اہل بیت کے شیعہ
 

ہمارے ساتھ اور ہم میں سے
امام رضا سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: رسولۖ نے فرمایا: میں اور یہ یعنی علی ان دو انگلیوں کی مانند ایک ساتھ ہوںگے اور اپنی دونوں انگلیوںکو متصل کر لیا، اور ہمارے شیعہ ہمارے ساتھ رہیں گے اور اس طرح وہ شخص بھی ہمارے ساتھ رہے گا جس نے کسی مظلوم کی مدد کی ہوگی۔(١)
عمر بن یزید سے روایت ہے کہ اس نے کہا: امام جعفر صادق فرماتے ہیں۔ اے یزید کے بیٹے! خدا کی قسم تم ہم اہل بیت میں سے ہو، راوی کہتا ہے ، قربان جائوں!میں آل محمد میں سے ہوں؟ فرمایا: ہاں خدا کی قسم انہیں میں سے ہو۔ کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں پڑھا ہے :
(نَّ أولیٰ النَّاسِ بِبرَاہِیمَ لَلَّذِینَ اتَّبَعُوہُ وَ ھٰذا النَّبِی)(٢)یا خدا کا یہ قول نہیں پڑھا(فَمَن تَبِعَنِی فَنَّہُ مِنِّی)۔(٣)
ابراہیم سے ملحق ہونے کے وہ لوگ زیادہ حقدار ہیں کہ جنہوں نے ان کا اور اس نبی کا اتباع کیا۔ پھر جس نے میرا اتباع کیا وہ مجھ سے ہے۔
امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
ہمارے شیعہ ہمارا جز ہیں، انہیں وہی چیز غمگین کرتی ہے جو ہمیں رنجیدہ کرتی ہے اور انہیں اسی چیز سے مسرت ہوتی ہے جس سے ہمیں مسرت ہوتی ہے پھر اگر ان میں سے کوئی ہمیں چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ ان کے پاس جائے کیوں کہ وہ اس کے ذریعہ ہم سے وابستہ ہے۔(٤)
..............
(١)بحار الانوار: ج٦٨ ص ١٩ عیون اخبار الرضا: ج ٢ ص ٥٨ امالی طوسی: ج ١ ص ٧٠
(٢)آل عمران: ٦٨
(٣)ابراہیم: ٣٦
(٤)بحار الانوار: ج٦٨ ص ٢٤ امالی طوسی: ج ١ ص ٣٠٥
امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: جس نے آل محمدۖ سے محبت کی اور ان کو اس طرح تمام لوگوں پر مقدم کیا جس طرح خدا نے انہیں رسولۖ کی قرابت کے سبب سب پر مقدم کیا ہے تووہ آل محمدۖ سے ہے کہ اسے آل محمد سے نسبت ہے ، وہ ان سے تولا رکھتا ہے اور ان کا اتباع کرتا ہے خدا وند عالم نے اپنی کتاب میں اسی طرح حکم فرمایا ہے :
(وَ مَن یَّتَوَلَّہُ مِنکُم فَنَّہُ مِنھُمْ)(١)

فلاح و کامیابی
جابر بن یزید سے انہوں نے امام محمد باقر سے اور آپ نے زوجۂ رسولۖ ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسولۖ سے سنا ہے : ''ن علیّاً و شیعتہ ھم الفائزون'' (٢)علی اور ان کے شیعہ کامیاب ہیں۔

تولیٰ و تبریٰ کے سبب شہیدوں میں شرکت
معتصم کے ماموں ریان بن شبیب سے صحیح حدیث میں آیا ہے کہ انہوں نے کہا: میں پہلی محرم کو ابو الحسن امام رضا کی خدمت میں حاضر ہواآپ نے -ایک طویل حدیث کے بعد-مجھ سے فرمایا: اے شبیب کے بیٹے اگر تم کسی چیز پر رونا چاہو تو حسین بن علی بن ابی طالب پر روئوکیونکہ انہیں بے دردی سے ذبح کیا گیا ہے اور ان کے اہل بیت سے ایسے اٹھارہ مرد قتل ہوئے ہیں جن کی مثال روئے زمین پر نہیں ہے ۔
..............
(١) بحار الانوار: ج٦٨ ص ٣٥ تفسیر عیاشی: ج ٢ ص ٣٢
(٢) ارشاد: یہ روایت ہم پہلے سیوطی کی درمنثور سے نقل کرچکے ہیں.
اے شبیب کے بیٹے اگر تم جنت میں بنے ہوئے محل میں نبیۖ کے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو قاتلان حسین پر لعنت کرو۔
اے شبیب کے بیٹے اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تم کو اس شخص کے برابرثواب ملے جو امام حسین کے ساتھ شہید ہوئے ہیں تو جب بھی تمہیں حسین کی یاد آئے تو یہ کہنا:''یا لیتنی کنت معھم فافوز فوزاً عظیماً''۔
اے شبیب کے بیٹے اگر تم جنت کے بلند درجوں میں ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو ہمارے غم میں غم منائو اور ہماری خوشی میں خوشی منائو اور ہماری دوستی و ولایت سے تمسک رکھو کیونکہ اگر کوئی شخص پتھر سے محبت کرے گا تو قیامت کے روز خدا اسے اسی کے ساتھ محشور کرے گا۔ (١)
یہ حدیث صحیح ہے ، اس چیز پر انسان کو ٹھہر جانا چاہئے اور اگر اس حدیث کی سند صحیح بھی نہ ہو تو ہم اس کوایک قسم کے مبالغہ پر حمل کریں گے جو کہ مرسل و ضعیف حدیثوں میں عام طور پر پایا جاتا ہے ۔
آپ کے سامنے ہم حدیث کا ایک عجیب فقرہ پھر پڑھتے ہیں:
''یابن شبیب أن سرّک أن یکون لک من الثواب مثلھا لمن استشھد مع الحسین، فقل متیٰ ما ذکرتہ: (یا لیتن کنت معہم فأفوز فوزاً عظیماً)''۔
اے شبیب کے بیٹے اگر تم اس شخص کے برابر ثواب حاصل کرنا چاہتے ہو کہ جو امام حسین کے ساتھ شہید ہوا ہے تو جب تم انہیں یاد کرو تو یہ کہو: اے کاش میں ان کے ساتھ ہوتا اور عظیم کامیابی سے ہمکنار ہوتا۔
..............
(١)امالی صدوق: ص ٧٩ مجلس ٢٧
بیشک جب یہ آرزوسچی اور حقیقی ہوگی اور امام حسین اور آپ کے اصحاب کے فعل سے خوشی اور بنی امیہ اور ان کے طرف داروں سے ناراضگی کے ساتھ ہوگی تو سچی ہوگی اور راضی و نا راضگی کی تمنا کرنے والے کو ، امام حسین کے محبوں میں قرار دے گی اور اسے ان لوگوںکے ثواب میں شریک قرار دے گی جو آپ کے ساتھ شہید ہو ئے ہیں نتیجہ میں نیت خداوند کے نزدیک عمل میں بدل جائیگی اور جب نیت صحیح اور عزم محکم ہوگا تو خدا کے نزدیک قیامت کے دن یہی نیت عمل سے ملحق ہو جائیگی ،یہ نیت و عمل کے درمیان لگائو میں عجیب ترین انقلاب ہے اور نیت کے عمل سے بدل جانے میں اجر و ثواب ہے ، اور یہ ایک قانون ونظام ہے ، بالکل ایسے ہی جیسے مادہ طاقت میں بدل جائے فزکس میں اس کا نظام و قانون ہے، یہ ایجاب و سلب اور اثبات و نفی میں عجب قانون ہے ایسے ہی اجر و ثواب میںہے۔
جس طرح نیک عمل کی نیت صاحب نیت کو صالحین کے ثواب میں شریک کر دیتی ہے ، اسی طرح ظلم کرنے کی نیت یا ظالم کے عمل سے خوش ہونا انسان کو عذاب و ظلم میں شریک کر دیتا ہے۔
محمد بن الارقط کہتے ہیں: میںمدینہ میں امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ نے فرمایا:
کیاتم کوفہ سے آئے ہو؟ عرض کی : ہاں!
فرمایا: تم حسین کے قاتلوں کو دیکھتے ہوگے۔
میںنے عرض کیا: میں قربان، ان میں سے میں نے کسی کو نہیں دیکھا ہے۔
فرمایا: اگر تم ان کے قاتل کو نہیں دیکھتے تو کیا قتل کے ذمہ دار کو بھی نہیں دیکھتے ؟
کیا تم نے خدا کا قول نہیں سنا :(قَد جَائَ کُم رُسُل مِن قَبلِی بِالبَیِّنَاتِ وَ بِالَّذِی قُلتُم فَلِمَ قَتَلْتُمُوھُم ن کُنتُم صَادِقِینَ)(١)
ان لوگوں نے کسی رسول کو قتل کیا تھا کہ جن کے درمیان محمدۖ رہتے تھے جبکہ آپۖ کے اور عیسیٰ کے درمیان کوئی رسول نہیں تھا یہاں یہ لوگ رسول کے قتل سے راضی تھے اس لئے ان کو قاتل و ظالم کا نام دیا گیا ہے ۔
آیتوں میں سے جس آیت کی طرف امام جعفر صادق نے اشارہ فرمایا ہے وہ ہے سورہ آل عمران کی ٨٣ ١ویں آیت:
(اَلَّذِینَ قَالُوا نَّ اللّٰہَ عَہَدَ اِلَینَا لاَّ نُؤمِنَ بِرَسُولٍ حَتَّی یَأ تِیَنَا بِقُربَانٍ تَأکُلُہُ النَّارُ قُل قَد جَائَ کُم رُسُلُ مِن قَبلِی بِالبَیِّنَاتِ وَ بِالَّذِی قُلتُم فَلِمَ قَتَلتُمُوھُم ن کُنتُم صَادِقِینَ )
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم سے خدا نے یہ عہد لیا ہے کہ کسی رسولۖ پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ ہمارے سامنے ایسی قربانی پیش نہ کر دے کہ جس کوآگ کھا جائے، رسولۖ آپ ان سے کہہ دیجئے مجھ سے پہلے بھی واضح دلیلوں اور تمہاری مطلوب قربانی کے ساتھ تمہارے پاس رسول آئے تھے اگر تم سچے ہو تو پھر تم نے انہیں کیوں قتل کر دیا؟
اس میں شک نہیں ہے کہ اس آیت ( فَلِمَ قَتَلتُمُوھُم ن کُنتُم صَادِقِین) میں رسولۖ کے معاصر یہودی مخاطب ہیں اور اس میں بھی شک نہیں ہے کہ ان یہودیوں نے کسی رسولۖ کو قتل نہیں کیا تھا اور ان یہودیوں اور ان قاتلوں کے درمیان چھہ سو سال کا فاصلہ ہے لیکن قرآن اس کے باوجود حقیقت میں ان کی طرف قتل کی نسبت دیتا ہے ۔اور یہ نسبت مجازی طریقہ سے نہیں جیسے:(فَسألُوا اْلقَرْیَةَ)
..............
(١)آل عمران: ١٨٣
قتل کی اس نسبت کی کوئی توجیہ و تفسیر بھی نہیں ہے سوائے یہ کہ ہم اس قاعدہ کلیہ کو جانتے ہیں کہ نیت کے لحاظ سے راضی و ناراض ہونے سے نیت عمل سے بدل جاتی ہے ۔
بیشک سچی نیت و آرزو اور صداقت پر مبنی رضا و ناراضگی عمل کی قیمت رکھتی ہے اور اس نیت کے حامل کی طرف عمل کی نسبت دینا صحیح ہے ، اس نے خلوص کے ساتھ اس کی تمنا کی تھی اور خلوص کے ساتھ اس سے خوش ہوا تھا جیسا کہ کتاب خدا میںوارد ہوا ہے ۔
سید رضی نے نہج البلاغہ میں روایت کی ہے:
جب خدا نے آپ کو جمل والوں پر فتح عطا کی تو آپ کے کسی صحابی نے آپ کی خدمت میں عرض کی میں اس بات کو دوست رکھتا تھا کہ میرا فلاں بھائی موجود ہوتااور وہ آپ کی اس فتح کو دیکھ لیتاجو خدا نے آپ کے دشمنوں پر آپ کو عطا فرمائی ہے ۔
فرمایا: کیا تمہارا بھائی ہمیں دوست رکھتا ہے ؟
اس نے کہا: ہاں
فرمایا: وہ ہمارے پاس موجود تھا ، وہ تنہا نہیں تھا، ہمارے اس لشکر میں وہ بھی موجود تھے جو ابھی مردوں کے صلب اور عورتوں کے رحموں میں ہیں، عنقریب زمانہ انہیں ظاہر کرے گا اور ان سے ایمان کو تقویت ملے گی۔
یہ قانون اور سنت الٰہی ہمیں صالحین کے اعمال میں شریک کر دیتی ہے اور ثواب میں ہمیں ان سے ملحق کر دیتی ہے اس اعتبار سے ہم انبیاء، اولیاء اور صالحین کے اعمال میں شریک ہیں، کیونکہ ہم نے ان اعمال کی نیت کی تھی اور اس سے راضی تھے اور اس کو دوست رکھتے تھے اور سچے دل سے اس کی تمنا کرتے تھے ، جیسا کہ اس کے بر عکس بھی صحیح ہے۔
پس جو شخص ظالموں کے اعمال سے راضی ہوگا اور انکے ظلم و جور اور برے اعمال سے خوش ہوگا اور ان کی تمنا کرتا ہوگا ان کی نیت رکھتا ہوگااور ان سے دفاع کرتا ہوگا تو خدا اسے انہیں کے ساتھ محشور کرے گا اگر چہ وہ وہاں موجود بھی نہیں تھا اور اس کو انہیں کا عذاب دیا جائیگا۔
یہ روایت جو وارد ہوئی ہے کہ آل محمدۖ سے حضرت مہدی ظہور فرمائیں گے تو حسین کے قاتلوں کو قتل کریں گے ان سب کو جمع کریں گے اور انہیں ان سے ملحق کریں گے اور قتل کر دیں گے اس کے معنی یہ ہیںکہ امام مہدی اس شخص کو قتل کریں گے ، جو امام حسین کے قاتلوں کو دوست رکھتا ہے ، تاکہ ان کے رجس و ظلم سے زمین کو پاک کر دیں۔
زیارت امام حسین ،جو کہ زیارت وارث کے نام سے مشہور ہے ، میں اس قانون کی دقیق تشخیص ہوئی ہے ۔ جو امام حسین کے قاتلوں اوران پر ظلم کرنے والوں اور ان کے قتل سے خوش ہونے والوں پر لعنت کرتا ہے ۔
زیارت کے جملے یہ ہیں:'' لعن اللّٰہ أمة قتلتکم و لعن اللّٰہ أمة ظلمتکم، و لعن اللّٰہ أمة سمعت بذلک فرضیت بہ''
خدا لعنت کرے اس گروہ پر جس نے آپ کو قتل کیا، خد العنت کرے اس گروہ پرجس نے آپ پر ظلم کیا ، خدا لعنت کرے اس گروہ پر جس نے یہ سب کچھ سنا اور اس سے راضی ہوا۔
اس میں پہلا گروہ قتل کاذمہ دار ہے ۔
دوسر ے گروہ نے پہلے گروہ کی تائید و تقویت کی ہے ۔
تیسرا گروہ وہ ہے جو قتل حسین سے خوش ہوا ، یہ گروہ پہلے گروہ سے زیادہ بڑا ہے ۔
اس کا حلقہ تاریخ و جغرافیہ سے زیادہ وسیع ہے۔
مجھے یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس گفتگو کو عطیہ عوفی کی اس روایت پر ختم کردوں جو انہوں نے جلیل القدر صحابی جابر بن عبد اللہ انصاری سے کی ہے ، جب جابر نے سانحہ
کربلا کے بعد امام حسین کی قبر کی زیارت کی۔
بشارت مصطفیٰ میں عطیہ عوفی سے روایت ہے کہ انہوںنے کہا:
میں جابر بن عبد اللہ انصاری کے ساتھ قبرِ حسین بن علی بن ابی طالب کی زیارت کیلئے گیا، جب ہم کربلا پہنچے تو جابر فرات پر گئے اور غسل بجالائے پھر ایک چادر کو لنگی کی طرح باندھ لیا اور دوسری کو اوڑھ لیا ایک خوشبو کی تھیلی نکالی اور اس کو اپنے بدن پر ملا اور قدم قدم پر ذکرِ خدا کرتے ہوئے چلے جب قبرِ حسین کے قریب پہنچے تو انہوںنے مجھ سے کہا کہ مجھے قبر سے مس کرو تو میں نے انہیں قبر سے مس کیا ، جابر بیہوش ہو کر قبر پر گر پڑے میںنے ان پر پانی چھڑکا جب وہ ہوش میں آئے تو تین مرتبہ کہا: یا حسین! دوست، دوست کا جواب نہیں دیتا؟
پھر کہا: آپ کیسے جو اب دیں گے جب کہ آپ کو پسِ گردن سے ذبح کیا گیا ہے آپ کے سر کو بدن سے جد اکر دیا گیا ہے ۔ اے سید النبیین کے بیٹے، اے سید المومنین کے فرزند، اے حلیف تقویٰ کے پسر، ہدایت کی نسل اور اے خامس آل عبا ،اے سید النقباء کے لخت جگر، اے فاطمہۖ کے نور نظر، آپ ایسے کیوں نہ ہوں،جب کہ آپ کو سید المرسلین نے کھانا کھلایا، سید المتقین کے سایہ میں تربیت ہوئی، ایمان کا دودھ پلایا گیا ،اسلام کے ذریعہ دودھ بڑھائی ہوئی آپ زندگی میں بھی طیب وطاہر رہے اور موت کے بعد بھی پاک و پاکیزہ رہے لیکن آپ کے فراق میںمومنوں کے دلوں کو سکون نہیں ہے اور آپ نے جو راستہ اختیار کیا اس کی شکایت نہیں کی جا سکتی،آپ پر خدا کا سلام اور اس کی رضا ہو۔
آپ نے وہی راستہ اختیار کیا جس کو آپ کے بھائی یحیٰی بن زکریا نے اختیار کیاتھا۔
پھر جابر بن عبد اللہ انصاری نے قبر کے چاروں طرف دیکھا اور کہا: سلام ہو تم پر اے روحو! کہ جو بارگاہ امام حسین میں پہنچیں اور میں نے اپنا سامان سفر اتار دیا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی زکواة ادا کی، نیکی کا حکم دیا، برائیوں سے روکا، آپ نے ملحدوں سے جہاد کیا اور آخری سانس تک خد اکی عبادت کی، قسم اس ذات کی جس نے محمد ۖ کو حق کے ساتھ نبیۖ بنا کر بھیجا ،یقینا ہم بھی اس چیز میں آپ کے شریک ہیں جس میں آپ داخل ہوئے ہیں۔
عوفی نے کہا: میں نے کہا: کیسے !نہ ہم کسی وادی میں اترے نہ کسی پہاڑ پر چڑھے اور نہ ہم نے تلوار چلائی اور ظالموں نے ان کے سر و بدن میں جدائی کر دی، ان کی اولاد کو یتیم کر دیا او ران کی بیویوں کو بیوہ کر دیا ۔
جابر نے کہا: اے عطیہ! میں نے اپنے حبیب رسولۖ سے سنا ہے کہ فرماتے تھے: جو شخص کسی قوم سے محبت کرتا ہے وہ اسی کے ساتھ محشور ہوگا اور جو شخص کسی قوم کے عمل کو دوست رکھتا ہے اس کو اس کے عمل میں شریک کیا جائیگا۔ قسم اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ محمد کو نبیۖ بنا کر بھیجا میری نیت اورمیرے ساتھیوں کی نیت وہی راستہ ہے جس سے امام حسین اور انکے اصحاب گزرے ہیںمجھے کوفیوں کے گھروں کی طرف لے چلو۔
ہم راستہ طے کر رہے تھے کہ جابر نے کہا: اے عطیہ! کیا میں تمہیں وصیت کروں؟ میں سمجھتا ہوںکہ اس سفر کے بعد تم سے میری ملاقات نہیں ہوگی، دیکھو، ان لوگوںسے محبت کرنا جو آل محمدۖ سے محبت کرتے ہیں اور ان لوگوں کو دشمن سمجھنا جو آل محمدۖ کو دشمن سمجھتے ہیں خواہ کتنے ہی نماز اور روزہ دار ہوں، محمد ۖ و آل محمدۖ کے محب کے رفیق بن جائو، کیونکہ اگر کسی گناہ میں لغزش ہو جائیگی تو ان کی محبت کی وجہ سے وہ صحیح ہو جائیگا بیشک آپ کا محب اور دوست جنت میں اور ان کا دشمن جہنم میں جائیگا۔