اہل بیت کے شیعہ
 

ایک دوسرے پر مومنین کے حقوق

ثقة الاسلام کلینی نے ابو المامون حارثی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کیا: ایک مومن کا دوسرے مومن پر کیا حق ہے ؟ فرمایا: مومن کا مومن پر یہ حق ہے کہ وہ اپنے دل میں اس کی محبت رکھتا ہو اور اپنے مال سے اس کی مدد کرتا ہو اور اس کی عدم موجودگی میں اس کے اہل و عیال میں اس کا جانشین ہو، اس پر ظلم ہو تو اس کی مدد کرے ،اگر مسلمانوں میں کوئی چیز تقسیم ہو رہی ہو اور وہ موجود نہ ہو تو اس کے لئے اس کا حصہ لے اور مر جاے تو اس کی قبر پر جائے، اس پر ظلم نہ کرے اور اس کو دھوکا نہ دے، اس کے ساتھ خیانت نہ کرے اور اس کا ساتھ نہ چھوڑے، اس کی تکذیب نہ کرے اس کے سامنے اف بھی نہ کہے، اگر اف کہدیا تو ان کے درمیان ولایت کا رشتہ ختم ہو جائیگا اور اگر ایک نے دوسرے سے یہ کہہ دیا کہ تم میرے دشمن ہو تو ان میں سے ایک کافر ہو گیا اور اگر اس پر تہمت لگا دیتا ہے تو اس کے دل میں ایمان اس طرح گھل جاتا ہے جس طرح پانی میں نمک گھل جاتا ہے ۔(١)
کلینی نے ہی ابان بن تغلب سے روایت کی ہے کہ انہوںنے کہا: میں امام جعفر صادق کے ساتھ طواف کر رہا تھا کہ ہمارے ساتھیوں میں سے ایک شخص میرے سامنے آیا وہ یہ چاہتا تھا کہ اس کو جو کام ہے اس کے لئے میں بھی اس کے ساتھ جائوں، اس نے مجھے اشارہ کیا ، مجھے یہ بات پسند نہ آئی کہ میں امام کو چھوڑ کر اس کے پاس جائوں، میں ایسے ہی طواف میں مشغول رہا، اس نے مجھے پھر اشارہ کیا تو آپ نے اسے دیکھ لیا۔ فرمایا؛ اے ابان کیاوہ تمہیں بلا رہا ہے ؟ میں نے عرض کیا: ہاں۔ فرمایا: وہ کون ہے ؟ میں نے عرض کیا: ہمارے اصحاب ہی میں
...............
(١) اصول کافی :ج٢ ص ١٧١ بحار الانوار: ج٧٤ ص ٢٤٨
سے ایک شخص ہے آپ نے فرمایا: تو اس کے پاس جائو، میں نے عرض کیا: میں طواف کو قطع کردوں؟ فرمایا: ہاں!میں نے عرض کیا خواہ طواف واجب ہی ہو، فرمایا: ہاں۔ راوی کہتاہے کہ میں اس کے ساتھ چلا گیا۔
پھر میں امام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے یہ بتائیے کہ مومن کا مومن پر کیا حق ہے؟ فرمایا: اے ابان اس کو واپس نہ لوٹائو، میں نے عرض کیا:میں آپ پر قربان ٹھیک ہے ۔ فرمایا: اے ابان اسے واپس نہ لوٹائو، میںنے عرض کیا میں آپ پر قربان ٹھیک ہے میں نے اسے کبھی واپس نہیں کیا ہے ۔ فرمایا: اے ابان اپنا نصف مال اسے دے دو ،راوی کہتا ہے کہ پھر امام نے میری طرف دیکھا اور میری حالت کو ملاحظہ کیا، پھر فرمایا: اے ابان کیا تمہیں نہیں معلوم اپنے اوپر دوسروںکو مقدم کرنے والوں کا خدا نے ذکر کیا ہے ؟ میںنے عرض کیا: میں آپ کا فدیہ قرار پائوں معلوم ہے ، فرمایا: اگر تم نے اس کو نصف مال دیدیا تو اس کو اپنے اوپر مقدم نہیں کیا اس کے لئے ایثار نہیں کیا بلکہ تم اور وہ دونوں برابر ہوگئے، ایثار تو اس صورت میں ہوگا جب تم اس کو باقی ماندہ نصف بھی دیدوگے۔(١)
امام رضا سے سوال کیا گیا کہ مومن کا مومن پر کیا حق ہے ؟ فرمایا: مومن کا مومن پر یہ حق ہے کہ اس کے دل میں اس کی محبت ہو، اپنے مال سے اس کی مدد کرتا ہو، اس پر ظلم ہو تو اس کی مدد کرتاہو ،اگر مسلمانوںمیں فئی تقسیم ہو رہی ہو اور وہ موجود نہ ہو تو اس کے لئے اس کا حصہ لے وہ مر جائے تو اس کی قبر پر جائے، اس پر ظلم نہ کرے، اس کو فریب نہ دے، اس کے ساتھ خیانت نہ کرے، اس کا ساتھ نہ چھوڑے ،اس کی غیبت نہ کرے،اس کی تکذیب نہ کرے اور اس کے سامنے اف تک نہ کہے اور اگر اف کہہ دیا تو ان دونوں کے درمیان سے ولایت و محبت
..............
(١) اصول کافی: ج٢ ص ١٧١ بحار الانوار: ج ٧٤ ص ٢٤٩ ۔
ختم ہو جائے گی اور اس کے د ل میں ایمان ایسے ہی گھل جائیگا جیسے پانی میں نمک گھل جاتا ہے۔
جو شخص کسی مومن کو کھانا کھلاتا ہے تو یہ غلام آزاد کرنے سے بہتر ہے اور اگر کوئی کسی مومن کو پیاس میں پانی پلاتا ہے تو خدا اسے مہر بند جام سے سیراب کرے گا اور جو شخص مومن کو کپڑا پہناتا ہے اسے خدا جنت کے سند س و حریر کالباس عطا کرے گا اور جو شخص خدا کے لئے کسی مومن کو قرض دیتا ہے اسے صدقہ میں شمارکیا جائے گا یہاں تک کہ وہ اسے ادا کر دے اور جو مومن دنیا کے کرب و الم سے نجات دلاتا ہے خدا اسے آخرت کے کرب و الم سے نجات عطا کرے گا اور جو شخص مومن کی حاجت روائی کرے گا تو یہ اس کے روزہ اور مسجد الحرام میں اعتکاف کرنے سے بہتر ہے۔ مومن ( مومن کے لئے) ایسا ہی ہے جیسے بدن کے لئے پنڈلی ہوتی ہے۔
بیشک امام محمد باقرنے خانہ ٔ خدا کعبہ کا رخ کیا اور کہا: ساری تعریف اس خدا کے لئے ہے کہ جس نے تجھے عظمت و بزرگی عطا کی اور تجھے لوگوں کے جمع ہونے کی اور امن کی جگہ قرار دیا ۔ خدا کی قسم مومن کی حرمت تجھ سے زیادہ ہے۔
اہل جبل میں سے ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اورآپ کو سلام کیا، جب وہ جانے لگا تو اس نے عرض کیا کہ مجھے کچھ وصیت و نصیحت فرما دیجئے۔ آپ نے فرمایا: میں تمہیں وصیت کرتا ہوںکہ خدا سے ڈروا! اپنے مومن بھائی کی مدد کرو اور اس کے لئے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو اور اگر وہ تم سے سوال کرے تو اسے پورا کرو اور اس کے لئے بازو بن جائو اگر وہ ستم ظریفی بھی کرے تو بھی اس سے جدا نہ ہونا یہاں تک کہ اس کے دل سے کینہ نکال دو۔ اگر وہ موجود نہ ہوتو اس کی عدم موجودگی میں اس کی حفاظت کرو اور موجود ہو تو اسے اپنے میں شامل کرو، اس کے بازو اور پشت کو مضبوط کرو اور اس کی عزت کرو، اس پر مہربانی کرو کیونکہ وہ تم سے اور تم اس سے ہو، اور تمہارا اپنے مومن بھائی کو کھانا کھلانا اور اسے خوش کرنا روزہ رکھنے سے افضل ہے اور اس کا عظیم اجر ہے ۔(١)
امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: مومن شکم سیر نہیں ہوسکتا جبکہ اس کا بھائی بھوکا ہو اور وہ سیراب نہیں ہو سکتا جبکہ اس کا بھائی پیاسا ہو، وہ کپڑا نہیں پہن سکتا جب کہ اس کا بھائی برہنہ ہو ،اگر تمہیں کوئی حاجت در پیش ہو تو اس سے سوال کرو اور اگر وہ تم سے سوال کرے تو اسے عطا کرو ،تم اس سے نہ اکتائو وہ تم سے نہ اکتا ئے ، تم اس کے پشت پناہ بن جائو کیونکہ وہ تمہارا پشت پناہ ہے ۔ اگر وہ موجود نہ ہو تو اس کی عدم موجودگی میں تم اس کی حفاظت کرو اور اگر وہ موجود ہو تو اس سے ملاقات کرو اور اس کی عزت و اکرام کرو کیونکہ وہ تم سے اور تم اس سے ہو۔ اگر وہ تمہیں سر زنش بھی کرے تو بھی اس سے جدا نہ ہونا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس کا غصہ ختم ہو جائے اگر اسے کوئی فائدہ ہو تو تم خدا کا شکر ادا کرو اور اگر وہ کسی چیز میں مبتلا ہو جائے تو اس کی مدد کرو ،اگر اسے کسی چیز کی ضرورت و طلب ہو تو اس کی اعانت کرو کیونکہ اگر کوئی شخص اپنے دینی بھائی یادوست سے اف کہتا ہے تو ان کے درمیان سے محبت و اخوت کا رشتہ ختم ہو جاتا ہے اور اگر ان میں سے کوئی دوسرے سے یہ کہتا ہے کہ تم میرے دشمن ہو تو ان میں سے ایک کافر ہو جاتا ہے اور اس کے دل میں ایمان اس طرح گھل جاتا ہے جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔(١)
معلی بن خنیس سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کیا: مومن کا مومن پر کیا حق ہے ؟ فرمایا: سات حق واجب ہیں: ان میں سے ہر ایک حق اس پر واجب ہے اگر وہ اس کی مخالفت کرے گا تو خدا کی ولایت سے نکل جائیگا اور اس کی طاعت کو چھوڑ دے گا اور اس سے خدا کا تعلق نہیں رہے گا۔ میں نے عرض کیا: میں
..............
(١) بحار الانوار: ج ٧٤ ص ٢٣٤ ۔
قربان! بتائیے وہ حقوق کیا ہیں ؟ فرمایا: اے معلی مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم انہیں ضائع نہ کردو، اور معلوم کر کے ان پر عمل نہ کرو، میں نے عرض کیا: خدا کے علاوہ کوئی طاقت و قدرت نہیں ہے ۔
فرمایا: ان میں سے آسان ترین حق یہ ہے کہ اس کے لئے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو اور اس کیلئے اس چیز کو اچھا نہ سمجھو جس کو اپنے لئے اچھا نہیں سمجھتے ہو۔
دوسرا حق :یہ ہے کہ تم اس کی حاجت روائی کے لئے جائو اور اس کی رضا طلب کرو ، اس کی بات کی مخالفت نہ کرو۔
تیسرا حق: یہ ہے کہ تم اپنی جان و مال، ہاتھ، پیر اور زبان سے اس کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔
چوتھا حق :یہ ہے کہ تم اس کی آنکھ ، اس کے راہنما اور اس کا آئینہ بن جائو۔
پانچواں حق: یہ ہے کہ اگر وہ بھوکا ہے تو کھانا نہ کھائو ،اگر وہ ننگا ہے تو کپڑا نہ پہنو ،اگر وہ پیاسا ہے تو تم سیراب نہ ہو۔
چھٹا حق : ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ تمہارے پاس بیوی ہو اور تمہارئے بھائی کے پاس بیوی نہ ہو اور تمہارے پاس نوکر و خادم ہو او ر تمہارے بھائی کے پاس نہ ہو، اگر ایسا ہے تو خدمتگار کو بھیج دیا کرو تاکہ وہ اس کے کپڑے دھوئے ، اس کا کھانا پکا دے ، اس کا بستر بچھا دے کہ یہ حق خدا نے تمہارے اور اس کے درمیان قرار دیا ہے ۔
ساتواں حق: اس کو اس کی قسم سے بری کر دو، اس کی دعوت کو قبول کرو ،اس کے جنازہ میں شرکت کرو، وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو اور اس کی حاجت روائی میں پوری کوشش کرو اور یہ نوبت نہ آنے دو کہ وہ تم سے سوال کرے اور اگر سوال کرے تو اس کی حاجت روائی کے لئے دوڑو! اگر تم نے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا تو تم نے اپنی ولایت کو اس کی ولایت سے اور اس کی ولایت کو خدا کی ولایت سے متصل کر دیا۔ (١)
امیر المومنین سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: مومن کو جب اپنے بھائی کی حاجت کا علم ہو جاتا ہے تو وہ اسے یہ تکلیف نہیں دیتا ہے کہ وہ اس سے سوال کرے، ایک دوسرے سے ملاقات کرو، ایک دوسرے پر مہربانی کرو، ایک دوسرے پر خرچ کرو، منافق کی طرح نہ ہو جائو کہ جو وہ کہتا ہے انجام نہیں دیتا ہے ۔(٢)
محمد بن مسلم سے روایت ہے کہ انہوںنے کہا: میرے پاس اہل جبل میں سے ایک شخص آیا میں اس کے ساتھ امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے رخصت ہوتے وقت امام سے عرض کیا کہ مجھے کوئی نصیحت و وصیت فرما دیجئے تو آپ نے فرمایا: میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ خداسے ڈرو! اور اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ نیکی سے پیش آئو اور اس کے لئے وہی چیز پسند کرو جوا پنے لئے پسند کرتے ہو اور اس کے لئے اس چیز کو پسند نہ کرو جس کو اپنے لئے پسند نہیںکرتے اگر وہ سوال کرے تو اسے عطا کرو اگر وہ تمہیں دینے سے ہاتھ کھیچ لے تو تم اس کے سامنے پیش کرو تم اس کے ساتھ کاکرِ خیر کرتے رہو وہ بھی تمہارے ساتھ کار خیر کرے گا۔
اس کے بازو بن جائو کیونکہ وہ تمہارا بازو ہے اور وہ تمہارے خلاف ہو جائے توتم اس سے جدا نہ ہونا یہاں تک کہ اس کی کدورت بر طرف ہو جائے، اگر وہ کہیں چلا جائے تو اس کی عدم موجودگی میں اس کی حفاظت کرو اور اگر موجود ہو تو اس کی مدد کرو، اس کے بازو مضبوط کرو اس کی پشت پناہی کرو اس سے نرمی سے پیش آئو، اس کی تعظیم و تکریم کرو کیونکہ وہ تم سے اور تم اس سے ہو۔(٣)
جابر نے امام محمد باقر سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: تمہارے قوی کو تمہارے
..............
(١)الخصال: ج ٢ ص ٦
(٢) الخصال : ج ٢ ص ١٥٧
(٣)امالی طوسی: ج١ ص ٩٥
کمزور کی اعانت کرنا چاہئے اور تمہارے مالدار کو تمہارے غریب و نادار پر مہربانی کرنا چاہئے اور انسان کو چاہئے کہ وہ بھائی کا ایسا ہی خیر خواہ ہو جیسا کہ اپنے نفس کا خیر خواہ ہے اور دیکھو! ہمارے اسرار کو پوشیدہ رکھنا، لوگوں کو ہماری گردن پر سوار نہ کرنا۔ (١)

مومن کی حرمت اور اس کی محبت و خیر خواہی
امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: کسی چیز کے ذریعہ خدا کی عبادت نہیں کی گئی جو کہ مومن کا حق ادا کرنے سے افضل ہو۔ نیز فرمایا: بیشک خدا وند عالم کی بہت سی حرمتیں ہیں مثلاً کتابِ خدا کی حرمت، رسولۖ کی حرمت، بیت المقدس کی حرمت اور مومن کی حرمت ۔ (٢)
عبد المومن انصاری سے مروی ہے کہ انہوںنے کہا: میں ابو الحسن موسیٰ بن جعفر کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ کے پاس محمد بن عبد اللہ بن محمد جعفی بھی موجود تھے، میں انہیں دیکھ کر مسکرایا تو آپ نے فرمایا: کیا تم انہیں دوست رکھتے ہو؟ میں نے عرض کی: ہاں، اور میں ان سے آپ ہی حضرات کی وجہ سے محبت کرتا ہوں۔ فرمایا: یہ تمہارے بھائی ہیں۔اور وہ آخرت میں نقصان اٹھائے گا اور انہیں بتا دو کہ خدا نے ان کو ان کی نیکیوں کی وجہ سے بخش دیا ہے اور ان کی برائیوں سے در گزر کیا ہے ، آگاہ ہو جائو جس شخص نے میرے دوستوں میں سے میرے کسی دوست کو اذیت دی یا پوشیدہ طریقہ سے اس کے خلاف سازش کی تو اس کو اس وقت تک نہیں بخشے گا جب تک کہ وہ اس سے معافی نہیں مانگے گا پھر اگر اس سے معانی مانگ لی تو
..............
(١)امالی طوسی: ج١ ص ٢٣٦۔
(٢)بحار الانوار: ج٧٤ ص ٢٣٢۔
ٹھیک ہے ورنہ اس کے دل سے روح ایمان نکل جائے گی اور وہ میری ولایت و محبت سے خارج ہو جائیگا اور ہماری ولایت میں اس کا کوئی حصہ نہیں رہے گا اور اس سے میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں۔(١)
صوری کی کتاب قضاء الحقوق میں روایت ہے کہ امیر المومنین نے شہر اہواز کے قاضی رفاعہ بن شداد بجلی کو ایک خط کے ذیل میں وصیت فرمائی : جہاں تک تم سے ہو سکے مومن کی مدارات کرو کہ خدا نے اس کی حمایت کی ہے اور اس کا وجود خدا کے نزدیک معزز ہے اس کے لئے خدا کا ثواب ہوتا اور اس پر ظلم کرنے والاخدا کا دشمن ہے اس لئے تم خدا کے دشمن نہ بنو۔
رسولۖ فرماتے ہیں: مومن کو جب اپنے بھائی کی حاجت معلوم ہو جاتی ہے تو وہ اپنے بھائی کو مانگنے کی تکلیف نہیں دیتا ہے ۔ (٢)

مومن، مومن کے لئے ایک بدن کی مانندہے
امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ہر چیز کے لئے کوئی چیز آرام کا باعث ہو تی ہے ، مومن اپنے مومن بھائی کے پاس اسی طرح آرام محسوس کرتا ہے جس طرح پرندے کو اپنی ہی جنس کے پرندے کے پاس آرام ملتا ہے ۔ (٣)
امام محمد باقر سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: مومن نیکی ، رحم اور ایک دوسرے پر مہربانی کرنے کے لحاظ سے ایک بدن کی مانند ہیں۔ اگر ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو بیدار رہنے اور حمایت کرنے کے لئے سارے اعضاء متفق ہو جاتے ہیں۔(٤)
..............
(١)اختصاص : ص ٢٢٧ بحار الانوار: ج ٧٤ ص ٢٣٠
(٢)اختصاص: ص ٢٢٧
(٣)بحار الانوار: ج٧٤ ص ٢٣٤
(٤)گذشتہ حوالہ
معلی بن خنیس نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:اپنے مسلمان بھائی کے لئے اسی چیز کو پسند کرو جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہواور اگر تمہیں کوئی حاجت ہو تو اس سے سوال کرو اور اگر وہ تم سے سوال کرے تو اسے عطا کرو ،نہ تم اسے کار خیر میںملول کرو اور وہ تمہیںکار خیر میں ملول نہیں کریگا، اس کے پشت پناہ بن جائو کہ وہ تمہارا پشت پناہ ہے اور اس کی عدم موجودگی میں اس کی حفاظت کرو اور اگر موجود ہو تو اس سے ملاقات کرو اور اس کی تعظیم و توقیر کرو کیونکہ وہ تم سے ہے اور تم اس سے ہو اگروہ تم سے ناراض ہو جائے تو اس سے جدا نہ ہونایہاں تک کہ اس کی کدورت رفتہ رفتہ ختم ہو جائے۔ اگر اس کو کوئی فائدہ پہنچے تو اس پر خد اکا شکر ادا کرو اوراگر وہ کسی چیز میں مبتلا ہو تو اس کو عطا کرو اوراس کا بوجھ ہلکا کرو اور اس کی مدد کرو۔(١)

عام مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک
اس بات پر اہل بیت نے بہت زور دیا ہے اوراپنے شیعوں کو یہ اجازت نہیں دی ہے کہ وہ خود کوملت اسلامیہ کے معتدل راستہ سے جدا کریں کیونکہ وہ اس امت کا ایسا جزء ہیں جس کو جدا نہیںکیا جا سکتا۔ اصول و فروع اور محبت و نسبت میں اختلاف اس بات کو واجب قرار دیتا ہے کہ تمام مسلمانوں سے قطع تعلقی نہ کی جائے کیونکہ یہ امت اپنے عقائد و نظریات میں اختلاف کے باوجود ایک امت ہے :(نَّ ھٰذِہِ أمَّتُکُمْ أمَّةً وَاحِدَةً وَ أنَا رَبُّکُمْ
فَاْعبُدُونِ) بیشک یہ تمہاری امت ایک امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس تم میری ہی عبادت کرو۔ اس امت کو روئے زمین پر عظیم ترین امت سمجھا جاتا ہے ، اس کے سامنے بڑے
..............
(١) بحار الانوار: ج ٧٤ ص ٢٣٤۔
بڑے چیلنج ہیں اور ان چیلنجوں کا مقابلہ اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب ساری امت ایک محاذ پر ایک صف میں کھڑی ہو جائے۔
ائمہ اہل بیت امت ہی کے ساتھ اور مسلمانوں کے درمیان زندگی گزارتے تھے۔ تمام مذاہب و مکاتب کے مسلمان ان کے پاس آتے تھے، ان کی مجلس و بزم میں حاضر ہوتے تھے، ان سے علم حاصل کرتے تھے اگر ہم ان علماء کے نام جمع کریں کہ جنہوں نے امام محمد باقر و امام جعفر صادق سے علم حاصل کیا ہے تو صاحبانِ علم کی عظیم تعداد ہو جائے گی، ائمہ اہل بیت کی مجلس و بزم مسلمانوں کے فقہاء و محدثین اور ہر شہر و دیار کے صاحبان علم سے بھری رہتی تھی۔
اس بات سے ہر وہ شخص آگاہ ہے جو ائمہ اہل بیت کی حدیث اور ان کی سیرت سے واقف ہے،یہ ہر قسم کے مذہبی اختلاف سے محفوظ باہم زندگی گزارنے کا مثبت طریقہ ہے،اس کے ساتھ ساتھ اہل بیت اپنے شیعوں اور عام مسلمانوں کے لئے اصول و فروع میں پوری صراحت کے ساتھ صحیح فکری نہج کو بیان کرتے تھے۔
اہل بیت کی حدیثوں میں مسلمانوںکے ساتھ اس مثبت ، محبت آمیزاور تعاون کی زندگی بسر کرنے کی واضح دعوت موجود ہے اس سلسلہ میں اہل بیت کی چند حدیثیں ملاحظہ فرمائیں۔
محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی کتاب اصول کافی میں صحیح سند کے ساتھ ابو اسامہ زید شحام سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: امام جعفر صادق نے فرمایا: ان شیعوں میںسے جس کو تم میری اطاعت کرتے اور میری بات پر عمل کرتے ہوئے دیکھو اسے میر اسلام کہنا۔ میں تمہیں خدا کا تقویٰ اختیار کرنے اور اپنے دین میں ورع، خدا کے لئے جانفشانی کرنے، سچ بولنے ، امانت ادا کرنے،طویل سجدے کرنے اور نیک ہمسایہ بننے کی وصیت کرتا ہوں یہی چیز محمدۖ نے فرمائی ہے : اگر کسی شخص نے تمہارے پاس امانت رکھی ہے تواسے اس کی امانت واپس کر دو خواہ وہ نیک چلن ہو یا بدکار، رسولۖ سوئی دھاگہ کو بھی واپس کرنے کا حکم دیتے تھے۔
اپنے خاندان والوں کے حقوق ادا کرو، کیونکہ جب تم میں سے کوئی شخص اپنے دین میں ورع سے کام لے گا اور سچ بولے گا اور امانت ادا کرے گا اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئیگا تو کہا جائیگا یہ جعفری ہے، اس طرح وہ مجھے خوش کرے گا اور اس سے مجھے مسرت ہوگی۔ اور یہ کہا جائے گا یہ ہے جعفرکا اخلاق وادب ،اور اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو وہ مجھے بدنام کرے گا اورمجھے اپنی بلا میں مبتلا کرے گا اور پھر یہ کہا جائیگا یہ ہے جعفرکا اخلاق و ادب ،خدا کی قسم میرے والدنے مجھ سے بیان کیا ہے کہ قبیلہ میں اگر علی کا ایک شیعہ ہو تو وہ پورے قبیلہ و خاندان کی عزت و زینت ہے وہ ان میں زیادہ امانت ادا کرنے والا، سب سے زیادہ حقوق پورے کرنے والا۔ اور سب سے زیادہ سچ بولنے والا ہوگااور لوگ اس کے پاس اپنی امانتیں رکھیں گے اس سے وصیتیں کریں گے جب اس کے بارے میں خاندان میں سوال کیا جائیگا تو کہا جائیگا ،ا س کے مثل کون ہے؟ وہ امانت دار اور ہم سب سے سچا ہے ۔(١)
صحیح سند کے ساتھ معاویہ بن وہب سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کیا: ہم اپنے اور اپنی قوم کے اوپرکیسے احسان کریں اور اپنے ہمنشینوں سے کیسے پیش آئیں ؟ آپ نے فرمایا: ان کی امانتوں کو ادا کرو، ان کے حق میں اور ان کے خلاف گواہی دو، ان کے بیماروں کی عیادت کرو اور اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کے جنازہ میں شرکت کرو۔(٢)
..............
(١)وسائل الشیعة : ج ٨ ص ٣٩٨ کتاب الحج آداب احکام العشیرة پہلا باب پہلی حدیث ۔
(٢)گذشتہ حوالہ دوسری حدیث ۔
نیز صحیح سند کے ساتھ معاویہ بن وہب سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کیا: ہم اپنی قوم والوں اور ان ہمنشینوں کے ساتھ کیسے پیش آئیں جو کہ ہمارے مذہب پر نہیں ہیں؟ فرمایا: اس سلسلہ میں تم اپنے ائمہ کا طریقہ دیکھو، جن کی تم اقتدا ء کرتے ہو، وہ جس کام کو انجام دیتے ہیںاسی کو تم بجالائو، خدا کی قسم وہ ان کے مریضوںکی عیادت کرے ہیں، ان کے مرنے والوں کے جنازوںمیں شرکت کرتے ہیں اور حق کے لحاظ سے ان کے موافق اور ان کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔(١)
کلینی نے کافی میں صحیح سند کے ساتھ حبیب الحنفی سے ایک اور روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں:
میں نے امام جعفر صادق سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں: تمہارے لئے لازم ہے کہ تم کوشش و جانفشانی سے کام لو اور ورع اختیار کرو، جنازوں میں شرکت کرو، مریضوں کی عیادت کرو اور اپنی قوم والوں کے ساتھ ان کی مسجدوں میں جائو اور لوگوں کے لئے وہی چیز پسند کرو جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو، کیا تم میں سے اس شخص کو شرم نہیں آتی کہ جس کا ہمسایہ اس کا حق پہچانتا ہے لیکن وہ اس کا حق نہیں پہچانتا ہے ۔(٢)
صحیح سند کے ساتھ مرازم سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: امام صادق فرماتے ہیں: تمہارے لئے لازم ہے کہ تم مسجدوں میں نماز پڑھو، لوگوں کے لئے اچھے ہمسایہ بنو، گواہی دو، ان کے جنازوں میں شرکت کرو، تمہارے لئے لوگوںکے ساتھ رہنا ضروری ہے .تم میں سے کوئی بھی اپنی حیات میں لوگوں سے مستغنی و بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔ تمام لوگ ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔(٣)
..............
(١)وسائل الشیعہ: ج ٨ ص ٣٩٩ کتاب الحج آداب احکام العشیرة پہلا باب پہلی حدیث ۔
(٢) گذشتہ حوالہ چوتھی حدیث
(٣) گذشتہ حوالہ پانچویں حدیث ۔