صحیفہ امام مھدی علیہ السلام
 

خاتمہ کتاب یا ملحقات
بعض عبادات کہ جن کی طرف امام زمانہ کو زیادہ توجہ ہوتی تھی کتاب کے اختتام پر بعض عبادات کہ جن کی طرف امام زمانہ کو زیادہ توجہ تھی یا جن کے بجالانے کا حکم دیا ہے ان بعض عبادات کو ذکر کرتاہوں اس حصہ میں سید احمد رشتی موسوی کا واقعہ بیان کرتاہوں جس میں حضرت کی طرف سے احکام بیان کئے گئے ہیں۔
مرحوم محدث نوری لکھتے ہیں: سید رشتی کہتے ہیں: سال ۱۲۸۰ میں حج بیت الحرام کے لئے شہر رشت سے روانہ ہوا اور تبریز میں معروف تاجر حاج صغر علی تبریزی کا مہمان ہوا قافلہ روانہ ہوا تھا میں حیران تھا کہ کس طرح سفر کروں اس دوران حاج جبّار اصفہانی کا قافلہ طربوزن کی طرف روانہ ہوا میں نے تنہا اس سے ایک گھوڑا کرایہ پر لیا اور چل پڑا تین اور آدمی حاج صغر علی کی تشویق سے میرے ساتھ ملحق ہوئے ان کے نام یہ ہیں حاج ملا باقر تبریزی حاج سید حسین تاجر تبریزی حاج علی ہم اکٹھے ساتھی ہوگئے اور روانہ ہوئے یہاں تک کہ ارضروم پہنچے وہاں سے طربوزون کا عزم کیا ان دو شہروں کے درمیان کاروان میں سے ایک حاج جبّار میرے پاس آئے اور کہا ہم سے پہلے جو قافلہ ہے وہ ڈرپوک ہے کچھ جلدی کرو تا کہ قافلہ کے ہمراہ ہوجاؤ معمولاً کچھ فاصلہ کے بعد قافلہ روانہ ہوا۔ ہم تقریباً اڑھائی گھنٹے یا تین گھنٹے اذان صبح سے پہلے روانہ ہوئے ابھی آدھا یا تین فرسخ راستہ طے نہیں کیا تھا کہ آسمان ابر آلود ہوا بادل نے سورج کو گھیر لیا تھا اور موسم تاریک ہوگیا اور برف باری شروع ہوئی اتنی تیز برف باری ہوئی کہ ہم میں سے ہر ایک نے سروں کو ڈھانپا اور جلدی سے روانہ ہوئے میں نے بہت کوشش کی کہ میں اپنے آپ کو ان تک پہنچاؤں نہیں پہنچ سکا وہ دور ہوگئے اور چلے گئے اور میں تنہا رہ گیا گھوڑے سے پیادہ ہوا اور راستے کے کنارے بیٹھا میں بہت زیادہ مضطرب تھا چونکہ سفر کا خرچ تقریباً چھ سو تومان میرے ساتھ تھا تھوڑی دیر غور و فکر کیا اور مصمم ارادہ کرلیا یہی پر رہوں گا یہاں تک روشنی ہوجائے پہلے قافلہ کی طرف واپس لوٹوں گا اور وہاں سے چند محافظ اپنے ہمراہ لے جاؤں گا اور ان کے ذریعہ قافلہ سے ملحق ہوجاؤں گا اس حالت میں تھا کہ اچانک میرے سامنے ایک باغ نظر آیا ایک مالی اس میں تھا اور ایک بیلچہ ہاتھ میں تھا اور درختوں کو مارتا تھا اور اس سے برف گرا دیتا تھا میرے پاس آیا کچھ فاصلے پر کھڑا ہوا اور فرمایا تو کون ہے میں نے عرض کیا میرے ساتھی چلے گئے ہیں میں اکیلا رہ گیا ہوں راستہ نہیں جانتاہوں فارسی زبان میں فرمایا نافلہ پڑھو تا کہ راستہ کا پتہ چل جائے میں نماز شب پڑھنے میں مشغول ہوا نماز تمام کی دوبارہ تشریف لائے اور فرمایا کیوں نہیں گئے میں نے کہا خدا گواہ ہے راستہ نہیں جانتا ہوں فرمایا جامعہ پڑھو مجھے زیارت جامعہ زبانی یاد نہیں میں نے کہا اب بھی مجھے جامعہ زبانی یاد نہیں ہے۔
ھالانکہ کئی دفعہ زیارات سے مشرف ہوا ہوں اس ھالت میں اٹھا اور زیارت جامعہ کو بطور کامل زبانی پرھا اس کے بعد وہ آقا ظاہر ہوئے اور فرمایا ابھی تک نہیں گئے ہیں بے اختیار رو پڑا اور کہا ابھی تک یہیں پر ہوں راستہ نہیں جانتا ہوں۔ فرمایا عاشورا پڑھ لو مجھے زیارت عاشورا زبانی یاد نہیں تھی میں نے کہا اب تک مجھے زبانی یاد نہیں ہے میں اٹھا اور زبانی زیارت عاشورا پڑھنا شروع کیا زیارت کو لعن اور سلام سمیت اور دعا علقمہ بھی پڑھی اس کے بعد وہ آقا آیا اور فرمایا ابھی تک نہیں گئے ہو۔ یہیں پر ہو میں نے عرض کیا نہیں ابھی تک نہیں گیا صبح تک یہیں پر ہوں فرمایا اب میں تم کو قافلہ کے ہمارہ پہنچادیتاہوں اس کے بعد وہ چلے گئے اور ایک گھوڑے پر سوار ہوئے اور بیلچہ کو کندھے پر لیا اور آئے فرمایا میرے پیچھے گھوڑے پر سوار ہوجاؤ میں سوار ہوا میں نے گھوڑے کے لگام کو کھینچا لیکن گھوڑے نے حرکت نہیں کی فرمایا گھوڑے کی لگام مجھے دے دو میں نے لگام اس کو دے دی اپنے بیلچہ کو بائیں شانہ پر رکھا اور گھوڑے کی لگام کو دائیں ہاتھ میں رکھا اور چل پڑے اور گھوڑے نے ان کی اطاعت کی اور چل پڑا اس کے بعد دائیں ہاتھ کو میرے زانو پر رکھا اور فرمایا نافلہ کیوں نہیں پڑھتے ہو نافلہ نافلہ نافلہ تین دفعہ اس کو تکرار کیا پھر فرمایا تم زیارت عاشورا کیوں نہیں پڑھتے ہو عاشورا عاشورا عاشورا تین مرتبہ تکرار فرمایا اس کے بعد فرمایا جامعہ کیوں نہٰں پڑھتے ہو جامعہ جامعہ جامعہ یہ راستے طے کرتے ہوئے دائروار حرکت کرتے تھے اچانک میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تمہارے ساتھی چشمہ کے کنارے پانی کے پاس آئے ہیں صبح کی نماز کے لئے وضوع میں مشغول ہیں میں گھوڑے سے نیچے اتر آیا میں نے چاہا کہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوجاؤں لیکن سوار نہیں ہوسکا وہ بزرگوار پیادہ ہوا اور بیلچہ کو برف میں دبادیا اور مجھے سوار کیا اور گھوڑے کے سر کا ساتھیوں کی طرف منہ کردیا اس حالت میں میں اس فکر میں رہا کہ میرا آقا فارسی بولتاہے حالانکہ اس علاقہ میں تمام ترک اور عیسائی رہتے ہیں ترکی بولتے ہیں اور پھر کس طرح اتنی جلدی سے اپنے ساتھیوں تک پہنچایا میں نے پیچھے دیکھا کسی کو نہیں دیکھا اس کا کوئی اثر بھی نہیں دکھائی دیا پس اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملا۔

نماز شب:
مرحوم محدث نوری لکھتے ہیں کہ نماز شب کے فضائل اور فوائد حد سے زیادہ ہیں چونکہ قرآن مجید اور روایت میں اس کے رموز اور اسرار وارد ہیں اس لئے چند خبر میں تین مرتبہ اس کے بجالانے کی تاکید ہوئی ہے شیخ کلینی اور مرحوم صدوق اور شیخ برقی نے ایک روایت کو حضرت امام صادق سے نقل کیا ہے کہ فرمایا رسول خدا نے امیرالموٴمنین کو ہدایت کی اور فرمایا اس کو انجام دے اور دعا کی کہ خداوند تعالیٰ حضرت کو اس کے انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ان سفارشات میں سے ایک یہ تھی کہ حضرت نے فرمایا کہ تمہارے اوپر لازم ہے نماز شب پڑھنا تمہارے اوپر نماز شب ضروری ہے تمہارے اوپر نماز شب ضروری ہے۔ اس حدیث کا مضمون کتاب فقہ الرضا میں بھی ذکر ہوا ہے۔

زیارت جامعہ:
اس زیارت کے بارے میں بہت سے دانشمندوں نے تصریح کی ہے یہ بہترین اور کامل ترین زیارت ہے علامہ مجلسی نے کتاب مزار میں (بحارالانوار) زیارت کے بعض فقرات کی دوسروں سے زیادہ تشریح کی ہے اور اس کے بارے میں فرمایا کہ اس زیارت کی شرح میں کچھ بات کو زیادہ تفصیل دی ہے چونکہ یہ زیارت سب سے زیادہ صحیح سند کے اعتبار سے اور سب سے زیادہ عام مقام کے اعتبار سے اور سب سے زیادہ فصیح لفظ کے اعتبار سے اور سب سے زیادہ بلیغ معنی کے اعتبار سے اور سب سے بلند شان اور مقام کے اعتبار سے ہے۔

زیارت عاشورا:
زیارت عاشورا کی فضیلت کے لئے اتنا کافی ہے کہ یہ کوئی معمولی زیارت نہیں ہے کیوں کہ اس کی املاء اور انشأ معصومین میں سے کسی ایک کی طرف سے ہے اگر چہ جو کچھ ان کے پاک دلوں سے نکلتاہے وہ عالم بالا سے ہے بلکہ یہ زیارت احادیث قدسی سے ہے اس موجودہ ترتیب کے ساتھ زیارت لعن سلام دعا خالق کی طرف سے جبرائیل امین کو اور وہ خاتم النبیین سے ہم تک پہنچی ہے اس زیارت کو پرھنا اور چالیس روز تک اس کو جاری رکھنا یا اس سے کمتر اس کی حاجت روائی اور اپنی آواز کو پہنچنا اور دشمن کے شر کو برطرف کرنے میں بے نظیر ہے اور یہ تجربہ سے ثابت ہوا ہے بہترین نتیجہ اس کو پابندی سے بجا لانے سے ثابت ہوتاہے یہ وہ فائدہ ہے جس کا کوئی کتاب دارالسلام میں ذکر کیا ہے اس کو بطور خلاصہ نقل کرتاہوں نجف اشرف کے بہترین مجاروں میں سے جس کا نام حاج ملا حسن یزدی یہ بہترین پرہیزگار ہمیشہ عبادت اور زیارت میں مشغول رہتا تھا حاج محمد علی یزدی جو ایک موثق اور امین شخص یزد میں تھا اور ہمیشہ آخرت کی اصلاح کے بارے میں متفکر تھا اس نے نقل کیا ہے رات کے وقت یزد سے باہر کچھ نیک لوگوں کی قبریں ہیں کہ جو مزار کے نام سے معروف ہے میں رات کو وہاں پر گزارتا تھا میرا ایک ہمسایہ تھا ہم بچپن سے اکٹھے بڑے ہوئے تھے اکٹھے درس پڑھتے تھے وہ بڑا ہوا وہ مالیات لینے میں مشغول ہوا ایک مدت زندگی کی اس کے بعد اس دنیا سے چلا گیا اور اس کو اسی مقبرہ میں سپرد خاک کیا گیا ابھی ایک ماہ نہیں گزرا تھا اس کو اچھی حالت میں خواب میں دیکھا اس کے پاس جا کر کہا میں اول سے آخر تک اور تیرے ظاہر اور باطن کو جانتاہوں تم ان لوگوں میں سے نہیں تھے کہ باطن میں اچھائی کا احتمال دیا جائے تا کہ برے کاموں کو اچھائی پر حمل کریں تقیہ یا ضرورت یا مظلوم کی مدد پر حمل کیا جائے اور جس کام کو تم نے انتخاب کیا تھا ایسا کام تھا کہ جو عذاب کی طرف کھینچنے والا تھا یہ بتاؤ کہ تم کس کام کی وجہ سے اس مقام پر پہنچا کہا تم نے سچ کہا کہ جس دن اس دنیا سے چلا گیا تھا اور مجھے خاک میں سپرد کیا کل تک سخت ترین عذاب میں تھا کل استاد اشرف لوہار کی بیوی فوت ہوئی اس کو اس مکان پر دفن کیا اس نے اشارہ کیا ایک ایسی جگہ کی طرف کہ جو اس سے ایک میٹر قریب تھا اس کے دفن کی رات حضرت امام حسن نے تین مرتبہ ان کو دیکھنے کے لیئے آئے تیسری مرتبہ حکم دیا کہ اس قبرستان سے عذاب کو اٹھادیا جائے اب ہماری حالت اچھی ہے اور ہم نعمت اور وسعت میں قرار پائے۔
خواب سے بیدار ہوا اور میں حیران تھا چونکہ میں نے لوہا رکو جانتا تھا نہ اس کے محلہ کو جانتا تھا میں لوہار کے بازار میں گیا اور اس کی جستجو کی اس کو تلاش کیا میں نے پوچھا کیا تمہاری بیوی تھی کہا ہاں کل میرے بیوی فوت ہوئی ہے اور اس کو فلاں جگہ پر دفن کیاہے میں نے کہا کیا وہ عورت حضرت امام حسین کی زیارت کے لئے گئی تھی کہا کہ نہیں میں نے کہا کیا وہ حضرت امام حسین کے مصائب بیان کرتی تھی کہنے لگا نہیں میں نے کہا کیا وہ مجلس عزا کو تشکیل دیتی تھی کہنے لگا نہیں لوہار نے پوچھا آپ کیا چاہتے ہیں اس پوچھنے کا مقصد کیا ہے میں نے اس کو اپنا خواب بتادیا کہا وہ عورت زیارت عاشورا پڑھتی تھی اور ہمشیہ پڑھتی تھی سید احمد رشتی کہ گذشتہ واقعہ کو اس سے نقل کیا وہ خود بھی پرہیزگار لوگوں میں شمار ہوتا تھا وہ اطاعت، عبادات زیارات حقوق کے ادا کرنے بدن اور لباس کو پاک اور شبھات کے آلودگی سے پاک رکھنے کا پابند تھا۔ شہر کے لوگوں کے درمیان پرہیزگاری اور سچ بولنے میں مشہور تھا اور زیارات میں بہت سے الطاف اس کو شامل ہوتا تھا یہاں پر اس کے ذکر کرنے کا مقام نہیں ہے۔

نماز شب
اب نماز شب کی کیفیت بیان کرکے اس کے بعد زیارت عاشورا کو نقل کرتاہوں۔
نماز شب:
اس کا اول وقت آدھی رات سے شروع ہوتاہے اور طلوع فجر سے جتنا زیادہ نزدیک ہوجائے اتناہی اس کی فضیلت بہت زیادہ ہے اگر چار رکعت نمازپڑھ لے اور صبح ہوجائے تو باقی نمازوں کو سورہ کے بغیر صرف حمد کے ساتھ اداء کے مقصد سے پڑھ سکتاہے۔
اول آٹھ رکعت نماز نماز شب کی نیت سے دو دو رکعت کر کے پڑھے اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے بہتر ہے کہ پہلی دو رکعت میں سورہ حمد کے بعد ساٹھ مرتبہ سورہ توحید پڑھے اور ہر رکعت میں تیس مرتبہ پڑھی جائے گی اگر اس طریقے پر نماز پڑھے پس نماز تمام کرنے کے بعد اس کے درمیان اور خدا کے درمیان کوئی گناہ باقی نہیں رہتاہے۔
یا یہ کہ پہلی رکعت میں سورہ توحید اور دوسری رکعت میں قل یا ایھا الکافرون پڑھ لے اور باقی چھ رکعتوں میں سورہ حمد اور جو سورہ پڑھنا چاہے پڑھ سکتاہے اگر ہر رکعت میں سورہ حمد اور قل ھو اللہ احد پڑھ لے تو بھی کافی ہے نماز شب کو صرف ایک سورہ حمد کے ساتھ بھی پڑھ سکتاہے جس طرح قنوت واجب نمازوں میں مستحب ہے اس نماز شب میں بھی قنوت مستحب ہے اگر تین مرتبہ سبحان اللہ کہے تو بھی کافی ہے یا یہ کہ وہ کہے اللھم اغفرلنا و ارحمنا و عافنا واعف عنا فی الدنیا و الاخرة انک علی کل شی قدیر یا یوں کہے ربّ اغفر و ارحم وتجاوز عما تعلم انّک انت الاعزّ الاجّل الاکرم اور روایت ہوئی ہے کہ حضرت امام موسیٰ بن جعفر رات کے وقت محراب عبادت میں کھڑے ہوجاتے تھے اور یہ دعا پڑھتے تھے اللھم انک خلقتی سویا اور یہ صحیفہ کاملہ کی بچاسویں دعا ہے جب آتھ رکعت شب نماز کو تمام کرلے تو دو رکعت نماز شفع کی نیت سے اور ایک رکعت نماز وتر کی نیت سے بجالائے اور ان تین رکعت میں سورہ حمد کے بعد قل ھو اللہ احد کو پڑھ لے یہ ختم قرآن کی طرح ہے چونکہ سورہ توحید قرآن کا تیسرا حصہ ہے تیسرے قرآن پڑھنے کا ثواب ہے یا نماز شفع میں پہلی رکعت میں سورہ حمد اور قل اعوذ بربّ الناس اور دوسری رکعت میں سورہ حمد کے بعد قل اعذ برب الفلق پڑھے نماز شفع میں قنوت وارد نہیں ہوا ہے اور اس کو رجاء کے قصد سے پڑھ سکتاہے۔ پس نماز شفع کے بعد کھڑا ہوجائے اور ایک رکعت نماز وتر کو سورہ حمد اور سورہ توحید کے ساتھ پڑھے یا یہ کہ سورہ حمد کے بعد تین مرتبہ قل ھو اللہ احد اور معوذتین یعنی قل اعوذ برب الفلق اور قل اعذ برب الناس کو پڑھے اور قنوت کے لئے ہاتھوں کو بلند کرے اور جس چیز کے لیئے چاہیے دعا مانگے۔
شیخ طوسی کہتاہے جو دعائیں اس نماز کے قنوت میں پڑھی جاتی ہیں بہت زیادہ ہیں اگر چہ ہر دعا کے لئے وقت معین ہے لیکن غیر وقت میں بھی پڑھی جاتی ہیں۔
مستحب ہے کہ انسان اس نماز کے قنوت میں خدا کے خوف اور عذاب کے ڈر سے گریہ کرے یا رونے کی شکل بنائے اور اپنے موٴمن بھائیوں کے لئے دعا مانگے۔ اور مستحب ہے کہ چالیس موٴمنین کا نام لے اور ان کے لئے دعا مانگے جو بھی چالیں موٴمنین کے لئے دعا مانگے اس کی دعا قبول ہوتی ہے انشاء اللہ شیخ صدوق کتاب من لا یحفرہ الفقیہ میں کہتے ہیں کہ حضرت رسول نے نماز وتر کے قنوت میں اس دعا کو پڑھتے تھے:
اللھم اھدنی فمن ھدیت و عافنی فمن عافیت و تولّنی فیمن تولّیت و بارک لی فیما اعطیت وقنی شرّما قضیت فانّک تقضی ولا یقضی علیک سبحانک رب البیت استغفرک واتوب الیک و اؤ من بک واتوکل بک واتوکل علیک ولا حول ولا قوة الا بک یا رحیم بہتر ہے کہ قنوت میں ستر مرتبہ کہے استغفر اللہ (ربّی) و اتوب الیہ اور سزاوار ہے کہ اپنا بایاں ہاتھ کو دعا کے لئے بلند کرے اور دائیں ہاتھ کے ساتھ استغفار کو شمار کرے جو نماز شب کو اذان صبح سے پہلے پڑھ لے اس کو چاہییے کہ باقی نمازوں کو نماز صبح کے بعد اداء کی نیت سے پڑھ لے جو شخص آدھی رات کے بعد نماز شب نہیں پڑھ سکتاہے وہ شخص آدھی رات سے پہلے بھی پڑھ سکتاہے۔

زیارت عاشورا
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ٲَبا عَبْدِاﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ
آپ پر سلام ہو اے ابا عبدا(ع)للہ آپ پر سلام ہو اے رسول خدا (ص)کے فرزند سلام ہوآپ پر اے امیر المومنین
ٲَمِیرِالْمُوَْمِنِینَ وَابْنَ سَیِّدِ الْوَصِیِّینَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ فاطِمَۃَ سَیِّدَۃِ نِسائِ الْعالَمِینَ
(ع)کے فرزند اور اوصیائ کے سردار کے فرزند سلام ہوآپ پر اے فرزند فاطمہ (ع)جو جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاثارَ اﷲِ وَابْنَ ثارِہِ وَالْوِتْرَ الْمَوْتُورَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَعَلَی الْاََرْواحِ
آپ پر سلام ہو اے قربان خدا اور قربان خدا کے فرزنداور وہ خون جس کا بدلہ لیا جانا ہے آپ پر سلام ہواور ان روحوں پر
الَّتِی حَلَّتْ بِفِنائِکَ عَلَیْکُمْ مِنِّی جَمِیعاً سَلامُ اﷲِ ٲَبَداً مَا بَقِیتُ وَبَقِیَ اللَّیْلُ وَالنَّھارُ
جو آپ کے آستانوں میں اتری ہیں آپ سب پرمیری طرف سے خدا کا سلام ہمیشہ جب تک میں باقی ہوں اور رات دن باقی ہیں
یَا ٲَبا عَبْدِاﷲِ، لَقَدْ عَظُمَتِ الرَّزِیَّۃُ وَجَلَّتْ وَعَظُمَتِ الْمُصِیبَۃُ بِکَ عَلَیْنا وَعَلَی جَمِیعِ
اے ابا عبداﷲ(ع) آپ کا سوگ بہت بھاری اور بہت بڑا ہے اور آپ کی مصیبت بہت بڑی ہے ہمارے لیے اور تمام اہل اسلام
ٲَھْلِ الْاِسْلامِ وَجَلَّتْ وَعَظُمَتْ مُصِیبَتُکَ فِی السَّمٰوَاتِ عَلَی جَمِیعِ ٲَھْلِ السَّمٰوَاتِ
کے لیے اور بہت بڑی اور بھاری ہے آپ کی مصیبت آسمانوں میں تمام آسمان والوں کے لیے
فَلَعَنَ اﷲُ ٲُمَّۃً ٲَسَّسَتْ ٲَسَاسَ الظُّلْمِ وَالْجَوْرِ عَلَیْکُمْ ٲَھْلَ الْبَیْتِ، وَلَعَنَ اﷲُ ٲُمَّۃً
پس خدا کی لعنت ہو اس گروہ پرجس نے آپ پر ظلم و ستم کرنے کی بنیاد ڈالی اے اہلبیت اور خدا کی لعنت ہو اس گروہ پر
دَفَعَتْکُمْ عَنْ مَقامِکُمْ وَٲَزالَتْکُمْ عَنْ مَراتِبِکُمُ الَّتِی رَتَّبَکُمُ اﷲُ فِیھا، وَلَعَنَ اﷲُ ٲُمَّۃً
جس نے آپکو آپکے مقام سے ہٹایا اور آپ کو اس مرتبے سے گرایا جو خدا نے آپ کو دیا خدا کی لعنت ہو اس گروہ پر جس نے آپ کو
قَتَلَتْکُمْ وَلَعَنَ اﷲُ الْمُمَھِّدِینَ لَھُمْ بِالتَّمْکِینِ مِنْ قِتالِکُمْ بَرِیْتُ إلَی اﷲِ وَ إلَیْکُمْ مِنْھُمْ
قتل کیا اور خدا کی لعنت ہو ان پر جنہوں نے انکو آپکے ساتھ جنگ کرنے کی قوت فراہم کی میں بری ہوں خدا کیسامنے اور آپکے سامنے ان
وَٲَشْیاعِھِمْ وَٲَتْباعِھِمْ وَٲَوْلِیائِھِمْ، یَا ٲَبا عَبْدِاﷲِ، إنِّی سِلْمٌ لِمَنْ سالَمَکُمْ، وَحَرْبٌ
سے انکے مددگاروں انکے پیروکاروں اور انکے ساتھیوں سے اے ابا عبداللہ میری صلح ہے آپ سے صلح کرنے والے سے اور میری جنگ ہے
لِمَنْ حارَبَکُمْ إلی یَوْمِ الْقِیامَۃِ، وَلَعَنَ اﷲُ آلَ زِیادٍ وَآلَ مَرْوانَ، وَلَعَنَ اﷲُ بَنِی
آپ سے جنگ کرنے والے سے روز قیامت تک اور خدا لعنت کرے اولاد زیاداور اولاد مروان پر خدا اظہار بیزاری کرے تمام بنی امیہ سے
ٲُمَیَّۃَ قاطِبَۃً، وَلَعَنَ اﷲُ ابْنَ مَرْجانَۃَ، وَلَعَنَ اﷲُ عُمَرَ بْنَ سَعْدٍ، وَلَعَنَ اﷲُ شِمْراً،
خدا لعنت کرے ابن مرجانہ پر خدا لعنت کرے عمر بن سعد پر خدا لعنت کرے شمر پر
وَلَعَنَ اﷲُ ٲُمَّۃً ٲَسْرَجَتْ وَٲَلْجَمَتْ وَتَنَقَّبَتْ لِقِتالِکَ، بِٲَبِی ٲَنْتَ وَٲُمِّی،
اور خدا لعنت کرے جنہوں نے زین کسا لگام دی گھوڑوں کو اور لوگوں کو آپ سے لڑنے کیلئے ابھارا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں
لَقَدْ عَظُمَ مُصابِی بِکَ، فَٲَسْٲَلُ اﷲَ الَّذِی ٲَکْرَمَ مَقامَکَ، وَٲَکْرَمَنِی بِکَ، ٲَنْ یَرْزُقَنِی
یقینا آپکی خاطر میرا غم بڑھ گیا ہے پس سوال کرتا ہوں خدا سے جس نے آپکو شان عطا کی اور آپکے ذریعے مجھے عزت دی یہ کہ وہ
طَلَبَ ثارِکَ مَعَ إمامٍ مَنْصُورٍ مِنْ ٲَھْلِ بَیْتِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہِ۔ اَللّٰھُمَّ
مجھے آپ کے خون کا بدلہ لینے کا موقع دے ان امام منصور (ع)کے ساتھ جو اہل بیت محمد(ص) میں سے ہوں گے اے معبود!
اجْعَلْنِی عِنْدَکَ وَجِیھاً بِالْحُسَیْنِ فِی الدُّنْیا وَالآخِرَۃِ یَا ٲَبا عَبْدِاﷲِ إنِّی ٲَتَقَرَّبُ إلَی
مجھ کو اپنے ہاں آبرومند بنا حسین - کے واسطے سے دنیا و آخرت میں اے ابا عبداللہ بے شک میں قرب چاہتا ہوں
اﷲِ، وَ إلی رَسُولِہِ، وَ إلی ٲَمِیرِ الْمُوَْمِنِینَ، وَ إلی فاطِمَۃَ، وَ إلَی الْحَسَنِ، وَ إلَیْکَ
خدا کا اس کے رسول(ص) کا امیر المومنین(ع) کا فاطمۃ زہرا (ع)کا حسن مجتبیٰ (ع) کا اور آپ کا قرب آپکی حبداری
بِمُوَالاتِکَ وَبِالْبَرائَۃِ مِمَّنْ قَاتَلَکَ وَنَصَبَ لَکَ الْحَرْبَ وَبِالْبَرائَۃِ مِمَّنْ ٲَسَّسَ ٲَسَاسَ
سے اور اس سے بیزاری کے ذریعے جس نے آپکو قتل کیا اور آتش جنگ بھڑکائی اور اس سے بیزاری کے ذریعے جس نے تم پر ظلم وستم
الْظُلْمِ وَالْجَوْرِ عَلَیْکُمْ وَٲَبْرَٲُ إلَی اﷲِ وَ إلی رَسُولِہِ مِمَّنْ ٲَسَّسَ ٲَساسَ ذلِکَ وَبَنی
کی بنیاد رکھی اور میں بری الذمہ ہوں اﷲ اور اس کے رسول کے سامنے اس سے جس نے ایسی بنیاد قائم کی اور اس پر عمارت اٹھائی
عَلَیْہِ بُنْیانَہُ، وَجَریٰ فِی ظُلْمِہِ وَجَوْرِہِ عَلَیْکُمْ وَعَلَی ٲَشْیاعِکُمْ، بَرِیْتُ إلَی اﷲِ
اور پھر ظلم و ستم کرنا شروع کیا اور آپ پر اور آپ کے پیروکاروں پر میں بیزاری ظاہر کرتا ہوں خدا
وَ إلَیْکُمْ مِنْھُمْ، وَٲَتَقَرَّبُ إلَی اﷲِ ثُمَّ إلَیْکُمْ بِمُوالاتِکُمْ وَمُوالاۃِ وَلِیِّکُمْ، وَبِالْبَرائَۃِ
اور آپ کے سامنے ان ظالموں سے اور قرب چاہتا ہوں خدا کا پھر آپ کا آپ سے محبت کی وجہ سے اور آپ کے ولیوں سے محبت
مِنْ ٲَعْدائِکُمْ، وَالنَّاصِبِینَ لَکُمُ الْحَرْبَ، وَبِالْبَرائَۃِ مِنْ ٲَشْیَاعِھِمْ وَٲَتْبَاعِھِمْ، إنِّی
کے ذریعے آپکے دشمنوں اور آپکے خلاف جنگ برپا کرنے والوں سے بیزاری کے ذریعے اور انکے طرف داروں اورپیروکاروں سے بیزاری کے ذریعے
سِلْمٌ لِمَنْ سالَمَکُمْ، وَحَرْبٌ لِمَنْ حارَبَکُمْ، وَوَلِیٌّ لِمَنْ والاکُمْ،
میری صلح ہے آپ سے صلح کرنے والے سے اور میری جنگ ہے آپ سے جنگ کرنے والے سے میں آپکے دوست کا دوست اور
وَعَدُوٌّ لِمَنْ عاداکُمْ، فَٲَسْٲَلُ اﷲَ الَّذِی ٲَکْرَمَنِی بِمَعْرِفَتِکُمْ، وَمَعْرِفَۃِ ٲَوْلِیَائِکُمْ،
آپکے دشمن کا دشمن ہوں پس سوال کرتاہوںخدا سے جس نے عزت دی مجھے آپ کی پہچان اور آپکے ولیوں کی پہچان کے ذریعے
وَرَزَقَنِی الْبَرائَۃَ مِنْ ٲَعْدائِکُمْ، ٲَنْ یَجْعَلَنِی مَعَکُمْ فِی الدُّنْیا وَالْاَخِرَۃِ، وَٲَنْ یُثَبِّتَ
اور مجھے آپ کے دشمنوں سے بیزاری کی توفیق دی یہ کہ مجھے آپ کے ساتھ رکھے دنیا اور آخرت میں اور یہ کہ مجھے آپ کے
لِی عِنْدَکُمْ قَدَمَ صِدْقٍ فِی الدُّنْیا وَالْاَخِرَۃِ، وَٲَسْٲَلُہُ ٲَنْ یُبَلِّغَنِی الْمَقامَ الْمَحْمُودَ
حضور سچائی کے ساتھ ثابت قدم رکھے دنیا اور آخرت میں اور اس سے سوال کرتا ہے کہ مجھے بھی خدا کے ہاں آپ کے پسندیدہ مقام
لَکُمْ عِنْدَ اﷲِ، وَٲَنْ یَرْزُقَنِی طَلَبَ ثارِی مَعَ إمامِ ھُدیً ظَاھِرٍ نَاطِقٍ بِالْحَقِّ
پر پہنچائے نیز مجھے نصیب کرے آپکے خون کا بدلہ لینا اس امام کیساتھ جو ہدایت دینے والا مدد گار رہبرحق بات زبان پر لانے والا ہے
مِنْکُمْ، وَٲَسْٲَلُ اﷲَ بِحَقِّکُمْ وَبِالشَّٲْنِ الَّذِی لَکُمْ عِنْدَہُ ٲَنْ یُعْطِیَنِی بِمُصابِی
تم میں سے اور سوال کرتا ہوں خدا سے آپکے حق کے واسطے اور آپکی شان کے واسطے جوآپ اسکے ہاں رکھتے ہیں یہ کہ وہ مجھ کو عطا
بِکُمْ ٲَفْضَلَ مَا یُعْطِی مُصاباً بِمُصِیبَتِہِ، مُصِیبَۃً مَا ٲَعْظَمَھا وَٲَعْظَمَ
کرے آپکی سوگواری پر ایسا بہترین اجر جو اس نے آپکے کسی سوگوار کو دیاہواس مصیبت پر کہ جو بہت بڑی مصیبت ہے اور اسکا رنج و
رَزِیَّتَھا فِی الْاِسْلامِ وَفِی جَمِیعِ السَّمٰوَاتِ وَالْاََرْضِ۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِی فِی مَقَامِی
غم بہت زیادہ ہے اسلام میں اور تمام آسمانوں میں اور زمین میں اے معبود قرار دے مجھے اس جگہ پر
ھذَا مِمَّنْ تَنالُہُ مِنْکَ صَلَواتٌ وَرَحْمَۃٌ وَمَغْفِرَۃٌ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ مَحْیایَ مَحْیا مُحَمَّدٍ وَآلِ
ان فراد میں سے جن کو نصیب ہوں تیرے درود تیری رحمت اور بخشش اے معبود قرار دے میرا جینا محمد(ص) و آل
مُحَمَّدٍ وَمَماتِی مَماتَ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ اَللّٰھُمَّ إنَّ ھذَا یَوْمٌ تَبَرَّکَتْ بِہِ بَنُو ٲُمَیَّۃَ
محمد(ص) کا سا جینا اور میری موت کو محمد (ص)و آل محمد(ص) کی موت کی مانند بنا اے معبود بے شک یہ وہ دن ہے کہ جس کو نبی امیہ اور کلیجے کھانے والی
وَابْنُ آکِلَۃِ الْاََکْبادِ، اللَّعِینُ ابْنُ اللَّعِینِ عَلَی لِسانِکَ وَلِسانِ نَبِیِّکَ فِی کُلِّ مَوْطِنٍ
کے بیٹے نے بابرکت جانتا جو ملعون ابن ملعون ہے تیری زبان پراور تیرے نبی اکرم(ص) کی زبان پر ہر شہر میں جہاں رہے
وَمَوْقِفٍ وَقَفَ فِیہِ نَبِیُّکَ ۔ اَللّٰھُمَّ الْعَنْ ٲَبا سُفْیانَ وَمُعَاوِیَۃَ وَیَزِیدَ بْنَ مُعَاوِیَۃَ عَلَیْھِمْ
اور ہر جگہ کہ جہاں تیرانبی اکرم(ص) ٹھہرے اے معبود اظہار بیزاری کر ابو سفیان اور معاویہ اور یزید بن معاویہ سے کہ ان سے اظہار بیزاری ہو
مِنْکَ اللَّعْنَۃُ ٲَبَدَ الْاَبِدِینَ، وَھذَا یَوْمٌ فَرِحَتْ بِہِ آلُ زِیادٍ وَآلُ مَرْوانَ بِقَتْلِھِمُ الْحُسَیْنَ
تیری طرف سے ہمیشہ ہمیشہ اور یہ وہ دن ہے جس میں خوش ہوئی اولاد زیاد اور اولاد مروان کہ انہوں نے قتل کیا حسین
صَلَواتُ اﷲِ عَلَیْہِ، اَللّٰھُمَّ فَضاعِفْ عَلَیْھِمُ اللَّعْنَ مِنْکَ وَالْعَذابَ الْاََلِیمَ۔ اَللّٰھُمَّ إنِّی
صلوات اﷲ علیہ کو اے معبود پس توزیادہ کر دے ان پر اپنی طرف سے لعنت اور عذاب کو اے معبود بے شک
ٲَتَقَرَّبُ إلَیْکَ فِی ھذَا الْیَوْمِ وَفِی مَوْقِفِی ھذَا، وَٲَیَّامِ حَیَاتِی بِالْبَرَائَۃِ مِنْھُمْ،
میں تیرا قرب چاہتا ہوں کہ آج کے دن میں اس جگہ پر جہاں کھڑا ہوں اور اپنی زندگی کے دنوں میں ان سے بیزاری کرنے کے ذریعے
وَاللَّعْنَۃِ عَلَیْھِمْ، وَبِالْمُوَالاۃِ لِنَبِیِّکَ وَآلِ نَبِیِّکَ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمُ اَلسَّلَامُ۔ پھر سو مرتبہ کہے:
اور ان پر نفرین بھیجنے کے ذریعے اور بوسیلہ اس دوستی کے جو مجھے تیرے نبی(ص) کی آل (ع)سے ہے سلام ہو تیرے نبی (ص)اور ان کی آل (ع)پر
اَللّٰھُمَّ الْعَنْ ٲَوَّلَ ظَالِمٍ ظَلَمَ حَقَّ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَآخِرَ تَابِعٍ لَہُ عَلَی ذلِکَ۔
اے معبود محروم کر اپنی رحمت سے اس پہلے ظالم کو جس نے ضائع کیا محمد (ص)و آل محمد (ص)کا حق اوراسکو بھی جس نے آخر میں اس کی پیروی کی
اَللّٰھُمَّ الْعَنِ الْعِصَابَۃَ الَّتِی جاھَدَتِ الْحُسَیْنَ وَشایَعَتْ وَبایَعَتْ وَتابَعَتْ عَلَی قَتْلِہِ
اے معبود لعنت کر اس جماعت پر جنہوں نے جنگ کی حسین (ع) سے نیز ان پربھی جو قتل حسین (ع) میں ان کے شریک اور ہم رائے تھے
اَللّٰھُمَّ الْعَنْھُمْ جَمِیعاً اب سو مرتبہ کہے: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ٲَبا عَبْدِاﷲِ وَعَلَی الْاََرْواحِ الَّتِی
اے معبود ان سب پر لعنت بھیج سلام ہو آپ پراے ابا عبد اللہ اور سلام ان روحوں پر جو آپ کے
حَلَّتْ بِفِنائِکَ، عَلَیْکَ مِنِّی سَلامُ اﷲِ ٲَبَداً مَا بَقِیتُ وَبَقِیَ اللَّیْلُ وَالنَّھارُ، وَلاَ جَعَلَہُ
روضے پر آتی ہیں آپ پر میری طرف سے خدا کا سلام ہو ہمیشہ جب تک زندہ ہوں اور جب تک رات دن باقی ہیں اورخدا قرار نہ
اﷲُ آخِرَ الْعَھْدِ مِنِّی لِزِیارَتِکُمْ، اَلسَّلَامُ عَلَی الْحُسَیْنِ، وَعَلَی عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ،
دے اس کو میرے لیے آپ کی زیارت کا آخری موقع سلام ہو حسین(ع) پر اور شہزادہ علی(ع) فرزند حسین(ع) پر
وَعَلَی ٲَوْلادِ الْحُسَیْنِ، وَعَلَی ٲَصْحابِ الْحُسَیْنِ۔ پھر کہے: اَللّٰھُمَّ خُصَّ ٲَنْتَ ٲَوَّلَ
سلام ہو حسین(ع) کی اولاد اور حسین(ع) کے اصحاب پر اے معبود!تو مخصوص فرما پہلے ظالم کو
ظالِمٍ بِاللَّعْنِ مِنِّی، وَابْدَٲْ بِہِ ٲَوَّلاً، ثُمَّ الْعَن الثَّانِیَ وَالثَّالِثَ وَالرَّابِعَ۔
میری طرف سے لعنت کیساتھ تو اب اسی لعنت کا آغاز فرماپھرلعنت بھیج دوسرے اور تیسرے اور پھر چوتھے پر لعنت بھیج اے معبود!
اَللّٰھُمَّ الْعَنْ یَزِیدَ خامِساً، وَالْعَنْ عُبَیْدَاﷲِ بْنَ زِیادٍ وَابْنَ مَرْجانَۃَ وَعُمَرَ بْنَ سَعْدٍ
لعنت کر یزید پر جو پانچواں ہے اور لعنت کرعبیداللہ فرزند زیاد پر اور فرزند مرجانہ پر عمر فرزند سعد پر
وَشِمْراً وَآلَ ٲَبِی سُفْیانَ وَآلَ زِیادٍ وَآلَ مَرْوَانَ إلی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ اس کے بعد سجدے
اور شمر پر اور اولاد ابوسفیان کواور اولاد زیاد کو اور اولاد مروان کو رحمت سے دور کر قیامت کے دن تک
میں جائے اور کہے: اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ حَمْدَ الشَّاکِرِینَ لَکَ عَلَی مُصَابِھِمْ الْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلَی
اے معبود! تیرے لیے حمد ہے شکر کرنے والوں کی حمد ،حمد ہے خدا کے لیے جس نے مجھے
عَظِیمِ رَزِیَّتِی، اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِی شَفاعَۃَ الْحُسَیْنِ یَوْمَ الْوُرُودِ، وَثَبِّتْ لِی قَدَمَ صِدْقٍ
عزاداری نصیب کی اے معبود حشر میں آنے کے دن مجھے حسین (ع) کی شفاعت سے بہرہ مند فرما اور میرے قدم کو سیدھا اور پکا بنا جب
عِنْدَکَ مَعَ الْحُسَیْنِ وَٲَصْحابِ الْحُسَیْنِ الَّذِینَ بَذَلُوا مُھَجَھُمْ دُونَ الْحُسَیْنِ۔
میں تیرے پاس آئوں حسین (ع) کے ساتھ اور اصحاب حسین (ع) کے ساتھ جنہوں نے حسین(ع) کیلئے اپنی جانیں قربان کر دیں ۔


دعائے علقمہ
یَااللهُ یَااللهُ یَااللهُ،یَامُجِیبَ دَعْوَةِ الْمُضْطَرِّینَ،یَاکاشِفَ کُرَبِ الْمَکْرُوبِینَ،یَاغِیاثَ الْمُسْتَغِیثِینَ،
اے اللہ اے اللہ اے اللہ اے بے چاروں کی دعا قبول کرنے والے اے مشکلوں والوں کی مشکلیں حل کرنے والے اے
یَا صَرِیخَ الْمُسْتَصْرِخِینَ، وَیَا مَنْ ھُوَ أَقْرَبُ إِلَیَّ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیدِ، وَیَا مَنْ یَحُولُ بَیْنَ الْمَرْءِ
داد خواہوں کی داد رسی کرنے والے اے فریادیوں کی فریاد کو پہنچنے والے اور اے وہ جو شہ رگ سے بھی زیادہ میریقریب ہے اے وہ جو انسان
وَقَلْبِہِ، وَیَا مَنْ ھُوَ بِالْمَنْظَرِ الْاََعْلَی، وَبِالْاُفُقِ الْمُبِینِ، وَیَا مَنْ ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیمُ عَلَی الْعَرْشِ
اور اسکے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور وہ جو نظر سے بالا تر جگہ اور روشن تر کنارے میں ہے اے وہ جو بڑامہربان نہایت رحم والا عرش پر
اسْتَویٰ، وَیَا مَنْ یَعْلَمُ خَائِنَةَ الْاََعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُورُ، وَیَا مَنْ لا یَخْفیٰ عَلَیْہِ خافِیَةٌ، یَا مَنْ
حاوی ہے اے وہ جو آنکھوں کی ناروا حرکت اور دلوں کی باتوں کو جانتا ہے اے وہ جس پر کوئی راز پوشیدہ نہیں
لاَ تَشْتَبِہُ عَلَیْہِ الْاََصْواتُ وَیَا مَنْ لاَ تُغَلِّطُہُ الْحاجاتُ، وَیَا مَنْ لاَ یُبْرِمُہُ إِلْحَاحُ الْمُلِحِّینَ یَا مُدْرِکَ
اے وہ جس پر آوازیں گڈمڈ نہیں ہویں اے وہ جس کو حاجتوں میں بھول نہیں پڑتی اے وہ جس کو مانگنے والوں کا اصرار بیزار نہیں کرتا اے ہر گمشدہ
کُلِّ فَوْتٍ، وَیَا جامِعَ کُلِّ شَمْلٍ، وَیَا بارِیََ النُّفُوسِ بَعْدَ الْمَوْتِ، یَا مَنْ ھُوَ کُلَّ یَوْمٍ فِی شَأْنٍ،
کو پالینے والے اے بکھروں کو اکٹھاکرنے والے اور اے لوگوں کو موت کے بعد زندہ کرنے والے اے وہ جس کی ہر روز
یَاقاضِیَ الْحاجاتِ،یَامُنَفِّسَ الْکُرُباتِ،یَامُعْطِیَ السُّؤُلاتِ،یَاوَلِیَّ الرَّغَباتِ،یَاکافِیَ الْمُھِمَّاتِ،
نئی شان ہے اے حاجتوں کے پورا کرنے والے اے مصیبتوں کو دور کرنے والے اے سوالوں کے پورا کرنے والے اے خواہشوں پر مختار اے
یَا مَنْ یَکْفِی مِنْ کُلِّ شَیْءٍ وَلاَ یَکْفِی مِنْہُ شَیْءٌ فِی السَّمٰوَاتِ وَالْاََرْضِ، أَسْأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ
مشکلوں میں مددگار اے وہ جو ہر امر میں مدد گار ہے اور جس کے سوا زمین اور آسمانوں میں کوئی چیز مدد نہیں کرتی سوال کرتا ہوں تجھ سے نبیوں کے خاتم محمد
خَاتَمِ النَّبِیِّینَ، وَعَلِیٍّ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ، وَبِحَقِّ فاطِمَةَ بِنْتِ نَبِیِّکَ، وَبِحَقِّ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ،
کے حق کے واسطے اور مومنوں کے امیر علی مرتضی کے حق کے واسطے تیرے نبی کی دختر فاطمہ کے حق کے واسطے اور حسن و حسین کے حق کے واسطے کیونکہ میں
فَإِنِّی بِھِمْ أَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ فِی مَقامِی ھذَا، وَبِھِمْ أَتَوَسَّلُ، وَبِھِمْ أَتَشَفَّعُ إِلَیْکَ، وَبِحَقِّھِمْ أَسْأَلُکَ
نے انہی کے وسیلے سے تیری طرف رخ کیا اس جگہ جہاں کھڑا ہوں انکو اپناوسیلہ بنایا انہی کو تیرے ہاں سفارشی بنایا اور انکے حق کے واسطے تیرا سوالی ہوں اسی
وَأُقْسِمُ وَأَعْزِمُ عَلَیْکَ، وَبِالشَّأْنِ الَّذِی لَھُمْ عِنْدَکَ وَبِالْقَدْرِ الَّذِی لَھُمْ عِنْدَکَ، وَبِالَّذِی فَضَّلْتَھُمْ
کی قسم دیتا ہوں اور تجھ سے طلب کرتا ہوں انکی شان کے واسطے جووہ تیرے ہاں رکھتے ہیں اس مرتبے کا واسطہ جو وہ تیرے حضور رکھتے ہیں کہ جس سے تو نے
عَلَی الْعَالَمِینَ، وَبِاسْمِکَ الَّذِی جَعَلْتَہُ عِنْدَھُمْ، وَبِہِ خَصَصْتَھُمْ دُونَ الْعَالَمِینَ، وَبِہِ أَبَنْتَھُمْ
انکو جہانوں میں بڑائی دی اورتیرے اس نام کے واسطے سے جو تو نے انکے ہاں قرار دیا اور اسکے ذریعے ان کو جہانوں میں خصوصیت عطا فرمائی
وَأَبَنْتَ فَضْلَھُمْ مِنْ فَضْلِ الْعَالَمِینَ حَتَّی فاقَ فَضْلُھُمْ فَضْلَ الْعَالَمِینَ جَمِیعاً، أَسْأَلُکَ أَنْ تُصَلِّیَ
ان کو ممتاز کیا اور انکی فضیلت کو جہانوں میں سب سے بڑھا دیا یہاں تک کہ ان کی فضلیت تمام جہانوں میں سب سے زیادہ ہو گئی سوال
عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَنْ تَکْشِفَ عَنِّی غَمِّی وَھَمِّی وَکَرْبِی، وَتَکْفِیَنِی الْمُھِمَّ مِنْ أُمُورِی،
کرتا ہوں تجھ سے کہ محمد و آل محمد پر رحمت نازل کر اور یہ کہ دور فرما دے میرا ہر غم ہر اندیشہ اور ہر دکھ اور میری مدد کر ہر دشوار کام میں میرا قرضہ ادا کر دے پناہ
وَتَقْضِیَ عَنِّی دَیْنِی،وَتُجِیرَنِی مِنَ الْفَقْرِ،وَتُجِیرَنِی مِنَ الْفاقَةِ،وَتُغْنِیَنِی عَنِ الْمَسْأَلَةِ إِلَی الْمَخْلُوقِینَ،
دے مجھ کو تنگدستی سے بچا مجھ کو ناداری سے اور بے نیاز کر دے مجھ کو لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے اور میری مدد فرما اس اندیشے میں جس سے میں ڈرتا
وَتَکْفِیَنِی ھَمَّ مَنْ أَخافُ ھَمَّہُ، وَعُسْرَ مَنْ أَخافُ عُسْرَہُ، وَحُزُونَةَ مَنْ أَخافُ حُزُونَتَہُ، وَشَرَّ مَنْ
ہوں اور اس تنگی میں جس سے پریشان ہوں اس غم میں جس سے گھبراتا ہوں اس تکلیف میں جس سے خوف کھاتا ہوں اس بری تدبیر سے جس سے ڈرتا
أَخافُ شَرَّہُ، وَمَکْرَ مَنْ أَخافُ مَکْرَہُ، وَبَغْیَ مَنْ أَخافُ بَغْیَہُ، وَجَوْرَ مَنْ أَخافُ جَوْرَہُ، وَسُلْطانَ
رہتا ہوں اس ظلم سے جس سے سہما ہوا ہوں اس بے گھر ہونے سے جس سے ترساں ہوں اسکے تسلط سے جس سے ہراساں ہوں اس فریب سے جس سے
مَنْ أَخافُ سُلْطانَہُ، وَکَیْدَ مَنْ أَخافُ کَیْدَہُ، وَمَقْدُرَةَ مَنْ أَخافُ مَقْدُرَتَہُ عَلَیَّ، وَتَرُدَّ عَنِّی کَیْدَ
خائف ہوں اس کی قدرت سے جس سے ڈرتا ہوں دور کر مجھ سے دھوکہ دینے والوں کے دھوکے اور فریب کاروں کے فریب کو اے معبود جو میرے لیے جیسا
الْکَیَدَةِ، وَمَکْرَ الْمَکَرَةِ۔ اَللّٰھُمَّ مَنْ أَرادَنِی فَأَرِدْہُ، وَمَنْ کادَنِی فَکِدْہُ، وَاصْرِفْ عَنِّی کَیْدَہُ وَمَکْرَہُ
قصد کرے تو اسکے ساتھ ویسا قصد کرجو مجھے دھوکہ دے تو اسے دھوکہ دے اور دور کر دے مجھ سے اس کے دھوکے فریب سختی اور اسکی بد اندیشی کو روک دے
وَبَأْسَہُ وَأَمانِیَّہُ وَامْنَعْہُ عَنِّی کَیْفَ شِئْتَ وَأَنَّیٰ شِئْتَ۔ اَللّٰھُمَّ اشْغَلْہُ عَنِّی بِفَقْرٍ لاَ تَجْبُرُہُ، وَبِبَلاءٍ
اسے مجھ سے جسطرح تو چاہے اور جہاں چاہے اے معبود اس کو میرا خیال بھلا دے ایسے فاقے سے جو دور نہ ہو ایسی مصیبت سے جسے تو نہ ٹالے ایسی تنگدستی
لاَ تَسْتُرُہُ وَبِفاقَةٍ لاَ تَسُدُّھا، وَبِسُقْمٍ لاَ تُعافِیہِ، وَذُلٍّ لاَ تُعِزُّہُ، وَبِمَسْکَنَةٍ لاَتَجْبُرُھا۔ اَللّٰھُمَّ اضْرِبْ
سے جسے تو نہ ہٹائے ایسی بیماری سے جس سے تو نہ بچائے ایسی ذلت سے جس میں توعزت نہ دے اور ایسی بے کسی سے جسے تو دور نہ کرے اے معبود میرے دشمن
بِالذُّلِّ نَصْبَ عَیْنَیْہِ، وَأَدْخِلْ عَلَیْہِ الْفَقْرَ فِی مَنْزِلِہِ وَالْعِلَّةَ وَالسُّقْمَ فِی بَدَنِہِ حَتَّی تَشْغَلَہُ عَنِّی بِشُغْلٍ
کی خواری اسکے سامنے ظاہر کر دے اسکے گھر میں فقر و فاقہ کو داخل کردے اور اسکے بدن میں دکھ اور بیماری پیدا کر دے یہاں تک کہ مجھے بھول کر اسے اپنی ہی پڑ جائے
شاغِلٍ لاَ فَراغَ لَہُ، وَأَنْسِہِ ذِکْرِی کَما أَنْسَیْتَہُ ذِکْرَکَ وَخُذْ عَنِّی بِسَمْعِہِ وَبَصَرِہِ وَلِسانِہِ وَ
کہ اسے برائی کاموقع نہ ملے اسے میری یاد بھلا دے جیسے اس نے تیری یاد بھلا رکھی ہے اور میری طرف سے اس کے کان اس کی آنکھیں اس کی زبان اس کے ہاتھ
یَدِہِ وَرِجْلِہِ وَقَلْبِہِ وَجَمِیعِ جَوارِحِہِ وَأَدْخِلْ عَلَیْہِ فِی جَمِیعِ ذلِکَ السُّقْمَ وَلاَ تَشْفِہِ حَتَّی تَجْعَلَ
اسکے پاؤں اس کا دل اور اس کے تمام اعضاء کو روک دے اور وارد کر دے ان سب پر بیماری اور اس سے اسے شفا نہ دے یہاں تک کہ بنا دے اس کے لیے
ذلِکَ لَہُ شُغْلاً شاغِلاً بِہِ عَنِّی وَعَنْ ذِکْرِی، وَاکْفِنِی یَا کافِیَ مَا لاَ یَکْفِی سِواکَ فَإِنَّکَ الْکافِی
ایسی سختی جس میں وہ پڑا رہے کہ مجھ سے اور میری یاد سے غافل ہو جائے اور میری مدد کر اے مدد گار کہ تیرے سواکوئی مدد گار نہیں کیونکہ تو میرے لیے کافی ہے
لاَ کافِیَ سِواکَ، وَمُفَرِّجٌ لاَ مُفَرِّجَ سِواکَ، وَمُغِیثٌ لاَ مُغِیثَ سِواکَ، وَجارٌ لاَ جارَ سِواکَ،
تیرے سوا کوئی کافی نہیں تو کشائش دینے والا ہے تیرے سوا کشائش دینے والا نہیں تو فریاد رس ہے تیرے سوا فریاد رس نہیں تو پناہ دینے والا ہے کوئی اور نہیں نا امید ہوا
خابَ مَنْ کانَ جَارُہُ سِواکَ، وَمُغِیثُہُ سِواکَ وَمَفْزَعُہُ إِلی سِواکَ وَمَھْرَبُہُ إِلی سِواکَ وَمَلْجَأہُ
جسکا تو پناہ دینے والا نہیں جسکا فریاد رس تو نہیں وہ تیرے علاوہ کس سے فریاد کرے اورتیرے علاوہ کس کی طرف بھاگے جو سوائے تیرے کس کی
إِلی غَیْرِکَ، وَمَنْجَاہُ مِنْ مَخْلُوقٍ غَیْرِکَ، فَأَنْتَ ثِقَتِی وَرَجائِی وَمَفْزَعِی وَمَھْرَبِی وَمَلْجَأی
پناہ لے اور جسے بچانے والاسوائے تیرے کوئی اور ہو کیونکہ تو ہی میرا سہارا میری امید گاہ میری جائے فریاد میرے قرار کی جگہ اور میری پناہ گاہ ہے تو
وَمَنْجایَ، فَبِکَ أَسْتَفْتِحُ، وَبِکَ أَسْتَنْجِحُ، وَبِمُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ أَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ وَأَتَوَسَّلُ
مجھے نجات دینے والا ہے پس تجھی سے نجات کا طالب ہوں اور کامیابی چاہتا ہوں میں محمد و آل محمد کے واسطے سے تیری طرف آیا اور انہیں وسیلہ بنانا
وَأَتَشَفَّعُ، فأَسْأَلُکَ یَا اللهُ یَا اللهُ یَا اللهُ،فَلَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ وَإِلَیْکَ الْمُشْتَکَیٰ وَأَنْتَ
اور شفاعت چاہتا ہوں پس سوال ہے تجھ سے اے اللہ اے اللہ اے اللہ پس حمد و شکر تیرے ہی لیے ہے تجھی سے
الْمُسْتَعانُ، فأَسْأَلُکَ یَا اللهُ یَا اللهُ یَا اللهُ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ
شکایت کی جاتی ہے اور تو ہی مدد کرنے والا ہے پس سوال کرتا ہوں تجھ سے اے اللہ اے اللہ اے اللہ محمد و آل محمد کے واسطے سے کہ
مُحَمَّدٍ وَأَنْ تَکْشِفَ عَنِّی غَمِّی وَھَمِّی وَکَرْبِی فِی مَقامِی ھذَا کَما کَشَفْتَ عَنْ نَبِیِّکَ ھَمَّہُ
محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور دور کر دے تومیرا غم میرا اندیشہ اور میرا دکھ اس جگہ جہاں کھڑا ہوں جیسے تو نے دور کیا تھا اپنے نبی کا اندیشہ ان کا غم
وَغَمَّہُ وَکَرْبَہُ، وَکَفَیْتَہُ ھَوْلَ عَدُوِّہِ، فَاکْشِفْ عَنِّی کَما کَشَفْتَ عَنْہُ، وَفَرِّجْ عَنِّی کَما فَرَّجْتَ
اور ان کی تنگی اور دشمن سے خوف میں ان کی مدد فرمائی تھی پس دور کر میری مشکل جیسے ان کی مشکل دور کی تھی اور کشائش دے مجھ کو جیسے ان کو کشائش دی
عَنْہُ، وَاکْفِنِی کَما کَفَیْتَہُ، وَاصْرِفْ عَنِّی ھَوْلَ مَا أَخافُ ھَوْلَہُ، وَمَؤُونَةَ مَا أَخافُ مَؤُونَتَہُ، وَھَمَّ
تھی اور میری مدد کر جیسے ان کی مدد فرمائی تھی میرا خوف دور کر جیسے ان کا خوف دور فرمایا تھا میری تکلیف دور کر جیسے انکی تکلیف دور فرمائی تھی اور وہ اندیشہ مٹا
مَا أَخافُ ھَمَّہُ، بِلامَؤُونَةٍ عَلَی نَفْسِی مِنْ ذلِکَ، وَاصْرِفْنِی بِقَضاءِ حَوائِجِی، وَکِفَایَةِ مَا أَھَمَّنِی
جس سے ڈرتا ہوں بغیر اس کے کہ اس سے مجھے کوئی زحمت اٹھانی پڑے مجھے پلٹا جبکہ میری حاجات پوری ہو جائیں جس امر کا اندیشہ ہے اس میں مدد دے
ھَمُّہُ مِنْ أَمْرِ آخِرَتِی وَدُنْیَایَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ وَیَا أَبا عَبْدِاللهِ، عَلَیْکُما مِنِّی سَلامُ اللهِ أَبَداً مَا
میرے دنیا و آخرت کے تمام تر معاملات میں اے مومنوں کے امیر اور اے ابا عبدالله آپ پر میری طرف سے خدا کا سلام ہمیشہ ہمیشہ جب تک زندہ ہوں
بَقِیتُ وَبَقِیَ اللَّیْلُ والنَّھارُ وَلاَ جَعَلَہُ اللهُ آخِرَ الْعَھْدِ مِنْ زِیارَتِکُما وَلاَ فَرَّقَ اللهُ بَیْنِی وَبَیْنَکُما۔
اور رات دن باقی ہیں اور خدا میری اس زیارت کو آپ دونوں کے لیے میری آخری زیارت نہ بنائے اور میرے اور
اَللّٰھُمَّ أَحْیِنِی حَیَاةَ مُحَمَّدٍ وَذُرِّیَّتِہِ، وَأَمِتْنِی مَمَاتَھُمْ، وَتَوَفَّنِی عَلَی مِلَّتِھِمْ، وَاحْشُرْنِی فِی زُمْرَتِھِمْ،
آپ کے درمیان جدائی نہ ڈالے اے معبودمجھے زندہ رکھ محمد اور ان کی اولاد کی طرح مجھے انہی جیسی موت دے مجھے ان کی روش پر وفات دے مجھے ان کے گروہ
وَلاَ تُفَرِّقْ بَیْنِی وَبَیْنَھُمْ طَرْفَةَ عَیْنٍ أَبَداً فِی الدُّنْیا وَالْاَخِرَةِ، یَا أَمِیرَالْمُؤْمِنِینَ وَیَا أَبا عَبْدِاللهِ،
میں محشور فرما اور میرے اور ان کے درمیان جدائی نہ ڈال ایک پل کی کبھی بھی دنیا اور آخرت میں اے امیر المومنین اور اے ابا عبداللہ میں آپ دونوں کی
أَتَیْتُکُما زائِراً وَمُتَوَسِّلاً إِلَی اللهِ رَبِّی وَرَبِّکُما وَمُتَوَجِّھاً إِلَیْہِ بِکُما وَمُسْتَشْفِعاً بِکُما إِلَی اللهِ
زیارت کو آیا کہاس کو خدا کے ہاں وسیلہ بناؤں جو میرا اور آپ کا رب ہے میں آپ کے ذریعے اس کی طرف متوجہ ہوا ہوں اور آپ دونوں کو خدا کے ہاں سفارشی
تَعالی فِی حاجَتِی ھذِہِ فَاشْفَعا لِی فَإِنَّ لَکُما عِنْدَ اللهِ الْمَقامَ الْمَحْمُودَ، وَالْجاہَ الْوَجِیہَ، وَالْمَنْزِلَ
بناتا ہوں اپنی حاجت کے بارے میں پس میری شفاعت کریں کہ آپ دونوں خدا کے حضور پسندیدہ مقام بہت زیادہ آبرو بہت اونچا مرتبہ اور محکم تعلق رکھتے
الرَّفِیعَ وَالْوَسِیلَةَ،إِنِّی أَنْقَلِبُ عَنْکُما مُنْتَظِراً لِتَنَجُّزِالْحاجَةِ وَقَضائِھا وَنَجاحِھامِنَ اللهِ بِشَفاعَتِکُما
ہیں بے شک میں پلٹ رہا ہوں آپ دونوں کے ہاں سے اس انتظار میں کہ میری حاجت پوری ہو اور مراد برآئے خدا کے ہاں آپکی شفاعت کے ذریعے
لِی إِلَی اللهِ فِی ذلِکَ فَلا أَخِیبُ، وَلاَ یَکونُ مُنْقَلَبِی مُنْقَلَباً خائِباً خاسِراً، بَلْ یَکُونُ مُنْقَلَبِی
جو میرے حق میں آپ خدا کے ہاں ندا کریں گے لہذا میں مایوس نہیں اور میری واپسی ایسی واپسی نہیں ہے جس میں ناامیدی و ناکامی ہو بلکہ میری واپسی ایسی
مُنْقَلَباً راجِحاً مُفْلِحاًمُنْجِحاً مُسْتَجاباً بِقَضاءِ جَمِیعِ حَوائِجِی وَتَشَفَّعا لِی إِلَی اللهِ۔انْقَلَبْتُ عَلَی
جو بہترین نفع مند کامیاب قبول دعا کی حامل میری تمام حاجتیں پوری ہونے کے ساتھ ہے جبکہ آپ خدا کے ہاں میرے سفارشی ہیں میں پلٹ رہا ہوں
مَا شاءَ اللهُ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللهِ، مُفَوِّضاً أَمْرِی إِلَی اللهِ، مُلْجِئاً ظَھْرِی إِلَی اللهِ، مُتَوَکِّلاً عَلَی
اس امر پر جو خدا چاہے اور نہیں طاقت و قوت مگر جو خدا سے ملتی ہے میں نے اپنا معاملہ خدا کے سپردکر دیا اس کا سہارا لے کر خدا پر ہی
اللهِ، وَأَقُولُ حَسْبِیَ اللهُ وَکَفیٰ، سَمِعَ اللهُ لِمَنْ دَعا، لَیْسَ لِی وَراءَ اللهِ وَوَرائَکُمْ یَا سادَتِی مُنْتَھیٰ،
بھروسہ رکھتا ہوں اور کہتا ہوں خدا میرا ذمہ دار اور مجھے کافی ہے خدا سنتا ہے جو اسے پکارے میرا کوئی ٹھکانہ نہیں سوائے خدا کے اور سوائے
مَا شاءَ رَبِّی کانَ وَمَا لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللهِ أَسْتَوْدِعُکُمَا اللهَ، وَلاَ جَعَلَہُ
آپ کے اے میرے سردار جو میرا رب چاہے وہ ہوتا ہے اور جو وہ نہ چاہے نہیں ہوتا اور نہیں ہے طاقت و قوت مگر جو خدا سے ملتی ہے میں آپ دونوں
اللهُ آخِرَ الْعَھْدِ مِنِّی إِلَیْکُما، انْصَرَفْتُ یَا سَیِّدِی یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ وَمَوْلایَ وَأَنْتَ اُبْتُ یَاأَبا عَبْدِ
کو سپرد خدا کرتا ہوں اور خدا اسکوآپکے ہاں میری آخری حاضری قرار نہ دے میں واپس جاتا ہوں اے میرے آقا اے مومنوں کے امیر اورمیرے مدد گار
اللهِ یَا سَیِّدِی وَسَلامِی عَلَیْکُما مُتَّصِلٌ مَا اتَّصَلَ اللَّیْلُ وَالنَّھارُ، واصِلٌ ذلِکَ إِلَیْکُما غَیْرُ
اور آپ ہیں اے ابا عبداللہ اے میرے سردار میرا سلام ہو آپ دونوں پر متواتر جب تک رات اور دن باقی ہیں یہ سلام آپ دونوں کو پہنچتا رہے کبھی رکنے
مَحْجُوبٍ عَنْکُما سَلامِی إِنْ شَاءَ اللهُ، وَأَسْأَلُہُ بِحَقِّکُما أَنْ یَشاءَ ذلِکَ وَیَفْعَلَ فَإِنَّہُ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔
نہ پائے آپ پر میرا یہ سلام اگر خدا چاہے تو سوال کرتا ہوں اس سے آپ کے واسطے کہ وہ یہی چاہے اور یہ کرے کیونکہ وہ ہے حمد والا بزرگی والا میں آپ
انْقَلَبْتُ یَا سَیِّدَیَّ عَنْکُما تائِباً حامِداً لِلّٰہِ شاکِراً راجِیاً لِلاِِْجابَةِ، غَیْرَ آیِسٍ وَلاَ قَانِطٍ، آئِباً عائِداً
کے ہاں سے جاتا ہوں اے میرے سردار ا ور خدا سے توبہ کرتا ہوں اسکی حمد کرتا ہوں شکر کرتا ہوں قبولیت کا امید وار ہوں مجھے نا امید و مایوس نہ کرنا پھر آنے کی زیارت
راجِعاً إِلی زِیارَتِکُما، غَیْرَ راغِبٍ عَنْکُما وَلاَ عَنْ زِیارَتِکُما بَلْ راجِعٌ عائِدٌ إِنْ شَاءَ اللهُ، وَلاَ
کرنے کے ارادے سے نہ کہ آپ سے اور نہ آپ کی زیارت سیمنہ موڑے ہوئے بلکہ دوبارہ آنے کے لیے اگر خدا چاہے اورنہیں طاقت و قوت مگر جو خدا سے ملتی
حَوْلَ وَلاَقُوَّةَ إِلاَّبِاللهِ،یَاسادَتِی رَغِبْتُ إِلَیْکُما وَإِلی زِیارَتِکُما بَعْدَ أَنْ زَھِدَ فِیکُما وَفِی زِیارَتِکُما
ہے اے میرے سردار میں شائق ہوں آپ کا اور آپ کی زیارت کا جبکہ بے رغبت ہو گئے ہیں آپ سے اور آپ دونوں کی زیارت کرنے سے یہ دنیا والے
أَھْلُ الدُّنْیا، فَلا خَیَّبَنِیَ اللهُ مِمَّا رَجَوْتُ وَمَا أَمَّلْتُ فِی زِیارَتِکُما إِنَّہُ قَرِیبٌ مُجِیبٌ۔
پس خدا مجھے نا امید نہ کرے اس سے جسکی امید و آرزو رکھتا ہوں آپکی زیارت کے واسطے بے شک وہ نزدیک تر ہے قبول کرنے والا ہے۔