|
قرآن اور علی
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَنٰا مِنَ الْمُتَمَسِّکِےْنَ بِوِلَاےَةِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبِ وَ اَوْلَادِہ الْمَعْصُوْمِےْنَ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدَانٰا لِہٰذٰا وَ مٰا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلَااَنْ ھَدٰانٰا اللّٰہُ
القرآن: وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَےْنٰاہُ فی اِمَامٍ مُّبِےْن (١)
حدیث: عَلِیّ مَعَ الْقُرْآنِ وَ الْقُرْآنُ مَعَ عَلِیٍّ (٢)
قرآن: اور ہم نے ہر شے کوایک روشن امام میں جمع کردیا ہے۔
حدیث: علی قرآن کے ساتھ اور قرآن علی کے ساتھ ہے۔
علی علیہ السلام ایک فرد بزرگ ہیں، علی علیہ السلام ایک عالیقدر شخصیت جو تمام ابعاداور خصوصیات انسانی کا ایک مکمل پرتو ہے یہاں تک کہ داخلی بندگی اور بچپن کا دور برجستہ اور ممتاز ہے۔ علی علیہ السلام سب سے پہلے اسلام لانے والے اور اسلام میں پہلے مجاہد فی سبیل اللہ ہیں اسی لیے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
مسلم اول شہ مردان علی عشق راسرمایہ ایمان علی
از ولائے دودمانش زندہ ام در جھاں مثل گہر تابندہ ام (٣)
علی علیہ السلام جس کی جان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ پیوند خوردہ تھی اور ان کی زندگی حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے ساتھ آمیختہ تھی ۔فقط علی کو یہ فضیلت نصیب ہوئی کہ
..............
١۔ یس آیت١٢
٢ ۔امالی شیخ صدوق صفحہ ١٤٩
٣۔ کشف الفاظ اقبال ص ایضا کلیات اقبال ص٧٧
خدا کے گھر میں آنکھ کھولی بقول شاعرمشرق
کسی را میسر نہ شد این سعادت
بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت
حضرت علی علیہ السلام کے سوا کسی بشر نے یہ عظیم شرف نہیں پایا کہ خدا کے گھر میں اس کی ولادت ہو اور خدا کے گھر میں ہی درجہ شہادت پر فائز ہو۔ حضرت کی پیدائش، حیات مقدس اور شہادت مکتب انسانیت کے لیے ایک درس ہے۔
حضرت علی علیہ السلام دنیائے اسلام کی وہ عظیم دوسری شخصیت ہیں جنہوں نے انسانوں کو اپنی ولادت حیات اور شہادت کے ذریعے رزم، عزم، علم وحکمت، مجاہدت اور شہادت کاوہ سبق سکھا یا جو انسانی زندگی کی نشیب و فراز سے پر تاریخ میں ہمیشہ باقی رہنے والا سرمایہ ہے۔ مولا علی علیہ السلام عظمتوں، طہارتوں، تقدسوں اور احساسات کے گوناگون انواع کے رب النوع کی حیثیت کے حامل تھے اسی لیے فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
کتاب فضل ترا آب بحر کافی نیست
کہ ترکنم سر انگشت و صفحہ بشمارم
آپ کی شخصیت وہ بے نظیر شخصیت ہے کہ جس کے سامنے دوست محبت و الفت کے ساتھ اور آپ کے دشمن اور مخالفین حیرت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
یا ابا الحسن بابی انت و امی
شہد الانام بفضلہ حتی العدیٰ
و الفضل ما شہدت بہ الاعدأ
آپ کی وہ ملکوتی آواز جو آج پوری دنیا کی حکومتوں کے لیے لمحہ فکر یہ اور سبق آموز ہے آپ فرماتے ہیں :خدا کی قسم میری یہی پیوند دار جو تیاں میرے نزدیک تم جیسے لوگوں پر حکومت کرنے سے زیادہ عزیز ہیںمگر یہ کہ اس حکومت کے ذریعے کسی حق کو اس کی جگہ پر قائم کروں یا کسی امر باطل کو اکھاڑ پھینک سکوں، حقیقت امر یہ ہے کہ مولا علی علیہ السلام کو سوائے خدا اور رسول ۖ کے کوئی درک نہیں کرسکا اور خدا اور رسول ۖ کو علی کے سوا کوئی نہیں پہچانا ۔ اسی لیے شاعر کہتے ہے۔
علی قدر پیمبرۖ را شناسد
کہ ہر کس خویش را بہتر شناسد
معرفت اور غیر معرفت کا اندازہ مولا علی علیہ السلام کے اس جملہ سے کر سکتے ہیں آپ فرماتے ہیں مَا عَرَفْنَاکَ حَقَّ مَعْرِفَتِکَ(١) نہیں پہچانا ہم نے تجھے جو حق تجھے پہچاننے کا تھا آپ ایک مقام پر فرماتے ہیں:۔ اے میرے معبود! مجھے وہ کمال عطا فرما کہ سب سے کٹ کر تیرا ہوجاؤں اور میرے قلب کی بصارت میں وہ ضیاء عطا فرما کہ جس سے تجھ تک بے خطر پہنچ سکوں یہاں تک کہ دل کی آنکھیں نور کے حجاب کو چاک کردیں اور معدن رحمت، معدن عظمت ،معدن شرافت اورمعدن عدالت سے متصل ہوجائیں۔
علی علیہ السلام کی عمر ٢٠ سال کی تھی جب انہوں نے بستر مرگ پر خدا کی مرضی کو خرید لیا ۔
'' وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ ےَّشْرِی نَفْسَہُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ رَؤُف بِّالْعِبَادِ(٢)
علی علیہ السلام کی عمر جب ٢٦ سال ہوئی تو انہوں نے میداں میں عتبہ، ولید اور بطحاء کی سرزمین کے
..............
١:پرتوی از انوار نہج البلاغہ ص ٢٣
٢:سورہ بقرہ ٢٠٧
پہلوانوں سے پنجہ آزمائی کی، احد کے میدان میں حضرت رسول خدا ۖ کے گرد پروانے کی طرح چکر کاٹتے رہے اور احزاب میں عمرو بن عبدود جو کہ شاتم رسول ۖ تھا اس کا سر تن سے جدا کیا(بَرَزَ الْاِسْلَامَ کُلُّہ اِلٰی کُفْرِ کُلِّہ)(١) اگر طول تاریخ میں نگاہ کریں تو نظر آئیگاکہ تنہا علی وہ انسان ہیں جس کے مختلف ابعاد ہیں کہ جو ایک انسان میں نہیں ہو سکتے۔ علی ایک سادہ مزدور کی طرح زمین اور باغات کی گوڈی کرکے قناعت کرتا ہوا نظر آتا ہے، علی ایک حکیم و دانش کی طرح سوچتے ہیں، علی خدا کے مقابل میں ایک اطاعت گزار بندہ ہے، علی ایک شمشیر زن اور قہرمان بھی ہے،علی معلم اخلاق اور مظہر سرمشق فضائل انسانی ہیں،علی پدر دلسوزاور مہر و محبت کرنے والابھی ہے اورعلی جانشین رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ہیں۔
علی امت اسلامی میں سب سے زیاد ہ محبت کرنے والا اور محبوب شخصیت ہیں ،علی کا نام مردانگی ہے، علی کا نام حق ہے، عدل ہے، امانت ہے، نام علی لیاقت،سخاوت، جوانمردی، ہے ،علی کا نام ہے کہ جس کے بارے میں خود خداوند قدوس نے فرمایا:
(وَ کُلَّ شَیْئٍ اَحْصَےْنٰاہُ فی اِمٰامٍ مُّبِےْنٍ)(٢)۔''ہم نے ہر چیز کو امام مبین میں جمع کیا ہے ''
جس کے بارے میں رسول خدا ۖ نے فرمایا:
(عَلِیّ مَعَ الْقُرْآنِ وَ الْقُرْآنُ مَعَ عَلِیٍّ)۔(٣)
(عَلِیّ مَعَ الْحَقِّ وَ الْحَقُّ مَعَ عَلِیٍّ ےَدُوْرُ مَعَہ حَےْثُمٰا دَارَ)(٤)۔ علی حق کے ساتھ اور حق علی
..............
١: غوالی اللئالی جلد ٤ صفحہ ٨٨
٢: سورہ یٰسین١٢
٣: سفینة البحار ج١ ، ص ٦٤٢
٤:مسند امام علی ج ٧، ص ٣٣٧
کے ہمراہ ہے ،اسی طرح حضور ختمی مرتبت آپ کو اپنے بعد امت کے لیے ہادی بنا کرچھوڑ جاتے ہیں اور صریح حدیث ہے ۔
(قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ : اِنِّیْ تٰارِک فِےْکُمُ الثِّقْلَےْنِ کِتٰابَ اللّٰہِ وَ عِتْرَتی اَہْلُ بَےْتی مٰا اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِہِمٰا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدی وَ اِنَّمٰا لَنْ ےَّفْتَرِقٰا حَتّٰی ےَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ)۔(١)
میں تمھارے در میان دو گران قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک کتاب خدا اور دوسری میرے اہل بیت اگر ان سے متمسک رہیں تو میرے بعد گمراہ نہیںہوںگے اور یہ دونوں جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ مجھے حوض کوثر پر آ ملیں گے۔ پیغمبر اسلام کی حضرت علی کے ساتھ دوستی اور محبت قابل دید ہے قرآن مجید جو رسول خدا ۖ کے قلب مبارک پر نازل ہوا اور خدا نے کتاب و حکمت کی تعلیم پیغمبر اکرم ۖ کو عطا فرمائی ۔رسول خدا ۖ اتنے عارف قرآن ہیںکہ علی کو اپنا بھائی، وصی، خلیفہ، وارث ، شاہد اور ولی قرار دیا پھر ان کو اپنا نفس قرار دیا۔ شاعر نے اس موقع پر کیا خوب کہا ہے۔
آپ ہے نفس پیغمبر نفس حیدر ہے رسول ۖ
اور شب معراج میں یار و ہمدم یا علی
کوئی ایسی آیت نہیں ہے جو علی کوتعلیم نہ فرمائی ہو۔ تاویل قرآن ناسخ اور منسوخ ، محکم اور متشابہ کی آپ کو تعلیم فرمائی اسی بناء پر حضرت علی فرمایا کرتے تھے: خدا کے بارے میں مجھ سے پوچھ لو کوئی ایسی آیت نہیں جس کو میں نہ جانتا ہو۔ جو آیات شب و روز میں نازل ہو ئیں،صحراؤں اور پہاڑوں پر نازل ہوئیں میں سب کو جانتاہوں۔
..............
١:سنن تزمدی جلد ٥ صفحہ ٦٢٢
ایک دن آپ نے مسجد کوفہ میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: سَلُوْنی قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنی(١) مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ میں تم میں نہ ہوں ۔یہ وہ منزل ہے جہاں فقہاء مجتہدین مور خین، معبرین، علمائ، عرفائ، صوفیاء کرام، محدثین، مفسرین، مولانا روم ،فرید الدین، عطار، شہریاراور علامہ اقبال سب نے اس پر بحث اور گفتگو کی ہے جہاں پربے ساختہ ارشاد ہوتا ہے کہ مٰا عَرَفْنٰاکَ حَقَّ مَعْرِفَتِکَ(٢)نہیں پہچانا ہم نے تجھ کو حق معرفت کے ساتھ، وہاں مزید ارشاد فرماتے ہیں:۔ لَوْکُشِفَ الْغِطَائُ مَا ازْدَدْتُ ےَقِےْناً (٣) میرے سامنے سے اگر سارے حجاب ہٹا دیئے جائیں تو میرے یقین میں ذرہ برابر فرق نہیں آئے گا۔
لوگوں کے درمیان سے ابن کوا نے سوال کیا، آپ ۖ کی غیر موجودگی میں جو آیات نازل ہوئی ہیں وہ آپ کیسے بتائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں جو آیات میری غیر موجودگی میں نازل ہوئیں ان آیات کو پیغمبر اسلام نے مجھے بتا یا اے علی خداوند عالم نے اسطرح فرمایا بس میرے سامنے تلاوت کی اور اس کی تاویل مجھے بتائی۔
علی پیغمبر اکرم ۖ کے ساتھی، صحابیت، قرابت، محبت، فداکاری، عشق رسول ۖ میں آپ سے آگے اور کوئی نہ تھا آپ قرآن کے ساتھ تھے ایسی حالت میں کہ رسول خدا ۖ کے بعد تنہا علی عالم قرآن، عارف قرآن، مفسر قرآن تھے چنانچہ ابن عباس مفسر قرآن اور دانشمند اپنے علم کو حضرت علی کے علم کے مقابلے میں سات سمندر میں ایک قطرہ محسوس کرتے تھے ۔
علی قرآن کے ساتھ تھے کہ پیغمبر اسلام ۖنے فرمایا: علی قرآن سے ہرگز جدا نہیں ہوگا، معیت اور ہمبستگی کا ایسا عالم تھا کہ رسول گرامی اسلام ۖ کے فرمان کے مطابق علی ابن ابیطالب کی تمام طاقت اور توانائی جسم اور جان ، علم اور فکر ایثار و قربانی ہر لحظہ قرآن کے دفاع ، قرآن کی تدوین و جمع آوری اور
..............
١:غرر الحکم ح ٢٠٨١
٢: پرتوی از انوار نہج البلاغة ص ٢٣
٣: ایمان وعبادت علی ص٤
احکام قرآن کی پاسداری میں صرف ہوئی ۔جب تک قرآن کی تدوین اور جمع آوری کے عظیم کام کو سرانجام نہیں دیا عبا بدن پر نہیں ڈالی۔ اس کے بعد آپ نے قرآن کو بیان کرنے میں اور قرآنی تعلیمات کو نشر کرنے میں سخت تکلفیں برداشت کیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک تحریف سے محفوظ رہا۔
نفاذ قرآن میں آداب و سنن قرآن کو واضح کردیا ۔اس حوالے سے فتنہ و فساد کو دفع کرنے میں شبہات اور تحریفات ، غلو اور غلط تاویلات، ناکسین، قاسطین اور مارقین کی جاہلانہ سوچ اور فکر سے قرآن اور ملت اسلامیہ کو محفوظ رکھا۔ اس بارے میں آپ ۖ کو سخت قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا اور آپ نے دشمنان اسلام اور دشمنان قرآن سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
جیسا کہ پیغمبر اسلام ۖ نے فرمایا تھا: کہ علی قرآن کی غلط تاویل پر جنگ لڑے گا ۔کبھی آپ نے جنگ صفّین میں ذوالفقار حیدری سے فریب کاروںاور جھوٹوں کے خلاف جنگ لڑی اور قرآن و اسلام کے دشمنوں کو شکست فاش دی تو دوسری طرف آپ مسجد کوفہ میں قرآن بیان کرتے اور اس کی تدریس انجام دتیے ہوئے نظر آئیں گے حضرت علی مسلمانوں کی ہدایت میں قرآن اور سیرت رسول ۖ کے عظیم مبلغ کے عنوان سے جانے پہچانے جاتے ہیں اور مشکل حالات میں مسلمانوں کی رہبری اور امامت کے عظیم ذمہ داری کو نبھایا ایسے حالات میں اگر
قرآن بیان ہے تو علی مبین ہے قرآن ہدایت ہے تو علی ہادی ہے
قرآن صامت ہے تو علی ناطق ہے
قرآن مبین ہے تو علی امام مبین ہے
قرآن مجید نے حضرت علی کے بارے میں صریح آیات اور لطیف کنایات کے ذریعے آپ کے باعزّت اور بلند مر تبہ ومقام کا اشارہ دیا ہے.
قرآن مجید کی آیات آپ کے اعلائے کلمہ حق و حقیقت، آپ کے اوصاف اورآپ کے کردار کو کبھی صراحت، کبھی کنایات اورکبھی اشارات کے ذریعے یوں بیان کرتی ہیں:کہ، کبھی آپ کو نباء عظیم، صراط مستقیم، سابق بالخیرات، مجاہد فی سبیل اللہ، حبل اللہ، عروة الوثقی کے نام سے یاد کیا ہے، کبھی آپ اور آپ کے فرزندوں کو مختلف عناوین سابقون، مقربون، خاشعون، صادقون، مطہرون کے نام سے یاد کیا ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں: خداوند عالم نے کوئی ایسی آیت نازل نہیں کی ہے مگر یہ کہ وہ خطاب جہاں یا ایھا الذین آمنوا ہیں،مراد حضرت علی کی ذات شریف ہے۔ وہ کہتے ہیں حضرت علی کے بارے میں قرآن مجید میں موجود آیات جتنی ہیں کسی اور کے بارے میں نہیں ہیں جز رسول خدا کے آپ فرماتے ہیں علی کے بارے میں تین سو آیات نازل ہوئی ہیں۔
مجاہد کہتے ہیں حضرت علی کے بارے میں ستر (٧٠) آیات نازل ہوئیں ہیں اس میں کوئی بھی شریک نہیں ہے۔ حضرت علی کے بارے میں بناء بر عامہ و خاصہ روایات موجود ہیںکہ قرآن چار حصوں میں نازل ہوا ہے۔ ایک حصہ ہمارے فضائل کے بارے میں نازل ہوا ہے، ایک حصہ ہمارے دشمنوں کے بارے میں نازل ہوا، ایک حصہ آداب اور مثل کے بارے میں اورایک حصہ واجبات اور احکامات کے بارے میں نازل ہوا ہے۔
قرآن کی بلند یوں میں آخری درجات ہم ہیں۔ اس حوالے سے حضرت علی اور اہل بیت اطہار علیھم السلام کے بارے میں جو آیات نازل ہوئیں اس کے اسباب و علل کے بارے میں ہزاروں شیعہ اور سنی مصنفین، محدثین ،مفسرین نے بحث اورگفتگو کی ہے مثال کے طور پر مَا نزلَ فی عَلِی ما نزل فی اہل البیت و غیرہ کو دیکھ سکتے ہیں۔
خداوند علی و اعلی قرآن مجید میں فرماتا ہے ( وَ کُلَّ شَیْئٍ اَحْصَےْنَاہُ فی اِمَامٍ مُّبِےْن)(١)
ہم نے ہر شیء کو ایک روشن امام میں جمع کردیا ہے ۔روایات میں امام مبین سے مراد ائمہ طاہرین علیہم السلام
..............
١:یس، ١٢
کی ذوات مقدسہ کو لیا گیا ہے جنہیں پروردگار عالم نے اپنے علوم کا مخزن اور اپنی مشیت کا محل و مرکز قرار دیا ہے۔
منقول ہے کہ خداوند عالم نے علم کے دس حصہ کئے ہیںنو حصے علی کو دئیے ہیں اور ایک حصہ لوگوں کو دیا ہے اس میں بھی علی کی ذات شریک ہے اور سب لوگوں سے زیادہ واقف ہیں۔ علم ماکان و ما یکون کے مالک اور وارث علی ہیں۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں جب یہ آیت وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنَاہُ فی اِمَامٍ مُّبِےْن نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ ۖ کیا امام مبین سے مراد تورات ہے؟
آپ ۖ نے فرمایا نہیں.
انجیل ہے؟ فرمایا نہیں.
زبور ہے؟ فرمایا نہیں.
قرآن ہے؟ فرمایا نہیں.
اسی دوران حضرت علی وہاں حاضر ہوئے تو پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا:
ہُوْ ہٰذٰا اِمَام مُّبِےْن اَحْصٰی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی فِےْہِ عِلْمُ کُلِّ شَیْئٍ عِلْمَ مَاکَا نَ وَ مَا ےَکُوْنُ اِلٰی ےَوْمِ الْقِےَامَةِ۔
مولا علی علیہ السلام خود فرماتے ہیں میں ہی امام مبین ہوں۔
اگرچہ مفسرین نے امام مبین سے مراد لوح محفوظ ، قرآن مجید اور قلب مبارک حضرت رسول خدا ۖ کو قرار دیا ہے لیکن امام مبین کو ائمہ طاہرین علیہم السلام نے متعدد مقامات پر خود ان ذوات مقدسہ کو قرار دیا ہے جیساکہ ہم نے پہلے عرض کیاہے۔
ایک دفعہ صحابی رسول حضرت عمار حضرت علی کے ساتھ کسی جنگ میں جارہے تھے راستے میں ایک مقام پر چیونٹیوںکے بل پر پہنچے۔ حضرت عمار نے عرض کیا یا علی . خدا کے علاوہ کوئی ہے جو اس روئے زمین پر ان کی تعداد بتا سکتاہے؟ مولا علی مسکرا کر فرمانے لگے میں ایک شخص کو جانتا ہوں جو نہ صرف ان کی تعداد بتا سکتا ہے بلکہ یہ بھی بتا سکتا ہے کہ ان میں سے کتنے نر ہیں اورکتنے مادہ،عرض کیا یا امیر المومنین علیہ السلام وہ شخص کون ہے؟فرمایا: کیا تم نے سورہ یس میں یہ آیت نہیں پڑھی ہے (وَ کُلَّ شَیْئٍ اَحْصَےْنٰاہُ فِی اِمَامٍ مُّبِےْن ) عرض کیا بالکل یا ابا الحسن میںنے پڑھی ہے آپ نے فرمایا میں ہی امام مبین ہوں۔
منقول ہے کہ خوارج کے ایک گروہ نے جب حدیث انامدینة العلم کوسنا تو اپنے دل میں بہت پیچ و تاب کھائے اور ان میں سے دس آدمی جو ادعائے علم رکھتے تھے با ہم مشورہ کر کے بغرض امتحان حضرت علی کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ کی فضیلت میںجو حدیث پیغمبر ۖ نے فرمائی کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس شہر کا دروازہ ہے تو ہم لوگ اس حدیث کی اس وقت تصدیق کریں گے کہ ہم ایک ہی سوال کو مسلسل کریں گے آپ ہر ایک سوال کا جواب الگ الگ بیان کریں بہر حال ان میں سے ایک شخص نے سوال کیاعلم بہتر ہے یا مال؟
آپ نے فرمایا: علم بہتر ہے مال سے اس لیے کہ مال فرعو ن و ہامان اور قارون کے متروکات سے ہے جبکہ علم پیغمبرں کی میراث ہے۔
دوسرے نے سوال کیا علم بہتر ہے یا مال؟
آپ نے فرمایا: علم بہتر ہے اس لیے کہ مال کے دشمن بہت ہیں اور صاحب علم کے دوست بہت ہیں۔
تیسرے نے اسی سوال کو دھرایا ۔
آپ نے فرمایا: علم بہتر ہے اس لیے مال کی تو حفاظت کرتا ہے اور علم تیری حفاظت کرتا ہے۔
چوتھے نے پوچھاآپ نے فرمایا:
مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے علم خرچ کرنے سے زیادہ ہوتا ہے، پانچویں کے جواب میں ارشاد فرمایا: مال دار کو بخیل بھی کہتے ہیں اور صاحب علم کو سخی کہتے ہیں۔
چھٹے فرد کو اس طرح جوا ب دیا:
مال کے لیے ہمیشہ چور اور ڈاکو کا خوف لگا رہتا ہے اور علم ان سب بلاؤن سے محفوظ ہے۔
ساتویںکے جواب میں ارشاد فرمایا:
مالداروں سے روز قیامت حساب لیا جائے گا اور مواخذہ کیا جائے گا اور دولت علم پر نہ حساب ہے نہ کوئی مواخذہ ۔
آٹھویں سے فرمایا: مال عرصہ تک رکھنے سے کہنہ اور خراب ہوجاتا ہے اور علم امتداد زمانہ سے تازہ اور روشن ہوتا ہے۔
نویں کے جواب میں فرمایا:
علم سے قلب میں روشنی حاصل ہوتی ہے اور مال سے دل پر سیاہی چھا جاتی ہے،دسویں کے جواب میں فرمایا: کثرت مال سے فرعون و نمرود و غیرہ نے خدائی کا دعوی کیا، صاحب علم ہمیشہ مسکین اور خاشع ہوتا ہے اور احاطہ عبودیت سے باہر نہیں ہوتا۔
اس کے بعد حضرت نے فرمایا: خداکی قسم ہے اگر تم میری زندگی تک اسی طرح سوال کرتے رہوگے تو میں ہر مرتبہ علم کی فضیلت بطرز جدید بیان کرتا جاؤںگا یہ سن کر وہ سب خوارج اور منافق توبہ کر کے مؤمن خالص ہوگئے امام مبین کی یہی شان ہوتی ہے اس لیے رسول خدا نے فرمایا۔ (یٰا اَبَا الْحُسَےْنِ اَنْتَ وَارِثُ عِلْمی)(١) ۔ اے علی تم ہی میرے علم کے وارث ہو۔ علی اور قرآن ، قرآن اور علی ،قرآن کا ماحصل علی اور علی کا ماحصل قرآن۔ علی علیہ السلام قرآن کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
دیکھو! قرآن حکم کرنے والا بھی ہے اور روکنے والا بھی ہے ،وہ خاموش بھی ہے اور گویا بھی ،وہ مخلوقات پر اللہ کی محبت ہے جس کا لوگوں سے عہد لیا گیا ہے اور ان کے نفسوں کو اس کا پابند بنا دیا ہے۔ مالک نے اس نور کو تمام بنا یا ہے اور اس کے ذریعے دین کو کامل قرار دیا ہے۔ وہاں امیر المؤمنین فرماتے ہیں:۔ قرآن صامت ہے میں ناطق قرآن ہوں۔قرآن کے حوالے سے علی ولی امر مسلمین ہے۔ جہاں علی قرآن کو دین کا تکمیل قرار دیتا ہے وہاں قرآن روز تاج پوشی علی کے دن میدان غدیر میں آیت اَلْےَومَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِےْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَےْکُمْ نِعْمَتی وَ رَضِےْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِےْنًا(٢)کہہ کرولایت علی کو تکمیل دین قرار دیتا ہے۔
..............
١: نہج الصباغہ خطبہ ٩٨ ٢:مائدہ آیت ٣
|
|