مامون' معتصم'واثق اور متوکل کی دور خلافت میں روضہ مقدس کے حالات
بہر حال اگر یہ گنبد مٹی کا ہو تو ہمیں نہیں لگتا ہے کہ مو سم کے نشیب وفراز میں جہاں کبھی درجہ حرارت (مثلاجولائی کے مہینے میں )کافی بڑھ جا تاہے میں اتنا لمبا عرصہ رہا ہو ۔اگر باقی رہا ہو تو ضرو ری ہے کہ اس کیلئے کو ئی بچاو ہو جس کا میرا خیا ل ہے کہ نہ ہو۔اور یہ بھی بعید نہیں ہے کہ اس قبے کی اصلاح اور وسعت بھی نہ ہو ئی ہو اس لیے کہ ابن الربہ اور ابن اثیر دونو ں کے مطابق مامون نے ماہ ربیع الاول ٢١٣ھ میں یہ اعلان کیا تھا کہ امیر المومنین رسول اللہ کے بعد لوگوں میں سب سے افضل ہیں ۔اور یہ بھی بعید نہیںہے کہ اسی عہد میں روضہ مقدس کے قرب وجوار میں لوگ رہتے تھے ۔خاص طور سے جب امام علی موسیٰ رضا کی ولی عہدی کا اعلان کیا تھا قرب جوار میں رہنے کے حوالے سے اس میں نشیب و فراز ہو تا رہتا تھا کیو نکہ موسم میں جب سختی ہو تی تھی خاص گرمی کے مہینوں میں تو میرا نہیں خیال ہے کہ لوگو ں نے وہا ں دائمی مسکن بنایا ہو ۔ لیکن اب یہ مجھے یقین ہے کہ خلافت مامون، معتصم اورواثق کے دور میں انہو ں نے علی اورآل علی کی تھو ڑی ہمدردی کی وجہ سے شیعہ کو فہ میں آرام کے ساتھ بغیر کسی سختی کے مر قد امیر المومنین کی تھوڑی اور بھی ترقی ہو ئی تھی کیو نکہ متوکل اپنے سے پہلے خلفاء ،مامون ،معتصم اورواثق سے ان کی علی اور آل علی کے محبت کر نے وجہ سے بغض رکھتے تھے۔ مجھے لگتا ہے خلافت واثق میں ٢٣٢ھ بمطابق ٨٤٧ ئ۔
زائرین قبر مطہر نے ایک بڑی کشادگی دیکھی ہے کیو نکہ وہ زیارت کیلئے بغیر کسی تنگی کے آرام سے جاتے تھے ۔ اگرچہ اس حوالے سے کوئی روایت تائید نہیں کرتی ہے کیونکہ اس سے عباسی حکومت اور خلافت کا ستارہ غروب ہونا شروع ہوا تھا ۔اس لیے ان کے ہاں تر کوں نے گھسنا شروع کیا تھا آہستہ آہستہ ان کے حکو متی معاملات میں تنگی لا نا شروع ہوا تھا۔ اس حوالے سے ہم نے اپنی ''نصوص و محاضرات ''نامی کتاب میں گفتگو کی ہے۔ اورگمان غالب ہے کہ جب لوگوں نے رہنا شروع کیا تو بعض علوی وہاں دفن بھی تھے ۔ان کے علاوہ کو فہ کے اور بھی شیعوں نے اپنے مردوں کو اس وقت دفن کر نا شروع کیا جب ان میں اعتقاد ہو اکہ قبر مطہر کے جوار میں دفن ہونا باعث ثواب ہے۔ لیکن شیعوں کیلئے یہ کشادگی زیادہ عرصہ نہ رہی ،جب زمام خلافت متوکل کے ہاتھ میں آئی جوبغض امیر المومنین میں مشہور تھا۔ تو اس نے شیعوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا ۔اور بات یہاں تک آگئی ٢٣٦ھ بمطابق ٨٥٠ ء میں اس نے قبر ابی عبداللہ الحسین کو ڈھانے کا حکم دیا اور وہاں زراعت اور پھر پانی چڑانے کا حکم دیا اور لوگوں کو وہاں آنے سے روک دیا ،یہ بات طبری ،ابن اثیر اور مسعودی وغیرہ اپنی اپنی کتابوں میں جابجا لکھا ہے ۔
''آل ابی طالب متوکل کے زمانے میں سختی اور مشکلات میں تھے ۔انہیں قبر حسین کی زیارت سے روک دیا گیا تھا اور اسی طرح کو فہ کی سر زمین غرا جہاں مزار علی ابن ابی طالب ہے۔ یہاں ان کے شیعوں کو جانے سے روک دیا گیا تھا ۔یہ واقعہ ٢٣٦ھ کا ہے ۔یہ روایت انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ غرامیں روضہ اور مزار کے بارے میں بتاتی ہے۔اور یہ مزار حامل آل ابی طالب کے نزدیک قابل اہتمام ہے ۔اور یہ قبر امیر المومنین کے ماننے والوں کے لیے مرکز ہے ۔وجود روضہ کے بارے میں شیخ محمد حرزالدین نے ابن تغری بردی سے روایت کی ہے جس میں متوکل کے امیر المومنین کے ساتھ بغض ظاہر ہو تا ہے ۔اس کی ایک امّ الفضل گویہّ (ناچنے' گانے والی عورت )کے ساتھ خلافت سے پہلے ناجائز تعلقات تھے ۔ایک دفعہ اس کو طلب کیا تو اس سے نہیں ملی ۔اور چند روز بعدوہ حاضر ہو گئی تو اس کے چہرے پر رونق تھی ۔متوکل نے اس سے پو چھا تو کہا ں گئی تھی ؟ تو اس نے جواب دیا حج میں تو اس نے کہا تمہاری ہلاکت ہو یہ حج کے ایام نہیں ہیں ۔اس نے کہا حج سے مراد حج بیت اللہ نہیں بلکہ میں مزار علی کی زیارت کرنے گئی تھی اس نے کہا اتنے میں متوکل نے کہا شیعوں نے تو اللہ کے فرض کئے ہوئے حج کو مزار علی کے لیے قرار دیا ہے۔اس کے بعد اس نے مزار کی طرف لوگوں کو جانے سے روک دیا''لیکن اس قسم کی ایک روایت ''مقاتل الطالبین ''میں ہے ۔جس میں متوکل کی ایک کنیز کے ماہ شعبان میں مرقد حسین پر جانے کا ذکر ہے ۔ بہر حال تغری بردی کے روایت اگر صحیح ہے تو کم ازکم یہ مزار علی کی وجود کے بارے میں توبتاتی ہے۔جو تیسری ہجری کے اوائل میں ایک بڑے قبے پر مشتمل تھا مگرمتوکل کا علی اور ان کے شیعوں کے ساتھ بغض زیادہ شدید تھا ،اور آل ابی طالب پرخلفائے بنی عباس میں سے سب سے زیادہ متوکل نے ظلم کیا ۔یہا ں تک کہا جاتا ہے کہ ابن اثیر کے مطابق متوکل کا بیٹا منتصرباللہ امام کے ساتھ شدید بغض رکھنے کی وجہ سے ان کے ماننے والوں کے قتل کو حلال قرار دیتا تھا ۔ ابن اثیر مزید آگے لکھتا ہے ۔وہ علی ابن ابیطالبـ اور اس کے خاندان کے ساتھ شدید بغض رکھتا تھا کوئی اس کے پاس علی اور اس کے خاندا ن کے ساتھ محبت کا اظہار کرتا تو اس کے جان ومال کی خیر نہیں تھی ۔ اور اس کی ہمنشینی ایک خنثیٰ کے ساتھ تھی جو اپنے لباس کے نیچے پیٹ پر تکیہ باندھ کر رقص کر تاتھا ۔ جب وہ گانے والے گاتے تھے تو یہ گنجا پیٹو خلیفہ مسلمین پر جھکتا تھا اورحضرت حضرت علیـکی شان میں گستاخیاں کیا کرتا تھا (نعوذباللہ )متو کل پیتا اور بہکتا رہتا تھا ۔
ایک دن اس مو قع پر منتصر بھی موجود تھا اور اس منظر کو دیکھ کر اس پر خوف طاری ہوا تو متوکل نے پوچھا یہ تمہاری کیا حالت ہوئی ہے ۔تو منتصر نے کہا اے امیر المومنین یہ جو کتا جس کے بارے میں کہہ رہا تھا اورلوگ اس پر ہنس رہے ہیں۔وہ تمہا راچچا زاد بھائی ہے ۔جس پر تمہیں فخر ہے ۔جس کا گوشت خود تو کھاو لیکن کتے کو مت کھلاو یہ سن کر متوکل نے گویوں کی طرف متوجہ ہو کر ایک شعر کہا ہے ۔اس جوان کو اپنے چچازاد بھائی کیلئے غیرت جاگ اٹھی اور اس کے بڑے مجلسوں میں علی کیساتھ بغض رکھنے والے جمع ہوتے تھے ۔ابن اثیر کے مطابق جن میں سر فہرست علی ابن الجہم عمرابن فر ح ،ابی السمطہ ،جو مروان ابن ابی حبصہ ،عبداللہ بن محمد الہاشمی تھے ۔یہ لوگ متوکل کو علویوںسے ڈراتے رہتے تھے ۔اور ان کے ساتھ برے سلوک کرنے کا مشہورہ دیتے رہتے تھے ۔اور اس گروپ میں اس کا وزیر عبداللہ بن یحییٰ بن خاقان جو کہ اہل بیت او ر ان کے ماننے والوں کے ساتھ یہ ناروا سلوک یہاں پر ختم نہیں ہو تا ۔بلکہ اس سے پہلے کئی خلفاء بھی کوئی کم نہ تھے انہوں نے جب قبر حسین کو گرانے کا مکروہ منصوبہ بنایا تو بغداد والوں نے دیواروں پر اس کے خلاف گالی گلوچ لکھنا شروع کیا ۔اور دوسری طرف شعراء نے اس کی ہجو گوئی کر نا شروع کیا ۔جن میں سر فہرست دعبل ،خزاعی،اور اس کے مکروہ ترین کارناموں میں یہ بھی تھا کہ اس نے امام ہادی بن الجواد کو مدینہ سے بغداد اور وہا ں سے سر زمین رے لانے کا حکم دیا یعقوبی اور مسعودی کے مطابق اس نے بالآخر امام کو شہید کر دیا ۔اور اہل بیت کے ساتھ اس کا رویہ صرف یہاں ختم نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ اس انقلاب کو بھی کچلنے کی کوشش کرتاہے ۔جو کہ محمد بن صالح بن موسیٰ بن عبداللہ بن حسن ابن حسین بن علی ابن ابی طالب جس نے مقام سویقہ جو مدینہ میں واقع ہے جہا ں آل علی ابن ابی طالب رہتے تھے۔ متوکل ابو ساج کی قیادت میں فوج کا دستہ بھیجا جنہوں نے ان کو شکست دی بعد ازاں انہیں قتل کیا اور ان کے خاندان کو گرفتا ر کیا پھر سویقہ کو ملیامٹ کر دیا ۔
یاقوت نے اپنی کتاب ''معجم البلدان''میں ایک جگہ لکھا ہے کہ یحییٰ بن عمر بن زید بن علی ابن حسین ابن علی ابن ابی طالب نے ٣٣٥ھ کو متوکل کے خلاف جب قیام کیا تھا توا سے بھی گرفتار کر کے قید کیا گیا تھا ۔پھر ٣٣٦ھ میں ابن اثیر کے مطابق اس نے روضہ اباعبداللہ الحسین کو گرانے کا حکم دیا تھا۔ ابن خلکا ن نے اپنی کتاب ''وفیات'' میں قبر حسین گرانے کے ساتھ قبر امیر المومنین اور ان کے دو بیٹوں کے مزارات کے ساتھ برا سلوک کر نے کا ذکر کیا ہے۔ موصوف آگے جاکر ایک حکایت نقل کر تا ہے کہ ایک بزرگ مذہب اہل امامت کی پیروی کر تا تھا ۔ جب متوکل کو پتہ چلا تو وہ اور اس کے ساتھیوں کوطلب کیا او ران سے پوچھا کہ رسول اللہ کے بعد بہترین بہادر شخص کون ہے؟ تو انہوں نے کہا'' علی بن ابی طالب ''اور یہ سن کر اس کے خادم نے یہ خبر متوکل کو دی ہے پھر وہ دوبارہ ان کے پاس آیا اور ان سے کہا خلیفہ کہتا ہے کہ یہ تو میر ا مذہب ہے ۔اگر یہ روایت صحیح ہے تویہ واقعہ اس کی ماں ااور بیٹا منتصر جو اپنے باپ کے اعتقاد کا مخالف تھا اور اپنے زمانے میں عباسیوں میں علی کو سب سے زیادہ چاہنے والا تھا کے واقعے کے بعد ہے ۔
اور شاید متوکل اباعبداللہ الحسین کی روضہ کو ٢٣٦ھ میں گرانے کے حکم کے بعد اسی سال اپنے موقوف سے ہٹ گیا ۔اس حوالے سے صاحب کتاب المنتظم نے یو ں لکھا ہے کہ محمد منتصر نے اپنی دادی شجاع کیساتھ ٢٣٦ھ کو حج کیا متوکل اپنی ماں کو نجف لے گیا ۔وہاں اس نے لوگوں میں بہت مال بانٹا اور یہ علویوں کے ساتھ زیادہ محبت اور انصاف کر نے والی خاتون تھیں ٢٤٧ھ بمطابق ٨٦١ ء کو اس کا بیٹا منتصر باللہ تخت پر بیٹھا۔ اس کا دور اہل بیت اور ان کے ماننے والوں کیلئے کشادگی کا دور تھا ۔ابن اثیر اپنی کتاب ''الکامل'' میں لکھتا ہے کہ وہ سخی کریم اور انصاف پسند شخص تھا ۔اور اس نے لوگوں کو قبر علیوحسین کی زیارت کا حکم دیا اور علویوں کو امان دی جوکہ باپ کے دور میں ڈرے ہوئے تھے ۔اس نے ان کو آزاد کیا اور باغ فدک کو حسن وحسین'ابنا علی ابن ابی طالب کے بیٹوں کو واپس دینے کا حکم دیا۔ڈاکٹر حدن حکیم آمالی شیخ طوسی سے ٢٤٧ھ کے واقعات نقل کرتے ہوئے عبداللہ بن دانیہ الطوری کے قول ذکر کیا ہے وہ کہتا ہے جب میں ٢٤٧ھ کو حج سے واپس آیا تو عراق جا کر امیر لمومنین علی ابن ابی طالب کی زیارت سلطان سے چھپ کر کی۔اس کی تائید مسعودی کا یہ بیان کہ متوکل نے قبر حسین کو گرانے کا حکم دیا اور علویوں اور ان کے شیعوں کے ساتھ جو کچھ کیا ۔پھر منتصر کی طرف منتقل ہو ا ۔اس ضمن میں وہ کہتا ہے: آل ابی طالب منتصر کی خلافت سے پہلے خوف ودہشت میں مبتلاء تھے ۔ انہیں اور ان کے ماننے والوں کو زیارت قبر علی وحسین سے روک دیا ۔اور یہ سلسلہ جاری تھا ۔تو منتصر خلیفہ بنا اس نے لو گوں کو امان دی اور آل ابی طالب کی طرف دست محبت بڑھادیا اور ان کے بارے میں کچھ کہنا چھوڑدیا اور قبر علی و حسین سے روکنا چھوڑ دیا اور نہیں روکا ۔اور باغ فدک کو حسنین کے بیٹیوں کو واپس کر نے کا حکم دیا اور آ ل ابی طالب سے پابندیاں ہٹادیںیا اور ان کے ماننے والوںسے تکلیف اٹھا دی۔بہر حال منتصر کی زندگی زیادہ لمبی نہیں رہی خلافت سنبھالنے کے چھے مہینے بعد٢٤٧ھ بمطابق ٨٦٢ ء کو اس دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔مسعودی نے مذکورہ واقعات کو بیان کیا ہے جسے ابن اثیر نے اہمیت دی ہے ۔اس سے ثابت ہو تا ہے کہ مزار علی ٢٣٦ھ سے پہلے نہ صرف موجود تھا بلکہ معروف بھی تھا۔ اور اسی جگہ میں تھا جہاں علی ابن ابی طالب اور ا ن کے ماننے والے اس کی زیارت بھی کیا کر تے تھے اور روایت ابن تغزی بردی کے مطابق یہی مطلب نکلتا ہے۔مگر جہاں تک دفن کی روایتوں کا تعلق ہے اس میں کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ اس مو ضع کے علاوہ کسی نے زیارت کی ہو اور میرے یہاں یہ بعید نہیں کہ متوکل کی ماں شجاع اپنے پوتے منتصر کے ساتھ حج سے واپسی پر مر قد علی کی اس موضع میں زیارت کی تھی ۔ اور المنتظم میںیہ ٢٣٦ھ بمطابق ٨٥٠ ء کے واقعات کے ضمن میں یہ بھی وارد ہوا ہے ''محمد منتصر اپنی دادی شجاع کے ساتھ حج پر گیا تھا اور واپسی پر نجف میں اسی موضع میں زیارت کی اور یہ واقعہ بھی درج ہے کہ اس خاتون نے علویوںکے لیے مال تقسیم کیا اور رسول اللہ کی روئت کا اثر تھا کیونکہ یہ ابھی ابھی حج بیت اللہ اور روضہ رسول کی زیارت سے واپس آرہی تھی اور یہ بھی بیان ہواہے کہ ایک زیادہ بخشنے والی خاتون تھیں او ر ٢٤٧ھ کو بالآخر اس نے وفات پائی اور اس کے پو توں میں سے منتصرنے نماز پڑھائی ۔اور میرے یقین میں اضافہ ہو تا ہے یہ خاتون جب نجف پہنچی تو اس نے مرقد امیر المومنین کی زیارت کی جو حجاج کے راستے سے زیادہ فاصلے پر نہ تھا جہاں سے یہ گزرتے تھے اور حج کے مو سم میں امیر المومنین کے نزدیک تمام علویین جمع ہوتے تھے ۔اور یہ بھی واضح ہے کہ جب ٣٣٦ھ متوکل نے ابا عبد اللہ الحسین کی روضہ کو گرانے کا حکم دیا تھا تو روضہ امیرالمومنین بھی بچا ہو ۔مجلسی نے ''بحار'' میں ایک روایت نقل کی ہے کہ محمد ابن علی ابن رحیم الشیبانی کہتا ہے کہ ایک رات میں اپنے والد علی ابن رحیم اور چچا حسین ابن رحیم کے ساتھ ٣٦٠ھ میں غری کی طرف قبر مولا نا امیرالمومنین کی زیارت کے ارادے سے نکلے اور ہمارے ساتھ ایک جماعت بھی تھی ۔جب ہم وہاں پہنچے تو قبر امیرلمومنین کے ارد گرد سوائے کالے پتھروں کے کچھ بھی نہ تھا چاردیواری بھی نہ تھی ۔
صندوقِ داؤد عباسی
یہ ظاہر ہو تا ہے کہ جو صندوق داود عباسی نے امام کی قبر اطہر پر رکھا تھا ۔اس حکایت میں بہت سارے لکھا ریوں کو وہم ہو ا ہے ۔ جو مزید تامل کی ضرورت ہے کہ یہ داود جو عباسی خاندان کا ایک فرد تھا اور٢٨٣ھ بمطابق ٨٨٦ ء کو کوفہ میں رہتا تھا ۔اور داؤد بن علی عباسی جو کہ سفاح اور منصور کا چچا تھا ۔جو کہ ١٣٣ھ کو وفات پا یا کے درمیان اشتباہ ہوا۔ اس وہم میں محدثین میں سب سے پہلے سید جعفر بحر العلوم مبتلاء ہو ئے ۔انہوں نے اپنی کتاب ''تحفةالعالم'' میں نبش قبر شریف کی ایک حکایت کو نقل کرتے ہوئے۔صندوق رکھنے والا شخص سفاح اور منصور کے چچا داود کو قرار دیا ہے اور جب مو صوف کو قبر کے بارے میں حقیقت کا پتہ چلا تو اس نے مصعب بن جابر کو وہاں ایک صندوق رکھنے کا حکم دیا ۔اور اس اشتبا ہ میں وارد ہو نے کی دوسر ی شخصیت جعفر محبوبہ ہے جو اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ جب دائود بن علی متوفی ١٣٣ھ بمطابق ٧٥١ ء نے قبر شریف پر لوگوں کا جوق درجوق آنا اور وہاںجمع ہو نے کا منظر دیکھا۔ تو اس نے حقیقت حال جاننے کا ارادہ کیا ۔یہ سوچ کر موضع قبرجو کہ اس کے خیال میں قبر علی ابن ابی طالب تھی اپنے غلام کو وہاں کھود نے کا حکم دیا۔جب اس پر حقیقت حال واضح ہو گئی تو اس نے قبر کو دوبارہ بند کیا اور اس کے اوپر ایک صندوق بنایا۔ یہ بات شیخ جعفر محبوبہ نے کتاب الفرحہ سے اصل خبر کو نقل نہیں کیا لگتا ہے کہ اس نے پوری خبر پڑھی ہی نہیں ۔اس کے بعد ڈاکٹر سعاد ماہرمحمد نے اس واقعے کو شیخ محبوبہ پر اعتماد کر تے ہوئے داود ابن علی کی طرف نسبت دی ہے ۔مجھے نہیں لگتا کہ اس نے بھی ''کتاب الفرحہ ''میں دیکھا ہو بلکہ شیخ موصوف پر اکتفا ء کیا ہے وہ کہتے ہے ۔
'' یہ فطری بات ہے کہ لوگوں کو اس جگہ کے بارے میں معلوم ہو جا نے کے بعد ایک علامت رکھی گئی ہو ۔اور کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلی علامت وہی صندوق ہے جسے داود ابن علی العباسی نے ١٣٣ھ میں بمطابق ٧٥١ ء میں رکھا تھا عنایت الدین کی روایت ہے کہ جب داود بن علی العباسی نے قبر شریف پر لوگوں کے اجتماع کو دیکھا تو حقیقت حال جاننے کا ارادہ کیا ''یہ کتاب الفرحہ میں مو جود اصل روایت کو نہ دیکھنے کی وجہ سے وہم میں مبتلا ہو ا کیو نکہ اصل روایت میں داود بن علی العباسی کے بجائے صرف داود ہے ۔
او ریہ شخص بنی عباس میں سے تھا ۔حکایت صندوق کا واقعہ موسوعہ نجف اشرف میں آیا ہے۔ لیکن مقا لہ نگار کا نام درج نہیں ہے ۔صرف حکایت صندوق کے عنوان کے ذیل میں درج ہے مرقد شریف دوسری مرتبہ داود ابن علی متوفی ١٣٣ھبمطابق ٧٥١ ء کے ہاتھوں ظاہر ہوا مزے کی بات یہ ہے کہ مقالہ نگار نے عباسیوں کا علویوں پر پہلا ظلم پھر شیعوں کو ان کے امام کی زیارت پر اصرار کر نے کے واقعات پر بحث کی ہے ۔ اور قبر مطہر داود بن علی عباسی کے زمانے تک سوائے ایک ٹیلے کے کچھ نہیں تھی تو اس محبت اور تعظیم کی وجہ سے ظاہر کیا اور جب اس کر امت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے دشمنوں کے دست وبرد سے بچایا تو ہم نے یہ ارادہ کیا کہ اسے اصل مصدر وسند اور تاریخی حقائق کے ساتھ نقل کریں تاکہ باغی گروہوں کے اقوال کے مغالطے کو ردّ کر سکیں۔پھر ابن طاوس کی الفرحہ میں موجود صندوق سے متعلق روایت میں محمد جعفر تمیمی بھی ہے جو اپنی کتاب ''مشہد الامام ''میں دوسری مرتبہ مرقد مقدس کا داود بن علی عباسی کے ہاتھوں ظہور اور عباسیوں کا علویوں کے ساتھ موقف بیان کرنے کے بعد لکھا ہے ۔یہی حالت داود بن علی عباسی کے زمانے تک باقی رہی اور انہوں نے قبر مطہر کو ظاہر کیا اور اس پر ایک صندوق بنایا ۔ اور اسی کرامات و تعظیم کی بدولت ہی اللہ تعالیٰ نے مرقد مقدس کو دشمن کے شر سے محفو ظ رکھا تو ہم اسے اصل مصدر وسند اور تاریخی حقائق کے ساتھ بیان کر نے کی کو شش کی تاکہ اہل مغالطہ کی باتوں کا توڑ ہو ۔اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مو لوعہ کی اس مقالہ میںمقالہ نگار کا نام مذکور نہیں ہے ۔اس کا سبب کاتب خود ہے اس کی وجہ ان دونوں نصوص میں مطابقت ہے۔پھر روایت نقل کی ہے اور اس میں توجہ نہیں کی ہے کہ یہ داود بن علی نہیں ہے بلکہ یہ کوئی دوسرا شخص ہے کیو نکہ اس کے واقعات ٣٧٢ھ بمطابق ٨٨٦ ء کے آس پاس موجود ہیں ۔
اس کے بعد متوہمیں میں حسین شاکری بھی شامل ہیں اس نے صندوق کی نسبت داود بن علی عباسی کی طرف دی ہے جس کی وجہ وہی پرانا اعتماد ہے جو روایت کو اچھے طریقے سے پڑھا نہیں ہے۔ اس کے بعد شیخ حرزالدین بھی اپنی کتاب ''تاریخ النجف'' میں اس وہم میں مبتلاء ہوا ہے ۔اگر چہ ان کی یہ کتاب دقیق معلومات اور قبر امام سے متعلق نصوص کثرةسے بھر ی ہو ئی ہے لیکن آخر میں انہوں نے بھی روایت صندوق کواول سے آخر تک بیان تو کیا ہے لیکن اس میں دقت کے ساتھ توجہ نہیں کی اور داود سے مراد داود بن علی عباسی کو سمجھا ہے ۔اور اس متوہمیں کے گروہ میں ڈاکٹر حسن حکیم کا نام بھی آتا ہے انہوں نے شیخ محبوبہ پر اعتماد کر تے ہوئے یوں لکھا ہے ''اگر ہم اس روایت کی صحت کو مانے تو قبرمقدس کا ظہور پہلا عباسی خلیفہ ابو العباس سفاح کے دور میں ہوا ۔جو کہ عباسی اور علوی کے درمیان اچھے تعلقات کا دور ہے کیو نکہ عباسیوں کو اس حوالے سے علویوں کی اشد ضرورت تھی ۔اس مو قعے سے فائدہ لیتے ہوئے امام سفاح اور منصور کے دور میں بھی اپنے خاص اصحاب صفوان الجمال وغیرہ کے ساتھ قبر شریف پر جایا کرتے تھے۔'' شیخ علی اشرقی نے تو اس روایت کے زمانے کو ابو العباس سفاح کے بجا ئے ابو جعفر منصور کا دور لکھا ہے ۔ وہ کہتا ہے ''کہا جاتا ہے پہلی مرتبہ قبر کا ظہور منصور عباسی کے دور میں ہو تھا جب وہ ہاشمیہ میں تھا۔اس وقت داود بن علی بن عبداللہ بن عباس نے آکر قبر شریف پر ایک لکڑی کا صندوق رکھا تھا ۔''
اب یہ تو معلوم ہو اکہ داود بن علی منصور کی ہاشمیہ منتقل ہونے سے پانچ سال پہلے ١٣٣ھ بمطابق ٧٥١ ء میں ہی وفات پا چکا تھا اور یہ نہیں معلوم کہ شیخ علی الشرقی نے یہ عجیب روایت کہاں سے لائی ہے۔ڈاکٹر حسن جو کہ ایک مشہور مورخ ہے ۔ اس کے نزدیک روایت صندوق ضعیف ہونے کی وجہ سے اس نے قبول کر نے میں احتیاط برتی ہے ۔لیکن اس مو قع پر دوسروں سے ہٹ کر ایک عجیب بات کہتا ہے کہ'' امام جعفر صادق ''نے سفاح اور منصور کے دور میں ہی قبر شریف کے اوپر مٹی جمع کرکے ایک رتیلی ٹیلہ بنا یا تھا ۔ جس کے بارے میں بعد میں رشید نے پو چھا تھا اب یہاں ریتلی ٹیلہ کا وجود حکایت صندوق کو کمزور کرتاہے ۔کیو نکہ اگریہ حکایت صحیح ہو تو رشید ٹیلہ کے بارے میں کیوں پوچھتا اب مجھے نہیں معلوم کہ موصوف کوکس نے بتایا کہ امام نے قبر شریف پر یہ ٹیلہ بنایا اور یہ ممکن نہیں ہے کہ اس صحراء میںیہ ٹیلہ آب وہوا سے بچابھی ہو۔ اس بارے میں ہم نے تفصیل سے اصلاح قبر مطہر جو امام جعفر صادق کے حکم سے ہوئی تھی۔ بیان کی ہے۔ اس مو قع پر ڈاکٹر حسن کا رشید کے ا ستفسار قبر اختیار کر نا عجیب بات ہے ۔کہا ں وہ صندوق جو داود بن علی نے رکھا تھا وہ بھی قبر پر نہیں رہا جو بعد میں نجف کے کسی اطراف سے ملا اور یہ معلوم ہے کہ داود بن علی کو سفاح نے قبرکا گورنر بنایالیکن اس کی حکومت یہاں زیادہ نہیں چلی تو فوراً وہ ١٣٢ھ میں لوگوں کے ساتھ حج پہ چلا گیا پھر وہاں مکہ ومدینہ کا گورنر مقرر ہو الیکن یہاںبھی وہ زیادہ دیر نہیں چل سکا بلاآخر آٹھ مہینے بعد مر گیا اس حوالے سے سید جعفر بحرالعلوم لکھتا ہے ۔ابن قتیبہ نے بھی لکھا کہ سفاح کو فے میں زیادہ مدت نہیں رہا تو وہ حیرہ چلا گیا۔ اور وہاں سے ١٣٤ھ میں انبا رچلا گیا اور وہاں پر ماہ ذوالحجہ ١٣٦ھ میں وفات پا یا ۔ان تمام با توں کے باوجودتاریخ نجف الاشرف موجود ہے ۔اس کتاب کی اہمیت کم نہیںہو تی کیونکہ اس موصوف نے نجف اور خاص طور سے روضہ مقدس کے با رے میں کافی معلومات جمع کی ہیں ۔شیخ محمدبن الحاج عبود کوفی اپنی کتاب ''نزہتہ الغری ''میں لکھتا ہے ''کہا جاتا ہے کہ اس نے قبر مطہر پہ ایک صندوق بنایا اور اس کے اوپر ایک قبہ بنایا موصوف رشید کی عمارت کے بارے میں بحث کرتے وقت صندوق کی بات کو بیان نہیں کیا جس کے اوپر قبہ تھا ''بلکہ صرف سابقہ روایت کو بیان کیا ہے اس کے بعد اسی روایت کو ایک نویں صدی کے عالم بغیر کسی اضافے کے اپنی کتاب ''عمدة الطالب ''میں لکھا ہے ،پھر ڈاکٹر حسن فوراً کہتا ہے ''ابو جعفر طوسی نے اس قبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا حدثنی ابو الحسن بن الحجاج نے کہا ہم نے یہ صندوق یہاں پر اس دیوار کے بننے سے پہلے دیکھا ہے جسے حسن ابن زید نے بنایا ہے۔'' اب آپ ملاحظہ کریں کہ اس روا یت میں قبے کا کو ئی ذکر نہیں ہے مگر یہ صندوق جوداود کے صندوق کے ساتھ ہوا ہے جس کا ہم ذکر کریں گے اور ڈاکٹر حسن نے اس کاحوالہ دیا ہے ۔شیخ طوسی قبر امام کے تعیین کے بارے اہمیت دینے والوں میں شامل ہے انہوں نے اس بارے میں اپنی کتاب تہذیب الاحکام میں بہت ساری روایات نقل کی ہیں جن میں سے اکثر کا ہم نے اشارہ کیا ۔در اصل ان کا نجف اشرف میں منتقل ہونا ہی عملی طور پر قبر مطہر کے موضع کے بارے میں مشکوک روایت کی عملی طور پر تردید کرنا ہے۔ وہ کربلابھی جاسکتا تھا جو آب وہو ا کی وجہ سے نجف سے زیادہ بہتر تھا ۔اور تہذیب الاحکام میں جو روایت صندوق مذکو ر ہے جو رشید اور اس قبے کے ساتھ کو ئی تعلق نہیں رکھتی ہے۔ بلکہ یہ روایت داود کے صندوق کے ساتھ مضبوط ہے یہاں اور ایک عجیب بات کا ذکر کروں کہ سید تحسین آل شبیب موسیٰ جو فرحتہ الغراکے محقق ہیں اس مو قع پر وہم میں مبتلا ء ہو ا انہوں نے تمہید کے شروع میں لکھا ہے۔ بنی عباس کے حکو مت آنے کے بعد وہ چھپا راز کھل گیا اور محفوظ خزانے کی جگہ معلوم ہوئی .......اور اس حالت میں لوگ جوق درجوق قبرشریف کی زیارت کے لیے جاتے تھے اتنے میں کچھ عباسی اور علوی بھی آتے تو داود بن علی عباسی نے احترام و تعظیم کی وجہ سے قبر مطہر پر ایک صندوق رکھنے کا حکم دیا ۔اور یہ صندوق کافی عرصہ تک وہاں رہا ۔اب مجھے نہیں معلوم کہ موصوف کو یہ وہم کیوں ہو احالانکہ اس نے اس کتاب کی تحقیق کی اور اس میں موجود نصوص میں غور فکر کیا ۔
محمد جواد فخرالدین بھی اس گروہ میں شامل ہے اس کی گراں قدر تصنیف ''تاریخ نجف عباسی کے آخری دور تک ''میں لکھتا ہے ''تمام مصادر کو جمع کرنے کے بعد یہ معلوم ہواکہ قبر امیرالمومنین پر سب سے پہلے نشان علی بن داود عباسی نے رکھا ''اب معلوم نہیں کہ اس کی تمام مصادر سے کیا مراد ہے۔ کیونکہ مجھے پرانے مصادر میں ایسی چیز نظر نہیں آتی پھر وہ شیخ طوسی کی صندوق والی روایت کا ذکر کر تے ہیں اور اس روایت کے شروع میں نہیںدیکھتا بلکہ صندوق کی تاریخ کو ١٣٢ھ کا بتاتا ہے۔اور اس سے داود بن علی عباسی کی حقیقت قبر مطہر کے بارے میں معرفت گردانتا ہے ۔جس کی وجہ داود کا علویوں اور ان کے ماننے والوںکے ساتھ محبت اور تعاون کو کہا ہے ،اور ان تمام اوہام کی کوئی بنیا د نہیں ہے۔ اسی طرح روضہ کے بارے میں شیخ محبوبہ کے بعد بہت سارے لوگوں کو وہم ہو ا ۔کہ نہ اس صندوق کے رکھنے کے بارے میں سفاح اور منصور کا چچا داود بن علی نے حکم دیا تھا ۔اور نہ ہی نبش قبر کے بارے میں کوئی حکم دیا تھا ۔ جو تیسری صدی تک کو فہ میں رہتا تھا ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت میں بنی عباس کا ہاتھ ہے اور اصل روایت شیخ طوسی کی ''تہذیب الاحکام ''میں یوں آئی ہے۔ ''ابوالحسن محمد ابن التمامالکوفی کہتا ہے کہ ہمیں ابوالحسن علی ابن الحسن الحجاج نے کہا ایک دن ہم اپنے چچا عبداللہ محمد ابن عمران بن الحجاج کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں اہل کوفہ کے بزرگوں کی ایک جماعت آئی ان میں عباس ابن احمد العباسی بھی تھے اور جب یہ سارے ہمارے چچاکے ہاں پہنچے تو انہوں نے سلام کیا کیو نکہ میرے چچا ماہ ذی الحجہ ٢٧٣ھ کو ابو عبداللہ الحسین ابن علی کے ثقیفہ کے سقوط کے وقت پہنچاتھا اور یہ لوگ بیٹھ کر باتیں کررہے تھے ۔اتنے میں اسماعیل ابن عدی عباسی بھی آیا اور اس جماعت نے جوں ہی اس کو دیکھا تو انہوں اپنی گفتگو بدلی تو اسماعیل وہاں بیٹھا رہا اور ان سے کہااے ہمارے بزرگوں اللہ آپ لوگوں کو عزت دے شاید میرے یہاں آنے کی وجہ سے آپ لو گو ں کی گفتگو تو نہیں کٹ گئی ؟ اتنے میں ان کے بزر گ ابوالحسن علی ابن یحییٰ السلمانی جو سب سے آگے بیٹھا ہو اتھا ؛نے کہا نہیں یا اباعبداللہ!اللہ آپ کو عزت دے ہم اس وجہ سے چپ نہیں ہوئے ۔اتنے میں اس نے کہا ؛اے میرے بزرگو!یہ جان لو اللہ کو حاضر ناظر رکھ کر میں آپ لو گوں کو بتاوں کہ جس مذہب کا میں اعتقاد رکھتا ہوں یہ ہے کہ ہر کوئی ولایت امیرالمومنین علی ابن ابیطالب اور دوسرے آئمہ میں سے ہر ایک پر اعتقاد رکھتا ہے اور ان کی اتبا ع کر تا ہے اور ان سے برات کر تا ہے جن سے انہوں نے برات کیا ہے ۔
یہ سن کر ہمارے بزرگ خوش ہوئے اور ایک دوسرے کے درمیان سوال وجواب کے بعد اسماعیل نے ان سے کہا کہ ایک دن جمعہ کی روز نماز کے بعد جامع مسجد سے ہم اپنے چچاداود کے ساتھ آرہے تھے ،تو راستے میں انہوں نے ہم سے کہا تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو سورج غروب ہونے سے پہلے میرے پاس آجاو اور تم میںسے کوئی پیچھے ہٹنا نہیں چاہیے، پھر وقت مقررہ پر اس کے پاس پہنچے تو وہ بیٹھے ہوئے ہمارا انتظار کر رہے تھے ۔پھر اس کہا کہ تم لوگ فلاں فلاں سے کہہ کر آواز دو اتنے میں دو آدمی اپنے سوار ی کے ساتھ آگئے پھر ہمارے چچاکی طرف متوجہ ہو کر کہا تم لوگ سارے جمع ہو جاو اور ابھی اس جمل (جو ایک کالاغلام کا نام تھا )اگر یہ غلام دریا ئے دجلہ کے بند پر تو وہ اپنے قوت سے دریا روکے گا اور تم سب اس قبر پہ جانا جہاں لوگ جمع ہونگے اور کہہ رہے ہو ں گے کہ یہ قبر علی ہے اور تم اس کو کھولنا اور اس کے اندر کچھ ہے وہ میرے پاس لے آو ۔پھر ہم اس موضع پر چلے گئے اور ہم نے کہا تو کھودنے والوں نے کھودنا شروع کیا ۔
اور اندر یہ کہہ رہے تھے ''لاحول ولا قوة الا باللہ العلیّ العظیم ''اور ہم ایک کنارے پر بیٹھے دیکھ رہے تھے ۔اتنے میں انہوں نے پانچ ہاتھ کھود ا تو زمین کی سخت مٹی شروع ہوئی تو کھودنے والوں نے کہا ہم سخت جگہ پہنچے ہیں تو ان کے سامان نے بھی کام کرنا چھو ڑدیا تھا پھر انہوں نے اس حبشی کو اتارا اور اس نے کدال اٹھا کر مارنا شروع کر دیا ۔تو قبر کے اندر سے ہم نے شدید آوازیں سنیں ۔پھر اس دوسری مر تبہ مارا تو یہ آواز اور شدید ہو گئی پھر اس تیسری مر تبہ مارا تو اور شدید ہو گئی پھر غلام نے خود ڈر کے مارے چیخنا شروع کیا پھر ہم نے ان سے کہا جو ا س کے ساتھ تھے اس سے پو چھو کہ کیا ہو ا اسے؟ تو اس نے ان سے بھی کچھ نہیں کہا بس چیختا رہا پھر ہم نے کہا اسے باندھ کر باہر نکا لوجب وہ نکلا تو ہم نے دیکھا اس کے انگلی سے لیکر گٹھنے تک خون لگا ہو اتھا اور وہ مسلسل چیخ رہا تھا ،ہم سے باتیں نہیں کر رہا تھا اور صحیح طریقے سے جواب بھی نہیں دے پا رہا تھا پھر ہم اسے سواری پر بٹھا کر جلدی واپس آگئے اور غلام کے دائیں طرف اس کی بازو میں مسلسل خون بہہ رہا تھا ۔جب ہم اپنے چچا کے پاس پہنچے تو اس نے کہا کہ تمہارے ساتھ کیا ہو ا؟ہم نے کہا جو آپ دیکھ رہیں ہے پھر ہم نے ساری صورتحال اسے بتادی اس کے بعد قبلے کی طرف رخ کیا اور اپنے اس عمل پر توبہ کی اور اپنے مذہب سے رجوع کیا اور ''تولّا''و ''تبرّا'' کیا اور اس کے بعد راتوں رات علی ابن مشعب بن جابر کے پاس آئے اور اس کو قبر پر ایک صندوق بنانے کا حکم دیا ۔اور کسی کو نہیں بتایا ۔اور قبر کو دوبارہ بھر دیا اور اس کے اوپر صندوق رکھ دیا اور کالا غلام اس وقت مر گیا ،ابو الحسن بن الحجاج نے کہا اس صندوق کہ یہ خوبصورت حدیث ہم نے دیکھی ،اور یہ صندوق حسن بن زید کے قبر پر دیوار بنانے سے پہلے ہے ۔
اور یہ دیوار حسن نے نہیں بنائی یہ وہم ہے بلکہ اس کے بھائی محمد نے بنائی ہے ۔اس کی تفصیل ہم عمارت کے بیان میں ذکر کریں گے ۔ابن طاوس نے خبر نقل کی ہے ۔کہ یہ طوسی سے نقل ہونے والی آخری روایت ہے ۔یہاں اس نے صرف ایک طوسی پر اکتفاء نہیں کیا ہے بلکہ اسے مختلف طریقوں سے توثیق کی ہے۔لہٰذاوہ کہتا ہے میں کہتا ہو ں کہ اسے ابوعبداللہ محمد ابن علی ابن عبدالرحمان الشجری نے سابقہ اسنا دکے ساتھ ذکر کیا ہے وہ کہتا ہے کہ مجھے احمد ابن عبداللہ الجوالقی نے کہا ہمیں علی ابن الحسن بن الحجا ج نے اس روایت کو بیان کیا ہے اور ا س نے کہا ''فقیہ صفی الدین بن محمد کہتا ہے میں نے یہ حدیث سید مفید کے داماد ابو العلی محمد بن حمزہ جعفر ی کے خط میں سید کے وفات کے بعدان کے درس میں دیکھی تھی دوسری روایت میں نے ابوالعلی کے خط میں دیکھی جیساکہ صفی الدین نے بیان کیا اور یہ میں نے ابن داود کے مزار میں ایک عتیق پر لکھے نسخے میں دیکھا تھا جس میں وہی لکھا تھا جسے میں نے پیش کیا ۔اور یہ میری تمام کتابو ں اور روایتوں میںسے پہلی کتاب ہے ۔جس میں عبداللہ بن عبد الرحمٰن بن سمیع اعزّہ اللہ کیلئے سہو تدلیس نہیں ہو اتھا اور یہ محمد بن داود القمی نے ماہ ربیع الثانی ٣٦٠ھ میں لکھا ہے......'' اور یہ روایت طوسی کے مطابق ہے ۔اور اس روایت کو علامہ مجلسی نے بھی بحار میں حرف بحرف نقل کیا ہے اور وہی سابقہ طریقوں کو بیان کیا ہے جسے طوسی نے بیان کیا ہے جس میں وہی شیخ مفید کے داماد ابو یعلی محمد بن حمزہ جعفر کا ذکر ہے اور انہوں نے ا سے مزار ابن داود القمی نامی ایک کتاب میں ایک ثقہ نسخہ دیکھا ہے جس کی تاریخ ٣٦٠ھ بمطابق ٩٧١ ء ہے۔
شیخ محمد بن الحاج عبود الکوفی نے بھی اس روایت کو تھو ڑی تبدیلی کے ساتھ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے ،جن کے مطابق نبش قبر اورصندوق کی حکایت عباسیہ کے ایک شخص سے ہے ،مگر سید محسن امیں نے اپنی کتاب اعیان الشیعہ میں صندوق کی حکایت کو روضہ کی عمارت جسے ہارون رشید نے بنوایا تھا کے ضمن میں بیان کیا ہے اور اس حکایت کو داود عباسی سے منسوب کیا ہے اور حاشیے میںلکھا ہے کہ ''بعض معاصرین نے کہا ہے یہ داود وہی داود بن عیسیٰ بن موسٰی بن محمد بن عیسیٰ بن علی ابن عبداللہ بن عباس ہے لیکن اسماعیل بن عیسیٰ کہتا ہے کہ میرا چچا نے کہا اس صورت میں داود ابن عیسیٰ اسماعیل کا بھائی نہ چچا، سوائے اگر اسماعیل بن عیسیٰ اور اس کا باپ دونوں کا نام عیسیٰ ہو وغیرہ ۔''
روایت صندوق کے بارے میں ہم نے اہم معلومات جمع کیں اور مرقد مطہر کے تاریخی واقعات کو تسلسل کے ساتھ جو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط تھے بیان کیا ہے ۔امام جعفر الصادق کے دست مبارک سے ہی قبر شریف مشہور ہو ااور انہوں نے ہی بعد میں اصلاح فرمائی، پھر اس ایک ٹیلہ نما کی شکل اختیار کی۔ خلفاء بنی عباس کے علویوںاور ان کے شیعوں کے ساتھ ہو نے والے سلوک کی وجہ سے ،پھر رشید نے اس کی اصلاح کی ۔پھر مامون ،معتصم اور واثق کے دور میں شیعوں کو قدرے آزادی ملی تو زئراین کی تعداد میں اضافہ ہو اتو ان کی ضرورت کی وجہ سے وہا ںدیوار اور بعض تعمیراتی کام ہو ابعدازاں قبر مطہر کی تعظیم اور احترام کی وجہ سے لفظ مشہد سے مراد ضریح امام علیـاستعمال ہو نے لگا پھر آہستہ آ ہستہ مشہد کے بدلے مدینہ علی یعنی شہر علی کے نام سے پکارا جانے لگا ۔عنقریب ہم ایک اور روایت بیان کریں گے جس کے مطابق مامون ،معتصم اور واثق زائرین کو روکتے نہیں تھے۔ ابن خلکان نے لکھا ہے کہ متوکل ان لوگوں سے اسی لیے نفرت کرتا تھا کیو نکہ یہ امیرالمومنین سے محبت کرتے تھے ان کے زائرین کو تنگ نہیں کرتے تھے ۔یہاں تک ٢٣٦ھ کو متوکل نے زائرین پر پابندی لگادی ۔
اور یہا ں تک بیا ن کر تی ہے کہ اس نے روضہ علی اور روضہ حسین کو گرانے کا حکم دیا اس کے بعد روضہ ایک مر تبہ پھر عام قبر وںمیں تبدیل ہوا جس کے ارد گرد چند سیاہ پتھروں کے کچھ بھی نہ تھا جس کے ذریعے قبر کو سہارا دیا ہو اہو ۔بعد میں یہ پتھر نجف کے اطراف میں پھیل گئے اس کے بعد روضہ مقدس مختلف مراحل سے گزر تا رہا اور متوکل کے مرنے کے بعد یعنی ٢٦٠ھ کے بعد کے حوالے سے علامہ مجلسی ایک اہم روایت بیان کرتے ہیں ۔
محمد بن علی بن رحیم الشتاتی یا الشیبانی نے قبر امام کی زیارت کی تو اس کی حالت دیکھی ۔یہ روایت قبر پر دیوار یا عمارت کے وجود والی روایت کی توثیق کیلئے اہمیت کی حامل ہے کیو نکہ وہا ں پر چند پتھر وں کے سوا کچھ نہیں تھا ۔تو دیوار اور عمارت کہاں سے آئی اور اس وقت داود عباسی بھی پہنچتا ہے ۔جو نبش قبر کر تا ہے اور اگر وہاںروضہ قبہ یا دیوار ہو تو اس نے نبش کیسے کی ہو گی؟ پھر داود کی صندو ق کا دور آتا ہے جسے اس نے ٢٧٣ھ بمطابق ٨٨٦ ء میں قبر پر رکھا تھا اور اس صندوق کا سالوں باقی رہنا اور اس کے بعد محمد بن زید الداعی کا روضہ امام کو بنوانا ۔اس کے بارے میں ہم بیان کر یں گے ۔ اور بعید نہیں ہے کہ وضع صندوق پھر محمد بن زید کے ہاتھو ں نئی تعمیر ات اور زائرین کیلئے کشادگی اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں وہ آہستہ آہستہ قبر مطہر کے آس پاس لوگ رہنے لگے لیکن گرمیوں میں موسم کی سختی اور پانی کی قلت کی وجہ سے یہ سلسلہ جا ری نہیں رہتا تھا خاص طور پر ایک بار پھر زائرین پر پابندی لگ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ٢٦جمادی الاول ٣٧١ھ کو عضدالدولہ البو یہی مرقد مطہر کی زیارت کیلئے آتے ہیں ۔اس کے بعد ہمیں وہاں رہنے والوں کی ایک لمبی فہرست نظر آتی ہے ۔جسے روضہ کی عمارت کے باب میں تفصیل سے بیان کریں گے ۔
محمد بن زید الدّاعی اور ضریح کی تعمیر
منتصر کی خلافت چھ مہینے سے زیادہ نہیںچلی ۔جس میں علوی کو بعض وقت مشکل گزارنا پڑا ۔اور ٢٤٨ھ بمطابق ٨٦٢ ء کو جب وہ مر گیا تو عباسی خلافت کا زوال شروع ہوا اور جب مسند خلافت پر متعین بیٹھا تو ترکو ں سے جان چھڑانے کیلئے سامراء سے بغدادمنتقل ہو ا لیکن وہ بھی جلدی معزول ہو ا اور اس کی جگہ معتزبااللہ آیا ۔پھر انہوں نے بغداد کو محاصرے میں لے لیا اور متعین کو قتل کیا اور نئے خلیفہ نے بعض تر کوں کو بھی قتل کر کے اپنی جان بچائی ۔لیکن باقی ترکوں نے اس پر دھاوا بول دیا اور اسے معزول ہو نے پر مجبور کر دیا پھر اسے جیل بھیج دیا اور اسی سال قتل کیا ۔اور اس کی جگہ نیا خلیفہ اس کا نام بھی معتز باللہ تھا آیا لیکن اس کی حکو مت بھی زیادہ مدت نہیں چلی اور وہ باالآ خر ماہ رجب ٢٥٥ھ بمطابق ٨٦٩ ء کو قتل ہو ا۔پھر نیا خلیفہ آیا جس کا نام مہدی تھا۔اس نے ترکوں سے بچنے کی کو شش کی اور وہ کسی حد تک ان کی قیادت کرنے میں کامیا ب رہا ۔لیکن بالآخر وہ بھی نا کام ہو ا۔اور اس کی داستان ٢٥٤ھ بمطابق ٨٧٠ ء کو ختم ہوئی۔اس کے بعد مسند خلافت پر احمد بن متوکل جو معتمد کے لقب سے مشہور تھا بیٹھا اور اس کی خلافت ٢٧٩ھ بمطابق ٨٩٢ ء تک رہی ۔اس دوران علویین کی طرف سے بہت سارے لوگوں نے قیام کیا شاید اس کثرتِ انقلاب کے اسباب یہ ہو کہ علوی مختلف جگہوں میں خلافت عباسیہ کا سورج غروب ہوتا ہو ادیکھناچاہتے تھے ۔جو دن بدن کمزور ہو رہی تھی ۔یا یہ سبب ہو کہ متوکل نے امت پر جو مصائب ڈھا ئے تھے جس کی وجہ سے امت اسے نہیں بخشتی تھی ۔اور یہی سلسلہ اس کے بعد بھی بنی عباس کے خلفاء کے ساتھ جاری رہا ۔
اس دوران ان تمام انقلابات اور خون خرابہ ہو نے کی وجہ سے زائرین امیرالمومنین اور امام حسین کی تعداد میں مکمل کمی واقع ہوئی اور مہدی کے دور میں حبشیوں نے بصر ہ میںقیام کیا اور مکمل طور پر قتل وغارت گری پھیلا دی ۔اہل ترک ان کے قیام کو نہ روک سکے ۔اور ان کے قائد یعقوب بن لیث الصفار نے یہ سلسلہ فارسجستان وکر مان تک بڑھا یا اور بغداد پہنچنے والاتھا اتنے میں معتمد کا بھائی جس کا لقب موفق تھا نے اس کے خلاف فوج تیا ر کرلی اور اسے روکنے میں کامیاب ہو ا۔لیکن صرف اس پر اکتفا ء نہیں کیا بلکہ خلیفہ نے فوج کا دوسرا دستہ اپنے بھا ئی احمد کے بیٹے معتضد کے ساتھ بھیجا جو بلا کا ذہین تھا اور بلا خر حبشی انقلاب کا چراغ گل کر نے میں کامیاب ہوئے ۔
اور ٢٧٠ھ بمطابق ٨٨٣ ء کو ان کے قائد کو قتل کیا اور اپنے چچا کی وفات کے بعد یہ ٢٧٩ھ بمطابق ٨٩٢ ء کو خلیفہ بنا اس دور میں عباسیوں نے تھوڑاسکھ کا سانس لیا لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہیں چلا جب معتضد ٢٩٩ھ بمطابق ٩١٢ ء کو مر گیا ۔اس کے بعد اس کے بھا ئی معتدر کو خلافت ملی ۔اگر ہم اس پورے دور پر نظر ڈالیں تومعتضد کا دورعلویو ںکیلئے کچھ سکھ وچین کا نظر آتا ہے ۔جس کی وجہ یہ ہے کہ معضد نے خلافت سنبھالنے سے پہلے امام علی ابن ابی طالب کو خواب میں دیکھا تھا ۔انہوں نے اسے خلافت کی بشارت دی تھی ۔اور اپنے آل کے ساتھ ایذارسانی سے باز رہنے کا تقاضا کیا تھا ۔تو اس نے سمعًا وطاعةً قبول کیا تھا ۔اس واقعے کو مسعودی،طبری ،اور ابن اثیرنے تفصیل کے ساتھ اپنی اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے۔ روایت یہ ہے :
میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نہروان کی طرف اپنی افواج کے ساتھ بڑھ رہا تھا ،تو میںنے دیکھا راستے میں ایک ٹیلے پر ایک آدمی کھڑا نماز پڑھ رہا ہے ۔اور میری طرف دیکھتا بھی نہیں ہے تو مجھے اس پر تعجب ہو ا لیکن جب وہ نماز سے فارغ ہو ا ،تو مجھے اپنی طرف بلایا، اور میں اس کے پاس گیا، تو مجھ سے کہا تم مجھے جانتے ہو ؟ میں نے کہا نہیں انہوں نے کہا میںعلی ابن ابی طالب ہو ں ۔اس چھڑی کو اٹھا و اور زمین پر زور سے مارو ،تو میں نے اٹھا یا اور زور سے مارنا شروع کیا اتنے میں مجھ سے کہنے لگے کہ اس پر تمہا رے بیٹوں کی حکو مت ہو گی لہٰذامیری اولاد کے لیے ان سے خیر کی وصیت کرو'' لیکن مجھے لگتا ہے کہ خواب والی بات میں تجاوز ہوئی کیونکہ معتضد خلفابنی عباس کے مضبوط اور مقتد ر خلفاء میں سے تھے ۔اور انہوں نے اپنے چچا کے عہد میں عسکری تربیت حاصل کی تھی اس کے ساتھ ایک طویل عرصہ سیاسی مشق بھی کی تھی۔ اور حکو مت کے مختلف عہدوں پر کام کر نے کی وجہ سے اسے زمانہ سابق کے احوال کا اچھی طرح معلوم تھا ۔
میرے گمان کے مطابق اس کے ان سابقہ معلومات سے اس کو اندازہ ہو اتھا کہ علوی انقلابات کی بیخ کنی ایک مشکل اور محال امر ہے ۔اور ان سے وہ بچ بھی نہیں سکتا تھا اس وجہ سے اس نے ان کے ساتھ نرم گوشہ اختیا ر کیا تاکہ خلافت عباسیہ اپنی دوسری مشکلات کے ساتھ نمٹ سکے۔لیکن اس کے باوجوداس کے دور میں کثیر تعداد میںآل علی شہید ہوئے اور مسعودی کے مطابق محمد بن زید بھی اسی کے دور میں ٢٨٧ھ کو شہید ہوئے اور جب معتضد نے اپنے اس بہادر کی موت کی خبر سنی تو دکھ کا اظہار کیا۔ جس کی ابن اثیر نے تائید کی ہے لیکن ابو الفرج نے اپنی کتاب مقاتل الطالبین میں لکھا ہے کہ محمد بن زید ماہ رمضان ٢٨٩ھ میں وفات پایا اور اسی سال معتضد بھی فوت ہوا اور بات ظاہر ہو تی ہے کہ محمد بن زید بن محمد بن اسماعیل بن الحسن بن علی بن ابی طالب نے اپنے چچازاد بھائی حسن بن زید کے بعد طبرستان اور اس کے اطراف پر حکومت کی تھی اور ہمیشہ اس کی رعیت بغداد،کوفہ ، مکہ ،اور مدینہ میں اپنے چچازادبرادران آل علی ہی رہے تھے ۔لہٰذاوہ ان کی خفیہ طریقے سے محمد بن الوردالعطار جو بغدادمیں اس کے مددگاروں میں شامل تھا کے ذریعے مددکرتا رہتا تھا ۔اور طبرستان سے ایک دفعہ محمد بن زید نے ٢٨٢ھ میں ابن الوردکے لیے ٣٠ ہزار دیئے تھے ۔تاکہ وہ اس رقم کو آل علیکے درمیان تقسیم کرے لیکن طبری اس رقم کو ٣٢ہزار دینا کہتا ہے ۔اس طرح محمد سالانہ اسی مقدارمیں رقم ابن الورد کے لیے بھیجا کر تا تھا ۔اور وہ آل علی کے درمیان تقسیم کرتا تھا اور اس سال معتضد کو اس صورت حال سے آگاہ کیا گیا ۔پھر معتضد نے اس صورت حال کو جاننے کے لیے اپنے پولیس کے رئیس کو اپنا خواب بتایا لیکن وہ پھر بھول گیا ۔اور جب ابن الورد تک اموال پہنچنے کا علم ہو ا تو اس نے ابن الورد کو گرفتا ر اور معتضد کو خبر دی تو فورامعتضد کو وہ خواب یاد آیا ۔پھر اس نے ابن الورد کو آزاد کرنے کا حکم دیا اور مال واپس کروایا تاکہ تقسیم کریں لیکن اس بار اسے خفیہ طریقے نہیں بلکہ کھلم کھلا تقسیم کرنے کی اجازت دی گئی نہ صرف یہ بلکہ محمد بن زید کو طبر ستان میں لکھ بھیجا تاکہ یہ مال کسی سے چھپا کر نہیں بلکہ کھلم کھلا بھیجنے کا کہا ۔اورایک قدم اور آگے بڑھ کر معتضدنے اپنی پولیس کو اس مہم میں مدد کر نے کا حکم بھی دیا اور اس طرح وہ آل ابیطالب کے ساتھ قربت اختیار کرنے میں کامیاب ہو ا ،یہ واقعہ طبری ،مسعودی ،ابن اثیر، اور ذہبی، نے اپنی اپنی تاریخ کتابوں میں لکھا ہے ۔
اس سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ روضہ مقدس تیسری صدی ہجری کے نصف میں بنا ہے۔ کیونکہ اسی صدی کے ساتویں دہائی کے اوائل میں قبرمطہر کے اطراف میں سوائے سیاہ پتھر وں کے کچھ بھی نہ تھا نہ وہاں دیوار تھی اور نہ ہی کو ئی عمارت وغیرہ ۔مجلسی نے محمد بن علی بن رحیم الشیبانی کی روایت کو موسوی کی تحقیق کر دہ الفرحہ سے نقل کیا ہے ۔
اور یہ شیبانی جس نے ٢٦٠ھ کے درمیان قبر کی زیارت کی تھی ۔ان کے مطابق قبرمیں سوائے چندسیاہ پتھر وں کے دیوار وغیرہ نہیں بنی تھی ۔لیکن سب سے پہلے محمد بن زید کی عمارت کے حوالے سے ابواسحاق الصابی نے اپنی کتاب ''المتزع ''میں ذکر کیا ہے جس کو ڈاکٹر محمد حسن نے نقل کیا ہے کہ ''محمد بن زید وہ پہلا شخص ہے جس نے سب سے پہلے قبر علی ابن ابی طالب اور قبر حسین ابن علی غری اور حائر میں تعمیرات کیں اور اس تعمیر میں انہوں نے ٢٠ ہزار دینار خرچ کیا''میرے خیال میں اس حوالے سے الصابی کی عبارت زیادہ دقیق ہے گرچہ قبر ایک سے زیادہ مر تبہ تعمیر ہوئی لیکن گمان غالب یہ ہے کہ سب سے پہلے وہاں مزار محمدبن زید الداعی نے بنوایا تھا۔شاید عمارت مرقد مقدس کے بارے میں اہلسنّت کے بھی قدیم اشارات ملتے ہیں۔ جیساکہ ابن جوزی نے اپنے شیخ ابوبکرالباقی سے نقل کیا ہے اور انہوں نے الغنائم بن الزسی جو ماہ .....٤٢٤ھ میں پیدا ہوئے ۔وہ کہتا ہے ''کو فہ اہلسنّت وحدیث میں سے سوائے ابی کے کوئی نہیں تھا اور وہ کہتا تھاکو فہ میں٣١٣ ،اصحاب دفن ہیں ۔ان میں صرف قبر علی ظاہر ونمایاں ہے۔ اور آگے وہ کہتا ہے کیو نکہ جعفر بن محمد بن علی بن حسین یہاں آتے تھے اور قبر امیر المومنین کی زیارت کر تے تھے اور وہاں صرف یہی قبر تھی۔
پھر ایک دن محمد بن زید الداعی آیا ہے اوراس پر تعمیر کروائی ہے اور کوئی شک نہیں کہ یہاں صرف یہی قبر موجود تھی ۔اور ہم بیا ن کر چکے کہ محمد سے پہلے قبر کی اصلاحات وغیرہ کیسے ہوئی۔ اس عمارت کے بارے میں ابن طاوس نے اپنی کتاب الفر حہ میں ذکر کیا ہے لیکن ان روایت میں یہ عمارت زید کے بھائی حسن کی طرف منسوب ہے ۔در اصل یہ ابن طاوس کو وہم ہو اہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے محمد بن حمزہ جعفر ی شیخ مفید کے داماد کی روایت پر اکتفا ء کیا ہے جسے ہم بیان کر چکے ۔ شیخ محمد حسین حرزالدین نے تا ریخ نجف اشرف میں تاریخ طبرستان سے نقل کیا ہے ۔ ٢٨٣ھ کے حدود میں محمد بن زید المعروف الداعی الصغیر جو ملک طبرستا ن تھا ،نے امیرالمومنین کی قبر پر ایک عمارت بنوائی تھی جو ایک قبہ دیوار اور ستر کمروں پر مشتمل ایک قلعہ تھا۔ اور یہ کمرے اس لیے بنوائے گئے تھے تاکہ زائرین اور مجاورین وہاںٹھہر سکے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد خود تو طبرستان سے نہیں آیا تھا لیکن اس نے معتضد کے موقف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جس طرح وہ اموال تقسیم کیلیے بھیجتا تھا اسی طرح کچھ اموال روضہ کی تعمیر کے واسطے بھی بھیج کر روضہ کو بنوایا ۔اس بات کی تائید ہمیں ڈاکٹر حسن حکیم کی کتاب تاریخ نجف اشرف سے بھی ہوتی ہے وہ لکھتا ہے سید الداعی علوی نے طبرستان سے کچھ اموال نجف اشرف ،کربلا ،اور مدینہ منورہ میںبھیجنے کا حکم دیا تاکہ مقامات مقدسات کی تعمیر ات ہو سکے ۔''
اس واقعے میں محمد جواد بن فخر الدین دو باتوں کو ترجیح دیتا ہے ۔
١۔ محمد بن زید کا قبر مقدس کی زیارت کرنا اور اس کی صورت حال کا علم ہونا ۔
٢۔ اس قبرشریف پر دیوار بنوانا ۔
''پھر ان کے بھا ئی نے اس پرقلعہ نما عمارت کی تعمیر کر وائی جو ستر کمروں پر مشتمل تھا ۔اور یہ دونوں ترجیحیں قابل حجت ہیں ۔پھر شیخ محمد عبود الکوفی الغروی نے بھی سید نوراللہ شوستری کی کتاب مجالس المومنین کے حوالے سے لکھا ہے کہ محمد بن زیدنے ٢٨٠ھ میں قبر امیر المومنین بنوایا تھا ۔ لیکن میرے حسا ب سے یہ تاریخ صحیح نہیں ہے ۔کیو نکہ معتضد کو محمد ابن زید کی طرف سے مال آنے کی اطلاع ٢٨٢ھ میں ہوئی ہیتواس سے پہلے روضہ کی تعمیر کیسے ممکن ہوئی اور اس وقت جو مال آتا تھا وہ بھی خفیہ طور پر آتا تھا ۔تو گمان غالب یہ ہے کہ تعمیر کا حکم ٢٨٢ھ بمطابق ٨٩٥ ء کے بعد ہی ہوا ہے ۔ لیکن زیادہ مرجوح یہ ہے کہ ٢٨٢ھ میں یہ کام کیسے ممکن ہو ا تھا ۔اور ضروری ہے کہ محمد بن زید نے وہا ں لوگوں کیلئے مستقل رہنے کابندوبست کیا تھالیکن یہ زیادہ عرصہ نہیں باقی رہاکیونکہ ان کے ٢٨٩ھ بمطابق ٩٠٠ ء میں شہید ہونے کے بعد عمارت کو اس بیابان میں سخت موسمی تغیرات کی وجہ سے نقصان ہواتھا۔ اس عمارت کی تاریخ داود کی صندوق کی حکایت والی ٣٣٣ھ بمطابق ٩٤٥ ء میں ملتی ہے کیونکہ علی ابن الحجاج کی روایت ہے کہ انہوںنے یہاں داود کی صندوق اور زید الداعی کی عمارت دونوں دیکھا تھا۔ اگرچہ علی ابن حسن الحجاج کی اس روایت میں عمارت کو زید کی نسبت دینے میںغلطی کی ہے'' کیو نکہ وہ کہتا ہے''ہم نے صندوق کو زید کی یہاں دیوار بنوانے سے قبل دیکھا ہے ۔''
لیکن میں اس حوالے سے اس بات کو ترجیح دیتاہوں کہ زید کی عمارت بننے سے قبل روضہ مقدس کے آس پاس لوگ رہنا شروع ہوا تھا ۔محمد زید کو معتضد کے کھلم کھلااموال تقسیم کے حکم دینے کے بعد ہی راہ کھلی تھی ۔شاید ان کا زید کو فضیلت دینے کی وجہ ہو کہ کیونکہ اس نے اس مشکل اور سخت حالات میں مجاورین روضہ کی مالی مدد کی ۔میرے خیال میں وہاںشہر کی ابتداء اسی وقت سے ہو تی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس شہر کی ترقی کا راز در اصل خلافت عباسیہ ہے جیسا کہ حبشی قرا مطیوں اور ان کے بعد ترکوںکا خلافت پر دھاوا،پھرقرمطیوں کا کو فہ کو مر کز بنانا جس کی وجہ سے قبر کے آس پاس لوگوں کو رہنے کا موقع ملا ۔پھر وہ جنگیں جو مقتدر کے دور میں قرامطہ نے نہ روضہ کو نقصان پہنچایا اور نہ ہی اس کے مجاورین کو ایذارسانی کی ۔اور اس عرصہ میں کچھ دینی علمی شخصیات ابھر کر سامنے آئیں جس میں محدث محمدالشیبانی ،حسین بن احمد،المعروف جو اسماعیلیوں کے یہاں المستور سے مشہور ہے مگر تیسری صدی کے آخر ی دھائی میں وہاں مسلسل زیارتوں کا سلسلہ شروع ہو تا ہے ۔جیسا کہ محمدحسین حرزالدین نے بیان کیا ہے۔
عمارت حمدانیہ
حمدانی نے تاریخ اسلام کی تیسری صدی کے اواخر سے چوتھی صدی کے نصف ثانی تک بڑے بڑے واقعات وحادثات کا مشاہدہ کیا ہے لیکن اس خاندان کازوال اس وقت شروع ہو تا ہے جب اس کی مشہورشخصیت امیر سیف الدولہ حمدانی ٣٥٦ھ /٩٦٧ ء وفات پاتا ہے۔مگر اس خاندان کی آبیاری کرنے والی شخصیت موصوف کے والد ابو ہیجا ء عبداللہ بن حمدان بن حمدون الثعلبی ہے۔جس کو موصل وغیرہ کی ایک سے زیادہ مرتبہ گورنری نصیب ہوئی تھی اس کے وفات کے بعد ان کے برادران پھر بیٹے حسن اور اس کا بھا ئی موصل وغیرہ کے گورنر بنے بلکہ حمدانیوں کی حکومت ان کے بیٹے سیف الدولہ کے زمانے میں بلاد شام وغیرہ تک پھیل چکی تھی ۔ابن اثیر ،ابن کثیروغیرہ نے اپنی اپنی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے ۔اس زمانے میں خلافت عباسیہ کے واقعات میں اس خاندان کابڑا کردار رہا ہے ۔خاص طور سے امارت عربیہ میں اس کے فرزندوں نے رومی حملوں کو روک کر انہیں شکست فاش کر کے فتح وکامرانی حاصل کی تھی۔ اور عباسی حکو مت میں جتنے اس خاندان کے بادشاہوں نے جو علما ء ،ادباء ،شعراء دیکھے ہیں کسی اور خاندان نے نہیں دیکھے ۔مگر جس مو ضوع میں ہم گفتگو کر رہے ہیں وہ ہے مرقد مقدس کی عمارت جس کی تعمیر میں خاندان کے بانی ابو ہیجا ء نے کثیر مال خرچ کیا ہے جس کا ذکر ابن حوقل، اصطخری ،اور ادریس وغیرہ نے کئی مرتبہ کیاہے بلکہ ایک مستشرق (K.LASTRANJ) نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے او رکہا ہے یہ ٢٩٢ھ/٩٠٥ ء میں مو صل کا امیر تھا اور اس سے پہلے وہ یہاں امیر رہ چکا تھا اور بالآخر ٣٠١ ھ بمطابق ٩١٤ ء کو معزول ہو ا اس کے بعد ان کے فرزندحسن اور برادر ان ایک سے زیادہ مرتبہ اس علاقے کے گورنر رہے ۔جیساکہ ابن اثیر نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے ۔
اس کے بعد ابن اثیر مزید ان سالوں کے واقعات پر گفتگو کرتے ہو ئے لکھتا ہے کہ یہ خاندان محبت اہل بیت کی وجہ سے مشہور تھا جس کا ابن کثیر نے بھی اعتراف کیا ہے ۔بلکہ اس کے بارے میں لکھا ہے کسی اور نے بھی لکھا ہے ۔ سید محسن امیں نے اپنی کتاب اعیان الشیعہ میں بیان کیا ہے کہ بعض معاصرین نے صاحب خریدہ العجائب کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ کوفہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس میں ایک عظیم قبہ ہے کہا جاتا ہے کہ یہ قبر علی ہے اور یہ قبہ ابو عباس عبداللہ بن حمدان نے دولت بنی عباس میں بنایا ہے ۔سید عباس موسوی العاملی مکی نے اپنی کتاب نزہتہ الجلیس میں لکھا ہے ۔قبر آدم، نوح ،اور علی پر ایک بڑا قبہ بنایا ہوا تھا اور سب سے پہلے اس قبے کو عبداللہ بن حمدان نے دولت عباسیہ میں بنایا تھا پھر اس کے بعد وہی سیف الدولہ جس کا لقب ابوالہیجا ہے کا باپ ہے ۔جو ٢٩٣ھ بمطابق ٩٠٦ ء میں مو صل کے امیر تھے ۔اس بنا پر عبداللہ بن حمدان کی عمارت عضدالدولہ کی عمارت سے پہلے بنی ہے کیونکہ ابن حمدان ٣١٨ھ بمطابق ٩٢٩ ء سے پہلے فوت ہو چکا تھا ۔لیکن کو ئی بھی اس عمارت کی تاریخ معین کر نے میں متفق نظر نہیںآتے۔
اور مجھے گمان غالب یہ ہے کہ اس حوالے سے یہ کام ٣١١ھ/٩٢٣ ء میں سر انجام ہواتھا اس لیے ابو الہیجا ء اسی سال ٣١١ھ کو خلیفہ کی نیا بت میں حج کے لیے روانہ ہو گیا تو ضروری ہے کہ اس نے کو فہ میں اس دوران قیام کیا ہو جیسے عراقیوں کی عادت تھی پھر انہوں نے قبر امیر لمومنین کی زیارت کی اوروہاں عمارت کی تعمیر کا حکم دینے کے بعد حج کیلئے روانہ ہوئے اور ان کی سیرت میں یہ بات بھی مو جودہے کہ جب وہ حج سے واپس آرہا تھا تو راستے میں ابوطاہر قرمطی ان کے قافلے پر حملہ آور ہوئے اور ان کی بڑی قتل وغارت گری ہوئی اور عبداللہ نے اپنے قافلے کی دفاع میں کافی کوشش کی لیکن بالآخر قرمطی نے ان کو شکست دی اور قافلہ کے اموال اور سواری کے جانوروں کو لوٹ لیا ۔اور عبداللہ ان کے ہاتھوں پھنس گئے ۔اور ابوطاہر نے تقریباً ایک ہزار آدمی پانچ سو عورتیں گرفتار کیں کہ اسی سال محرم الحرام میں واقع ہوا۔ابن اثیر کے مطابق ٣١٢ھ میں قرمطی کو فے میں داخل ہوا۔ اور عبداللہ سمیت تمام اسیروں کو رہا کیا اس میں کوئی شک نہیں کہ رہائی کے بعد عبداللہ آرام کرنے کے لیے فورابغداد واپس آگیا ۔اس کی ذمہ داری کا یہ حال تھا کہ خلافت عباسی میں ترکوں کی مداخلت کی وجہ سے فتنہ پھوٹ رہا تھا ۔ لیکن ابو الہیجا ء اس زمانے کے نمایاں عسکری اور سیاسی شخصیات میں تھے۔ اور ٣١٧ھ کو عباسی خلیفہ قاہر کو ترکوں پر فتح حاصل ہوئی کیو نکہ اسے قتل کرکے اس کے بھا ئی مقتدر کو دوبارہ اپنی جگہ میں واپس لانا چاہتے تھے ۔ابن اثیر نے یہ لکھا ہے کہ عبداللہ نے قاہر کا دفاع کر تے ہوئے اسے موت سے بچایا اور اس جنگ میں اپنا بازو اور سر کٹوایا ۔اور اثیر اورابن کثیر نے اپنی اپنی کتابوں میں ابوالہیجا پر بہت روایتیں لکھی ہیں ۔لیکن دونوں نے اس کی تعمیر روضہ میں مشارکت کا ذکر ہی نہیں کیا۔ لیکن ابن حوقل جو پانچویں صدی ہجری کے ایک سیاح ہے نے اس کی مشارکت تعمیر روضہ کے بارے میں بیان کیا ہے ۔
اس پر اعتماد کرتے (K.LASTRANJ)سے ابو الہیجا کی طرف منسوب کیا ہے اور انہوں نے مشہد امیر المومنین کی حدیث کو لمبا ہو نے کی وجہ سے ٹکر اٹکرا کر کے لکھا ہے ۔اور اس کی نسبت کسی کتاب کی طرف نہیں دی ہے ۔وہ بیان کر تا ہے کہ قبر امیر المومنین پر ایک عظیم قبہ بنا ہوا تھا جس کے تمام اطراف میں مختلف دروازے تھے ۔ان دروازوں اعلی قسم کے پردے لگے ہوئے تھے اور اندر چٹائیاں بچھی ہوئی تھی ۔اور اصطخری کہتا ہے کہ قبر علی کوفے کے قریب ہے۔ اور اس کی جگہ کے بارے میں اختلاف ہے کہا جاتا ہے کہ یہ جامع مسجد کو فہ کے دروازے کے کونے میں ہے کیو نکہ بنی امیہ کے خوف سے پو شیدہ رکھی گئی تھی۔اس جگہ میں میں نے چارہ بیچنے والے کی دوکان دیکھی ہے اور بعض یہ گمان کر تے ہیں ،کہ کو فہ سے دو فرسخ کے فاصلے پر ہے جہا ں آج بھی قبر ستان کے آثار ہییں۔اس ضمن میں ابن حوقل کہتا ہے امیر المومنین کوفہ میں ہیں اور ا س کے مو ضع کے بارے میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کوفہ کے کسی کو نے میں ہے کیو نکہ بنی امیہ سے چھپایا گیا تھا ۔اور اس جگہ آج کل چارہ کی دوکانیں موجود ہیںاور ان کی اکثر اولاد کا خیال ہے کہ ان کی قبر کو فہ سے دو فرسخ پر واقع ہے۔اور اس میں کو ئی شک نہیں کہ ان کی اولاد کا گمان دوسروںکی گمانوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ڈاکٹر محمد حسن حکیم اپنی کتاب مفصل تاریخ نجف اشرف میں لکھتے ہیں ، مرقد علوی شریف پرچوتھی صدی ہجری کے دوران وسیع عمرانی ترقی ہوئی جس کی ابتداء ابو الہیجا عبداللہ بن حمدان متوفی ٣١٧ھ بمطابق ٩٢٩ ء نے محمد بن زید الداعی کے بنائے ہوئے عمارت کو بڑھاتے ہوئے کیا ۔اور وہ مرقد شریف پراس نے مظبوط قلعہ ساتھ ایک لمبا قبہ بھی بنایا جس کے تمام اطراف میں دروازے تھے ۔اس حولے سے ڈاکٹر سعاد ماہر نے بھی اہم اضافوں ذکر کیا ہے ۔لیکن ا ن سے پہلے شیخ محمد حسین حر زالدین نے ماسینوں کی کتاب خططة الکوفہ پر اعتماد کر تے ہوئے لکھا ہے کہ امیر حمدانی جو کہ اوپر گزرا ،نے محمد بن زید کے ہاتھو ں بنی ہوئی عمارت کی تو سیع کی ۔پھر شیخ موصوف مشہد امیر المومنین کے بارے میں ابن حو قل کی حدیث کو نقل کیا ہے۔ اس پر ڈاکٹر سعا د ماہر کی بیان کا اضافہ بھی کیا ابو الہیجا عبداللہ بن حمدا ن نے جب اس جگہ کو دیکھا تو اس پر ایک مضبو ط دیوار بنایا اور قبر مطہر کے اوپر ایک بلند و بالا قبہ بنا یا جس کے چاروں اطراف میں دروازے تھے ۔اور اس پر اعلیٰ قسم کے پردے لگے ہویئے تھے ۔اور اس کے فرش پر قیمتی ثمانی چٹائیاں بچھی ہوئی تھی۔اور یہاں پر امیرالمومنین کی اکثر اولاد دفن ہیں ۔اور اس بڑی دیوار سے باہر جو جگہ ہے اور اس قبے سے باہر سادات آل ابی طالب دفن ہیں ۔اور اس بڑی دیوار سے باہر جو جگہ ہے وہ بھی آل ابی طالب کیلئے وقف کی گئی تھی ۔لگتا ہے کہ شیخ محمد حسین حرزالدین کو اس عمارت کے زمان کی تعین کرنے میں بڑا اشتباہ ہو ا ہے ۔جو کہ ٣١٧ھ بمطابق ٩٢٩ ء اس زمانے میں ابو الہیجا ء بغداد میں قتل ہو اتھا ۔اور خلافت کے معاملا ت ڈانواڈول تھے ۔مجھے لگتا ہے کہ اس نے یہاں پر صحیح تاریخ بیان کر نے میں بھی اشتباہ کیا ہے ۔کیو نکہ ابو الہیجا ء ٣٣١ھ کو حج پہ گیا تھانہ کہ ٣١٧ھ کو اور میر ے نزدیک جو یقین کے قریب ہے ۔ کہ اس نے ٣١١ھ میں ہی کو فہ میں قیام کے دوران اس نے روضہ کی زیارت بھی کی تھی مگر ٣١٤ھ بمطابق ٩٢٤ ء کو حج سے واپسی پر گرفتا ری سے رہا ئی کے بعد تعمیر قبر کا حکم دینا بعید ہے کیونکہ وہ خود ذہنی ،و جسمانی طور پر استراحت کے طالب تھے۔ تو اس نے روضہ کی تعمیر وتر میم کے بارے میں کیسے سوچاہو گا ۔اور اس میں کو ئی شک نہیں کہ اس کے بعد وہ اپنے خاند انی امور میں مصروف نہ ہو ا ہو ۔کیو نکہ جن مصادر کا میں نے ملاحظہ کیا جس میں اس کے کوفہ جانا نجف ،جانا اور پھر عباسی خلافت وکے اضطرابات وغیرہ میں مصروف رہنا اس صورت حال میں میر انہیں خیا ل ہے کہ اس تعمیر یا اصلاح روضہ کے لیے سوچابھی ہو بلکہ ان ایام میں روضہ کی زیارت بھی کی ہو ۔اس لیے کہ وہ عسکر ی اور سیاسی حوالے سے اہم شخصیات میں سے تھے ۔اس عمارت کے بارے میں شریف ادریسی نے بھی اپنی کتا ب نزہتہ المشتاق فی اختراق الآ فاق میں لکھا ہے ۔شہر کو فہ جو دریا فرات کے کنارے واقع ہے اور کوفہ سے چھ میل کے فاصلے پر ایک عظیم اور بلند بالا قبہ ہے ۔جس میں چاروں اطراف بند دیوار ،ودروازے ہیں اور یہ ہر طرح کے اعلیٰ معیار کے پر دوں سے سجایا ہو ا ہے ۔اور اس کے فرش پر ساسانی چٹائیا ں بچھی ہو ئی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ قبر علی ہے۔اور اس قبہ کے ارد گرد مدفن آل ابی طالب ہے اوراس قبے کو ابو الہیجاء عبداللہ بن حمدان نے دولت عباسیہ کے دوران بنایا ہے۔ اور وہ اس سے قبل حکو مت بنی امیہ میں خفیہ طورپر تھا ۔عمارت حمدانیہ کے حوالے سے ہمیں ایک قدیم مطبوع سے کچھ اشارات ملتے ہیں۔اگر چہ روضہ مکمل طور پر چوتھی صدی نصف اول تک نہیں ملتا ۔ لہٰذا مسعودی المتوفی ٣٦٤ھ قبر امیر المومنین کے حوالے سے ذکر کر تا ہے بعض کہتے ہیں کہ اسے غری میں کوفہ سے کچھ میل دور فاصلے پر آج کی مشہور جگہ میں دفن کیا گیا ہے ۔ لیکن اس نے یہاں ہم سے زیادہ نہیں کہا میرا خیا ل ہے کہ اس کا یہ قول کہ کوفہ سے چند میل کے فاصلے پر آج کے مشہور جگہ سے عمارت حمدانیہ مراد لیا ہو ۔یہا ں یہ بات بھی واضح ہو تی ہے کہ قبر مطہر کے قرب وجوار میں باقیوں کا دفن ہونا تیسری صدی سے شروع ہو اتھا ۔یہ وہاں کے قصبہ جات اور روضہ کے احاطے کے شہر کے حدود میں نہیں رہا اور نہ شیعوں کو کوفہ میں رہنے والے علویوں تک محدود رکھا، بلکہ وہا ں علما ء وغیرہ اکثر شہروں سے لاکر یہاں دفن کر تے تھے ۔اور جب چوتھی صدی شروع ہوئی تو شہر دور دور اطراف جیسے بصرہ اور بغداد تک پھیل گیا تھا ۔اور وہاں ابوالفضل عباس شیرازی جو ابوالفرج محمد بن عباس معزالدولہ کا کاتب تھا کی میت بصرہ سے نجف ٣٤٢ھ /٩٥٣ ء میں لاکر یہاں دفن کیا گیا اسی طرح بقول ابن اثیر علی بن حسن بن فضال الکو فی ثعلب کے مشہور شاگردوں میں سے تھا ، کی میت کو بھی بغداد سے نجف ٣٤٨ھ بمطابق٩٥٩ ء میں دفنا یا گیا اور ٣٦٢ھ بمطابق ٩٧٣ ء میں ابوالفضل عباس بن حسن شیرازی کے وزیر کو زہر دے کر قتل کر دیا تو وہ مزار علی ابن ابی طالب میں دفن کیا گیا ۔محمد حسین حرزالدین کے بقول جوار امام میں یہ دفن کا سلسلہ جا ری رہا اور عراق کے دور دور علاقوں تک پھیل گیا یہا ں وادی السلام امام کے جوار میں جاری رہنا ان کے شیعوںکی زمانہ قدیم سے آرزو رہی ہے اور رہے گی ۔
عمارت عمر بن یحییٰ العلوی
اس عمارت کے بارے میں مجھے زیادہ اور دقیق معلومات نہیں ملی تاہم گمان غالب ہے کہ صرف روضہ مقدس کی توسیع اور اصلاح ہے جو چوتھی صدی ہجری کی چوتھی دہائی میں ابو علی عمر ابن یحییٰ کے ہاتھوں انجام پائی ۔کیو نکہ روضہ مقدس کا قبہ خراب ہو تھا ،یا ،گر گیا تھا جسے دوبارہ بنایا گیا ۔اس بارے میں تمام معلومات میں در اصل میں ''مستدرک الوسائل ''سے استفادہ کیا ہے اور اس کی تاریخ میں ایک سے زیادہ محقق کو اشتباہ ہوا ہے ۔بعض کے مطابق اس کا قیام ٢٥٠ھ میں ہو تھا یعنی محمد بن زید الداعی کی عمارت سے قبل ۔ان میں سے ڈاکٹر سعاد ماہر نے اپنی کتاب ''مشہد الامام علی ''میں اسی مذکورہ نسبت کو قبول کیا ہے ۔وہ کہتے ہیں روضہ مقدس کی تیسری تعمیر عمر بن یحییٰ نے کو فہ میں کی ہے ۔اور یہی نوری نے مستدرک الوسائل میں بیان کیا ہے ۔اور انہوں نے اپنے جد بزرگوار امیرالمومنین کے مرقد مطہر کو اپنے خالص مال سے تعمیر کیا تھا اور یحییٰ امام موسیٰ بن جعفر کے اصحاب میں سے تھے جو ٢٥٠ھ /٨٦٤ ء میں عباسی خلیفہ مستعین کے دور میں قتل ہوئے اور بعد میں اس کوخلیفہ پاس لا یا گیا ۔اس کے بعد ڈاکٹر حسن حکیم بھی اشتباہ کا شکار ہو اہے۔ لہٰذا انہوں نے بھی مذکورہ تاریخ کو محمد بن زید کی عمارت سے قبل قرار دیا ہے لہٰذا وہ اپنی کتاب ''مفصل تاریخ نجف اشرف ''میں لکھتا ہے ''لیکن بعد میں اس کامتوکل کے عہد میں لوگوں کے قبر علی کی زیارت کی آزادی ملی جس طرح اسی دور میں اسے گروائی گئی تھی۔ پھر امیر الحاج عمر ابن یحییٰ بن حسین نے اپنے جد بزرگوار امیر المومنین کی روضہ کی تعمیر اور قبے کو اپنے خالص مال سے بنوایا اور اس قبے کا رنگ سفید تھا اور اس کے بعد سید محمد بن زید الداعی نے تعمیر کی...... '' اس بارے میں انہوں نے سید محسن امین کا حوالہ دیا ہے لیکن انہوں نے بھی مستدرک الوسائل پر ہی اعتماد کیا ہے ۔اور اس اشتباہ پر اگر غور کیا جائے ۔تو دو صورتوں سے خالی نہیں ہے ۔
١۔ ڈکٹر حسن حکیم کیلئے سید محسن امیں کا بیان واضح نہیں ہو ا ہے ۔ اس میں ہو سکتا ہے خود سید موصوف کو بھی اشتباہ ہو ا ہو ۔
٢۔ یہ ہو سکتا ہے شاید انہوں نے سید محسن امیں کے بعد دوبارہ نظریہ تبدیل کر کے عضدالدولہ کی عمارت اور قصید ہ ابن الحجاج کے بارے میں بیان کیا ہو۔
اسے بھی صاحب اعیان سے ذکر کیا ہے:''روضہ مقدس کی تعمیر کر نے والوں میں عمر ابن یحییٰ بن حسین بن احمد بن عمر جو کہ ٢٥٠ھ /٨٦٤ ء میں قتل ہو ا ۔عمر ابن یحییٰ بن حسین بن حسین ذی الدمعہ بن زید ابن علی ابن حسین ابن علی ابن ابی طالب بھی ہے ۔مستدرک الوسائل میں ہے کہ انہوں نے اپنے جد بزرگوار امیر المومنین کا قبہ اپنے خالص مال سے بنوایا تھا اور انہوں نے حجر اسود کو بھی دوبارہ واپس لایا تھا جسے قرامطہ نے٣٢٣ھ/٩٣٥ ء میں مال غنیمت سمجھ کر لوٹ لیا تھا ۔پھر وہ ابن زید اور عضدالدولہ اور قصیدہ ابن الحجاج کی حدیث کی طرف متوجہ ہو تا ہے۔
یہاں اشتباہ ہو نے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تاریخ میںدو عمر ابن یحییٰ گزرے ہیں جن کے درمیان نو دہا ئیوں کا فاصلہ ہے ۔پھر اس غلطی میں ایک اضافہ کیا نص میں مو جو د اس عبارت کو بیان کر تے ہوئے ابن یحییٰ ابن حسین ٢٥٠ھ /٨٦٤ ء میں قتل ہو ا کیو نکہ اس تاریخ میںجو شہید ہو ا ہے وہ یحییٰ ابن حسین ابن حسین جو ذی الدمعہ کے لقب سے مشہور تھا ۔نہ کہ عمر....... ۔
ذی الدمعہ کی شہادت ایک عظیم سانحہ ہے جس کے بارے میں بڑے بڑے شعراء نے مرثیے کہے ہیں جس میں سر فہرست ابن رومی ہے جس میں انہوں نے اس کی بہادری اور کوفہ میں مستعین کے زمانے میں قیام کا ذکر کیا ہے لیکن ،اصلاح مرقد مطہر کے ساتھ ان کا کو ئی تعلق نہیں ہے ۔مگر دوسری شخصیات یعنی عمر ابن یحییٰ جس کی تعمیرمیر ے حساب سے تقریبا چوتھی صدی ہجری کے چوتھی دہائی میں ہو ئی تھی ۔یعنی محمد ابن زید الداعی کی عمارت سے نصف صدی یا اس سے زائد مدت بعد میں ہوئی تھی اور ڈاکٹر حسن اور ڈاکٹر سعاد ماہر کے بقول ابو الہیجاء کی عمارت کے بعد میں ہو ئی تھی ۔لیکن شیخ محمد حسین حرز الدین نے اپنی کتاب تاریخ نجف اشرف میں اس تعمیر کی تاریخ ٣٣٨ھ مقر ر کی ہے اور یہی راجح ہے ۔اورلکھا ہے کہ سید ابو علی عمر ابن یحییٰ کو اللہ تعالیٰ نے دو فضیلتوں سے نوازا ہے ایک یہ ہے کہ انہوں نے اپنے جد بزرگوار امیرالمومنین کے قبے کو بنوایا ۔اور دوسرایہ ہے کہ انہوں نے حجر اسود کو اس کی اپنی جگہ دوبارہ رکھوایا ۔اس لیے انہوں نے خلیفہ مطع الدین اللہ اور قرامطہ کے درمیان ثالثی کردار انجام دیا یہا ں تک کہ وہ قرامطہ حجر اسود واپس کر نے پر راضی ہوگئے ۔اوربیت الحرام واپس لے جانے سے پہلے لاکر جامع مسجد کوفہ کے ساتویں ستون میں رکھ دیا ۔اس بارے میںخود امیر المومنین سے روایت بھی ہے جس سے اس واقعے کی تصدیق ہوتی ہے کہ آپ نے فرمایا ،ایک دن کوفہ میں ضرور حجر اسود لایا جائے گا ۔اور اشارہ کر کے فرمایا اس ساتویں ستون میںڈالا جائیگا۔''
کتاب شہداء الفضیلہ میں ایک روایت آئی ہے جو ابن اثیر کی روایت کی ہوئی ہے کہ مکہ میں دوبارہ ٣٣٩ھ کو حجر اسود واپس لے جانے کے بارے میں ہے وہ کہتاہے''بحکم نے انہیں پچاس ہزار دینار اس حجر اسود کو واپس دینے کے عوض دیا لیکن انہوں نے نہیں مانا ،لیکن آج ماہ ذی القعدہ میں بغیر کسی کے معاوضے واپس لایا ہے اور جامع مسجد کوفہ میں لٹکا یا تاکہ لوگ دیکھ سکیں ۔پھر اسے مکہ لایا گیا اسے انہوں نے رکن بیت سے ٣١٩ھ میں اٹھا کر لے گئے تھے۔'' اس حوالے سے قابل قبول یا اس سے قریب تاریخ کی تائید سید جعفر بحرالعلوم نے اپنی کتاب ''تحفةالعالم ''میں کی ہے ۔''سید ابو علی عمر اللہ نے جس کے ہاتھوں حجر اسود کو واپس لایا اور سید موصوف امیر حجاج تھا اور انہوں نے ٣٣٩ھ میں حجر اسود کو اپنی جگہ واپس لایا اور قرامطہ کے پاس یہ بائیس سال رہا اور اسی سید موصوف نے اپنے جد بزرگوار امیر المومنین کا قبہ اپنے خالص مال سے بنوایا تھا ۔اور یہ حسینکی ذریت سے ہے ۔
اور ان کا لقب ذی الدمعہ ہے اور ان کا پورا شجرہ یہ ہے ،ابو علی عمر ابن یحییٰ جو کوفے میں رہتا تھا ابن الحسین النقیب الظاہرابن ابی عانقہ احمد جو شاعر ومحدث تھا اور بن ابو علی عمرابن ابوالحسین یحییٰ جو اصحاب امام موسیٰ کاظم میں سے تھا اور ٢٥٠ھ میں قتل ہو نے کے بعد اس کاسر مستعین کے قصر میں لے جایا گیا ۔''
|