ کی الوہیت کے بارے میں) جوان کے خیالات ہیں، ان کو بیان کیا گیا ہے۔(٣) اور یہ چیزیں بہت اہم گواہ ہیں کہ یہ دین جزیرة العرب میں نزول قرآن کے وقت موجودتھا۔
اس کے علاوہ نجران کے عیسائیوں کے ساتھ، پیغمبر اسلامۖ کا مباہلہ (جوکہ تاریخ اسلام میں مشہور ہے) بھی اس بات کا ثبوت ہے۔(٤)
______________________
(١) احمد امین، گزشتہ حوالہ، ص ١٨، ٢٥، ٢٦، ٢٨.
(٢) محمد ابو الفضل ابراہیم (اور اس کے ساتھی) قصص العرب،ج١، ص ٧٣؛ احمد امین، گزشتہ حوالہ، ص ٢٧
(٣) سورۂ مائدہ، آیت ١٨، ٧٢، ٧٣؛ سورۂ نسائ، آیت ١٧١؛ سورۂ توبہ، آیت ٣٠؛ لیکن قرآن نے، عیسائیوں کو یہودیوں کے مقابلہ میں جو کہ مسلمانوں کے سخت دشمن تھے ان کا قریبی دوست بتایا ہے۔ (مائدہ، ٥، آیت ٨٢).
(٤) سید محمد حسین طباطبائی، تفسیر المیزان، (مطبوعاتی اسماعیلیان، ط ٣، ١٣٩٣ھ.ق)، ج٣، ص ٢٢٨ و ٢٣٣).
البتہ جیساکہ اشارہ ہوچکا ہے کہ مذہب عیسائیت بھی زمانہ کے گزرنے کے ساتھ اس کی اصالت اور معنویت کا نورماند پڑ گیا ہے اور وہ تحریفات کا شکار ہوگیاہے۔ لہٰذا اس زمانہ کے لوگوں کے فکری اور عقیدتی خلاء کو پر نہیںکیا جاسکتا اور ان کے مضطرب و پریشان قلب و ضمیر کو سکون نہیں بخشا جاسکتا ۔