انتظار کے دوران ہماری ذمہ داریاں
اس وقت ہم انتظار کے دور سے گذر رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ یہ تاریخ اسلام کا سب سے طویل دور ہو تو پھر اس کے دوران ہمارے واجبات اور ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ئندہ صفحات میں ہم ان ہی ذمہ داریوں کا مختصر ساخاکہ پیش کررہے ہیں:
۱)شعور اوربیداری
شعور وگہی کی چند قسمیں ہیں:
۱۔شعور توحید : پوری کائنات کا خالق اللہ ہے دنیا کی ہر چیز اسی کے حکم کی تابع ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اور زمین وسمان کی ہرچیزاسی کے سامنے مسخرہے کسی شی کا اپنے بارے میں کوئی اختیار نہیں ہے جیسا کہ سورہٴ اعراف کی ۵۴ ویں یت میں ارشاد ہے:”اور فتاب وماہتاب اور ستارے سب اسی کے حکم کے تابع ہیں اسی کے لئے خلق بھی ہے اور امر بھی اس کی ذات نہایت ہی با برکت ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے۔“
۲۔سیاسی گھٹن کے دوران وعدہٴ الٰہی کا شعور:افسوس اور لاچاری کی فضانیزگھٹن کے سخت ترین ماحول میں بھی انسان خداوندعالم کے اس قول پر یقین واذعان رکھے اگر چہ ایسے گھٹن کے عالم میں وعدہٴ الٰہی پر یقین بہت سخت کام ہے :< وَلاَتَہِنُوا وَلاَتَحْزَنُوا وَاٴَنْتُمْ الْاٴَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ (>.(۱) ”خبردار سستی نہ کرنا ،مصائب پر محزون نہ ہونا،اگر تم صاحب ایمان ہوتو سر بلند ی تمہارے ہی لئے ہے۔“
یا خداوندعالم کا یہ قول ہے :< وَنُرِیدُ اٴَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْاٴَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اٴَئِمَّةً وَنَجْعَلَہُمْ الْوَارِثِینَ وَنُمَکِّنَ لَہُمْ فِی الْاٴَرْض> (۲) ” اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنا ئیں اور زمین کا وارث قرار دے دیں،اور انہیں روئے زمین کا اقتدار دیں ۔“
-----------
(۱)ل عمران/۱۳۹
(۲)قصص/۵۔۶
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے :
< وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اٴَنَّ الْاٴَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِی الصَّالِحُونَ >(۱)”اور ہم نے ذکر کے بعد زبورمیں لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔“یا خداوندعالم کا یہ قول:< لَاٴَغْلِبَنَّ اٴَنَا وَرُسُلِی>(۲) ”بیشک میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے۔‘ ‘ یاارشاد ہوتا ہے: <وَلَیَنصُرَنَّ اللهُ مَنْ یَنصُرُہ>(۳)”اور اللہ اپنے مددگار وں کی یقینا مدد کرے گا۔“
۳۔روئے زمین پر مسلمانوں کی حکومت کاشعور:یہ بشریت کی قیادت یعنی امامت کی گواہی ہوگی چنانچہ خداوندعالم کا ارشادہے:< وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اٴُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُہَدَاء عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا > (۴)”ہم نے تم کو درمیانی امت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو اور پیغمبر تمہارے اعمال کے گواہ رہیں۔“
۴۔حیات بشری میں اس دین کے عملی ہونے کاشعور:تبلیغ کے ذریعہ فتنہ وفساداور موانع کے خاتمہ کاجذبہ جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ہے:< وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَتَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ لِلَّہ>(۵)”اور ان سے اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک سارا فتنہ ختم نہ ہوجائے اور دین صرف اللہ کا رہ جائے۔“
-----------
(۱)انبیاء/۱۰۵
(۲)مجادلہ/۲۱
(۳)حج /۴۰
(۴)بقرہ/۱۴۳
(۵)بقرہ/۱۹۳
۵۔تاریخ اور سماج پر حاکم سنت الٰہیہ کا شعور :اور ان سنتوں کے ضمن میں تیاری، تمہید اور حرکت و عمل کی ضرورت نیز ان کی خلاف ورزی کا محال ہونا اسی لئے خدا وندعالم نے مسلمانوں کو اس فیصلہ کن جنگ کی تیاری کا حکم دیا ہے:< وَاٴَعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّة>(۱)
۲)امید ورزو
اگر بندہ خدا وندعالم کی قوت وطاقت ، سلطنت اور وعدوں سے لولگائے تو نہ یہ امید فنا ہو سکتی ہے اور نہ ہی ایسا امید وار ناکام ونامراد ہو سکتاہے اور اس رزو اور امید کے سہارے ہی ایک مسلمان اپنی رسی کو خداکی رسی اور اپنی طاقت کو خدا ئی طاقت میں ضم کر دیتاہے اور جو شخص اپنی رسی کو خدائی رسی سے باندھ لے تو پھر اس کی قوت وطاقت اور سلطنت ختم نہیں ہوسکتی ہے۔
۳)استقامت
رزو کا نتیجہ استقامت وپائیداری ہے:بالکل اسی طرح جیسے کوئی ڈوبتا ہو ا انسان بچانے والے کسی فرد کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھتا ہے تو پھر پانی کی موجوں کا مقابلہ شروع کر دیتاہے اور اس مقابلہ کے لئے اس کے اعضائے بدن اورعضلات کے اندر ناقابل تصور حد تک قوت اور طاقت پیدا ہوجاتی ہے۔
۴)حرکت
حرکت کا ہی دوسرا نام امربالمعروف اور نہی عن المنکر نیز خدا کی طرف دعوت دینا ظہور امام اور پ کی عالمی حکومت کے لئے حالات فراہم کرنا نیز ایسی مومن جماعت کو
-----------
(۱)انفال/۶۰
مادہ اور تیار کرنے کانام ہے جو شعور وادراک ایمان وتقویٰ اور نظم وضبط اور قوت وطاقت کے میدان میں امام کی مددکی اہل ہو اور اس کے اندر پ کے ظہورکی تیاری کرنے کی صلاحیت موجود ہو جیسا کہ ل عمران کی ۱۰۴ویں یت میں اشارہ موجود ہے:”اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے،نیکیوں کاحکم دے،برائیوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یافتہ ہیں۔“
۵)ظہور امام کے لئے دعا
اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں ہے کہ عمل اور تحریک نیز امربالمعروف ونہی عن المنکر کے ساتھ ظہور کی دعاکرنا ظہور امام کے قریب ہونے کا ایک بہتر ین ذریعہ ہے۔جیسا کہ ظہور امام کے سلسلہ میں کثرت کے ساتھ دعا ئیں واردہوئی ہیں نیزروایتوں میں انتظار کا ثواب بھی بیان کیا گیا ہے ان ہی میں سے ایک یہ دعا بھی ہے جوعام طور سے مومنین کی زبانوں پر رہت ی ہے:”اللّھم کن لولیک الحجّة ابن الحسن،صلواتک علیہ وعلیٰ بائہ فی ہذہ الساعة وفی کلّ ساعة،ولیّاًوحافظاً،وقائداًوناصراً ودلیلاً وعیناً،حتّیٰ تسکنہ اٴرضک طوعاًوتمتعہ فیھا طویلاً“(۱)
خدایااپنے ولی حضرت حجةبن الحسن پرتیرا سلام و درود ان پر اور ان کے بائے طاہرین پر، ان کے لیے اس ساعت میں اورہر سا عت میں سر پرست محافظ پیشوا ، مدد گار رہنما اور نگراں ہو جا،تا کہ انہیں اپنی زمین میں سکون کے ساتھ سکونت عطا کر اور انہیں ایک طویل مدت تک راحت عنا یت فرما۔
-----------
(۱) مفاتیح الجنان اعمال شب۲۳ رمضان
شکوہ ودعا
امام زمانہ -سے منقول دعائے افتتاح میں ہم یہ شکوہ کرتے ہیں اور پھر ہماری زبان پر یہ شیریں جملات جاتے ہیں:”اللّھم انّانشکوااِلیک فقد نبیّنا، وغیبة ولیّنا،وکثرة عدوّنا،وقلة عددنا،وشدّہ الفتن بنا،وتظاہر الزمان علینا اللّھم انّا نرغب الیک فی دولة کریمة تعزبھاالا سلام واٴھلہ وتذلّ بھا النّفاق واٴھلہ وتجعلنا فیھا من الدعاة الیٰ طاعتک والقادة الی سبیلک،وترزقنابھاکرامة الدنیا والخرة“(۱)
”خدا یا!ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں اس با عظمت حکومت کا جس سے اسلام اور اہل اسلام کوعزت ملے اور نفاق اور اہل نفاق کوذلت نصیب ہو ہمیں اس حکومت میں اپنی اطاعت کا طر فداراور اپنے راستے کا قا ئدبنا دے اور اس کے ذریعہ ہمیں دنیا اور اخرت کی کرامت عنا یت فرماخدایا !ہم تجھ سے فریاد کرتے ہیں کہ نبی دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں،امام پردہٴ غیب میں ہیں ۔دشمنوں کی کثرت ہے اور ہماری تعداد کی قلت ہے ۔فتنوں کا زور ہے اور زمانہ نے ہمارے خلاف اتحاد کر لیا ہے۔ً“
معقول انتظار
اس طرح انتظار کی دوقسمیں ہیں:بامقصداور معقول انتظار دوسرے بے مقصداور غیر معقول انتظار اس دوسرے انتظار کامطلب نہایت سادگی کے ساتھ ظہور کی علامتوں کی طرف نکھیں لگاکر بیٹھ جاناہے۔ہم سمانی چنگھاڑ،زمین کادھنس جانا،سفیانی خروج،
-----------
(۱)مفاتیح الجنان، دعائے افتتاح
دجال جیسی علامتوں کے منکر نہیں ہےں اور اس سلسلہ میں کتابوں میں کثرت کے ساتھ روایات موجود ہیں مگر اب تک صحیح علمی طریقے سے ان کے سلسلہ اسناد کی تحقیق وتفتیش نہیں ہوسکی ہے۔اگر چہ میں ماضی میں بھی باقاعدہ طور سے ان میں سے بعض روایتوں کی صحت کا پرزور موافق رہاہوں،لیکن ان بعض روایات کی پر زورتاکید کے باوجود اسی وقت سے میں مسئلہ انتظار سے متعلق”خاموش تماشائی“بنے رہنے کا بھی مخالف رہاہوں ،اور میرا خیال ہے کہ یہ طریقہٴ کا ر امت کو مسئلہ انتظار کے سلسلہ میں اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے کنارہ کش اور انتظار کے صحیح مفہوم سے منحرف کر دے گا۔
اس کے برخلاف انتظار کی پہلی قسم یعنی ”بامقصد انتظار“میں تحریک ، امربالمعروف ونہی عن المنکر خدا اور جہاد کی طرف دعوت سبھی شامل ہیں نیز یہی امام کے ظہور کی سب سے بڑی علامت اور سب سے بہترین ذریعہ ہے کیونکہ مسئلہ ظہور کا تعلق بھی تاریخ انسانیت پرحاکم الٰہی سنتوں سے ہے اور یہ سنتیں جد وجہد ،تحریک عمل کے بغیر جاری نہیں رہ سکتیں۔ صحیح روایات میں مذکورہ علامتیں اجمالی انداز سے ذکر ہوئی ہیں اورمیرا خیال ہے کہ ان کا کوئی خاص وقت معین نہیں کیا گیا ہے بلکہ جولوگ ظہور کا وقت معین کرتے ہیں روایات میں ان کی تکذیب صراحت کے ساتھ کی گئی ہے۔
عبدالرحمن بن کثیر کا بیان ہے:جب امام جعفر صادق -کے پاس مہزم ئے ہم اس وقت پ کی خدمت میں تھے۔تو انہوں نے امام کی خدمت میں عرض کی:ذراہمیں اس امر کے بارے میں کچھ بتادیں جس کے ہم منتظر ہیں!کہ یہ کب سامنے ئے گا؟تو پ نے فرمایا:”یامھزم،کذب الوقاتون وہلک المستعجلون“ (۱)
-----------
(۱)الزام الناصب،ج/۱،ص/۲۶۰
”اس کا وقت معین کرنے والے اور اس سلسلہ میں جلد بازی سے کام لینے والے ہلاک ہوگئے۔“
فضیل بن یسار نے امام محمدباقر -سے سوال کیا:کیا اس امر کا کوئی وقت معین ہے؟۔تو پ نے فرمایا:”کذب الوقّاتون“(۱)وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔
توکیا ان علامتوں سے ظہور امام کے وقت کا دقیق اندازہ لگایا جا سکتا ہے؟ حقیقت تویہ ہے کہ ان کا تعلق بھی ہمارے اعمال سے ہے،یہ صحیح ہے کہ زمین کا دھنس جانا یا سمانی چنگھاڑ ظہور کی علامت ہے لیکن ہمارے اعمال کی بنا پر ان میںعجلت یا تاخیر ہوسکتی ہے اور یہی فکرظہور کی ضروری وضاحت اور تاویل میں شامل ہے اوریہی ”بامقصد انتظار“ ہے۔
|