سرچشمۂ معرفت
 

سب سے پہلا مسلمان
مسلم اول شہ مر دان علی
عشق را سرمایہ ایمان علی
سب سے بڑاا متیاز اوراہم ترین بات جس کے متعلق خود حضرت ا میر ا لمومنین علی علیہ السلام بار بار ذکر فرماتے ہیں مؤمن اول اور پہلا مسلمان ہونا ہے چنانچہ ستر قسم کے فضا ئل جو تنہا اور صرف اور صرف علی سے تعلق رکھتے ہیں کے ضمن میں فرما تے ہیں: اِنِّی اَوَّلُ النَّاسِ اِیْمَانًا وَّ اِسْلَامًا(١)
ادھر رسول اکرم صل اللہ تعا لٰی علیہ و آلہ وسلم ایک دن مسجد نبوی ۖ میں صحابہ کرام کی موجودگی میں علی سے فرماتے ہیں: یا علی کل آپ بقیع کے پہاڑ پر جا کر جب سورج طلو ع کرے تو سورج سے بات کر نا! دوسرے دن صبح کو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ حضرت ابوبکر و عمر مہا جر اورانصار کی ایک جماعت بھی ہمراہ تھی حضرت امیر المومنین علیہ السلام بقیع کے پہاڑ پر تشریف لے گئے جب سورج نے طلوع کیا تو آپ نے سلام کیا السلام علیک یا خلق اللہ الجدید جب آپ نے سلام کیا تو آسمان اور زمین کے در میان ایک آواز گونج اٹھی۔ اس آواز میں حضرت امیر المومینن علیہ السلام کے سلام کا جواب مو جود تھا و علیک السلام یا اول و یا آخر و یا ظاہر یا با طن یا من ھو بکل شئی علیم ،حدیث کے مطابق یہاں اول سے مراد سب سے پہلے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لانے والا اور تصدیق کرنے والا ہے اسی طرح دوسری صفات کی بھی تا ویل موجود ہے (٢)
ایک مقام پر آپ فرما تے ہیں .مَا شَکَکْتُ فی الْحَقِّ مَذَارِیتہ(٣) .جب سے میرے اوپر حق ظاہر و آشکار ہواہے کبھی بھی حق کے بارے میں شک اور گمان کو راستہ نہیں دیاہے۔
..............
١:خاطرات امیر مؤمنان ص ٢٦٣
٢:کتاب الفضائل صفحہ ٤٧٥
٣: شرح نہج البلاغہ خطبہ ٢
اسی خصوصی امتیاز پرآپ نے اپنے مخالفین اور دشمنوں پر حجتّ قائم کی ہے چنانچہ ایک مقام پرآپ فرما تے ہیں :جو لوگ منافق ہوتے ہیں جو لوگ دوغلی پالیسی رکھتے ہیںاور جو ظاہر میں کچھ با طن میں کچھ، سامنے کچھ اور غائب میں کچھ اور ہوتے ہیں ظا ہراً حضرت کے لشکر میں ہو تے تھے لیکن حقیقت میں یہ لوگ مو لا علی کے دشمن ہوتے تھے ان کی مذمت سخت لہجے میں فرماتے ہیں :وَلَقَدْ بَلَغَنی اَنَّکُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلِیّ یَکْذِبُ قَاتَلَکُمُ اللّٰہُ فَعَلٰی مَنْ اَکْذِبُ ؟أَعلٰی اللّٰہ ؟ فَاَنَا اَوَّلُ مَنْ آٰمَنَ لَہ، اَمْ عَلٰی رَسُوْلِہ ؟ فَاَنَا اَوَّلُ مَنْ صَدَّقَہ ''مجھے رپورٹ دی گئی کہ کہتے ہیں علی جھوٹ بولتے ہیں خدا تم لوگوں کو ھلاک کرے۔ کس کے بارے میں میں نے جھوٹ بولاہے؟ کیا خدا کے بارے میں جھوٹ بولاہے؟ خدا کی قسم میں تو وہ ہوں جو سب سے پہلے ایمان اور اسلام لانے والا ہوںاور سب سے پہلے پیغمبر اکر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرنے والا ہوں اور دوسرے مقام پر آپ فرماتے ہیں :اَتَرَانی اُکَذِّبُ عَلٰی رَسُوْلِ ۖ اللّٰہِ؟وَاللّٰہِ لَاَنَا اَوَّلُ مَنْ صَدَقَہ فَلاَاَکُوْنُ اَوَّلَ مَنْ کَذِبَ عَلَیْہِ ؟
''کیا یہ سمجھانے کی کو شش کر رہے ہو کہ میں رسول ۖ پر جھوٹ کی نسبت دے رہا ہوں؟ خدا کی قسم میںاس کی رسالت کی تصدیق کر نے والاہوں اس بنا پر میں ان لوگو ںمیں سے نہیں ہونگا جنہوں نے ان کی طرف جھوٹ کی نسبت دی ہے۔ اسی لیے حضرت افتخار اور امتیاز کے ساتھ فرماتے ہیں کہ میںنے کبھی جھوٹ نہیں بولا ،میں کبھی بھی گمراہ نہیں ہوا اور نہ ہی کسی صورت میں بھی گمراہی کی طرف جاؤں گا ان کی فضیلت میں سے ایک امتیاز اور افتخار کی بات یہ ہے کہ آپ بچپن سے ہی مؤمن تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کی فضیلت، آپ کی خصوصیت اور آپ کی شان اور عظمت مسلمانوں میں منفر دہے جیسا کہ آپ خود فر ماتے ہیں'' اِنِّیْ لَمْ اُشْرِکْ بِااللّٰہِ طَرْفَةَ عَیْنٍ وَلَمْ اَعْبُدْ اللّٰاتَ وَالْعُزّٰی (١)''میں نے کبھی بھی
..............
١: منہاج البراعة خطبہ ١٨٨
حتی کہ چشم زدن میں خداوند عزوجل کا شریک قرار نہیں دیا اور کبھی بھی لات و منات و عزا اور زمانہ جاہلیت کے بتوں کی پرستش نہیں کی ہے۔
اس بات کی طرف غور کریں کہ اصحاب اور انصارپیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں وہ صفات اور وہ شوق اقتدار نہیں پائے جاتے تھے جو ان کے اسلام لانے سے قبل اورحالت کفر میں پائے جاتے تھے ۔ لہذا آپ نے بہت ہی خوبصورت انداز میں ان منافقوں کو جواب دیا ہے جب سوال کر نے والے نے یہ سوال کیا کہ آپ کب مسلمان ہوئے ہیں ؟ تو جواب دیاعلی کب کافرتھا کہ مسلمان ہوجائے !!؟
اس نے حقیقت میں فطرت اسلام پر ہی پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا ہے
ہاں! یہ فقط علی ہی تھے جو کبھی بھی کسی بت کے سا منے سجدہ ریز نہ ہوئے۔ آپ دنیا میں آتے ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیر تر بیت رہے اسی لیے علی علیہ السلام کے مربّی اور استاد خود ذات مقدس پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔
لہذا جیسے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ویسے علی اور خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما یا انا و علی من نور واحد ''میں اور علی ایک ہی نور سے ہیں لہذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت و رسالت کے عہدہ پر فائز ہیں تو علی امامت اور وصا یت کے عہدہ پر فائز ہیں۔ خداوند عالم نے مسلمانوں کو عقل دی ہے کہ وہ منا فقوں کے پروپیگنڈہ میں آکر کہیں رسول اور امام کی تو ہین نہ کریں و رنہ خسارتِ دنیاوآخرت کے دھبّے ان کے پیشا نی پرلگ جا ئیں گے ۔
خود امیرالمؤمینن علی علیہ السلام نے معاویہ اور ان کے مزدو روں کے حوالے سے جب آپ کے اوپر سبّ کر نے کے غمناک و اقعہ کی پیشن گوئی کی تھی اسی ضمن میں آپۖ نے فرما یا تھا: معاویہ ابن ابی سفیان لوگوں سے کہے گا ''کہ علی کو برابھلا کہیں اور علی سے بیزاری کا اظہار کریں'' اوریہ بات بھی حضرت علی علیہ السلام نے فرما یا تھا:'' کہ مجھ سے بیزاری کا اظہار کر نے کا کیا معنی جبکہ میں فطرت اسلام پر اور سب سے پہلا مسلمان ہوں!! اسلام میں ہجرت اورایمان کے حوالے سے کسی نے مجھ پر سبقت نہیںلی ہے''۔
ایک مقام پرآپ فر ما تے ہیں: خداوند ا! میں اس امت میںپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی کو نہیں جانتا جس نے تیری عبادت کی ہو۔
جو کچھ اس مختصر سی تحریر میں نقل کیا ہے وہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے کلام ہی سے نقل کیا ہے اور آخرمیں بھی امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دو روایتوں پر اختتام کر تا ہوں۔ اس روایت کو اہلسنّت کے مشہور مفسر زمخشر ی نے اپنی تفسیر میں ایک روایت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ والسلام سے نقل کی ہے آپ نے فر ما یا :امتوں کے در میان فقط تین اشخاص ہوا کر تے تھے جو سب سے پہلے خدا پر ایمان لانے میں سا بق ہوئے ہیں اور کبھی یہاں تک کہ چشم زدن میں بھی خدا کا شریک نہیں قرار دیا اور ان تین اشخاص کے نام یہ ہیں :۔
١۔علی ابن ابی طالب
٢۔صاحب یس
٣۔مؤمن آل فرعون
اسی مطلب کواہل سنت کے دوسرے دانشور اور مفسر علامہ سیوطی نے اپنی تفسیر میں ابن عباس کے حوالے سے اس حدیث کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے البتہ اس حدیث میں حضرت علی علیہ السلام کو دوسرے دونوں سے افضل قرار دیا ہے۔ اسی حدیث کو شیعہ منابع سے بھی نقل کیا گیاہے ۔
دوسری حدیث میں حضرت علی علیہ السلام کے صحابی بنام عاصم بن ظریف نقل کر تے ہیں:۔ میں اور مسلمانوں میں سے چند افراد حج کو انجام دینے کے بعد واپسی پر ربزہ کے مقام پر رک گئے اور جناب ابوذر غفاری سے ملاقات کی اور ان سے مفصل گفتگو کی جب ہم خدا حا فظی کررہے تھے تودرمیان میں مسلمانو ں کے درمیان اختلافات کے بارے میں بات ہوئی اس وقت فتنہ و فسادنے چاروں طرف سے مسلمانوں کو گھیر لیا تھا اور حق و باطل خلط ملط ہو چکا تھا۔ اس پر آشوپ دور کے با رے میں میں نے جناب ابوذرسے پو چھاکہ ایسی حا لت میں کیا کیا جا ئے تا کہ ایمان ہاتھ سے جانے نہ پا ئے؟ جناب ابوذر نے فرما یا: ۔ان حالات سے بچنے کے لیے صرف ایک ہی راہ ہے وہ کتاب خدا اور عترت یعنی علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے مضبوطی کے ساتھ متمسک رہیں۔ خدا کی قسم میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ کوپکڑ کر فرما یا یہی علی ہیںجس نے سب سے پہلے میرے اوپر ایمان لائے اور میری نبوت کی تصدیق کی۔ قیامت کے دن سب سے پہلا شخص یہی ہوگا جو مجھ سے ملحق ہونگے اور مجھ سے مصا فحہ کریںگے۔ وہ مؤمنین کے رہبر اور مددگار ہوںگے جب کہ مال و دولت ظالموں کے مدد گار ہونگے۔ وہ صدیق اکبر یعنی سب سے پہلے تصدیق کر نے والے ہیں اور فاروق اعظم یعنی حق کو باطل سے جدا کرنے والے ہیں۔

کلام اقبال
مسلم اول شہہ مردان علی
عشق را سرمایۂ ایمان علی
از ولای دودمانش زندہ ام
درجہان مثل گہر تابندہ ام
مرسل حق کرد نامش بوتراب
حق یداللہ خواند درام الکتاب
ہرکہ دانای رموز زندگیست
سر اسمای علی داند کہ چیست
ذات او دروازۂ شہر علوم
زیر فرمانش حجاز وچین وروم

علی ای ھمایٔ رحمت
بارگاہ علوی میں نذرانۂ شہریار
ایران اور اس کا شعروادب عشق علی اور مدح وثنائے محمد ۖ وآل محمدۖ کے لئے دنیا کی معاصر تاریخ وثقافت میں امتیازی حیثیت سے جانا پہچانا جاتا ہے ۔
ایران کا نام جب بھی کوئی سنتا ہے یا کلمۂ ایران پر اسکی نظر پڑتی ہے تو لامحالہ طور پر ایران کی تاریخ اور اس کا کلچر وثقافت انسانی ذہن میں مجسم ہوجاتی ہے۔ جہاں پر انسانی ذہن کی توجہ ایران کی ہسٹری پر مبذول ہوئی ہے مثلاً انسانی ذہن قیصر وکسریٰ کی شان دل میں بٹھا لیتاہے ۔ اسلامی لشکر نے اسی ایران کو فتح کیا بعد میں اسلام کا جھنڈا ایران میں لہرایا ۔ جہاں پر پہلے ایرانیوں کے اعتقاد زردشتی تھے وہیں پر شمع رسالت کے پروانے حضرت سلمان فارسی کی تبلیغات رنگ لائیں اور الحمدللہ یہ ملک تشیع کی پہچان بن گیا اور لوگ آج بھی اپنی مذہبی، اسلامی اور ثقافتی رسومات کے پابند ہیں۔ جہاں ایران میں دوسرے کاموں کی طرف خصوصی توجہ دی جانے لگی ہے وہاں پر ادبیات اور شعر وشاعری بھی خاص مقبول رہی ہے اور ادبیات فارسی میں یگانہ روزگار افراد نے اس مملکت میں آنکھ کھولی اور ادبیات کو عروج تک لے گئے۔ کیونکہ فارسی زبان ایک وسیع وعریض زبان ہے ویسے تو تمام شعراء کرام کو زبان سے گلہ رہاہے کیونکہ شعراء کی اڑان الفاظ میں مقید نہیں ہوسکی اور شعراء کو اپنے معنیٰ ومفاہیم کے لئے اکثر اوقات الفاظ میسّر نہیں آتے اس لئے وہ دوسری زبانوں کا سہارا لیتے ہیں انہی شعراء میں سے ایک شاعر اہلبیت جوکہ مودّت و محبت اہل بیت سے مالامال تھے انہوں نے مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی شان اقدس میں چند اشعار کہے جو پورے ایران تو کیا عالم اسلام میں ادباء ان اشعار کو سرلوحہ زندگی قرار دیتے ہیں اور انہی اشعار کی بدولت اس عظیم شاعر کو ادبیات کی معراج نصیب ہوئی اور ان کے یہ اشعار پورے ایران اسلامی میں ہر عالم ، ذاکر اور خطیب کی زبان پر ہیں۔
اس شاعر بزرگوار کا اصل نام سید محمد حسین لیکن شعراء اور ادب کی دنیا میں استاد شہریار کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں ان کا ایک پورا دیوان ہے اس دیوان میں وہ اشعار جوکہ مدح علی علیہ السلام میں لکھے گئے تھے۔ ان میں سے ایک غزل یہاں ذکر کرتے ہیں۔ واقعاً ان اشعار میں ولایت کی شیرین رس گھول رہی ہے اور جزابیت بہت زیادہ ہے ۔

''علی ای ھمایٔ رحمت توچہ آیتی خدارا''
انہی اشعار کے متعلق دلچسپ واقعہ مشہور ہے ۔ وہ کچھ اسطرح سے ہے کہ ایک دن لمبے قد والا ایک شخص حضرت آیت اللہ مرعشی نجفی رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اور بعد از سلام و دعا حضرت آیة اللہ مرعشی اپنے مطالعے میں مشغول ہوجاتے ہیں چند لمحات گزرجانے کے بعد اس شخص کی جانب نگاہ کرتے ہیں چند سکینڈ اسکی طرف دیکھتے رہتے ہیں اور تعجّب خیز نگاہوں سے دیکھنے کے بعد حضرت آیة اللہ مرعشی اپنے مقام سے اٹھتے ہیں اور بھر پور تبسّم کے ساتھ کھڑے ہوکر مہمان عزیز کو گلے لگاتے ہیں اور خوش آمدید کہتے ہیں اور فرماتے ہیں: پیارے شہریار ! خوش آمدیدخوش آمدید! تہہ دل سے میرا خلوص قبول ہو اور مبارک ہو ۔ آقا شہریار حیرت اور تعجب کی کیفیت میں دست بوسی کاارادہ کرتے ہیں لیکن آیة اللہ اپنے ہاتھ پیچھے کی طرف کھینچ لیتے ہیں اور بعد میں مہمان کو زبردستی اپنے گلے لگالیتے ہیں اور مہمان کی پیشانی کا بوسہ لینے شروع کردیتے ہیں پھر اپنی دائیں طرف بٹھا تے ہیں خود حضرت آیة اللہ مؤدبانہ دوزانو ہو کر بیٹھ جاتے ہیں نو وارد مہمان حضرت آیة اللہ سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں کہ حضرت عالی کی طرف سے پیغام ملتے ہی پہلی فرصت میں تبریز سے قم کی طرف روانہ ہوا ہوں ۔ لیکن راستے میں جو سوال میرے ذہن میں بار بار اٹھتا رہا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عالی مجھے کیسے جانتے ہیں؟ہم دونوں نے کبھی ایک دوسرے کو دیکھا تک نہیں ہے اور ہمارے باہمی تعلقات بھی نہیں ہیں۔
حضرت آیة اللہ العظمیٰ مرعشی رحمة اللہ علیہ مہمان کی طرف چائے بڑھاتے ہوئے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی غزل ہے جسکا مطلع اسطرح سے ہے کہ

علی ای ہمایٔ رحمت توچہ آیتی خدارا
استاد شہریار متعجب اور حیرت زدہ ہوکر اثبات میں جواب دیتے ہیں لیکن فرماتے ہیں: آج تک میں نے یہ غزل کسی کو نہیں سنائی اور نہ ہی ان اشعار کے بارے میں کسی سے تبادلۂ خیال ہواہے۔ میرے خیال میں یہ اشعار خدا اور میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ حضرت آیة اللہ مرعشی نے فرمایا: مجھے دقیقاً بتائیں کہ آپ نے ان اشعار کو کب اور کس وقت ضبط تحریر میں لائے ہیں ؟ استاد شہریار اپنے سر کونیچے کرتے ہیں اور خوب فکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: آج سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل آج ہی کی رات میں نے یہ اشعار کہے تھے اس رات پہلے میں نے وضو کیا اور شب کو تنہائی کے عالم میں شعر کہے اس رات میری حالت عجیب تھی میں مولائے کائنات امیر المؤ منین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی محبت میں دیوانہ تھا اور عشق علی میں سرتا پا غرق تھا رات کو تقریباً ٣ بجے کے بعد میں نے اس غزل کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ ان کلمات کو سننے کے بعد حضرت آیة اللہ مرعشی النجفی کی آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے اور سرمبارک کو ان کلمات کی تائید میں ہلاتے ہوئے فرمایا : ٹھیک ہے آپ بالکل سچ کہہ رہے ہیں یہ واقعہ اسی طرح ہے یہی وقت اور یہی رات تھی۔
استاد شہریارکی حیرت واستعجاب زیادہ ہوگیا اور مشتاقانہ پوچھنے لگے ۔ اس رات اور اس وقت کیا ہوا تھا؟واقعاً آپ کی بات نے مجھے پریشانی اور تعجب میں ڈال دیا ہے ۔
حضرت آیة اللہ مرعشی فرماتے ہیں: '' اس رات میں کافی دیر تک نہیں سویا اور بیدار تھا۔ نماز شب اور دعائے توسل کے بعد میں نے خداوند عالم سے عرض کیا ۔ بارالٰہا ! آج مجھے خواب میں اپنے عبد خاص سے ملا۔ میری آنکھ لگ گئی تو کیا دیکھتا
ہوں مسجد کوفہ کے کسی کونے میں بیٹھا ہوا ہوں ۔ حضرت علی علیہ السلام اپنی بلاغت اور عظمت کے ساتھ مسجد میں تشریف فرماہیں اور اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم نے حلقہ کی صورت میں آنحضرت کو گھیرے میں لے رکھا ہے جیسے چاند کے ارد گرد ستاروں کا جھرمٹ ہوتا ہے ۔ ان اصحاب کو میں نہیں پہچانتا ۔ شاید سلمان ، ابوذر ، مقداد ، میثم تمار، مالک اشتر ، حجر بن عدی ، اور محمد ابن ابی بکر وغیرہ ہونگے۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ کوئی جشن کا سماں ہے مولائے کائنات علی علیہ السلام دربان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ: شعراء کو اندر بلایا جائے ۔ سب سے پہلے شعرائے عرب حاضر ہوتے ہیں مولائے متقیان علی علیہ السلام انکی طرف محبت بھرے انداز میں نظر کرم فرماتے ہیں۔ دوبارہ گویا ہوتے ہیں فارسی شعراء کو بلایا جائے ۔ فارسی شعراء حاضر ہوتے ہیں محتشم کاشانی اور دوسرے شعراء فارس کی طرف حضرت نگاہ فرماتے ہیں اور فرداً فرداً دیکھتے ہیں گویا کسی خاص فرد کی تلاش میں تھے لیکن وہاں موجود نہیں تھا تیسری بار مولائے کائنات دربان سے فرماتے ہیں میرے شہریار کو بلاؤ !اس وقت تم حاضر ہوتے ہوگئے۔
اس وقت تمہاری شکل وصورت کو میں نے پہلی بار دیکھا تھا اور آج رات جب میں نے تمہیں دیکھا تو فوراً پہچان لیا کہ تم وہی شہریار ہو۔ تم اپنی قدر وقیمت کو جان لو ! تم پر مولائے کائنات علی کی خاص نظر کرم ہے۔ اس واقعہ کو استاد شہریار نے سنا اور انکی آنکھوں سے آنسو ٹپکنا شروع ہوگئے۔ کافی دیر کے بعد فرط محبت سے رواں دواں آنسو تھم گئے تو پھر حضرت آیة اللہ مرعشی گویا ہوئے تم نہایت مؤدبانہ مولا امیر المؤ منین علیہ السلام کی خدمت میں موجود تھے مولائے کائنات نے تمہیں فرمایا: کہ شہریار! اپنے اشعار سناؤ ! تم نے اپنے اشعار کو پڑھنا شروع کیا جسکا مطلع یہ تھا

علی ای ھمایٔ رحمت تو چہ آیتی خدارا
ان جملات کو سنا تو شہریار کی آنکھیں ساون کی طرح برسنے لگیں ۔ حضرت آیة اللہ مرعشی نے خواہش کی کہ ان اشعار کو مجھے بھی سنائیں ۔ استاد شہریار نے اپنے اشعار کو پڑھنا شروع کیا

علی اے ھمایٔ رحمت توچہ آیتی خدارا
کہ بہ ماسوا فکندی ، ھمہ سایۂ ھمارا
ترجمہ: اے ہمائے رحمت! اے طائر رحمت! آپ خداوند کریم کی عظیم الشان نباء عظیم نشانیوں میں سے کتنے عجیب نشان ہیںکہ تمام موجودات و مخلوقات ارضی وسماوی پر آپ کا سایہ مبارک احاطہ کئے ہوئے ہیں۔
دل اگر خدا شناسی ،ھمہ در رخ علی بین
بہ علی شناختم من بہ خدا قسم خدارا
ترجمہ: اے دل غافل! اگر تم خدا کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہو تو علی کی طرف نگاہ کرو! کیونکہ خدا کی قسم میں نے علی کے وسیلے سے خداوند متعال کی معرفت حاصل کی ہے۔
بہ خدا کہ درد وعالم اثر از فنا نماند
چو علی گرفتہ باشد سر چشمۂ بقارا
ترجمہ: خدا کی قسم اگر کسی نے علی سے لو لگارکھی ہو تووہ دونوں جہانوں میں فنا نہیں ہوگا کیونکہ علی چشمۂ بقاء کے صاحب ہیں۔

مگر ای سحاب رحمت تو بباری ، ارنہ دوزخ
بہ شرار قھر سوزد ھمہ جان ماسوارا
ترجمہ: یا علی ! اے ابر رحمت! اپنے لطف وکرم کی باران سے نوازیں ورنہ شرار قہر سے دوزخ تمام مخلوقات کو جلاکر راکھ کردے گی۔

برو ای گدایٔ مسکین در خانۂ علی زن
کہ نگین پادشاہی دھد از کرم گدارا
ترجمہ: اے فقیر، مسکین اور بیچارے! تم علی کے دروازہ پر جاکر دستک دو کیونکہ علی از راہ کرم و جو د وسخا بادشاہی کی انگشتری گدا کو عطاکرتے ہیں۔

بجز از علی کہ گوید بہ پسر کہ قاتل من
چو اسیر تست اکنون بہ اسیر کن مدارا
ترجمہ: علی کے علاوہ کون ہے جو اپنے فرزند کو وصیت کرے کہ اے فرزند ارجمند ! ''حسن مجتبیٰ'' میرا قاتل فی الحال تمہاری اسارت میںہے اپنی محبت ولطف سے نواز دے۔!
بجز از علی کہ آرد پسری ابوالعجائب
کہ علم کند بہ عالم شھدای کربلارا
ترجمہ: علی کے علاوہ کون ہے جس نے امام حسین جیسے بیٹے کی تربیت کی ہو کہ جنہوں نے جہاں بھر کو شہدائے کربلا جیسے عظیم نمونے پیش کئے ہوں۔

چو بہ دوست عہد بندد ، زمیان پاکبازان
چو علی کہ می تواند کہ بہ سر برد وفارا
ترجمہ: وہ لوگ جنہوں نے راہ خدا میں عہد وپیمان کو مضبوطی سے باندھا ہے ایسے پاکباز لوگوں میں علی سے بہتر اور افضل کون ہو سکتا ہے جو اپنے وعدوں کو بطریق احسن وفا کرسکے ۔
نہ خد ا توانمش خواند ، نہ بشر توانمش گفت
متحیرم چہ نامم شہ ملک لافتیٰ را
ترجمہ: علی کو نہ خدا کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی بشر کہہ سکتے ہیں میں حیرانی میں سرگرداں ہوں کہ مملکت لافتیٰ کے بادشاہ کو کس نام سے پکاروں۔!!!

بہ دوچشم خونفشانم ھلہ ای نسیم رحمت
کہ زکوی او غباری بہ من آر تو تیارا
ترجمہ: اے نسیم رحمت ! میری دونوں خون فشان آنکھوں کی صحت وشفاء کے لئے علی کے کوچہ سے گردو غبار لادو۔
بہ امید آنکہ شاید برسد بہ خاک پایت
چہ پیام ھا سپردم ھمہ سوز دل صبارا
ترجمہ: اے میرے ممدوح! میں ابھی تک درد دل پر مشتمل کتنے پیغام اس امید کے ساتھ باد صبا کے سپرد کرچکا ہوں کہ شاید آپ کے مبارک قدموں کی خاک تک پہنچ جاؤں ۔

چو تویی قضای گردان بہ دعای مستمندان
کہ زجان ما بگردان رہ آفت قضارا
ترجمہ: آپ ہی قطب عالم امکان ہیں غریب اور ناداروں کی دعاؤں کے طفیل زمانہ کے رنج والم اور آفات وبلیات سے ہماری جان کو نجات بخش دیں۔

چہ زنم چو نای ہردم زنوای شوق او دم
کہ لسان غیب خوشتر بنوازد این نوارا
ترجمہ: میں مولا علی علیہ السلام کے عشق میں کیسے ہمہ وقت مترنم رہوں کہ لسان الغیب ''حافظ شیرازی''
مجھ سے کہیں بہتر اس ترنم میں مشغول ہیں۔
ھمہ شب در این امیدم کہ نسیم صبحگاہی
بہ پیام آشنائی بنوازد آشنارا (حافظ)
( یہ شعر حافظ شیرازی لسان غیب کاہے)
ترجمہ:پوری رات میں نے باد صبا کے انتظار میں گزاردی کہ نسیم صبا میرے مولا کی طرف سے پیام لیکر آئے اور میرے دل کو سکون حاصل ہو۔