|
٥_ آیات اطاعت
ان کی دو قسمیں ہیں۔
پہلی قسم میں ایسی آیات ہیںجن میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کا بغیر کسی استثناء کے مطلقاً حکم دیا گیا ہے یعنی اللہ اور رسول کی اطاعت میں کسی طرح کے فرق کا لحاظ نہیں دکھایا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:
(َطِیعُوا اﷲَ وََطِیعُوا الرَّسُولَ) (٢)
''اللہ اور رسول کی اطاعت کرو۔''
دوسری قسم :
(منْ یُطِعْ الرَّسُولَ فَقَدْ َطَاعَ اﷲَ) (٣)
'' جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔''
..............
(٢) سورہ نسائ،آیت٥٩۔
(٣) سورہ نساء ،آیت٨٠۔
ان جیسی تمام آیات میں اللہ اور رسول کی اطاعت کو مطلق واجب قرار دیا گیا ۔دوسری
آیت میں ''اولی الامر ''کی اطاعت کو بھی مطلقاً واجب قرار دیا گیا ہے چنانچہ فرمایا :
(َطِیعُوا الرَّسُولَ وَُوْلِی الَْمْرِ مِنْکُمْ) (١)
'' اللہ و رسول کی اطاعت کرو اور اولی الامر کی اطاعت کرو۔''
اس آیت سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ اولی الامر کی اطاعت بھی مطلقاً واجب ہے اور یہ طرح کے امر و نہی پر مشتمل ہے۔ اس آیت کے مفہوم کا تقاضا یہ بھی ہے کہ یہ ولی معصوم ہو اور امر و نہی سے ذرہ برابر بھی پہلو تہی کرنے والا نہ ہو تاکہ اس کی اطاعت بلا کسی استثناء کے واجب اور ضروری ہوسکے۔ اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ امام معصوم من جانب اللہ ہی ہو ۔اس لئے کہ وہی معصوم اور بے گناہ انسان کی شناخت رکھتا ہے اور عصمت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے اللہ نے فرمایا:
(فَلاَ تُزَکُّوا َنفُسَکُمْ ہُوَ َعْلَمُ بِمنْ اتَّقَی) (٢)
''تو اپنی پاکیزگی مت جتائو وہ خوب جانتا ہے کہ کون پرہیزگار ہے۔''
دوسری جگہ مذکور ہے :
(َلَمْ تَرَا ِلَی الَّذِینَ یُزَکُّونَ َنفُسَہُمْ بَلْ اﷲُ یُزَکِّی منْ یَشَاء) (٣)
''کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے تئیں آپ کو پاک اور مقدس بتاتے ہیں(یہ سب غلط ہے) بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے پاک و مقدس بناتا ہے۔''
..............
(١) سورہ نسائ،آیت٥٩۔
(٢) سورہ نجم،آیت٢٣۔
(٣) سورہ نساء ،آیت٤٩۔
عصمت اللہ کے ہاتھ میںاور اطاعت اس کی ذات و صفات کے ساتھ خاص ہے ۔جب
اولو الامر کی اطاعت و فرمانبرداری کا امر حکم مطلق ہے تو اس مطلق اطاعت سے یہ بات ضروری ہوجاتی ہے کہ ولی امر کا تعیین ہر حال میں اللہ کی طرف سے ہو کیوں کہ وہی تمام راز اور پوشیدہ چیزوں اور معصوم و طاہر انسان کا علم رکھتا ہے۔
آیت کی دوسری قسم ان آیات سے مختلف فیہ مسائل کو اولوالامر کے سامنے پیش کرنے کا وجود ثابت ہوتا ہے ہر نزاعی مسئلہ میں اولو الامر سے رجوع اس طرح ضروری ہے جس طرح اس نوع کے مسائل کو رسول ۖ کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَِذَا جَائَہُمْامر مِنَ الَْمْنِ َوْ الْخَوْفِ َذَاعُوا بِہِ وَلَوْ رَدُّوہُا ِلَی الرَّسُولِ وَا ِلَی ُوْلِی الَْمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِینَ یَسْتاَنْبِطُونَہُ مِنْہُمْ) (١)
''اور جب ان کے پاس کوئی امن یا ڈر کی خبر آتی ہے تو ا س کو اڑا دیتے ہیں اور اگر ڈرنے سے پہلے اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس لے جاتے (ان سے اس خبر کی تحقیق کرتے) تو جن لوگوں کو خبر کی تلاش رہتی ہے (ان اڑانے والوں میں سے ) وہ خود ان سے (یعنی پیغمبر سے اور سرداروں سے) اس خبر کو اچھی طرح معلوم کرلیتے۔''
دوسری جگہ فرمایا:
(فَِانْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْئٍ فَرُدُّوہُا ِلَی اﷲِ وَالرَّسُولِ) (٢)
''پھر اگر تم میں اور حاکم وقت میں کسی مقدمہ میں جھگڑا ہو تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو۔''
..............
(١) سورہ نسائ،آیت٨٣۔
(٢) سورہ نسائ،آیت٥٩۔
ان آیات سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ہر وہ امر جس میں نزاع و اختلاف پیدا ہوجائے اسے اللہ اور رسول کے سامنے لانا ضروری ہے یعنی مختلف فیہ امر کا فیصلہ اللہ اور رسول کے قول کے مطابق ہی ہونا چاہیے ،انسان کے ہر فعل اختیاری میںنزاع پایا جاتا ہے جیساکہ ہم پہلے ہی ذکر کرچکے ہیں کہ نزاع و اختلاف کا تحقق اختیاری امور میں ہی ہوتا ہے یہ دونوں آیتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ مختلف فیہ مسائل کا جس طرح اللہ اور رسول کے سامنے پیش کرنا واجب ہے اسی طرح اولو الامر کے سامنے پیش کرنا بھی ضروری ہے ۔
پھر یہ سوال پیش ہوتا ہے کہ اولو الامر میں وہ کون لوگ شامل ہیں جن کے فیصلہ کے بعد اختلاف ممکن نہ ہو اور ان کا فیصلہ صحیح اور قابل نفاذ ہو اور تمام لوگوں کیلئے قابل قبول ہو نیز یہ ضروری ہے کہ ان کی بات میں سچائی ہو اور وہی معیار حق بھی ہوں کیونکہ اختلاف کے وقت وہی مرجع ہوتے ہیں جن کے ذریعہ حق کا تعیین و تحقق ہوسکے اور وہی حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرتے ہیں ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ وہ معصوم و بے گناہ ہو اور اس کا تعین و تقرر اللہ کی طرف سے ہوا ہو۔
٦_ آیت اختیار
ارشاد خداوندی ہے:
(وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَاء وَیَخْتَارُ مَا کَانَ لَہُمْ الْخِیَرَةُ سُبْحَانَ اﷲِ وَتَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ ں وَرَبُّکَ یَعْلَمُ مَا تُکِنُّ صُدُورُہُمْ وَمَا یُعْلِنُونَ ں وَہُوَ اﷲُ لاَِلَہَا ِلاَّ ہُوَ لَہُ الْحَمْدُ فِی الُْولَی وَالْآخِرَةِ وَلَہُ الْحُکْمُ وَِلَیْہِ تُرْجَعُونَ) (١)
''تیرا مالک جو چاہتا ہے وہ پیدا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے (پیغمبری کیلئے) چن لیتا ہے اور ان کو کوئی(مستقل ) اختیار نہیں ہے یہ جن جن لوگوں کا اللہ تعالیٰ کا شریک بتاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے کہیں پاک اور برتر ہے ۔اور(اے پیغمبر) جو باتیں اپنے دل میںچھپاتے ہیں اور جس کا اظہار کرتے ہیں تیرا مالک ان سب کو جانتا ہے اور وہی اللہ تعالیٰ ہے جس کے سوا کوئی سچا خدا نہیں دنیا اور آخرت میں اسی کو تعریف سجتی ہے اور دونوں جگہ اسی کی حکومت ہے اور اسی کے پاس تم کو لوٹ جانا ہے۔''
..............
(١) سورہ قصص ،آیت٦٨ تا ٧٠۔
یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ تخلیق و اختیار کے درمیان مماثلت پائی جاتی ہے چنانچہ جس طرح اللہ تعالیٰ تخلیق کے عمل میں اکیلا ہے اس میں اس کا کوئی شریک کار نہیں اسی طرح اختیار کے عمل میں بھی وہ واحد و یکتا ہے یعنی اختیار و انتخاب کے عمل میں اسی کی ذات کوبنیادی مرتبہ حاصل ہے اور اس کے علاوہ کسی اور کو اس میں کوئی عمل دخل نہیں وہی انسان کیلئے حق اور خیر کا تعین کرتا ہے۔
چنانچہ ہر فرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام امور کو اللہ کے اوامر و نواہی کو پیش نظر رکھتے ہوئے انجام دے کیوں کہ ہر قسم کی خیر و بھلائی صرف اللہ کے قبضہ میں ہے ،اس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔مذکورہ بالا تمام آیتوں میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ بادشاہت کا اصل حقدار اللہ تعالیٰ ہے اور تمام تر خیر و بھلائی اللہ کے ہاتھ میں ہے اس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ اللہ نے فرمایا :
(مَا کَانَ لَہُمْ الْخِیَرَةُ) (١)
''ان کو کوئی اختیار نہیں ہے۔''
جب کسی بھی عمل کا انتخاب آدمی اپنی پسند او رمرضی کے مطابق نہیں کرسکتا ہے اس لئے کہ اختیار و انتخاب اللہ کے لئے خاص ہے ۔لہٰذا امامت و قیادت جیسے اہم ترین معاملہ میں بھی جس کا تعلق مکمل طو رپر دین سے ہے او ریہ ان اہم امور میں شامل ہے جس میں لوگ اختیار خداوندی کی طرف محتاج ہوتے ہیں۔تمام تر اختیارات اللہ کیلئے خاص ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ منصب امامت کے فرائض کو انجام دینے کیلئے کسی بھی شخص کا انتخاب کرسکتا ہے ۔اس لئے کہ انتخاب و اختیار اﷲ کیلئے خاص ہے۔لہٰذا امامت و قیادت جیسے اہم ترین معاملہ میں بھی جس کا تعلق مکمل طور پر دین سے ہے اور یہ ان اہم امور میں شامل ہے جس میں لوگ اختیار خداوندی کی طرف محتاج ہوتے ہیں تمام تر اختیارات اﷲ کیلئے خاص ہوں گے اﷲ تعالیٰ منصب امامت کے فرائض کو انجام دینے کیلئے کسی بھی شخص کا انتخاب اپنی منشاء کے مطابق کرے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تمام تر اختیارات اﷲ کی ذات کیلئے مخصوص ہیں تو شوریٰ کی اس آیت(وََمْرُہُمْ شُورَی بَیْنَہُمْ) (٢) کا کیا مفہوم ہوگا کیونکہ بظاہر (مَا کَانَ لَہُمْ الْخِیَرَةُ) اور (وََمْرُہُمْ شُورَی بَیْنَہُمْ) ان دونوں آیتوں کے درمیان تعارض نظر آرہا ہے مگر ان دونوں آیتوں کے مفہوم میں غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان میں تعارض نہیں۔ مذکورہ بالا آیت میں یہ صراحت موجود ہے کہ انسانی سماج کے تمام امور کے فیصلہ کا ذمہ دار صرف
..............
(١) سورہ قصص،آیت٦٨۔
(٢) سورہ شوریٰ،آیت٣٨۔
اﷲ ہے اس میں اس کا کوئی شریک کار نہیںہے۔اسی طرح امامت جیسے دینی امر کے فیصلے کے تمام تر اختیارات اﷲ کیلئے ہی خاص ہیں۔وہ جسے چاہتا ہے اس کیلئے معین و مقرر کرتا ہے جیسا کہ اﷲ نے امامت کی نسبت رسول کی طرف کر کے اپنے حق اختیار کا اظہار کیا،چنانچہ اﷲ نے رسول کو لوگوں کا امام مقرر فرمایا جس طرح حضرت ابراہیم ـ اور ان کی ذریت میں سے نیک لوگوں کو امامت کے مرتبہ سے سرفراز کیا۔مگر آیت شوریٰ اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ صاحب قرار کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں دیگر مؤمنین سے مشورہ طلب کرے۔جب اﷲ تعالیٰ منصب امامت کے فرائض کو انجام دینے کیلئے کسی کو متعین کرتا ہے(جیسا کہ رسول ـ کو امام مقرر فرمایا) تو اس پر یہ بات واجب ہوجاتی ہے کہ وہ کسی بھی امر شرعی میں فیصلہ لیتے وقت دیگر مؤمنین سے بھی رائے طلب کرے۔اگر لوگوں کی رائے حق اور مصلحت کے خلاف ہو تو ان کی رائے کا ماننا رسول کیلئے ضروری نہیں ہے اور مشورہ کر لینے کے بعد وہ اپنی مرضی اور صوابدید کے مطابق فیصلہ کرسکتا ہے۔ شوریٰ کا یہی اختلافی مفہوم لغت میں بھی مذکور ہے۔
یہاں پر یہ بات واضح ہوگئی کہ لفظ شوریٰ کا مفہوم یہ ہے کہ امام اختلافی شرعی امور میں باہم مشورہ سے کام لے اس لفظ کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ یہ ہی حتمی فیصلہ کا ذمہ دار ہے اور آیت شوریٰ ہرگز اس بات پر دلالت نہیں کرتی ہے کہ شوریٰ ہی دراصل صاحب رائے ہے۔دوسری آیتوں میں بھی رسول کو مشورہ کا حکم دیا گیا ہے۔ (وَشَاوِرْہُمْ فِی الَْمْرِ فَِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِ)(١) اس آیت کریمہ میں رسولـ کو اولاً مشورہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے مگر ساتھ ہی ان کو اس کی اجازت بھی دی گئی کہ آخری فیصلہ ان کی رائے پر موقوف ہوگا۔
..............
(١) سورہ آل عمران،آیت ١٥٩۔
اس آیت میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ اﷲ کے رسول کو فیصلہ کا ذمہ دار بنایا گیا ہے اور تمام مومنین پر ان کی اطاعت واجب ہے۔پھر بھی اﷲ نے رسول کو آخری فیصلہ سے پہلے مشورہ کا حکم دیا ہے۔یہاں ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ شوریٰ کو فیصلہ کا ماخذبنیاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔کیونکہ شوریٰ باہمی طور پر آراء و خیالات کے تبادلے کا نام ہے اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے(وََمْرُہُمْ شُورَی بَیْنَہُمْ) میں مسلمانوں پر یہ واجب قرار دیا گیا ہے کہ جب کبھی ان کا کسی امر شرعی میںاختلاف ہوجائے تو آخری فیصلہ کرنے سے پہلے باہم مشورہ کریں۔تاہم اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ اس فیصلہ کو نافذ العمل کرنے کا ذمہ دار کون ہوگا؟
جبکہ آیات اختیاری میں اس کی صراحت کر دی گئی ہے کہ ہر طرح کے امر کا اختیار اور فیصلہ کا حق صرف اﷲ کی ذات کے ساتھ مختص ہے لہٰذا ہر حال میں فیصلہ اسی کی طرف سے صادر ہوگا۔ پھر وہ شخص اس منصب کا حقدار اور اصل ہوگا جس کا تعیین اﷲ کی طرف سے عمل میں آیا ہو۔یا قرآن کے لفظوں میں وہ ایمان والوں میں سے بہتر شخص (َوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ) یا دوسرے لفظ میں اولوالامر ہو۔
منصب امامت پر فائز شخص کو اس بات کا مامور بنایا گیا ہے کہ وہ درپیش کسی بھی اختلافی مسئلہ میں باہمی مشورہ سے فیصلہ کرے(وََمْرُہُمْ شُورَی) اس بات میں صریح ہے کہ لوگ کوئی فیصلہ لیتے وقت دوسروں کی آراء سے روشنی حاصل کریں۔یہ بات انسان کی اپنی ذاتی زندگی کے بھی تمام امور کیلئے ضروری اور نفع بخش ہے۔ا س کیلئے مناسب ہے کہ وہ دوسروں سے مشورہ کرے اور ان کی رائے کی روشنی میں فیصلہ کرے۔اگر ان کی رائے حقیقت امر کے موافق نہ ہو تو آخری فیصلہ اپنی صوابدید کے مطابق کرے اور مشورہ دینے والے کی رائے کا ماننا ضروری نہیں ہے۔مثلاً اگر آپ نے کسی سے مشورہ کیا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مشورہ دینے والے کا مشورہ آپ کیلئے واجب ہوگا بلکہ آخری فیصلہ کا حق و اختیار آپ کے ہاتھ میں ہے آپ جو چاہیں فیصلہ لیں۔
پس اﷲ تعالیٰ اپنے نبیۖ سے یوں مخاطب ہوتا ہے:
(وَشَاوِرْھُمْ فِی الامْرِ فِاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ)
اس آیت سے یہ صاف ظاہر ہے کہ آخری فیصلہ کا اختیار مشورہ دینے والے افراد کو نہیں دیا گیا ہے ان کی حیثیت شوریٰ کے ممبروں کی ہے اور ان کا کام یہ ہے کہ جب ان سے مشورہ طلب کیا جائے تو مشورہ دیں اور اپنی رائے کا اظہار کریں۔لہٰذا لوگوں سے مشورہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن فیصلہ کا اختیار اﷲ کو اور اس شخص کو ہوگا جسے اﷲ نے اس منصب کیلئے مقرر کر رکھا ہے۔اس مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے آیت شوریٰ اور آیت اختیار کے درمیان کسی طرح کا کوئی تعارض نظرنہیں آتا ہے۔
٧_آیہ تحکیم
اللہ نے فرمایا:
(فَلاَوَرَبِّکَ لاَیُؤْمِنُونَ حَتَّی یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَیَجِدُوا فِی َنفُسِہِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیمًا) (١)
'' اے پیغمبر قسم ہے تیرے پروردگار کی وہ مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے جھگڑوں کا فیصلہ تجھ سے نہ کرائیں ،پھر تیرے فیصلے سے ان کے دلوں میں کچھ
اداسی نہ ہو اور خوشی خوشی مان کر منظور کرلیں۔''
..............
(١) سورہ نسائ،آیت ٦٥۔
اس آیت نے واضح طور پر یہ بیان کر دیا کہ جب کبھی ایمان والوں کا کسی امر میں اختلاف ہو تو رسولۖکو حکم بنائیں۔ یہ بات عموم کے ساتھ ان کے درمیان تمام اختلافات کے لئے بیان کی گئی ہے لہٰذا اس حکم و فیصلہ کے امر کو صرف حکومت و قضاء کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا بلکہ لوگوں پر یہ بات واجب کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے ہر طرح کے اختلافی امور کا فیصلہ اللہ کے رسول سے کرائیں۔ یہ کسی خاص امر یا کسی زمانہ یا مسلمانوں کے کسی ایک جماعت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
نہ تو آیت ان لوگوں کے ساتھ خاص ہے جنہوں نے رسولۖکا زمانہ پایا اور انہیں دیکھا۔ بلکہ اللہ اور اس کے رسول سے فیصلہ کرانا اور ان کو حکم بنانا تمام مسلمانوں کیلئے زمانہ میں ایمان کی شرط کے طور پر بیان کیا گیا او ریہ حکم صرف زمانہ رسول کے مسلمانوں اور مومنین کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ ہر زمانے کے مسلمانوں کے لئے عام ہے اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد رسول ۖ سے فیصلہ کرانے کے امر کی تکمیل کیسے ہوگی؟ جبکہ یہ حکم علی الاطلاق نازل ہوا ہے اور تمام مسلمانوں کے لئے اس پر عمل کرنا واجب ہے اس کا جواب یہ ہے کہ فرض کیجئے کہ ہم نے رسول کا زمانہ تو پالیا مگر ہمارا قیام یمن کے اندر تھا جو کہ رسول کی سرزمین سے دور تھا تو ہم کس طرح اپنے اختلافی امور کا فیصلہ رسول سے کراتے۔ یہ بات طبعی طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ ہم اس شخص کے سامنے اپنے مسئلہ کو پیش کریں گے جس کو رسول کریم ۖ نے ہمارے لئے حاکم مقرر کیا ہے۔
اس زمانہ میں یمن میں مقیم مومنین کے درمیان جب بھی کسی مسئلہ میں اختلاف ہوتا تھا تو اللہ کے رسول سے فیصلہ کراتے تھے اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ اللہ کے رسول امیر المومنین یا معاذ بن جبل کو ان کے یہاں حاکم بنا کر بھیجتے تھے ،چنانچہ اہل یمن نے امیر المومنین یا معاذ بن جبل کے فیصلہ کو تسلیم کرکے یہ ثابت کردیا کہ انہوں نے اللہ کے رسولۖ سے فیصلہ کردیا ہے اور اس آیت پر عمل کیا، یہ مسئلہ تو مقام کی دوری کی صورت میں تھا، اسی طرح زمانی فاصلہ کی صورت میں بھی اس شخص سے فیصلہ کرانا واجب اور ضروری ہے جس کو اللہ کے رسول ۖ نے لوگوں کا امام مقرر کیا ہو اور لوگوں کے لئے مرجع بنایا ہو تاکہ لوگ آپۖ کی وفات کے بعد اس سے رجوع کریں جبکہ ہمارا زمانہ اور رسولۖ کے زمانہ میں کافی لمبا فاصلہ اور دوری ہے، چنانچہ ہمارے لئے یہ بات واجب کر دی گئی ہے کہ جب بھی ہمارا کسی معاملہ میں اختلاف ہو تو ہم رسول سے فیصلہ کرائیں اور اس فیصلہ کا تحقق اس طور پر ہوگا کہ ہم اس شخص کی طرف رجوع کریں جس سے رجوع کرنے کا رسولۖ نے ہمیں حکم دیا ہے اور جسے ہمارے لئے ولی مقرر کیا ہے۔ اور لوگوں کے درمیان اس کو منصب امامت سے سرفراز کیا ہے (ہمارا اس کی طرف رجوع کرنا اور اس سے فیصلہ کرانا رسولۖ کی طرف رجوع کرنے اور ان سے فیصلہ کرانے کا مصداق ہوگا)۔
|
|