ایک سو پچاس جعلی اصحاب(دوسری جلد)
 

١٧۔ وکیع بن مالک
سیف نے اسے ''وکیع بن مالک تمیمی '' خیا ل کیا ہے اور اس کے نسب کو ''حنظلہ بن مالک '' تک پہنچا یا ہے جو قبائل تمیم کا ایک قبیلہ ہے ۔ (١١)
ذہبی نے اپنی کتاب ''تجرید '' میں وکیع کا تعارف اس طرح کیا ہے:
سیف بن عمر تمیمی لکھتا ہے کہ وکیع بن مالک اور مالک نویرہ ایک ساتھ قبیلہ بنی حنظلہ میں رسول خدا ۖ کے کارندے تھے۔
ابن حجر بھی اپنی کتاب ''الاصابہ'' میں لکھتا ہے:
سیف نے نقل کیا ہے کہ رسول خدا ۖ نے ''وکیع بن مالک '' کو ''مالک نویرہ'' کے ہمراہ بنی حنظلہ اور بنی یربوع کے صدقات جمع کرنے پر مأمور فرمایا ، اور رسول خدا ۖکی حیات تک آنحضرت ۖ کی طرف سے اس عہدے پر باقی تھے۔ تاریخ طبری میں ملتاہے کہ وکیع نے سجاح کے ساتھ معاہدہ کیا تھا ، لیکن جب سجاح اپنے خاندان سمیت نابود ہوئی تو وکیع اپنی مأموریت کے علاقے میں صدقات کے طور پر جمع کی گئی رقومات کو اپنے ساتھ لے کر خالد بن ولید کے پاس گیا اور عذر خواہی کے ساتھ اپنا قرض چکا دیا اور معافی مانگ کر احسن طریقے پر پھر سے اسلام کی طرف پلٹ آیا۔
سیف نے مزید کہا ہے کہ رسول خدا ۖ نے ''وکیع دارمی'' کو ''صلصل'' کے ہمراہ عمرو کی مدد کے لئے بھیجا تا کہ وہ مرتدوں پر حملہ کریں ۔
ابن حجر کی تحریر سے واضح ہو تا ہے کہ یہ دانشور ''وکیع دارمی'' کی خبر کو دومنابع ، یعنی سیف کی کتاب سے اور طبری کی تاریخ سے نقل کرتا ہے اور قبائل تمیم میں رسول خدا ۖ کے کارندوں کے موضوع ، تمیمیوں کے مرتد ہونے کی خبر اور عمر و عاص کی مدد کے لئے رسول خدا ۖ کی طرف سے صلصل کے ہمراہ وکیع کی مأموریت کا ذکر کر تا ہے۔
انشاء اللہ اپنی جگہ پر اس کو تفصیل سے بیان کریں گے۔
اس طرح ابن حجر نے ، اپنی کتاب ''الاصابہ'' میں ''وکیع '' کا کوئی شعر نقل نہیں کیاہے جب کہ طبری و حموی نے اپنی کتابوں میں وکیع کے اشعار کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔
اسی طرح اس تمیمی دارمی یعنی ''وکیع بن مالک ''کا اصحاب رسول خدا ۖ کی فہرست میں قرار پانا، اس کے اشعار اور رسول اللہ ۖکی طرف سے کارندہ کی حیثیت سے اس کی مخصوص مأموریت خاندان تمیم کے افتخارات میں درج ہوئے ہیں۔

١٨۔ حصین بن نیار حنظلی
سیف نے ''حصین بن نیار حنظلی '' کو بنی حنظلہ سے تصور کیا ہے۔
ابن حجر نے اپنی کتاب ''الاصابہ '' میں حصین کے بارے میں یوں لکھا ہے:
سیف بن عمر ، اور اسی طرح طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ حصین بن نیار رسول خداۖ کے کارندوں میں شمار ہوتا تھا۔ ابن فتحون ١ نے بھی حصین کے حالات کے بارے میں سوانح نویسوں سے یہی سمجھا ہے۔
ابن حجر کہتا ہے کہ : سیف اور طبری نے کہا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ اس دانشور نے حصین بن نیار کے بارے میں ان مطالب کو ان دو منابع
سے نقل کیا ہے۔
ابن حجر نے حصین کی زندگی کے حالات لکھتے ہوئے صرف اسی پر اکتفاء کی ہے کہ وہ رسول خدا ۖ کا کارندہ تھا۔اس کے علاوہ جو دوسری داستانیں طبری نے سیف سے نقل کرکے اس کے بارے
..............
١)۔ابوبکر، محمد بن خلف بن سلیمان بن فتحون اندلسی، ملقب بہ ''ابن فتحون'' پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کا ایک دانشور ہے۔ اس کی تألیفات میں سے دو بڑی جلدوں پر مشتمل کتاب ''التذییل ''ہے ۔ اس کتاب میں اس نے ''عبد البر'' کی کتاب ''استیعاب'' کی تشریح و تفسیر لکھی ہے۔ ابن فتحون نے ٥١٩ھ میں اندلس کے شہر مرسیہ میں وفات پائی ۔
میں ١٤ ھ کے حوادث کے ضمن ذکر کی ہیں قادسیہ کی جنگ میں شرکت اور ہراول دستے کی کمانڈ و غیرہ کو بیان نہیں کیا ہے ۔
اس کے علاوہ ابن حجر نے حموی کی ''معجم البلدان '' میں لفظ ''دلوث '' کے سلسلے میں بیان کی گئی خبر کے بارے میں یوں لکھا ہے :
سیف بن عمر نے ''عبد القیس '' نامی ایک مرد ملقب بہ ''صحار '' سے نقل کر کے کہا ہے کہ میں نے شہر اہواز کے اطراف میں ''ہرمزان'' سے جنگ میں شرکت کرنے والے شخص ''ہرم بن حیاں'' سے ملاقات کی۔ جنگ کا علاقہ ''دلوث '' اور دجیل کے درمیان تھا۔۔۔(یہاں تک کہتا ہے:)
اس منطقہ کو دوسری جگہ پر ''دلث '' پڑھا جاتا تھا ۔ اور حصین بن نیار حنظلی نے اس سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں:
کیا اسے خبر ملی کہ ''مناذر'' کے باشندوں نے ہمارے دل میں لگی
آگ کو بجھادیا؟
دلوث سے آگے ہماری فوج کے ایک گروہ کو دیکھ کر ان کی آنکھیں چکا چوند ھ ہوگئیں۔
اس مطلب کو عبد المؤمن نے حموی سے نقل کر کے اپنی کتاب ''مراصد الاطلاع ''میں درج کیا ہے۔
ابن حجر نے بھی لفظ ''مناذر'' کے بارے میں حموی کی بات پر توجہ نہیں کی ہے جب کہ وہ اپنی معجم میں لکھتا ہے :
اہل علم کا عقیدہ ہے کہ ١٨ھ میں عتبہ نے اپنی سپاہ کے سلمی و حرملہ نام کے دو سرداروں کو مأموریت دی۔۔۔(یہاں تک لکھتا ہے:)
سر انجام مناذر و تیری کو فتح کیا گیا ۔ اس فتح کی داستان طولانی ہے۔
حصین بن نیار نے اس سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں:
کیا وہ آگاہ ہوا کہ مناذر کے باشندوںنے ہمارے دل میں لگی آگ کو
بجھادیا ؟
انھوں نے ''دلوث''کے مقام سے آگے ہماری دفوج کی ایک بٹیلین کو دیکھا اور ان کی آنکھیں چکا چوندھ رہ گئیں ۔
ہم نے ان کو نخلستانوں اور دریا ئے دجیل کے درمیان موت کے گھاٹ اتار دیااورانھیں نابود کرکے رکھ دیا ۔
جب تک ہمارے گھوڑوں کے سموں نے انھیں خاک میں ملا کر دفن نہیں کیا ، وہ وہیں پڑے رہے ۔
طبری نے یہ آخری داستان نقل کرکے اس کو مفصل طور پر تشریح وتفسیر کے ساتھ درج کیا ہے۔ لیکن اپنی عادت کے مطابق اس سے مربوط رجز خوانیوں اور اشعار کو حذف کیا ہے ۔(١٢)
اس طرح ان علماء نے سیف کی احادیث پر اعتماد کرکے اس کے خیالات کی مخلوق ، یعنی خاندان تمیم کے ان چھ افراد کو رسول خدا ۖکے حقیقی اصحاب اور کارندوں کی فہرست میں قرار دے کر رجال اور پیغمبرخدا ۖکے صحابیوں سے مربوط اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔
اب ہم سیف کی احادیث میں ان سے مربوط مطالب کو ذکر کرنے کے بعد سب سے پہلے سیف کی احادیث کے اسناد کی تحقیق کرتے ہیں اور اس کے بعد اس کے افسانوں کا تاریخ کے مسلم حقائق کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں :

اسناد کی تحقیق
سیف کی پہلی حدیث میں خاندان تمیم میں رسول خدا ۖکے گماشتوں کے بارے میں بحث ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ مذکورہ قبائل میں افراد کے مرتد ہونے ، مالک نویرہ کی داستان اور پیغمبری کا دعویٰ کرنے والی خاتون '' سجاح '' کی داستان پر بحث ہوئی ہے ۔
دوسری حدیث میں بحرین میں ارتداد اور سیف کے جعلی صحابی وکیع بن مالک کے بارے میں بحث ہوئی ہے
تیسری حدیث میں بطاح ، وکیع او ر مالک نویرہ کی داستان کے ایک حصہ کا موضوع زیر بحث قرار پایا ہے
سیف نے مذکورہ تین احادیث کو صعب بن عطیہ بن بلال اور اس کے باپ سے نقل کیا ہے اس میں باپ بیٹے ایک دوسرے کے راوی ہیں ْ ہم نے گزشتہ مباحث میں بیان کیا ، چوں کہ ان کو سیف کے علاو ہ کہیں اور نہیں پایا جا سکتا ہے ، لہٰذا ان کو ہم نے سیف کی مخلوق کی حیثیت سے جعلی راوی کے طور پر پہچان لیا ہے ۔
چوتھی حدیث ، جو مالک نویرہ کی بقیہ داستان پر مشتمل ہے ،کی سند کے طور پر سیف نے خزیمہ بن شجرہ عقفانی کا ذکر کیا ہے۔ علماے رجال اور نسب شناسوں نے اس کی سوانح کو سیف کی احادیث سے نقل کیا ہے !! دوسرا عثمان بن سوید ہے جس کے نام کو ہم نے سیف کے علاوہ کہیں اور نہ پایا۔
لیکن جہاں پر سیف حصین بن نیار کی بات کرتا ہے اس کی سند کے طور پر چند مجہول الھویہ افراد کا ذکر کرتا ہے !یہ ہے سیف کی احادیث کے اسناد کی حالت ہے !!

تاریخی حقائق
سیف کے افسانوں کا موازنہ کرنے کے لئے ہم ان منابع کی طرف رجوع کرتے ہیں جنھوں نے سیف کی روایت کو نقل نہیں کیا ہے ۔ اس سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ابن ہشام اور طبری نے ابن اسحاق سے نقل کر کے پیغمبر اسلام ۖکے گماشتوں کے موضوع کے بارے میں اس طرح بیان کیا ہے: ۔ (١٣)
رسول خدا ۖنے اپنے گورنر ون اور عاملوں کو اسلامی ممالک کے قلمرو میں حسب ذیل ترتیب سے معین فرمایا :
١۔مہاجربن ابی امیہ کو صنعاء ، بھیجااور وہ اسود کی طرف سے اس کے خلاف بغاوت تک وہاں پر اسی عہدے پر فائز تھا ۔
٢۔زیاد بن لبید جس نے بنی بیاضہ کے ساتھ برادری کا معاہدہ کیا تھا کو حضرموت بھیجا اور وہاں کے صدقات جمع کرنے کی ذمہ داری بھی
اسے سونپی ۔
٣۔ عدی بن حاتم کو قبائل طے وبنی اسد کے لئے اپنا کا رندہ مقر فرمایا اور اس علاقے کے صدقات جمع کرنے کی ذمہ داری بھی اسے سونپی ۔
٤۔مالک بن نویرہ کو بنی حنظلہ کے صدقات جمع کرنے کی ذمہ داری دی ۔
٥۔زبر قان بن بدر کو بنی اسد کے ایک علاقہ کی ذمہ داری دی ۔
٦۔قیس بن عاصم کو بنی اسد کے ایک دوسرے علاقہ کا کارندہ مقرر فرمایا اور اس علاقہ کے صدقات جمع کرنے کی ذمہ داری بھی اسے سونپی ۔
٧۔علاء بن حضر ی کوبحرین کی حکومت سونپی ۔
٨۔حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو صدقات جمع کرنے کے علاوہ نجران کے عیسائیوں سے جزیہ وصول کر کے آنحضرت ۖکی خدمت میں پہنچانے پر مأمور فرمایا ۔ چوں کہ اس سال ١٠ھ میں جب ذیقعدہ کا مہینہ آیا تو رسول خدا ۖ نے فریضہ حج انجام دینے کے لئے عزیمت فرمائی....
اس کے بعد طبری اور ابن ہشام نے حضرت علی علیہ السلام کی نجران سے واپسی ، ان کا
رسول خدا ۖسے ملحق ہو کر فریضہ حج کے لئے جانا ، پیغمبر خدا ۖکے مکہ سے مدینہ کی طرف واپسی اور اواخر صفر میں آنحضرت ۖکی رحلت کے واقعات کو سلسلہ وار لکھا ہے ۔
اس حدیث کے مطابق تمیم کے مختلف قبائل میں رسول خدا ۖ کے حسب ذیل تین گماشتے مقرر ہوئے تھے ۔
مالک نویرہ
قیس بن عاصم اور
زبرقان بن بدر
اور سیف نے ان میں اپنی طرف سے مزید آٹھ افراد کا اضافہ کرکے ان کی تعداد گیارہ افراد تک بڑھا دی ہے !
تمیم کے مختلف قبائل کے مرتد ہونے کے موضوع کو ہم نے کسی ایسے معتبر مورخ کے ہاں نہیں پایا جس نے سیف سے روایت نقل نہ کی ہو صرف مالک نویرہ کی داستان اور خالد بن ولید کے ہاتھوں اس کی دلخراش موت کے بارے میں پایا ، جسے طبری ،ابوا لفرج اصفہانی اور وثیمہ وغیرہ جیسے معروف دانشوروں نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔ ہم نے اس داستان کو طبری کی تاریخ سے حاصل کیا ہے ۔

مالک نویرہ کی داستان
طبری عبد الرحمن بن ابی بکر سے نقل کرکے مالک کی موت کے بارے میں یوں بیان کرتا ہے : (١٤)
جب خالد سر زمین بطاح میں پہنچا تو اس نے ضراربن ازور کو ایک گروہ کی قیادت سونپ کر جس میں ابو قتادہ اور حارث بن ربعی بھی موجود تھے اس علاقہ کے ایک حصے کے باغیوں اور مرتدوں کی شناسائی کے ئے مامور کیا ۔
ابو قتادہ خود اس ماموریت میں شریک تھا ۔ چوں کہ اس نے خالد کے پاس مالک کے مسلمان ہونے کی شہادت دی تھی ، اور خالد نے اس کی شہادت قبول نہیں کی تھی ، اس لئے اس نے قسم کھائی کہ زندگی بھر خالد کے پرچم تلے کسی بھی جنگ میں شرکت نہیں کرے گا ۔ ابو قتادہ نے مالک کی داستان کی یوں تعریف کی ہے :
ہم رات کے وقت قبیلہ ٔمالک کے پاس پہنچے اور انھیں زیر نظر قرار دیا ۔ لیکن جب انھوں نے ہمیں اس حالت میں اپنے نزدیک دیکھا تو ڈر گئے اور اسلحہ ہاتھ میں لے لیا ہم نے یہ دیکھ کر ان سے مخاطب ہوکر کہا:
ہم سب مسلمان ہیں !
انھوں نے کہا
ہم بھی مسلمان ہیں :
ہم نے کہا:
پس تم لوگوں نے کیوں اسلحہ ہاتھ میں لے لیا ہے ؟!
انھوں نے جواب دیا :
تم کیوں مسلح ہو؟
ہم نے کہا:
ہم اسلام کے سپاہی ہیں ۔اگرتم لوگ سچ کہتے ہو تو اپنا اسلحہ زمین پر رکھ دو !
انھوں نے ہماری تجویز قبول کرتے ہوئے اسلحہ کو زمین پر رکھ دیا اس کے بعد ہم نماز کے لئے اٹھے اور وہ بھی نماز کے لئے اٹھے اور ...
گویا خالد اور مالک کے درمیاں ہوئی گفتگو خالد کے لئے مالک کو قتل کرنے کی سند بن گئی تھی،کیوں کہ جب مالک نویرہ کو پکڑ کے خالد کے سامنے حاضر کیا گیا تو اس نے اپنی گفتگو کے ضمن میں خالد سے کہا:
میںیہ گمان نہیںکرتا کہ تمھارے پیشوا پیغمبرخدا ۖ نے ایسی ویسی کوئی بات کہی ہو !!
خالد نے جواب میںکہا:
کیا تم اسے اپنا پیشوا نہیں جانتا ؟ اس کے بعد حکم دیا کہ اس کا اور اس کے ساتھیوں کا سر تن جدا کردیں !! پھر حکم دیا کہ تن سے جد ا کئے گئے سروں کو دیگ میں ڈال کرجلتی آگ پر رکھ دیں ۔

خالد پر عمر کا غضب ناک ہونا
ٍٍ جب مالک نویرہ کے قتل کی خبر سے عمر ابن خطاب آگاہ ہوا تو اس نے اس موضوع پر ابو بکر سے بات کرتے ہوئے اس سے کہا:
اس دشمن خدا خالد ولید نے ایک بے گناہ مسلمان کا قتل کیا ہے اور ایک وحشی کی طرح اس کی بیوی کی عصمت دری کی ہے ۔
جب خالد مدینہ لوٹا ۔سیدھے مسجد النبی ۖ میں چلا گیا ۔ اس وقت اس کے تن پر ایک ایسی قبا تھی جس پر لوہے کے اسلحہ کی علامت کے طور پر زنگ کے دھبے لگے ہوئے تھے ، سر پر جنگجوئوں کی طرح ایسا عمامہ باندھا تھا جس کی تہوں میں چند تیر رکھے گئے تھے ۔ جوں ہی عمر نے خالد کو دیکھا ، غضبناک حالت میں اپنی جگہ سے اٹھ کر زور سے اس کے عمامہ سے تیروں کوکھینچے کر نکالا اور انھیں غصے میں توڑ ڈالا اور بلندآوازسے اس سے مخاطب ہو کر کہا:
مکاری اور ریا کاری سے ایک مسلمان کو قتل کر کے ایک حیوان کے مانند اس کی بیوی کی عصمت لوٹتے ہو ؟! خدا کی قسم اس جرم میں تجھے سنگار کروں گا !!...
ہم نے اس مطلب کو طبری سے نقل کیا ہے ۔
ابن خلکان نے بھی اپنی کتاب '' وفیات الاعیان '' میں مالک نویرہ کے بارے میں لکھا ہے:(١٥)
جب مالک نویرہ کو پکڑ کر اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ خالد کے پاس لایا گیا تو خالد کی سپاہ کے دو افراد ابو قتاد انصاری اور عبد اللہ بن عمر نے خالد کے پاس مالک کے مسلمان ہونے کی شہادت دی اور اس کی شفاعت کی لیکن خالد نے ان کی ایک نہ مانی بلکہ ان دو صحابیوں کی باتیں بھی اسے پسند نہ آئیں ۔
مالک نویرہ نے جب حالت کو اس طرح بگڑ تے اور خطر ناک ہوتے دیکھا اور احساس کیا کہ اس کی جان خطرے میں ہے تو خالد سے مخاطب ہوکر کہا:
اے خالد ! ہمیں ابوبکر کی خدمت میں بھیج دوکہ وہ ذاتی طور پر ہمارے بارے میں فیصلہ کریں ،کیوں کہ تم نے ایسے افراد کے بارے میں ایسا اقدام کیا ہے جن کا گناہ ہم سے سنگین تر تھا۔
خالد نے جواب میں کہا:
خدا مجھے موت دے ، اگر تجھے قتل نہ کروں !!
اسی وقت مالک کو خالد کے اشارہ پر ضرار کے پاس لے گئے تاکہ وہ اس کا سر تن سے جدا کردے ۔ اس حالت میں مالک کی نظر اپنی بیوی ام تمیم پر پڑی ، جو اپنے زمانے کی خوبصورت ترین عورت تھی ۔ مالک نے خالد کی طرف رخ کرکے کہا: اس عورت نے مجھے مروا دیا ؟!
خالد نے جواب میں کہا:
خدا نے تجھے اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہونے کے جرم میں مارا ہے ۔
مالک نے کہا:
میں مسلمان ہوں ۔
خالد نے بلندآواز میں کہا:
ضرار !کیوںدیرکررہاہے؟ اس کا سر تن سے جدا کردے !!
ابن خلکان مالک کی داستان کو جاری رکھتے ہوئے مزید لکھتا ہے :
ابوزہرہ سعدی نے مالک کے سوگ میں چند درد ناک اشعار کے ضمن یوں کہا ہے : (الف)
جن سواروں نے اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے ہماری سر زمین کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا ، ان سے کہہ دو کہ مالک کی شہادت کے بعد مصیبت کی شام ہمارے لئے ختم ہونے والی نہیں ہے۔
خالد نے بڑی بے شرمی سے مالک کی بیوی کی عصمت لوٹ لی ،کیوں کہ وہ بہت پہلے سے اسے للچائی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔
خالد نے عقل کی زمام نفسانی خواہشات کے حوالے کی تھی اور اس میں اتنی مردانگی نہیںتھی کہ اپنے دل کو اس سے کھینچ کر اپنے آپ کو کنٹرول کر سکتا ۔
مالک کے قتل ہونے کے بعد خالد اپنی دیرینہ آرزو کو پاسکا۔ لیکن مالک نے اس دن اپنی بیوی کی وجہ سے جان دی اور اس کا سب کچھ لٹ گیا۔
..............
الف )۔
الاقل لحی اوطأوا بالسنابک
تطاول ھذا اللیل من بعد مالک

قضی خالد بغیاً علیہ لعرسہ
و کان لہ فیھا ھوی قبل ذالک

فأمضی ھواہ خالد غیر عاطف
عنان الھوی عنھا ولا متمالک

و اصبح ذا اھل، و اصبح مالک
الیٰ غیر شیء ھالکاً فی ھو الک

فمن للیتامی والارامل بعدہ
و من للرجال المعدمین الصعالک

اصیبت تمیم غثھا و سمینھا
بفارسھا المرجو سحب الحوالک
مالک کے بعد اب اس کے یتیموں ، بیوہ ، بوڑھوں اور بے چاروں کا سہارا اور امید کون بن سکتا ہے؟!
قبائل تمیم کے لوگوں نے مالک جیسے شہسوار کو جو ہر بلا کو ان سے دور کرتا تھا ہاتھ سے دینے کے بعد اپنی قیمتی اور معمولی سبھی چیزوں کوکھودیا۔

دو نر و مادہ پیغمبروں کی حقیقت
طبری نے پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے دو شخص ''سجاح'' اور ''مسیلمہ'' کے بارے میں اس طرح لکھا ہے:(١٦)
(سیف کے علاوہ ) دوسروں نے لکھا ہے کہ ''سجاح'' اس علاقے میں پہنچی جو پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے ''مسیلمہ '' کے تسلّط میں تھا۔ مسیلمہ نے ڈر کے مارے قلعہ کے اندر پناہ لے کر قلعہ کے در وازے اندر سے محکم طور پر بند کر دئے ۔
''سجاح'' جب قلعہ کے سامنے آپہنچی تو قلعہ کی چھت پر بیٹھے مسیلمہ سے یوں مخاطب ہوئی:
قلعہ سے نیچے اتر آؤ!
(گویا''مسیلمہ'' ،''سجاح'' کی باتوں اور اس کی حرکات و سکنات سے سمجھ گیا تھا کہ اس سنف نازک پر غلبہ پایا جاسکتا ہے ۔ اس لئے) جواب میں بولا:
تم پہلے حکم دوکہ تیرے مرید اور حامی تم سے دور ہو جائیں !
'' سجاح'' نے اس تجویز سے موافقت کی اور حکم دیاکہ اس کے مرید اپنے خیموں میں چلے جائیں ۔
مسیلمہ بھی قعلہ سے باہر آیا اور اپنے مریدوں کو حکم دیتے ہوئے کہا:
ہمارے لئے ایک الگ خیمہ نصب کرو اور اس کے اندر عود و عنبر جلا کر معطر کرو تاکہ اس معطر فضا اور حالات سے متأثر ہوکر '' سجاح'' کی نفسانی اور جنسی خواہشات بھڑ ک اٹھیں ۔
مسیلمہ کے حکم کو عملی جامہ پہنایا گیا ۔ جب '' سجاح '' نے اس خیمہ کے اندر قدم رکھا ... تا آخر !
یہاں پر طبری نے پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے ان دو نر و مادہ کے درمیان انجام پائی فتگو کو سجعی سے نقل کرکے درج کیا ہے ، درحقیقت پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے ان دو شخصیتوں کے درمیان گفتگو مسیلمہ کی توقع کے عین مطابق انجام پائی اور یہ گفتگو ایک ایسے حساس مرحلے میں داخل ہوئی کہ سر انجام یہ دونوں ہیجان اور جذبات کے عالم میں انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہوئے اور ایک دوسرے کے ساتھ عقد کر لیا ۔
طبری ان دونوں کی داستان کو اس طرح خاتمہ بخشتا ہے :
سجاح نے مذکورہ خیمہ میں مسیلمہ کے ساتھ تین دن رات گزارے ۔ اس کے بعد جب خیمہ سے نکل کر اپنے مریدوں کے درمیان پہنچی تو اس کے مریدوں نے اس سے سوال کیا :
اچھابتاؤ !مسیلمہ سے ملاقات کرکے تمھیں کیا ملا ؟
سجاح نے جواب میںکہا:
وہ حق پر تھا ! میں بھی اس پر ایمان لائی ۔ حتیٰ اسے اپنا شوہر بنایا ۔
اس سے پوچھا گیا:
اچھابتاؤ !کیا اس نے کسی چیز کو تیرے لئے مہر قرار دیا ؟
( یہ سوال سن کر جیسے سجاح خواب سے بیدار ہوگئی ہو اور تعجب سے کہتی ہے ) کہا :
نہیں!
انھوں نے اس سے کہا:
تم نے یہ اچھا کام نہیں کیا ہے ، لوٹ کر اس کے پاس جاؤ !تم جیسی خاتون کے لئے مناسب نہیں ہے کہ مہر لئے بغیر شوہر سے جدا ہو جائے !!
سجاح دوبارہ خیمہ کی طرف گئی اور مسیلمہ جو ابھی خیمہ میں ہی تھا سے جاملی ۔ مسیلمہ اس خیال میں تھا کہ اس کا حریف چلا گیا ہے لیکن جب اس نے اسے واپس لوٹتے دیکھا تو فکر مند ہوا اور اس سے پوچھا :
تم تو چلی گئی تھی ! ماجرا کیا ہے ؟
سجاح نے کہا:
میرا مہر، میرے مہر کا کیا ہوگا ؟! تمھیں مہر کے عنوان سے مجھے کچھ دینا چاہئے مسیلمہ نے سجاح کی مانگ کو سن کر اطمینان کا سانس لیا اور سجاح کے مؤذن سے کہا :
اپنے دوستوں میں جاکر اعلان کرو کہ مسیلمہ بن حبیب نے شام اور صبح کی دو نمازیں ، جنھیں محمد ۖ نے تم لوگوں پر واجب قرار دیا تھا ، کو سجاح کے مہر کے طور پر تمھیں بخش دیا ہے اور اب انھیں انجام دینے کی تکلیف تم لوگوں سے اٹھا دی جاتی ہے !!

اب ہم دیکھتے ہیں کہ مناذر اور تیری کی فتح کے بارے میں سیف کی باتوں کے علاوہ دوسروں نے کیا کہا ہے ؟
ابن حزم اپنی کتاب '' جوامع السیر '' میں لکھتا ہے :
ابو موسیٰ اشعر ی نے عمر کی خلافت کے دوران صوبہ خوزستان کے بعض علاقوں پر زبردستی اور بعض دیگر علاقوں پر صلح ،معاہدوں اور محبت سے قبضہ جما یا تھا ۔(١٧)
ذہبی کتاب '' تاریخ الاسلام '' میں لکھتا ہے :
١٧ھ میں عمر نے ایک فرمان کے تحت بصرہ کی حکومت ابو موسیٰ اشعری کو سونپی اسے حکم دیا کہ اہواز پرلشکر کشی کرکے اس صوبہ پر قبضہ کرلے ۔ (١٨)
بلاذری نے اپنی کتاب '' فتوح البلدان '' میں لکھا ہے :
ابو موسیٰ اشعری نے سوق اہواز اور نہر تیری پر قہر و غلبہ سے قبضہ کرلیا ... ( یہاں تک لکھتا ہے:) ربیع بن زیاد حارثی کو مناذر میں نمائندہ کی حیثیت سے مقرر کیا اور خود تستر ( شوشتر) کی طرف لشکر کشی کی اور اسے اسی سال موسم بہار میں فتح کیا (١٩)
مناذر اور تیری کے بارے میں فتح کی داستان یہی تھی جو ہم نے بیان کی لیکن دلوث نام کی کسی جگہ کا نام ہمیں کسی کتاب میں نہیں ملاکہ اس کے بارے میں سیف کی باتوں کا موازنہ کریں کیوں کہ یہ جگہ سیف بن عمر کی خیالی پیداوار کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔

گزشتہ بحث کا خلاصہ اور موازنہ کا نتیجہ
سیف نے رسول خدا ۖ کے گماشتوں میں چھ افراد کا اضافہ کیا ہے ۔ اسی کی برکت سے رسول خدا ۖکے صحابیوں کی زندگی کے حالات لکھنے والے علماء نے بھی سیف کے ان چھ جعلی اصحاب اور رسول خدا ۖ کے گماشتوں کو پیغمبر خدا ۖ کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرار دے کر سیف سے نقل کر کے ان کی زندگی کے حالات لکھے ہیں جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن علماء نے سیف کی باتوں پر اعتماد نہیں کیا ہے ان کی کتابوں میں پیغمبر خدا ۖ کے اس قسم کے کارندوں اور گماشتوں کا کہیں نام تک نہیں ملتا ۔
اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ سیف بن عمر نے اپنی احادیث ،ایسے راویوںسے نقل کی ہیں کہ حقیقت میں ان کا کہیں وجود نہیں ہے اور ہم انھیں سیف کے جعلی راوی محسوب کرتے ہیں ۔
ہم نے یہ بھی دیکھا کہ سیف تنہا فرد ہے جو قادسیہ کی جنگ سے پہلے ایک ہر اول دستے کے کمانڈر کی حیثیت سے حصین نامی ایک صحابی کا نام لیتا ہے ۔اور حموی جیسا دانشور اور جغرافیہ کی کتاب ''معجم البلدان '' کا مؤلف اس فرضی حصین کی فتح مناذر کے بعد سیف کے دو جعلی صحابیوں اور سورما حرملہ اور سلمی کے ذریعہ اسے فتح کرنے کے سلسلے میں لکھی گئی دلاوریوں کو اپنی کتاب میں درج کرتا ہے، جب کہ حقیقت میں مناذر کو ''ربیع حارثی قحطانی'' اور دیگر لوگوں نے فتح کیا ہے۔ چونکہ حموی نے ''دلوث'' کا نام بھی اسی حصین کے اشعار میں دیکھا ہے اس لئے اسے بھی ایک حقیقی جگہ کے طور پر اپنی کتاب میں درج کیا ہے!
سیف نے اپنے قبیلہ مضرو تمیم کی حمایت و طرفداری میں تعصبات پر مبنی اپنے اندرونی جذبات اور احساسات کو جواب دینے اور اپنے دشمنوں، جیسے قبیلہ ٔیمانی قحطانی کی طعنہ زنی کرنے کے لئے مناذر اور تیری کی حدیث کو گھڑ لیا ہے اور ابو موسیٰ اشعری یمانی قحطانی کو خلیفہ عمر کی طرف سے دئے گئے عہدے و منصب سے محروم کر کے اس عہدے پر ایک عدنانی و مضری جعلی فرد '' عتبہ بن غزوان'' کو فائز کیا ہے ۔
سیف بن عمر اپنے قبیلہ تمیم کے خیالی اور جعلی پہلوانوں حرملہ اور سلمی کو یمانی قحطانی ''ربیع حارثی'' کی جگہ پر بٹھا تا ہے اور اپنے جعلی و خیالی صحابی و شاعر حصین بن نیار حنظلی سے ان کی مداح اور تعریفیں کراتا ہے تا کہ اپنے خاندان تمیم کے افتخارات کی شہرت کودنیا میں چار چاند لگائے !!
مگر، ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سیف کے ان تاریخی واقعات کے سال کو بدل کر ١٧ھ کو ١٨ ھ لکھنے کا کو نسی چیز سبب بنی ہے؟ جبکہ تمام مورخین نے لکھا ہے کہ'' عتبہ بن غزوان'' جسے سیف بن عمر نے ابو موسیٰ اشعری کی جگہ پر بٹھادیا ہے ١٨ ھ سے پہلے فوت ہوچکا تھا اور زندہ نہیں تھا تو کہاں سے خلیفہ ٔعمر سے اپنے لئے حکومت اور سپہ سالاری کا فرمان حاصل کرتا!! مگر یہ کہ ہم یہ بات قبول کریں کہ ایک کہ زندیقی نے جس کا سیف پر الزام تھا اپنے خاص مقاصد کے پیش نظر تاریخ اسلام کی روئداد کی تاریخوں میں تصرّف کر کے ایک امت کی تاریخ کو مشکوک بنا کر اسے بے اعتبار اور نا قابل اعتماد بنانے کی کوشش کی ہے !!
ہم نے دیکھا کہ سیف ، پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے دو افراد سجاح و مسیلمہ کے بارے میں کہتا ہے کہ جب سجاح تمیمی نے مسیلمہ سے جنگ نہ کرنے کے معاہدہ پر دستخط کئے تو پہلے مسیلمہ سے یہ طے پایا کہ یمامہ کی پیدا وار کا نصف ہر سال سجاح کو ادا کرے گا۔ دوسرے اگلے سال کے خراج کا نصف بھی اسی سال ادا کرے گا اور اس طرح مسیلمہ اس قسم کے سنگین شرائط کو قبول کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔سجاح نے قرار کے مطابق جو کچھ وصول کرنا تھا کرلیا اور باقی خراج کو وصول کرنے کے لئے نمائندہ مقرر کر کے مسیلمہ سے مرخص ہوتی ہے!!
سیف اس قسم کا افسانہ گھڑ کر صرف اس فکر میں ہے کہ قبیلۂ تمیم کو فخر و مباہات بخشے ، اس لئے لکھتا ہے کہ سجاح نے اس فوج کشی کے نتیجہ میں یمامہ کی پیدا وار کا نصف حصہ حاصل کیا ! جب کہ دوسروں نے لکھا ہے کہ پیغمبر ی کا دعویٰ کرنے والی اس خاتون کو،اس فوج کشی کے نتیجہ میں جو کچھ میسر ہوا، وہ مسیلمہ جیسا شوہر تھا نہ یمامہ کی پیدا وار ۔ اور جو کچھ اس کے مریدوں نے پایا وہ صبح اور مغرب کی نماز وں کا ساقط ہوناتھا ، اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
ہاں، قبیلہ تمیم کے بعض افراد کے مرتد ہونے کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کے باوجود کہ بنیا دی طور پر کفر و ارتداد ایک شرم آور امر ہے ۔ لیکن سیف وہ شخص نہیں ہے جسے اسلام کی فکر ہو اور اپنے خاندان کے دامن سے ارتداد کے بد نما داغ کو پاک کرنے کی کوشش کرے، بلکہ وہ صرف اس فکر میں ہے کہ ہر ممکن طریقے سے اپنے قبیلۂ تمیم کے لئے افتخارات میں اضافہ کرے ۔ اسی لئے قبیلۂ تمیم کے مرتد اور مسلمان افراد کو آپس میں لڑاتا ہے اور کسی بھی اجنبی کو قبیلہ تمیم کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کی اجازت نہیں دیتا، اسی لئے سیف کی حدیث میں ملتا ہے کہ صرف تمیمی مسلمان ہی اس قبیلہ کے مرتدوں کی تنبیہ کرتے ہیں ،کسی او رکو اس امر کی اجازت نہیں دی جاتی ہے !!
لیکن، مالک نویرہ کی داستان، اگر چہ مالک ایک تمیمی فرد ہے اور قاعدے کے مطابق قبیلہ کے تعصبات کے پیش نظر سیف کی ہمدردیاں اس سے مربوط ہونی چاہئے ، لیکن خالد بن ولید جیسے خاندان مضر کے سپہ سالار، شمشیر باز اور تجربہ کار جنگجو کے مقابلے میں مالک کی حیثیت انتہائی پست و حقیر ہے۔ یہاں پر سیف ضعیف کو طاقتور پر قربان کرنے کے قاعدے کے تحت مالک کو مرتد اور سجاح کے شریک کار اور ساتھی کی حیثیت سے پیش کرتا ہے، اور ایک افسانہ کے ذریعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ خالد بن ولید کے ایک حکم کے سلسلے میں سرزمین بطاح میں کنانہ کے لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہونے کی وجہ سے مالک نویرہ کو قتل کیا جاتا ہے۔ اس طرح سیف یہ کوشش کرتا ہے کہ خالد مضری کے دامن کو مالک کے ناحق خون سے پاک و مبرّا ثابت کرے۔ جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے اور دوسرے مورخین نے اس سلسلے میں لکھا ہے:
مالک نویرہ اپنے اسلام اور ایمان کے سلسلے میں دفاع کرنے کے لئے خالد سے گفتگو کرتا ہے، لیکن جب اپنے قتل کئے جانے پر خالد کی ہٹ دھرمی کا احساس کرتا ہے تو اپنی عقل و فراست سے سمجھ لیتا ہے کہ یہ اس کی بیوی کی خوبصورتی اور دلفریب حسن و جمال ہے جس کی وجہ سے خالد اسے قتل کرنے پر تُلا ہوا ہے تا کہ اپنی دیرینہ آرزو اور تمنا کو پہنچ سکے۔
اسی طرح کہا گیا ہے کہ مالک کے مسلمان ہونے اور نماز گزار ہونے کے سلسلے میں ابو قتادہ اور عبد اللہ بن عمر کی گواہی بھی نہ فقط کارگر اور مؤثر ثابت نہیں ہوئی بلکہ خالد کو ان کی باتیں ہرگز پسند نہ آئیں اور یہی امر خالد کے لئے مالک کے قتل میں تعجیل کرنے کا سبب بنا۔بالآخر خالد کے اشارہ پر ضرارنے مالک کے سر تن سے جدا کیا ۔اس کے بعد خالد نے اس کے دیگر ساتھیوںکو قتل کرانے کے بعد حکم دیا کہ ان کے سروں کودیگ میں رکھ کر اس کے نیچے (چولہے کی مانند) آگ لگا دیں ۔
لکھا گیا ہے کہ عمر نے جب مالک کے قتل کئے جانے کی خبر سنی تو غضبناک ہوئے اور اس سلسلے میں ابوبکر سے گفتگو کی ۔جب عمر خالد کو جنگی اسلحہ کا کثرت سے استفادہ کرنے کی وجہ سے اس کے لباس پر زنگ کے دھبے لگے خاص حالت میں دیکھتے ہے تو غصہ میںآکر اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے عمامہ کو پھاڑکر بلند آواز میں کہتے ہیں:مکاری اور ریا کاری سے ایک مسلمان کو قتل کرڈالتے ہو پھر ایک حیوان کی طرح اس کی بیوی سے اپنا منہ کالا کرتے ہو!! خدا کی قسم میں تجھے سنگسارکروں گا!!
اس کے باوجود سیف بن عمر کو خاندانی اور زندیقی تعصب ،اسلام دشمنی پر مجبور کرتاہے۔اسی لئے وہ مالک کے بارے میں پھوہڑپن سے جھوٹ کے پلندے گھڑ لیتاہے تا کہ ''قائد اعظم'' اور '' اسلام کے سپہ سالار'' ،خالد بن ولید مضری کے دامن کو مالک کے نا حق خون سے پاک کرسکے!!
اگر ہم اس کے باوجود بھی فرضاً یہ مان لیں کہ خالد کا یہ قصد و ارادہ نہ تھا کہ مالک کو قتل کرے بلکہ اتفاق سے یہ حادثہ پیش آیاہے اور کنانہ کے لوگوں نے (جو اصلاً خالد کی سپاہ میں موجود نہ تھے ) غلط فہمی سے اسیروں کو گرم کپڑے دینے کے بجائے تلوار سے ان کے سر تن سے جدا کرکے انھیں راحت کردیاہے اور اس میں خالد کا کوئی قصور نہ تھا پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے مقتولین کے سروں کو دیگ میں رکھ کر اس کے نیچے (چولہے کے مانند) کر آگ لگانے کا حکم کیوں دیا اور اس طرح ان کی بے احترامی کی؟!!

سجاح کے افسانہ کا نتیجہ
سیف بن عمر،رسول خدا ۖ کے کارندوں ،قبیلہ ٔ تمیم کے افراد کے ارتداد ،خاندان تمیم سے پیغمبری کا دعوی کرنے والی ''سجاح'' اور مالک نویرہ و .... کے بارے میں داستانیں خلق کرکے اپنے خاندان یعنی قبیلہ تمیم کے لئے حسب ذیل فخرومباہات حاصل کرتاہے:
١۔ خاندان تمیم کی خاتون ''سجاح'' پیغمبری کا دعوی کرتی ہے۔قبیلہ بنی حنیفہ کے اپنے دوسرے شریک اور پیغمبری کے مدعی یعنی مسیلمہ سے یمامہ کی پیداوار کا نصف حصہ بعنوان خراج حاصل کرتی ہے تا کہ اسے آزاد چھوڑدے ۔یہ قبیلہ تمیم کے لئے بذات خود ایک عظیم افتخار ہے کہ اس قبیلہ کے پیغمبری کا دعوی کرنے والے مکار اور دھوکہ باز دوسرے جھوٹے پیغمبروں سے برتری رکھتے ہیں اور ان سے باج حاصل کرتے ہیں!!
قبیلہ تمیم کے افراد کے مرتد ہونے کے موضوع کے بارے میں افسانہ میں ایسا دکھاتا ہے کہ اس قبیلہ کے مسلمانوں نے اس قبیلہ کے مرتد ہوئے افراد کی گوشمالی کرنے کے لئے اٹھ کر ان کی سخت تنبیہ کی ہے اور اس طرح تمیمیوں کے اندرونی مسائل میں کسی اجنبی کو دخل دینے کی اجازت نہیں دی ہے اور یہ خود قبیلہ تمیم کے لئے ایک افتخار ہے کہ اپنے قبیلہ کے ارتداد کے مسئلہ کو خود حل کریں اور کسی اجنبی کو اس میں دخل دینے کی اجازت نہ دیں ۔
٢۔رسول خدا ۖ کی رحلت کے بعد جزیرہ میں ارتداد کی خبر کو جعل کرکے اس کی اشاعت کرتاہے تا کہ اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک سند مہیا ہوجائے جس کے بناء پر وہ آسانی کے ساتھ یہ کہہ سکیں کہ اسلام تلوار سے پھیلاہے اور خوف و وحشت کے سائے میں پائیدار ہوا ہے نہ کسی اور کی وجہ سے!؟
٣۔ رسول خدا ۖ کے لئے قبیلہ تمیم سے کارندے اور گماشتے خلق کرتاہے تا کہ وہ پیغمبر اسلام ۖ کے دیگر حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار پائیں اور ان کے نام طبقات اور رجال کے موضوع پر لکھی گئی دانشوروں کی کتابوں میں درج ہوجائیں !!
٤۔ علاقہ اہواز میں ایک جگہ کو خلق کرتاہے تا کہ وہ جغرافیہ کی کتابوں میں درج کی جائے۔
٥۔ چند اشعار لکھ کر انھیں اپنے جعلی اور خیالی دلاوروں کی زبان پر جاری کرتاہے تا کہ عربی ادبیات کے خزانوں کی زینت بن جائیں ۔
٦۔ تاریخ اسلام کے اہم واقعات کے سالوں میں تغیر ایجاد کرتاہے ۔ ہماری نظر میں اس سلسلے میں خاص طور پر اس کا اصل محرک سیف کا زندیقی ہونا ہے کہ جس کا اس پر الزام ہے!
سیف نے جو حدیث'' صعب بن عطیہ'' سے روایت کی ہے اس پر علماء نے بہر صورت اعتماد کیاہے اور اس کے چھ جعلی اصحاب کو پیغمبر خدا ۖ کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرار دیاہے۔ پھر انھیں اپنی کتابوں میں درج کرکے سیف کی حدیث سے ان کی زندگی کے حالات پر
روشنی ڈالی ہے۔
اس کے علاوہ ان علماء نے ''صفوان بن صفوان '' کو سیف کی احادیث سے صحابی جان کر علیحدہ طور پر اس کی سوانح عمری لکھی ہے ۔چونکہ ہم نے ''صفوان'' کے بارے میں سیف کے خیالات کی مخلوق ہونے پر یقین نہیں کیا ہے اس لئے اس پر بحث نہیں کی۔

اس افسانہ کو نقل کرنے والے علما
ان تمام افسانوں کو سیف نے انفرادی طور پر خلق کیاہے اور حسب ذیل دانشوروں نے ان افسانوں کی اشاعت کی ہے :
١۔طبری نے اپنی تاریخ کبیر میں سند کے ساتھ ۔
٢۔ یاقوت حموی نے ''معجم البلدان'' میں سند کے ساتھ ۔
٣۔ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں طبری سے نقل کرکے۔
٤۔ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں طبری سے نقل کرکے۔
٥۔ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں طبری سے نقل کرکے۔
٦۔ ابن فتحون نے اپنی کتاب ''التذییل '' میں اپنے پیش رؤں سے۔
٧۔ کتاب '' اسد الغابہ '' کے مؤلف نے طبری سے نقل کرکے۔
٨۔ کتاب '' تجرید '' کے مؤلف نے طبری سے نقل کرکے۔
٩۔ابن حجر نے ''الاصابہ'' میں سیف بن عمر اور طبری سے نقل کرکے ۔
١٠۔''مراصد الاطلاع'' کے مولف نے یاقوت حموی سے نقل کرکے۔